آج دیکھیں، ارضِ پاک میں اگلے متوقع عام انتخابات2018ء
سر پر آ ن پہنچے ہیں ، الیکشن کمیشن نے بھی انتخابی شیڈول کا اعلان کردیاہے
۔ اِس طرح ایک مرتبہ پھر زندگی بھرقومی خزا نہ لوٹ کھا نے اور غیر مُلکی
بینکوں میں دولت جمع کرنے والے حکمران ، سیاستدان اور اِن کے چیلے چانٹے
مُلک چلا نے کے لئے پَر تول رہے ہیں۔ اِن دِنوں حکمران جماعت سمیت ہر جماعت
میں اُکھاڑ پچھاڑ کا بازار گرم ہے۔
ایسے میں ہم بھی اور ہمارے کیسے کرتوتوں کے مارے ہوس اقتدار میں مبتلا لوگ
اور سیاست دان ہیں؟ کہ جنہیں اپنے گناہ تو نظر نہیں آتے ہیں۔ مگرجو سا منے
والے کی ایک غلطی کو اُچھال کر اُسے ذلیل وخوار کرنے کا ایک لمحہ بھی ضیائع
نہیں کرتے ہیں ۔ ویسے تووطنِ عزیز پاکستان میں کو ئی بھی دودھ کا
دھلاہوانہیں ہے ۔ سب ہی اُوپر سے لے کر نیچے تک ایک سے بڑھ کر ایک اور
دونمبری کا موں میں یکتا ، بے مثل اور لا جواب ہیں ۔
آج جہاں قومی خزا نہ لوٹ کھا نے والے ایک سے بڑھ کر ایک تونگر، مکار، عیار
اور دھوکے باز افراد کی بھر مار ہو، اور سارے ہی اقتدار میں آنے کے لئے
منتظر ہوں، تو پھر ایسے میں پاکستانی عوام کوبھی اگلے الیکشن سے پہلے اِس
نقطے پرضرور متفق ہونا پڑئے گا ؛ کہ اِنہیں اپنے ووٹ کی قومی امانت کو کیسے
استعمال کرنا ہے؟ اپنا ووٹ کِسے دینا ہے؟ اِنہیں ساتھ ہی یہ بھی سوچنا پڑے
گا، کہ اَب حکمرانی کے لئے کم از کم نوازاور زرداری تو کسی بھی لحاظ سے اہل
نہیں ہیں ۔
اَب جہاں تک عمران خان اور دیگر کی بات ہے، تو پاکستانی عوام اِس بیچا رے
کوبھی حکمرانی کرنے کا ایک موقعہ ثوابِ دارین سمجھ کرضرور دیں۔ تا کہ اِس
کی حکمرانی کا بھی شوق پوراہوجائے؛ اور اِ س کاشیروا نی پہن کر وزیراعظم
بننے کابھوت بھی سر سے اُتر جائے۔
قوم کو پھرجلد ہی لگ پتہ جا ئے گا کہ یہ اپنا اقتدارمُلک و قوم کے بہتر
مفادات میں کیسے چلارہاہے؟ اگر یہ اپنے اقتدار کے شروع کے سالوں میں ٹھیک
چلے تو ، الحمداﷲ ، اِسے چلنے دیا جا ئے ، ورنہ ؟ عوام اِسے بھی کان سے پکڑ
کرزمین پر پٹخ دیں۔ اَب پاکستا نی عوام کو اگلے متوقع عام الیکشن سے پہلے
سوچنا ، سمجھنا ہوگا کہ اِنہیں کِسے اپنا ووٹ دینا ہے؟ کون ہے جو اگلے پانچ
سال کے لئے مسندِ اقتدار پر اپنے قدم رنجا فرما کر مُلک اور قوم کو اُجِ
ثُریا تک لے جا ئے گا؟۔
اگرچہ، آج رواں حکومت ایک ہفتے سے بھی کم دِنوں کی مہمان رہ گئی ہے۔ جس کی
مدت 31مئی کی شب ختم ہورہی ہے ۔ مگر ابھی تک حکمران جماعت اور اپوزیشن کے
درمیان نگراں وزیراعظم کے چناؤ کا معاملہ کھٹا ئی میں ہی پڑاہواہے، یہ گتھی
سلجھنے کا نام نہیں لے رہی ہیں، اِسی طرح ابھی تک صوبا ئی حکومتوں میں بھی
عبوری وزرا ئے اعلیٰ کا سیٹ اَپ فائنل نہیں ہوپایا ہے۔
اِس صورتِ حال میں ایسا لگتاہے کہ جیسے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں
ہی باہمی اتفاق سے اپنے مفادات کے حصول تک نگراں وزیراعظم کے انتخاب اور
صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کے چناو کو لٹکائے رکھنا چاہتی ہیں۔ وقت پاس کرکے
یہ معاملہ اپنے سر سے اٹھا کر پارلیمانی کمیٹی کے کورٹ میں ڈالناچاہتی ہیں۔
فی الحال، اِس حوالے سے ایک اُمید افزاء خبریہ ہے کہ اَب اِس کا حتمی فیصلہ
رواں ہفتے تو ممکن نہیں ہے ۔ ہاں البتہ، اگلے پیر یا منگل تک ضرور کچھ نہ
کچھ بہتر نتیجہ سامنے آجا ئے گا اور کسی غیر متنازع شخصیت پر پر متفق ہو کر
نگراں وزیراعظم کے نام کا اعلان کردیا جائے گا۔
آج حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگراں وزیراعظم کے چناو کا معاملہ اتنا
پیچیدہ کیوں بنا دیا گیاہے ؟ کہ وزیراعظم اور ایوان میں اپوزیشن لیڈر کی
مسلسل پا نچ ملاقاتیں بھی اِس حوالے سے بے مقصد اور بے سود ثابت ہو ئی ہیں۔
اِس حوالے سے جہاں بہت سے شک و شبہات پیداہوئے ہیں۔ تو وہیں دونوں کے اِس
حوالے سے کئی کو من تحفظات بھی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آج جِسے یہ
مشترکہ طور پر نگراں وزیراعظم مقرر کربھی دیں تو ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ بھی
چیف جسٹس اور نیب سربراہ کی طرح اِن کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور کے ہاتھ کا
کھلونا بن جا ئے ، اُسی کے احکامات کی روشنی میں چلنے لگے ، یہ بھی دوسروں
کی طرح آئین اور قانون کے دائرے کار میں رہتے ہوئے کام کرنے لگے تو پھر وہ
بھی اِن دونوں کے لئے مشکلات کاباعث بن جا ئے ۔ سو یہ ایک انجاناخوف ہے ۔
جس کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن ابھی تک نگراں وزیراعظم کا چناو کرنے میں
ناکام نظرآتی ہیں۔ فی الحال، حزبِ اقتدار اوراپوزیشن کے باہم متفق ہونے پر
عنقریب نگراں وزیراعظم کا تقرر ہوہی جا ئے گا ،پھر نگراں سیٹ اَپ کے آتے ہی
جمہوری روایات کے مطابق الیکشن کے مراحل بھی طے ہوتے جا ئیں گے اور متوقع
انتخابات بھی پایہء تکمیل کو پہنچ ہی جا ئیں گے۔
بہر کیف ، اِدھر پچھلے دِنوں نوازشریف نے اپنے سوال مجھے کیو ں نکالا؟ کا
جواب خود ہی پنجاب ہاؤس میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میں دے دیاہے۔ اِس
طرح دنیا کوبھی لگ پتہ گیاہے کہ27جولائی 2018ء کے سُپریم کورٹ آف پاکستان
سے نوازشریف کے خلاف نااہلی کے آنے والے فیصلے کے درپردہ کیا محرکات تھے۔؟
جس کے بعد سے نوازشریف نے مجھے کیو ں نکالا؟اور ووٹ کو عزت دو، کی گردان
شروع کردی تھی ۔
آج جب نوازشریف کو اپنے سر سے پانی اُونچا ہوتا محسوس ہواہے ، توپھر اُنہوں
نے خود ہی اپنے سوالات ’’ مجھے کیوں نکالا؟اور ووٹ کو عزت دو‘‘ کا جواب
مخمل میں لپیٹ کر کچھ اِس انداز سے دیاہے کہ آج اِن کے جواب سے بھی کئی
سوالات جنم لے چکے ہیں۔
تاہم اُنہوں نے اپنے تئیں ’’ مجھے کیو ں نکالا؟ اور ووٹ کو عزت دو کا جواب
اپنے مخصوص لب و لہجے اور مدبرانہ انداز سے یہ کہتے ہوئے خود ہی دیاہے کہ
’’میرے خلاف مقدمات کی وجہ یہ ہے کہ میں نے سرجھکا کر نوکری کرنے سے اِنکار
کردیا۔ میر اجرم یہ ہے کہ آمر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ
بنایا۔اپنے گھر کی خبر لینے اورحالات ٹھیک کرنے پر اِصرارکیا۔ خارجہ پالیسی
کو قومی مفاد کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جس سے یہ تاثر لیا گیا کہ میرا
وجود کچھ معلاملات میں رکاوٹ بن رہاہے ۔اِس لئے مجھے منصب، پارٹی سے ہٹایا،
عمر بھر کے لئے ناہل قرار دے ڈالنا اور سیاست کے عمل سے خارج کردینا ہی
واحد حل سمجھا گیا۔ دھرنے کے دوران ایک ایجنسی کے سربراہ کا پیغام ملا، کہ
استعفیٰ دو یا لمبی رخصت پہ جاو ،او ر تو اور زرداری نے مشرف کے مارشل لاء
کی بھی توثیق کے لئے کہا‘‘۔
اگرچہ ، پریس کانفرنس میں نااہل وزیراعظم عزت مآب مسٹر نوازشریف صاحب کے
اپنی صفا ئی میں ایسے کئی انکشافات تھے ۔ آج جنہیں سُننے اور پڑھنے کے بعد
اِن کی سیاسی بصارت اور حکمت پر سوالات پیدا ہورہے ہیں ۔
اگر آج ایک لمحے کو یہ مان بھی لیا جائے کہ مسٹر نوازشریف نے اپنی حالیہ
پریس کانفرنس میں جو کچھ فرمایا ۔ سب من وعن درست ہے ۔ تو پھر سوال یہ
پیداہوتا ہے، کہ آج اپنی نااہلی کے بعد بھولی بھالی اور معصوم مورت والے
مسٹر نوازشریف جس طرح خود کو حق پر تصورکرتے ہوئے، آج حقائق پر سے پردہ
اُٹھا رہے ہیں ۔ کیا یہی سب کچھ یہ پہلے نہیں کرسکتے تھے۔؟تب اِنہیں ایسا
کرنے سے کس نے روکا تھا؟
اُس وقت یہ قوم کویہی سب کچھ بتا دیتے کہ انہیں اِن کی مرضی کے خلاف دبا و
ڈال کرکرنے کو کہاجارہاہے ، یا اُس وقت اِنہوں نے اپنی کمزوریوں پرخود پردہ
ڈالتے ہوئے اُن عناصر کے ہاتھ پاوں پڑے ؟ اور کمپرومائز کرکے اپنی حکومتی
گاڑی چلانے کی التجا کی ، آج نوازشریف یہ سب بھی تو بتا ئیں ، اِنہوں نے
اپنی حکومت چلانے کے خاطر کیا کیا جتن کئے ؟ اپنے سیاہ ، سفید کرتوتوں پر
پردھ ڈالنے کے لئے کس کی کیسی خوشامدیں کیں؟
نااہل مسٹر نواز شریف جی، اب اِس طرح یکطرفہ طور پرصرف دوسروں کی برائیاں
بیان اور اپنی صفائیاں پیش کرنے سے کام نہیں چلے گا؛ آپ کو خود سے اپنے وہ
تمام سیاہ کرتوتوں کو بھی پاکستا نی عوام اور دنیا کے سا منے کھول کھول کر
پیش کرنا ہوں گے ۔ آپ جو ابھی تک عدلیہ اور نیب سے چھپارہے ہیں۔ تو پھر
کہیں جا کر پاکستانی قوم اور عوام سوچیں گے کہ یہ آپ کا ساتھ دیں یا نہیں؟
اَب ایسے کیسے ہوسکتاہے کہ ادارے آپ کو نااہل قرار دیں۔ اور آپ اداروں کی
توہین کریں، اُن کی ایک نہ مانیں ۔ اُلٹا اُن ہی کے خلاف محاذ آرائی پر
اُتر آئیں ۔ آپ خود سوچیں، کہ جب آپ ایسا کررہے ہیں، تو پھرایک عام پاکستا
نی شہری اور عوام عدلیہ اور قومی اداروں کا احترام کیسے کریں گے؟
عزت مآب سا بق نااہل وزیراعظم مسٹر نواز شریف صاحب، آپ کو تو سب سے پہلے
اپنے جیسے بھی سیاہ ، سفید اور جھوٹے ، سچے اور غلط و صحیح کرتوتوں کے عیاں
ہو نے اور نااہل قرار پانے کے بعد قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنی چاہئے
تھی۔ تُرنت اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے خاطر عدلیہ اور اداروں سے بھر پور
تعاون کرناچاہئے تھا۔
مگرجنابِ عالی، آج افسوس ہے کہ آپ نے ایسا کچھ نہ کیا ۔ اُلٹااپنی نااہلی
کے فیصلے کے خلاف آستینیں چڑھا کراداروں سے محاذ آرا ئی پر اُتر آئے ہیں ۔
یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ اتنا کچھ کرنے کے باوجود پھر بھی یہ تکبر ہے کہ
اگلا الیکشن ن لیگ ہی جیتے گی ۔ بھئی یہ تو بڑا ہی مضحکہ معنی خیز ہے۔ بہر
حال، اﷲ جِسے چاہئے گا عزت دے گا اور جِسے جب جس طرح سے چاہئے گاذلت سے
دوچار کردے گا۔ سب ا ﷲ کے بھروسے پہ اپنی کوششیں جاری رکھیں ، اَب یہ تو
وقت ہی بتا ئے گا کہ اگلے اقتدار کی چڑیا اور قومی خزا نے کی کنجی کس
ایماندار ، دیانت دار اور شریف النفس اِنسان یا پھر شریف فیملی کے ہاتھ آتی
ہے؟ (ختم شد)
|