شاید یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ یا پھر ایسا ہے کہ ہماری کوئی
آواز نہیں۔ یا یہ ہے کہ ہم آواز اٹھانا نہیں چاہتے. مجھے نواز شریف اور
دیگر سیاست دانوں کے بیانوں پر غصہ نہیں آتا۔ مجھے جب بھی غصہ آتا ہے تو ان
لوگوں پر آتا ہے جن کی وجہ سے یہ لوگ یہاں تک آ جاتے ہیں۔
میرا مسئلہ یہ نہیں کہ امریکہ اسرائیل اور ہندوستان پاکستان دشمنی میں ایک
ہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے ہر دور میں وہ لوگ میسر آ جاتے ہیں جو
پاکستان کے اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ایک ہوئی قوتوں کے
ایجنڈے کو سپورٹ کرتے ہیں۔
پاکستان توڑنے میں ہمارے سیاست دانوں کا کرادار ہو یا کہ کارگل جیسے واقعہ
میں سیاسی کمزوری
جنرل ضیاء الحق بھی ہارے تو اپنے ہی کچھ نادان دوستوں کے ہاتھوں۔
جس بھی سیاسی جماعت کا دور آیا۔ چاہے کسی آمر کے زیر سایہ ہی کیوں نہ آیا۔
پاکستان دشمنی میں اس نے اپنے ہاتھ رنگے۔
بے نظیر کا دور حکومت آیا تو مجاہدین کشمیر کی مخبریاں ہونے لگی۔ حالانکہ
بے نظیر کے والد کشمیر کے متعلق ایک مضبوط موقف رکھتے تھے.
یہی پہ بس نہیں پچھلا سارا دور حکومت دیکھ لیں حکمران جماعت نے بھارت نوازی
میں پاکستان کی دشمنی بھی گوارا کر لی۔
مودی کی حلف برداری میں شرکت کے لیے جانا۔
موودی کو گھر دعوت پہ بلانا
جندال سے خفیہ ملاقاتیں۔ اور اب نااہلی کے بعد پاکستان کو ممبئی حملوں میں
مورد الزام ٹھہرانا۔
۔
ایک طرف تو ہماری سیاسی قیادت کی کمزوریاں ہیں۔ جن کی وجہ سے ہم ہمیشہ اپنے
موقف کو سفارتی محاز پر مضبوط نہ کر سکے تو دوسری طرف انڈیا ہے جو پاکستان
دشمنی کے معاملے میں مکمل یکسوئی کے ساتھ کام کر رہا۔
کانگرس کا دور حکومت ہو یا موجودہ مودی سرکار پورے بھارت سے آپکو ایک آواز
ایسی نہیں ملے گی جو یہ دعوہ کر سکے کے ہماری حکومت نے پاکستان نوازی میں
ہندوستان سے غداری کی۔
ہندوستان ہی کیا دنیا کی ہر ریاست اپنے حقوق کے تحفظ کے معاملے میں سمجھوتہ
نہیں کرتی۔ پھر چاہے وہ دو مسلمان ریاستیں ہی کیوں نہ ہوں۔
مگر یہاں معاملہ الٹ ہے۔ ہم اپنا سافٹ امیج دنیا کو دیکھانے کے لیے ریاست
کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سافٹ امیج بھی کس لیے۔ تاکہ مغربی
دنیا کو یقین دلا سکے کہ ہم ہی آپکے وفادار ہیں۔
۔
ہمارے سیاست دان آج تک کشمیر کا کیس لڑنے میں تو ناکام تھے ہی اب پاکستان
کا کیس بھی لڑنے کے قابل نہیں رہے۔
کچھ ماہ قبل ٹرمپ انتظامیہ کے رویے پر حکومتی بینچوں سے بڑا سخت رسپانس دیا
گیا۔ مگر پھر جلد ہی عالمی دباؤ کے پیش نظر پاکستان میں ایک تنظیم اور فرد
کو نظر بندیوں اور پابندیوں کی نظر کر دیا گیا. یہ فیصلہ بظاہر تو عالمی
دباؤ تھا مگر اس سے زیادہ اپنی اعلی عدالتوں کی توہین بھی۔
خیر یہ عالمی دباؤ ہم ہی پہ کام کیوں کرتا ہے. جبکہ ہم نے بھارت نوازی میں
کوئی کسر اٹھا نہ رکھی
ہم نے یو این کی کسی بھی قراداد کو صحیفہ خدا سمجھ کر تسلیم کیا۔
48 ، 65 اور کارگل میں اپنا نقصان کر کے یو این کے فیصلے کو عزت دی۔ مگر یو
این میں ہماری آواز آج بھی اتنی پست کیوں؟؟۔ کیوں ہم سفارتی حوالے سے خود
کو منوانے میں ناکام رہے ہیں۔ ؟؟
ایک طرف ہم ہیں کہ کشمیر و پاکستان کے جائز مفادات کا تحفظ نہ کر سکے۔
دوسری طرف بھارت ہے جو سراسر ظلم اور ذیادتی پر مبنی اپنے ارادوں کی تکمیل
کرنے میں کامیاب رہا۔ کشمیر قراداد 1948 سے ہمارے، حق میں پڑی ہے مگر ہم
عمل درآمد نہ کروا سکے۔ جبکہ بھارت نہ صرف اس قرارداد سے انکاری ہے بلکہ
اقوام عالم میں باعزت مقام بھی رکھے ہوئے ہے. اس کی سب سے بڑی مثال مودی کا
نام دھشت گردوں کی لسٹ سے نکال کر اسے وزیر اعظم تسلیم کرنا ہے۔ جبکہ مودی
نہ صرف گجرات فسادات کی زمہ داری قبول کرتا ہے بلکہ اسے فخر سے بیان بھی
کرتا ہے.
دوسری طرف ایک حافظ سعید ہے جو صرف یو این کی قراداد کے مطابق مسئلہ کشمیر
کے حل کی بات کرنے کے جرم میں دھشت گرد ڈکلیر کیا جاتا ہے.
انڈیا کا پروپگنڈہ اس قدر کارآمد ہے کہ اقوام عالم کا پریشر بھی پاکستان پر
پڑتا ہے۔
حافظ سعید نے بھارت یا کشمیر میں ہوئی کسی کاروائی کو قبول نہیں کیا۔ بلکہ
ممبئی حملوں کی سخت مذمت بھی کی۔ ہماری عدالتوں نے اسے باعزت بری بھی کیا.
مگر پاکستان سفارتی سطح پر اتنا کمزور ہے کہ نہ صرف اپنے شہریوں کے حقوق،
کا تحفظ کروانے میں ناکام رہا بلکہ اپنی اعلی عدلیہ کے فیصلوں کی عزت بھی
نہ کروا سکا۔
اس کی ایک ہی بنیادی وجہ ہے اور وہ ہے ہمارے حکمرانوں کی ناقص پالیسیاں۔
ہندوستان نوازی میں پاکستان سے غداری کا ارتکاب کرتے ہوئے بھی ہمارے
حکمرانوں کو شرمندگی محسوس نہیں ہوتی.
انڈین وزیر اعظم نریندرمودی جس کی دوستی کی خاطر ہمارے حکمرانوں نے قومی
سلامتی کے مسائل کی دھجیاں بکھیر دی اس نے حال ہی میں کشمیر کا دورہ کیا
اور کشن گنگا ڈیم کا افتتاح کیا۔
بھارتی مبصرین نے لکھا کے مودی پاکستان کو پانی کی قلت سے مارنے کا عزم لے
کر نکلے ہیں اور کشن گنگا ڈیم کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اس سے قبل بھی نریندرمودی پاکستان دشمنی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ اور
الیکشن میں ان کا یک نکاتی ایجنڈا پاکستان دشمنی تھا جس پر ووٹ لے کر وہ
وزیر اعظم بنے.
پاکستان کا پانی روک کر پاکستان کو بنجر کرنا صرف بی جے پی کا منصوبہ نہیں۔
اس سے پہلی حکومتیں بھی اس پاکستان مخالف ایجنڈے پر متحد ہو کر کام کرتی
رہی۔
سندھ طاس معاہدے کے مطابق جن دریاؤں پر پاکستان کا حق تھا ان پر 9 بڑے ڈیم
اور 30 چھوٹے بنا کر بھارت پاکستان کا 65% سے زائد پانی روک چکا ہے۔ اور جن
دریاؤں کا بھارت کو حق حاصل تھا اس کا 90% پانی بھارت استعمال کر رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدے جو سائن ہی غلط ہوا اس کے باوجود جو سائن ہوئے اس پر بھی
پاکستان عملدرآمد کرواتے ہوئے بے بس نظر آتا، ہے۔
بھارت کی جانب سے راجستھان کے صحراؤں کو، آباد کرنے کے منصوبے جاری ہیں۔
اور اس کے لیے پانی پاکستان کا روکا جا رہا ہے.
جہاں پاکستان کی سفارتی کمزوری کا رونا رونا ضروری ہے. وہاں یو این کی طرح
اس، معاہدے میں ثالث بننے والے والڈ بینک کے کردار پر بھی نوحہ گری کرنے کو
دل چاہتا ہے.
چناب جہلم اور سندھ کے جس پانی پر پاکستان کا حق تھا وہ حق، لینے کے لیے
1960 سے اب تک تقریبا 113 اجلاس ہو چکے.
مسئلہ کشمیر کی طرح اس موقف پر، بھی حق پر ہونے کے باوجود والڈ بینک کے
سائے تلے نہ صرف پاکستان کے حقوق کی پامالی جاری ہے اس کے ساتھ ساتھ بھارت
کی ہٹ دھرمی میں بھی روز بروز، اضافہ ہو رہا ہے.
سندھ طاس معاہدے کے مطابق بارشوں اور سیلاب کا پانی بھی پاکستان کی جانب
ایک مقدار تک چھوڑا جائے گا۔ البتہ بھارت پچھلے دس سال سے اس معاملے میں
بھی نہایت جارہانہ رویہ رکھے ہوئے ہے۔ ہر سال جمع شدہ اور بارشوں کا سارا
پانی پاکستان کی جانب کھول دیا جاتا ہے۔
اس موقع پر جو جانی و مالی نقصان ہوتا ہے وہ الگ بحث مگر اس سیلابی پانی سے
زمین کی زرخیزی بری طرح مثاثر ہوتی ہے۔
اور پیداواری صلاحیت میں آئے سال کمی واقع ہوتی ہے۔
یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستانی معیشت کا 60 فیصد اب بھی
زراعت پر ہے.
اور زراعت کے لیے پانی کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔
دریاؤں اور نہروں میں پانی کی کمی کے باعث زیر زمین پانی کے استعمال کے بڑھ
جانے کے وجہ سے زیر زمین پانی کا لیول لو ہو رہا ہے۔
بھارت کی آبی جارحیت یہی پر نہیں رکتی.
وہ ڈیمز جن کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے ان کے خلاف پروپگنڈہ کرنے کے لیے
بھی بھارت اربوں روپے انویسٹ کر رہا ہے.
قوم پرستی کے نام پر لوگوں کو ورغلا کر اور اپنے من پسند سیاست دانوں کو
سپورٹ کر کہ وہ پاکستان میں ڈیمز، کی تعمیر کو روکے ہوئے ہے.
حالات جس طرف جا رہے ہیں اگلے دس سالوں میں پانی کی قلت اور آنے والے
سیلابوں سے زمین کی زرخیزی خطرناک ترین حد تک مثاثر ہو سکتی ہے۔
اور پاکستان کی معیشت کو ابھارنے کی کوئی سبیل نہیں بچتی۔
۔
ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی دباؤ کو بڑھا کر ہمارے حلقہ
اقتدار میں بھارت نوازی کو کم کیا جائے۔ میں نہیں کہتا کہ پاکستان بھارت سے
کھلی دشمنی کرے مگر کم از کم اپنے اصولی موقف پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے
سے باز آ جائے۔ مسئلہ کشمیر اور پانی کے مسئلے پر عالمی برادری کے سامنے
اپنے موقف کو زبردست انداز، میں پیش، کرے۔
اگر یو این اس، معاملے میں پیروی نہیں کرتا تو او آئی سی کو اس کاز، کے لیے
متحرک کریں۔ کیونکہ یہ قوم کی بقا کا مسئلہ ہے۔
اگر حالیہ حکمران بھارت اور اقوام عالم سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات
نہیں کر سکتے تو براہ کرم آیندہ الیکشن میں ان لوگوں کو ووٹ دیں جن کے لیے
یہ مسائل اہم ہیں۔
جن کے لیے پلوں سڑکوں کے منصوبوں میں کمیشن اہم ہے ایسے ٹھگ اور چور سیاست
دانوں سے معذرت کر لیں۔
اگر اپنی قوم کا مستقبل عزیز ہے تو ہمیں ترجیحات کو بدلنا ہوگا. زاتی
مفادات سے نکل کر ملی مفادات کی سیاست کو فروغ دینا ہوگا.
اﷲ ہمارا اس، ملک کا اور امت مسلمہ کا حامی و ناصر ہو |