دیوانگی کے رنگٰ! اآخری قسط : (ناولٹ)

(گزشتہ سے پیوستہ: افشاں آئیڈیلزم کا شکار ایک نوخیز لڑکی ہے جو کہ ایک ان دیکھے شخص کو اپنے دل میں بسا بیٹھی ہے جس کے عادات و اطوار کے بارے میں اس نے مسز ارسلان سے سن رکھا ہے ۔ مسز ارسلان چاہتی ہیں کہ ان کے کیپٹن بیٹے کا رشتہ ا فشاں سے ہو جائے ۔ اس سلسلے میں وہ افشاں کی پھو پھو سے تقاضا کرتی ہیں ۔ افشاں اپنی پھو پھو کے پاس ٹھہری ہوئ ہے ۔ ادھر پھو پھو بھی افشاں کو اپنے بیٹے جنید سے بیاہنا چاہتی ہیں ۔ جنید کی خاموش طبیت افشاں کو کوئی خاص پسند نہیں ۔ بہرحال اس دوران جنید کی بہن ایک اہم خبر لے کر آتی ہے اور افشاں کو ساتھ چلنے کا کہتی ہے ۔آگے پڑھیئے)
” آخر کہاں جانا ہے ؟ کچھ پتا بھی تو چلے ۔ “
میں نے سیما سے پوچھا ۔
” مسز ارسلان کی بہن کے ہاں ! “
” وہ تمہیں کہاں ملیں ؟ “
” بھئی ابھی کچھ دن پہلے مسز رضیہ شکور ہمارے اسکول میں نئی ٹیچر بن کر آئی ہیں ۔ آج ہی باتوں میں پتا چلا کہ وہ مسز ارسلان کی بہن بھی ہیں ۔ میں نے ان سے تمہارا ذکر کیا اور بتایا کہ مسز ارسلان اپنے بیٹے سے تمہاری شادی کرنا چاہتی ہیں ،اور یہ کہ تم بھی رضامند ہو ۔ بس پھر کیا تھا ،وہ تو میرے پیچھے پڑ گئیں کہ آج ہی میں تمہیں لے کر ان کے گھر پہنچوں ۔
سیما کی بات سن کر میں تھوڑی دیر کے لیئے دم بخود رہ گئی ۔ بہرحال ہم مطلوبہ پتہ لیے مسز رضیہ شکور کے گھر پہنچ گئے ۔ وہ بہت تپاک سے ملیں اور ہمیں اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا ۔کچھ توقف کے بعد وہ مسز ارسلان کے بارے میں بتانے لگیں ۔
” جب باجی اور ارسلان بھائی کی شادی ہوئی تو شروع کے چند سال تو بے حد خوش و خرم گزرے ۔ بعد میں انہیں اپنے آنگن میں کھلنے والوں پھولوں کی کمی کا احساس ہونے لگا ۔ خیر بڑی منتوں مرادوں اور علاج معالجوں کے بعد باجی کا پاؤں بھاری ہوا ۔ دونوں میاں بیوی کی خوشی دیدنی تھی ۔ بچے کہ پیدائش میو ہسپتال میں ہوئی ۔ اس وقت میں اور میری امّی بھی باجی کے پاس تھے ۔اللّہ تعالٰی نے انہیں ایک خوب صورت بیٹے سے نوازا ۔ باجی نے اس کا نام اسد پہلے ہی سوچ رکھا تھا ۔ لیکن نجانے ننھے اسد کو کس کی نظر لگ گئی ۔ پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی اس کی سانس اکھڑ گئی اور اس نے باجی کی گود میں ہی دم دے دیا ۔
اس موقع پر میں نے اور سیما نے ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور دوبارہ مسز شکور کی طرف متوجہ ہوئے ۔
” بیٹا تو اللّہ تعالٰی نے باجی سے چھین ہی لیا تھا لیکن اس کی یاد ان کے دل پر نقش ہو کر رہ گئی ۔ دیکھنے میں وہ بالکل نارمل نظر آتی ہیں ۔بہت ملنسار اور شفیق بھی ہیں ۔ لیکن اکثر انہیں دورے پڑتے رہتے ہیں ۔ پھر تو جیسے وہ حواس کی دنیا میں نہیں رہتیں ۔ انہوں نے ایک فرضی دنیا بنا رکھی ہے ۔ جہاں ان کا اسد ایک گھبرو جوان بن چکا ہے اور فوج میں ایک بڑا افسر ہے ۔ اگر طبعیت زیادہ خراب ہو تو کسی کو بتائے بغیر میو ہسپتال پہنچ جاتی ہیں جہاں ان کا اسد ہمیشہ کے لیے روٹھ گیا تھا ۔ وہاں کسی کونے میں بیٹھ کر روتی رہتی ہیں ۔ گھر والے پریشان ہو کر انہیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں ۔ زیادہ تر یہ اس لیے بھی ہوتا ہے جب وہ اپنی دوا نہ لینے پر ضد کرتی ہیں ۔“
” ان کے اور بچے نہیں ہیں ؟ “ سیما نے پوچھا ۔
” اسی پاگل پن جیسی حالت میں ان کی ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی پر وہ اسد کو کھونے کا غم نہیں بھلا سکی ۔ ان کی زندگی اسی ہسپتال میں رک گئی ہے ۔ “
یہ تمام باتیں سن کر ہم ہکّا بکّا رہ گئے ۔ ہم کچھ دیر وہاں بیٹھے اور حیران پریشان گھر لوٹے۔
آخر میں آپ کو بتاتی چلوں اس واقعے کو اب کئی سال گزر چکے ہیں ۔میں اب مسز جنید بن کر یہاں کینڈا میں مقیم ہوں ۔ جب بھی دیار وطن کی یاد آتی ہے تو بہت سے اپنوں کے ساتھ مسز ارسلان کی شبہیہ بھی میری آنکھوں میں پھر جاتی ہے ۔ دل سے دعا نکلتی ہے کہ خدا ان کی مامتا کے زخم مندمل کر دے اور وہ پرسکون زندگی گزار سکیں ۔مامتا کیا چیز ہے یہ میں اچھی طرح جان چکی ہوں ۔ یہ انوکھا جذبہ ایک عورت کو خالق کائنات کا قرب عطا کرتا ہے ۔میں بھی اس جذبے میں پور پور بھیگی ہوں ۔ خدا میرے تینوں بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھے ۔آمین!

Atiya Adil
About the Author: Atiya Adil Read More Articles by Atiya Adil: 19 Articles with 23940 views Pursing just a passion of reading and writing ... View More