ممبئی حملوں کے حوالے سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف
کے متنازع بیان کو لے کر بھارتی میڈیا نے جو شور و وایلا مچایا وہ کوئی بات
نہیں تھی۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف رائی برابر خبر کا ملنا
بھی پہاڑ کے برابر قرار پاتا ہے اور جس شد و مد کے ساتھ پروپیگنڈا کیا جاتا
ہے ، اس کے اثرات سے بیشتر اوقات پاکستانی میڈیا بھی متاثر ہوجاتا ہے۔
بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کوئی نئی بات نہیں ہے۔
بات کی کھال اتارنے اور شور شرابے سمیت اشتعال انگیزی بھارتی میڈیا کا
وتیرہ ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستانی میڈیا ، بھارت کے ذرائع ابلاغ کا
بھی اُسی طرح جواب دے رہا ہے۔بلا شبہ بھارتی میڈیا ہیجان خیزی کی بیماری
میں مبتلا ہے۔ ہم پاکستانی میڈیا میں بھارتی میڈیا کی اشتعال انگیزی کے
جواب میں زیادہ تر خاموشی کو’’ ذمے دارانہ صحافت‘‘ کا نام دے کر آنکھوں میں
دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کے نزدیک سب سے سہل ہدف
سیاست دان ہوتے ہیں کیونکہ ان کی جانب سے ردعمل اُتنا شدید نہیں ہوتا جو
دوسروں سے توقع کی جاسکتی ہے۔سیاست دانوں پر تنقید و تعریف کے موضوع کو
ترجیحات کے میزانیہ سے ہٹا کر دیگر حقائق کی جانب آتے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم
کا متنازع انٹرویو جب میڈیا دنگل کا مرکز نگاہ بنا تو پہلی ضرورت اس بات کی
تھی قومی سیاسی جماعتیں اور پاکستانی ذرائع ابلاغ بھارتی میڈیا کو موثر
جواب دیتا اور انہیں ان کی تاریخ یاد دلاتے جس میں انڈین نان اسٹیٹ ایکٹرز
کی جانب سے دہشت گرد کاروائیوں میں بے گناہ و نہتے انسانوں بالخصوص
مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ بھارت کو آئینہ دکھانے کی ضرورت تھی کہ
بھارت کے تربیت یافتہ نان اسٹیٹ ایکٹرز نے جہاں انڈیا میں مسلم نسل کشی کی
تاریخ رقم کر چکے ہیں تو دوسری جانب بھارت کے نان اسٹیٹ ایکٹرزنے بلوچستان
اور افغانستان سمیت ہمسایہ ممالک میں شرمناک کردار ادا کیا ہواہے ۔ لیکن بد
قسمتی سے پاکستانی سیاست دانوں اور میڈیا نے سابق وزیر اعظم کے خلاف ایک
ایسا پنڈورا بکس کھول دیا جس کی وجہ سے معاملے کی نزاکت کو نظر انداز کرتے
ہوئے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جہاں میاں نواز شریف
سے پے در پے غلطیاں ہوتی چلی گئیں تو ان غلطیوں کو ’’کیش‘‘ کرانے کے لئے
دیگر سیاسی جماعتوں کا رویہ بھی سنجیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ سابق وزیر
اعظم کے انٹرویو پر تنقید اور اصل مقاصد کو واضح کرنے کی اشد ضرورت تھی ،
ماضی کی طرح اس قسم کے بیانات کو نظر انداز کرنا بھی مناسب نہیں تھا لیکن
بھارت نے جہاں نواز شریف کی دانستہ غلطی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے بھرپور
انداز میں استعمال کیا وہیں نواز شریف کے مخالفین نے بھی کوئی کسر نہیں
چھوڑی اور بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے سے گریز کیا ۔ ان کا تمام
زور اس بات پر رہا کہ کسی بھی طرح غداری کا مقدمہ بناکر جیل میں پہنچا دیا
جائے ، وزیر اعظم عباسی وشہباز شریف استعفیٰ دے دیں اورنواز شریف کو پھانسی
پر لٹکادیا جائے ۔ بھارت میں جو پروپیگنڈا مہم شد مد کے ساتھ چلائی جا رہی
ہے اس کا موثر جواب دینا بھی ہماری سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا فرض بنتا
تھا ۔ لیکن اس معاملے میں قدرے کوتاہی کی راہ کو اختیار کی گئی ۔ بھارتی
میڈیا رائی کو پہاڑ بنانے میں بازی لے جانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا
ہے اور ایسی ایسی کہانیاں تراش دیتا ہے کہ ان کی فلم انڈسٹری بھی دنگ رہ
جاتی ہے اور اس اسکرپٹ رائٹر کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتی ہے جو بہت دور کی
کوڑی لانے میں اپنی مثل آپ ہیں۔بھارت میں ہندو انتہا پسند حکومت کا پاکستان
کے خلاف مذموم مقاصد کے لئے شاطر منصوبے کئی بار طشت ازبام ہوچکے ہیں۔بین
السطور چند ایسے واقعات کا ضمنی تذکرہ کرنے مقصد صرف یہی ہے کہ کیا ہم نے
اُن معاملات پر حقیقی معنوں میں اپنے فرائض ادا کئے یا پھر بھارتی اشتہارات
کے حصول کے لئے کاسہ لیکر بوٹ ہی پالش کرتے رہے۔
20جنوری2013کو بھارتی وزیر داخلہ سوشی کمار شندے کا ایک تہلکہ خیز بیان
سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ بھارتیہ جنتا پارتی ( بی جے
پی) 2007میں لاہور اور دہلی کے درمیان چلنے والی ٹرین سمجھوتہ ایکسپریس
دھماکے اور مغربی ہندوستان میں واقع مالے گاؤں میں ہونے والے بم حملے میں
ملوث ہے۔سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین دھماکے میں68 مسافر اور مالے گاؤں بم دھماکے
میں7افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں ہلاک ہونے والوں کی
اکثر یت پاکستانیوں کی تھی۔یہ بھارتی حکومت کے اُس وقت کے وزیر داخلہ نے
سرکاری حیثیت میں بیان دیا تھا ۔ جس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ بھارت کی
موجودہ حکمراں جماعت ایک دہشت گرد جماعت ہے جو ماضی میں اپنے مذموم مقاصد
کے لئے بے گناہ و نہتے انسانوں و خاص کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے
میں کسی قسم کی انسانی اقدار کا خیال نہیں کرتی ۔ پاکستان نے بھارتی وزیر
داخلہ کے اس بیان کو لیکر عالمی فورم میں معاملہ کہاں تک اٹھایا اس کا سب
کو علم ہے کہ موثر حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی۔ پاکستانی میڈیا میں
پاکستانی سیاست دانوں کے شاذ و نادر ہی رسمی بیانات سامنے آئے ہونگے ۔ کیا
کسی سیاسی جماعت نے سمجھوتہ ایکسپریس سانحے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی دہشت
گردی کے خلاف ریلی یا جلسے جلوس کئے ۔ یا پھر ہمارے میڈیا نے خصوصی پروگرام
نشر کئے ؟ ۔ ہم حق بات کہنے میں بھی تامل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہمارے ٹاک
شوز اس حوالے سے خاموش نظر آتے رہے ہیں۔ بلا شبہ ہم بھارتی میڈیا کی طرح
غیر سنجیدہ رویہ اختیار نہیں کرتے لیکن ہم حق بات سامنے آنے پر کس مصلحت کے
تحت خاموشی کیوں اختیار کرلیتے ہیں۔اگست 2015میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین
دھماکے کے ماسٹر مائنڈسوامی اسیم آنندکو جب بھارت کی عدالت نے ناکافی شواہد
کی بنا پر رہا کیا تو بھارتی ہند و شدت پسند حکومت نے ہندو دہشت گرد تنظیم
کے ماسٹر مائنڈ کی رہائی کے خلاف اپیل بھی نہیں کی ۔ بھارت کی راجدھانی
دہلی سے صرف 80کلومیٹر دور پانی پت کے مقام پر68مسافروں میں 42پاکستانیوں
کو ہند و انتہا پسندوں نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا اور آج تک بھارت
حکومت سمجھوتہ ایکسپریس کے داغ پر شرمندہ ہونے کے بجائے اس پر فخر کرتی ہے۔
اس سے قبل12 فروری2012میں ہندو شدت پسند تنظیم آر ایس ایس کے سابق رکن کمل
چوہان نے دہلی کے نواحی علاقے نوئیڈا میں گرفتاری کے بعد جنڈی گڑھ کی عدالے
سے باہر میڈیا سے باہر اعتراف کیا تھا کہ’ یہ دھماکے میں نے ہی کئے تھے اور
اپنی مرضی سے کئے تھے ۔‘
2002میں بھارتی ریاست گجرات میں 2500ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کیا
گیا ، انہیں زندہ جلایا گیا ، سینکڑوں مسلم خواتین کی عصمت دری کی گئی۔اُس
وقت کے وزیر اعلیٰ و موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کو مسلمانوں کی نسل کشی
کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے ۔ لیکن اس قتل عام پر پاکستان کی سیاسی
جماعتوں کا کتنا ردعمل ہوا یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔آگے جانے سے
قبل تھوڑا اور تاریخ کو کنگھالیں۔ 1969میں بھارتی گجرات میں 430سے زائد
مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ، 1976میں ترکمان گیٹ دہلی فسادات میں بھارتی
پولیس نے150سے زائد مسلمانوں کو بھارتی پولیس نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا
۔ 1979میں مغربی بنگال میں مشرقی پاکستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کا
بھارتی فوج و پولیس نے قتل عام کیا جس میں ایک ہزار کے قریب مہاجرین ریاستی
دہشت گردی میں ہلاک ہوئے۔1980میں مراد آباد اتر پردیش میں2500سے زائد
مسلمانوں کا قتل عام کرکے نسل کشی کی گئی۔18 فروری 1983ء کو صبح کے وقت
بھارتی ریاست آسام میں 6 گھنٹوں تک قتل عام جاری رہا۔ اس نسل کشی میں ہند
وشدت پسندوں نے مسلمانوں کو زندہ جلایا، قتل کیا اور جو بچ کر بھاگے ان میں
سے ایک تعداد دریا میں ڈوب کر مری۔ ہلاک ہونے والوں کے تعداد5000جبکہ
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2191 تھی۔ اس بربریت کو نیلی قتل عام کے نام
موسوم کیا جاتا ہے جہاں مسلمانوں کوضلع ناگاؤں کے 14 دیہاتوں آلیسینگا،
خلاپتھر، بسندھری، بگڈبا بیل، بگڈبا ھبی، بورجولا، بتانی، اندرماری، مٹی
پربت، ملادھری، مٹی پربت نمبر۔ 8، سلبھٹا، بوربری اور نیلی میں قتل کیا
گیا۔ ان گنت ہندو شدت پسندی کے واقعات میں ایک مشہور واقعہ میرٹھ کے شہر
میں ہاشم پورہ کا بھی ہے جس میں مسلمانوں کا قتل عام اتر پردیش کی پولیس نے
کیا اور42مسلمانوں کو قتل کرکے ان کی لاشیں ایک ندی میں دبا
دیں۔22مئی1987کے اس سانحہ میں ریاستی انتہا پسندی کی گئی اور کئی روز بعد
لاشیں دریا سے باہر آئیں تو دنیا کو بھارتی کی ریاستی دہشت گردی کا علم
ہوا۔ گزشتہ دنوں مہارشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں فسادات کرائے گئے۔ ویڈیو
وائرل ہوچکی ہے کہ پولیس اہلکار فسادات کو ختم کرنے کے بجائے املاک کو آگ
لگا رہے ہیں۔ایڈ یشنل ڈائرکٹر جنرل (لا اینڈ آرڈر) پبن بہاری وائرل ویڈیو
پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ بھارتی ریاست بہار کے علاقے
اورنگ آباد فسادات میں 60 سے زائد
مسلمان ہندو شدت پسندوں کے حملے میں زخمی ہوئے اور50 دکانوں کو جلا یا چا
چکا ہے۔
بھارت نے بزور طاقت کئی نوابی ریاستوں پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔ بھارت نے خطے
میں اپنے ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے طاقت کے توازن کو بگاڑا ہوا ہے۔ بھارت
اپنی ریاستی دہشت گرد پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں کئی بار شرمندہ ہوچکا ہے
۔ خاص طور پر سر ی لنکا میں1987کو اپنے ایک لاکھ فوجی داخل کرکے سری لنکا
پر قبضے کی سازش کو دنیا نے بھانپ لیا تھا ۔سری لنکن عوام کے ساتھ بھارتی
فوجوں کا تضیحک آمیزرویہ اور حملوں کے نتیجے میں بھارت کو اپنی
فوجیں1990میں سر ی لنکا سے نکالنے پڑیں ۔30جولائی1987کے دن راجیو گاندھی
کوکولمبو ائیر پورٹ پر فوجی دستے کی سلامی لینے کے دوران ایک فوجی کے
ہاتھوں بندوق کے بٹ مارنے جانے کے واقعے کو عالمی شہرت ملی۔مالدیب ،بھوٹان
، برما اور نیپال میں بھارتی مداخلت اور ریاستی و نان ایکٹرز کی جانب سے
قبضے کی کوششیں بھی بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرنے کے لئے کا فی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سات لاکھ انتہا پسند فوج اور نان اسٹیٹ ایکٹرز
کی جانب سے نہتے کشمیریوں کو اغوا و لاپتہ کرنا ، انہیں قتل کرنا ، خواتین
کی عصمت دری سمیت انسانی حقوق کی پامالی کی ان گنت داستانوں کی ایک تلخ
تاریخ رقم ہو رہی ہے ۔ بھارت کی جانب سے نان اسٹیٹ ایکٹرز کا سب سے مکروہ
چہرہ ،کراچی ، نیز بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں نام نہاد قوم پرست
علیحدگی پسندوں کی معاونت کرنے نظر آتا ہے۔پاکستان کے پاس اس وقت بھی ایک
بھارت کا حاضر سروس دہشت گرد جاسوس کلبھوشن یادو کی صورت میں موجود ہے ، جو
بھارت کی مکروہ سازشوں کو طشت از بام کرتا ہے۔افغانستان میں بھارت کا کردار
بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں جہاں بھارت ریاستی عناصر اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے
ساتھ ملکر پاکستان کے خلاف منظم سازشیں کررہا ہے ۔ کالعدم جماعتوں کی سر
پرستی ، نام نہاد قوم پرستوں کو فنڈنگ اور بیرون ملک پاکستان مخالف اشتہاری
مہم سمیت سی پیک منصوبے کے خلاف بھارت کا مکروہ کردار انڈین نان اسٹیٹ
ایکٹرز کی سرپرستی کی پالیسی کو نمایاں کرتا ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر سقوط
ڈھاکہ اور موجودہ دور میں لائن آف کنٹرول پر سرحدی خلاف وزریوں کی کئی
تاریک و تلخ تاریخ کے ساتھ بھارت اس وقت خطے میں بد امنی پیدا کرنے کا سب
سے بڑا سہولت کار بنا ہوا ہے۔
بھارت کو عالمی استبدای قوتوں کا مکمل آشیر باد حاصل ہے ۔ جس میں بھارت کو
خطے کا چوکیدار بنا کر دنیا کا امن خطرے میں ڈالنے کی ذمے داری سونپی گئی
ہے۔ خطے میں اسلحے کی دوڑ اور ایٹمی پروگرام سے لیکر بھاری ہتھیاروں کے
حصول اور پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھارت کا وتیرہ بن چکا
ہے۔ اس تمام صورتحال میں جب کہ ہم جانتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف ہرزہ
سرائی اور الزام تراشی کا چھوٹا سا چھوٹا موقع بھی ضائع نہیں جانے دیتا ۔
ہماری قومی رہنماؤں کو ملکی سلامتی کے معاملے میں بڑی احتیاط برتنے کی
ضرورت ہے۔ سابق وزیر اعظم اپنے اور اپنے خاندان کے خلاف محاسبہ پر سیاسی
فرسٹریشن کا شکار ہوچکے ہیں اور انہوں نے اپنے ملک کے داخلی معاملات کو
عالمی سطح پر چھیڑ کر دانش مندی کا ثبوت نہیں دیا ۔نواز شریف اچھی طرح
جانتے ہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کے حوالے سے ریاست کی کیا پالیسی رہی ہے ۔
پاکستان بد قسمتی سے عالمی قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہوتا رہا ہے اور اس کے
نتائج بھی بھگت رہا ہے۔ ان حالات میں جب پاکستان کو سفارتی و معاشی محاذ پر
تنہا کرنے کی امریکی اور بھارتی پالیسی افغانستان کے ساتھ گٹھ جوڑ پر
پالیسی پریشان کن ہے اور اقتصادی معاملات پر پاکستان کو عالمی مالیاتی
اداروں کے دباؤ کا سامنا ہے ۔ نیز شمال مغربی سرحدوں پر اغیار پاکستان کے
لئے مشکلات پیدا کررہے ہیں تو دوسری جانب معصومیت کا لبادہ اوڑھ کر ریاستی
اداروں کے خلاف منظم انداز میں نام نہاد تحریکیں چل رہی ہیں جنہیں عالمی
میڈیا میں بھرپور پزیرائی صرف اس لئے مل رہی ہے کیونکہ ان تنام نہاد
تحریکوں کا مقصد ریاستی اداروں کو بد نام اور کمزور کرتے ہوئے عوا م سے ان
پر اعتماد کو ختم کرنا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبروں کو بڑی اہمیت
دی جاتی ہے جس میں پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف الزام تراشی ودشنام
طرازی کی گئی ہو۔ تو پھر ان معاملات سے آگاہ ہونے کے باوجود میاں نواز شریف
کا موجودہ رویہ حقیقت پسندانہ نہیں بلکہ فروعی مقاصد کی تکمیل کا ایجنڈا
قرار پارہا ہے جسے مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
بھارت کی پاکستان کے خلاف سازشوں اور چالاکیوں نے جہا ں پاکستان کی دہشت
گردی کی خلاف قربانیوں کو نظر انداز کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے تو
دوسری جانب تدبر سے خالی بیانات سے بھرپور فائدہ اٹھانا بھارت کی پالیسی کو
بھی واضح کرتا ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی پے در
پے غلطیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب سید
اکبر الدین نے مختلف ممالک کے سفارت کاروں کو متنازع انٹرویو کی کاپیاں
فراہم کی ہیں جبکہ بھارتی سفیر نوٹیج سرنا نے بھی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ، امریکی
کانگریس کے اراکین اور امریکی تھنک ٹینک کو بھی نقول فراہم کرتے ہوئے نواز
شریف کا شکریہ ادا کیا ہے۔پاکستان اس وقت پارلیمانی انتخابات کے مکمل ہونے
والے وسرے دور سے گذر رہا ہے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ تمام تر تنازعات ،
اختلافات اور ریاستی اداروں سے تصادم کے باوجود پاکستان میں پارلیمانی نظام
کو آمریت سے خطرات لاحق نہیں ہیں ۔ جمہوری اقدار جیسے تیسے مضبوط ہو رہی
ہیں اور خراب ترین حالات کے باوجود مملکت میں جمہوری نظام کو ری ڈیل نہیں
کیا گیا ۔ یہ جمہوریت پسندوں کے لئے نیک شگون ہے اور انہیں بھی اس بات کا
احساس کرنا چاہیے کہ پاکستان ماضی کے روایات کے برعکس جمہوری نظام کے حوالے
سے قدرے اچھی صورتحال کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ نظام میں پائی جانے والی
خرابیوں کو سنجیدگی کے ساتھ دور کیا جاسکتا ہے اور ماضی میں کی جانے والی
غلطیوں کو درست کیا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان مزید کسی نئے تجربے کا
متحمل بھی نہیں ہوسکتا ۔ لہذا میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف
اپوزیشن یا ملکی ادارے آئین اور قانون کے تحت جو بھی کاروائی کریں ، لیکن
سیاست دانوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جہاں نواز شریف جذباتی ہو کر غلط
کررہے ہیں تو ان کے بیانات کو بھی مناسب نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ آئین و
قانون کے تحت ہر معاملات کو سلجھانے کے کئی راستے موجود ہیں ۔ سیاسی
جماعتوں کو تدبر و تحمل کے ساتھ میاں نواز شریف کی نئی خطرناک حکمت عملی
کوزائل کرنے لئے ایک صفحے پر موجود رہنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن عام انتخابات
میں کامیابی کے لئے ان کے تند و تیز بیانات کی گولہ باری سے اپنا گھر ہی
تباہ ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کو
شکست دینے کے لئے ایک موثر نکتہ ضرور ملا ہے لیکن کیا ہم سمجھتے ہیں کہ
پاکستانی عوام اس معاملے کو سمجھ گئی ہے کہ سیکورٹی رسک اصل میں ہوتا کیا
ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس وقت پاکستان میں ففتھ جنریشن وار
جاری ہے ۔ جس میں کسی بھی ملک پر چڑھائی کئے بغیر صرف پروپیگنڈا کرکے عوام
کو ریاستی اداروں کے مخالف کرکے تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے تحریک آزادی کو بدنام کرنے کے لئے ’ داعش
‘ اور القاعدہ کی موجودگی کا ڈرامہ رچایا گیا ۔انصارغزوہ الہند نامی غیر
معروف تنظیم کو القاعدہ سے جوڑ اگیا ۔ ممبئی اور پارلیمنٹ حملوں میں ’’ را
‘‘ کے سارے ڈرامے منکشف ہوچکے ہیں کہ یہ بھارت کی بد نام زمانہ انٹیلی جنس
’ را ‘ کا منصوبہ تھا ۔ففتھ جنریشن وار ، بیک وقت کئی محاذوں پر جاری ہے
اور اس میں نام نہاد قوم پرستوں سمیت ایسے سیاست دان بھی کھل کر ریاستی
اداروں کے خلاف جنگ کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔ جن کا مقصد ریاستی اداروں پر
عوام کا اعتماد ختم کرنا اور خانہ جنگی و انتشار پیدا کرکے مذموم مقاصد کو
کامیاب بنانا ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں کو اپنے بیانات کا وزن معلوم ہونا
چاہیے کہ اس کے کتنے بھیانک نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں۔ مبہم پالیسیوں کی وجہ
سے ففتھ جنریشن وار کو مزید جارح بننے میں مددملی ہے ۔ ان حالات میں ہم سب
کا فرض بنتا ہے کہ ہم بھارت کے جھوٹے پروپیگنڈوں کا جواب دلائل سے اور اُن
کی شرم ناک پالیسیوں کا آشکارکرکے دیں ۔ کیونکہ جس طرح کی جنگ ہو گی ہمیں
اس کا جواب بھی اُسی زبان میں دینے کی ضرورت ہے۔ عراق ، شام ، لبنان ، یمن
، لیبیا اور افغانستان ففتھ جنریشن وار کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان مسلم ممالک
کی تباہ کاریاں ہمارے سامنے ہے اور جس طرح ان ممالک کو تباہ و برباد کردیا
جس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے ۔ اب ملک دشمن عناصر کا ہدف پاکستان ہے۔
ففتھ جنریشن وار کے ذریعے پاکستان میں پہلے نسلی و لسانی بنیادوں پر ، پھر
فرقہ وارنہ بنیادوں پر خانہ جنگیاں کرانے کی کوشش کی گئیں ۔ خانہ جنگیوں
میں ناکامی کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریاستی اداروں سے عوام کا
اعتماد ختم کرایا جارہا ہے۔ اب بھی کچھ زیادہ نہیں بگڑا ۔ اگر ہم اپنی روش
کو درست راہ پر ڈال دیں تو یہ ہم سب کے حق میں بہتر ہوگا ۔ |