سری لنکا اور قطر میں انصاف برائے آصفہ شہید کی گونج

شاہین اختر

سری لنکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کولمبو میں بھارتی ہائی کمیشن کے داخلی راستے کے سامنے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتی پرچموں کو نذر آتش کیا گیا۔ یہ سب کچھ مظاہرین کی طرف سے انصاف برائے آصفہ شہید کے نعروں کی گونج میں کیا گیا۔ یاد رہے کہ بھارتی ہائی کمیشن کولمبو میں ایک ایسے علاقے میں واقع ہے جہاں ایوان صدر، امریکی سفارتخانہ، گیلے فیس گرین کا مشہور سیاحتی مقام اور فائیو سٹارز ہوٹلز واقع ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ سری لنکا کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھارتیوں کے بھاری دباؤ میں کام کرتا ہے۔ بھارتی ہائی کمیشن نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح یہ مظاہرہ نہ ہو سکے اور ہی اس مظاہرے کی کوئی کوریج ہو سکے۔ مگر وہ دونوں صورتوں میں ناکام رہے۔ اسی طرح 20اپریل کو قطر دوحہ، Corniche کے مقام پر 100 سے زائد انڈین کمیونٹی کے ممبران نے کینڈل مارچ کیا۔ مظاہرین میں عورتیں ، سکھ، ہندو شامل تھے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مسلمانوں کے علاقے سے تھا۔ موم بتی مارچ کے دوران آصفہ کے لئے انصاف کے نعرے بلند کیے، مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن پر یہ نعرے درج تھے کہ ہم اپنے ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کو بچاناچاہتے ہیں۔

گزشتہ دنوں برطانیہ کے اخبار ’’گارڈین‘‘ میں ایک سکھ مصنف کے مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمان خواتین کی بے حرمتی پر جشن منایا جاتا ہے۔ مسلمان خواتین کی بے حرمتی بی جے پی کی پالیسی کا حصہ ہے۔ گزشتہ دنوں جموں کے کٹھوعہ ضلع میں مسلمان کنبے کی ایک آٹھ سالہ بچی درنگی کا شکار بنا دی گئی۔ اس مظلومہ و مقتولہ کے کیس کی وکالت کرنے والی خاتون وکیل مسز دپیکا سنگھ کو نقصان پہنچانے کے لئے جموں کے ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے ایک مہم چل پڑی ہے اور انہیں آصفہ کی طرز پر قتل اور جنسی زیادتی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ 18اپریل 2018ء کو آصفہ کیس کی خاتون وکیل دپیکا سنگھ کا کہنا تھا کہ انہیں قتل کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں اور انہیں شدید ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ دپیکا سنگھ کے مطابق انہیں جان کا خطرہ لاحق ہے اور اس حوالے سے انہوں نے کشمیر کی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی ہے جس کے بعد عدالت نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ دپیکا سنگھ کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ خاتون وکیل کا کہنا تھا کہ میں نہیں جانتی کہ کب تب زندہ ہوں، میرا ریپ ہوسکتا ہے، میری عزت لوٹی جاسکتی ہے، مجھے بھی قتل کیا جاسکتا ہے، مجھے دھمکی دی گئی کہ ہم تمہیں معاف نہیں کریں گے۔ دپیکا سنگھ کے مطابق جموں بار ایسوسی ایشن کے صدر نے انہیں خود عدالت کے باہر دھمکی دی تھی۔ وکیل کو دھمکیاں ایسے وقت میں مل رہی ہیں جب مقبوضہ جموں و کشمیر کے اطراف و اکناف سے آصفہ جنسی زیادتی اور قتل کے خلاف عوام بدستور آتش زیرپیا ہیں اور اس ظلم عظیم کے خلاف مظاہرے اور احتجاج کررہے ہیں۔ دپیکا سنگھ وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’’وائس فار رائٹس‘‘ کی سربراہ بھی ہیں۔ فروری کے اوائل میں انہوں نے عدالت میں استدعا کی تھی کہ آصفہ کیس کی تفتیش کی نگرانی عدالت خود کرے۔ آٹھ سالہ آصفہ کی بے حرمتی اور قتل کیس میں پولیس کی کرائم برانچ نے تفتیش کی ہے تاہم دیپیکا سنگھ کے مخالفین کا اصرار ہے کہ اس کیس کی تفتیش سی بی آئی کے حوالے کی جائے۔ خیال رہے کہ دپیکا سنگھ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کئی ایسے کیسز لڑ رہی ہیں کہ جس میں انسانیت پر حملے ہوئے ہوں اور اس کی بے حرمتی ہوئی ہو۔ دپیکا سنگھ آصفہ شہید کیس مکمل طور پر مفت لڑ رہی ہیں۔ وکیل دپیکا کے مخالفین کا مطالبہ ہے کہ اس کیس کی تفتیش جموں پولیس کی کرائم برانچ سے لے کر سی بی آئی کے ذمہ کی جائے جبکہ کچھ لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو سی بی آئی پر کچھ بااثر لوگ اثر انداز ہو کر مجرموں کو بچا لیں گے۔ ماضی میں دپیکا سنگھ نے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کئی ایسے کیسز لڑے ہیں جن کا تعلق مفاد عامہ سے تھا۔ ان کا کم عمر بچوں کے مجرمانہ کیسز میں وکالت کا کافی تجربہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بارودی سرنگوں سے متاثرہ افراد کے لئے متعدد کیسز لڑے ہیں۔ انہوں نے ایک ذہنی طور پر غیر متوازن پاکستانی خاتون کاکیس بھی لڑا جو کہ 26سال سے ایک انڈین جیل میں بند تھی اور اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں سے آئی ہے۔ ماضی میں وہ جموں سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے ’’کشمیر ٹائمز‘‘ کے ساتھ بطور صحافی بھی کام کرچکی ہیں۔

آٹھ سالہ آصفہ شہید کے بہیمانہ ریپ اور قتل کی واردات پر جموں کے ہندو وکلاء پر مشتمل جموں ہائی کورٹ بار اور ایک ہندو دہشت گرد تنظیم ’’ایکتا منچ‘‘ نے ملزموں کی حمایت میں جلوس نکالے۔ بی جے پی کے بعض وزراء بھی اس میں شریک ہوئے۔ یہاں تک کہ ہندو وکلاء نے پولیس کو عدالت میں فرد جرم داخل کرنے سے روکنے کی کوشش کی اور کئی گھنٹے کی جدوجہد کے بعد کہیں جا کر ملزموں کے خلاف فرد جرم داخل کی جا سکی۔ متاثرہ بچی کے والدین خوفزدہ ہو کر کٹھوعہ چھوڑ کر دوسرے مقام پر منتقل ہو گئے ہیں ور اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ عدالت میں ان کی نمائندگی کرنے والی وکیل کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ آٹھ سالہ مسلمان بچی آصفہ شہید کے ریپ اور قتل کے سانحے کے حوالے سے کشمیر پولیس کی تفتیش سے جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ انتہائی بربریت کا پتہ دیتی ہیں۔ پولیس کے فردجرم کے مطابق یہ ریپ اتفاقیہ نہیں ہے بلکہ طے شدہ منصوبے کے مطابق کیا جانے والا جرم اور قتل تھا جس کا مقصد کٹھوعہ کے مسلمانوں کو خوفزدہ کرکے علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔ علاقے میں ہندو اکثریت ہے اور آصفہ شہید کی بے حرمتی اور قتل ایک مندر میں کیاگیا ہے جو کہ بھارتی مکروہ چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔ اب جبکہ آصفہ شہید کے والدین علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔ آصفہ شہید کیس کی وکیل دپیکا سنگھ کو قتل کی دھمکیاں انصاف کو قتل کرنے کے مترادف ہیں۔

Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.