دیوانگی کے رنگ ! (قسط نمبر -٣) ناولٹ

( گزشتہ سے پیوستہ :جنید اور سیما دونوں ہی افشاں کے پھپھی ذاد ہیں ۔ افشاں کچھ عرصے سے اپنی پھو پھو کے ہاں ان کی تیمارداری میں مصروف ہے ۔ مسز ارسلان اس کی پھو پھو کے ہمسائے میں آ کر رہنے لگی تھیں ۔ وہ افشاں کے رشتے کی بات اپنے بیٹے اسد سے چلانے میں دلچسپی ظاہر کرتی ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس بات سے صاف انکاری ہو جاتی ہیں کہ افشاں نے انہیں پھو پھو کے آپریشن والے دن ہسپتال میں دیکھا ہے ۔ یہ با ت افشاں کو کھٹکھٹتی ہے ۔ آگے پڑھیئے! )
جنید کے بارے میں جیسا کہ آپ جان چکے ہیں کہ وہ میری پھوپھو کے بیٹے ہیں۔ پھوپھو اور سیما کی ھمیشہ سے ہی یہ خواہش رہی کہ میں جنید کے ساتھ منسوب کر دی جاؤں ۔ میرے اپنے اندازے بھی یہی کہہ رہے تھے امّی اور ابّو کو بھی اس رشتے پر قطعی اعتراض نہ تھا ۔شاید وہ بھی جنید کی پاکستان آمد کے منتظر تھے ، تاکہ ہم دونوں کو شادی کے بندھن میں باندھا جا سکے۔ ان تمام باتوں کے باوجود میں اس دل کا چاہ میں گرفتار ہو چکا تھا۔ اسد کی شخصّیت کا جو خاکہ مسز ارسلان نے کھینچا تھا جو ہو بہو میرے آئیڈل کے مطابق تھا ۔ بے حد شوخ ، لاابالی پن، اور اپنے جذبوں کا بلا جھجھک اظہار کرنا، یہ وہ تمام خصوصیات تھیں جو میں اپنے ہونے والے جیون ساتھی میں دیکھنا تھی ۔ جبکہ جنید تو ہمیشہ سے نہایت سنجیدہ اور چپ چاب رہتے ہیں ۔
پھوپھو اب اپنے پرانے معمول کے مطابق گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے لگیں ۔ ادھر سیما نے کئی بار مجھ سے جنید اور میری شادی کے بارے میں رائے پوچھی ۔ لیکن میری خاموشی نے اسے سب کچھ سمجھا دیا تھا ۔ لگتا تھا کہ پھوپھو بھی کچھ ناراض سی ہیں ۔ تبھی تو مجھ سے کم کم بات کرتی تھیں ۔ میں اپنی جگہ شرمندہ ہونے لگی ۔ جی چاہا اڑ کر کراچی واپس اپنے گھر پہنچ جاؤں ۔
سیما سے گھر کے لیئے اپنی اداسی کا ذکر کیا تو وہ بولی ۔
” پلیز افشی ایک دو ہفتے اور رک جاؤ ۔جنید بھائی کے لیے لڑکی تلاش کرنی ہے۔ امّی نے تو ساری امیدیں تم سے وابستہ کی ہوئی تھیں ۔ انہیں تمہارے سوا کوئی لڑکی چجتی ہی نہیں ۔ اب وہ کہہ رہی ہیں کہ افشی کے ساتھ مل کر اپنی بھابھی خود ہی ڈھونڈو ۔ “
یہ سب کچھ اس نےاتنی لجاجت سے کہا میں انکار نہ کر سکی ۔ سیما کی بھابھی کی تلاش کرنے کی مہم زور و شور سے جاری تھی اور میں اس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی ۔ ادھر مسز ارسلان جب بھی پھوپھو سے ملنے آتیں تو اپنے بیٹے کے لیئے میرے رشتے کا تقاضا کرنے لگتیں ۔ پھوپھو نے تمام صورت حال ابّو کے گوش گزار کر دی ۔ ابّو نے جواب میں کہا کہ وہ چند دن میں لاہور پہنچنے والے ہیں ،اور پھر ہی اس سلسلے میں کوئی بات کر سکیں گے ۔
پھر ایک روز سیما بے حد گھبرائی ہوئی اسکول سے واپس آئی ۔کھانے کے چند ہی نوالے اس نے بمشکل حلق سے نیچے اتارے اور مجھ سے فٹافٹ تیار ہونے کا تقاضا کرنے لگی ۔

( جاری ہے)

Atiya Adil
About the Author: Atiya Adil Read More Articles by Atiya Adil: 19 Articles with 24011 views Pursing just a passion of reading and writing ... View More