آپ کبھی ساحل پر جائیں ریت پر
کھڑے ہوں جب کوئی تند و تیز لہر آئے گی تو آپکو اپنے قدموں تلے زمین نکلتی ہوئی
محسوس ہو گی میں اِسے مسلمانوں کی موجودہ کیفیت سے تشبیہہ دیتا ہوں ہم کتنے
عجیب لوگ ہیں زندگی بسر کرنے، کامیابی حاصل کرنے اور منزل تک پہنچنے کے لیے
کائنات کا سب سے عظیم چارٹر ہمارے پاس ہے لیکن ہم نے اُسے تہہ کر کے جیب میں
ڈال رکھا ہے اور دوسروں کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں وہ عظیم ماحول کہاں گیا
اعتبار اور اعتماد کے درجات میں بلندی کہاں کھو گئی اوکاڑا شہر سے جناب رضوان ،
ایک تعلیم یافتہ نوجوان مگر بیحد خوبصورت عقیدے سے معمور مجھے خال ہی ایسے لوگ
نظر آتے ہیں واقعی خالی کھوکھلی ظاہری تعلیم دماغ کی چولیں ہلا دیتی ہے
مرشدالعصربابا جی سیّد میر طیب علی شاہ بخاری حضرت کرماں والے کی بارگاہ میں
اِسی موضوع پر بات چیت کا سلسلہ جاری تھا اور مرشد کی بات بھی رُشد سے بھری
ہوتی ہے فرمایا: نچلے درجے کے اعتماد والا معاشرہ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے! معاشرے
کو کامیابی کے لیے بلند درجہ اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے بھائی کو بھائی پر اعتماد
نہیں باپ کو بیٹے پر اعتماد نہیں آجکل لوگ بچوں کو مسجد میں دینی تعلیم کے لیے
نہیں بھیجتے کیونکہ دینی تعلیم دینے والے پر بھی اعتماد نہیں اعتماد کی یہی
نچلی سطح ہمارے معاشرے میں سودی کاروبار کا بنیادی مآخذ ہے ہمیں اعتماد کی سطح
کو اونچا کرنا پڑے گا جو فقط اُسوہ حسنہ کی پیروی سے ہی ممکن ہے جو صرف مدنی
معاشرے کو اپنانے سے حاصل ہو سکتا ہے
یہ بھی کتنا عجیب لگتا ہے کہ مہاجر بھائیوں کے لیے نہ صرف مال و دولت پیش کر
دیا جائے بلکہ اُن کا گھر بسانے کی تدبیر بھی ہو رہی ہے بکری کی سری کئی گھروں
میں گھوم پھر کر واپس اُسی مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں سے آغاز ہوا ایک عورت
سونے اور زیورات سے لدی پھندی یمن سے صنعاء تک چلی جاتی ہے اور کوئی اُس کی طرف
میلی نظر سے نہیں دیکھتا آج یہ باتیں خواب لگتی ہیں کبھی حقیقت اِن کے سامنے
دبی لچی نظر آتی تھی جنہیں کردار مضبوط اور اعتماد بلند کرنا تھا وہ ہوس و شہرت
کے خواہاں ہو گئے جنہیں عمل کی راہ چلنا تھا آج معیصت کشی کی کھائی میں گرے
ہوئے ہیں ہمیں شہرت نہیں کردار چاہیے یہ ہرگز نہ دیکھو لوگ کیا کہتے ہیں یہ
دیکھو کہ میں کیا ہوں کردار کو بہتر بنانے میں ہی مسئلے کا حل موجود ہے عمل کی
راہ پر ہی بقاء کی منزل ہے آج امت ِ مسلمہ کو منظم ہونے کی اشد ضرورت ہے مجھے
شرم آتی ہے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیھ و آلھ وسلم کا دشمن اور گستاخ ڈنمارک
میڈیا اپنی فطری کمینگی کا اعادہ کرتا ہے جبکہ ہم دور بیٹھے صرف واویلہ کرتے
رہتے ہیں آئیے! رونے دھونے سرپیٹنے کی بجائے عمل کی راہ اختیار کریں اولیاء کے
نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے تربیت حاصل کریں کیونکہ عمل زندگی ہے اور بے عملی موت!
سنئیے! کوئی سوال کر رہا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم جواب میں کیا
ارشاد فرما رہے ہیں
عجیب کیا ہے؟ دنیا
اور عجیب تر؟ طلب ِ دنیا
قریب کیا ہے؟ قیامت
اور قریب تر؟ موت
واجب کیا ہے؟ توبہ
اور واجب تر؟ گناہ کے فوراً بعد توبہ
مشکل کیا ہے؟ قبر میں اُترنا
اور مشکل تر؟ عمل کے بغیر اُترنا
والسلام الیٰ یوم القیام |