گڈِز پروانہ

یونانی فلسفی بلا کے ذہین اور سماج شناس تھے۔ ان کے وضع کردہ سیاسی فلسفے نے ہی دورِ جدید کی جمہوریت کی عمارت اُستوار کی۔ مشہور فلسفی افلاطون نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’جمہوریہ‘ میں برملا خبردار کیا تھا کہ کسی تاجر کو مملکت کے اعلیٰ عہدے پر فائز کرنا درحقیقت سماج اور ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ وہ ہر وقت اپنے تجارتی مفادات کو مقدم رکھے گا۔قربان جائیے اس سیاسی بصیرت کے، کہ اس کا مدلل اور عملی ثبوت ہمیں موجودہ دور میں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جا بجا مِل چُکا ہے۔ وطنِ عزیز میں اس کی بھیانک مثال شریف برادران ہیں۔ یہ لوگ جب بھی برسراقتدار آئے، انہوں نے ریاست کے تمام ستونوں کی بنیادیں ہِلا کر رکھ دیں۔ صحافت جیسے مقدس پیشے کو لفافہ جرنلزم کے ذریعے آلودہ کرنے کے مُوجدِ اُولیٰ بھی یہ تاجر بھائی ہی ٹھہرے۔ عدلیہ کے ججوں کو خرید کر اپنے ہی چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو رُسوا کُن طریقہ سے سبکدوش کرنا بھی انہی کی شیطانی جدِت طرازی تھی اور مُلک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی امین پاک فوج جیسے منظم ادارے کی تضحیک و توہین اور اسے تباہی سے دوچار کرنے کی مذموم سازشیں رچنے کا منفرد اعزاز بھی انہی شریف برادران کے حصّے میں آیا ہے۔ بڑے بھائی کی سیاست تو اپنے عبرتناک اور منطقی انجام کو قریب قریب پہنچ چُکی۔ جبکہ چھوٹا بھائی بظاہر تو بڑے بھائی کے اقتدار سے دُوری پر آٹھ آٹھ آنسو بہا رہا ہے مگر من کی گہرائیوں میں ہزاروں شادیانے بج رہے ہیں کہ اس کا وزیر اعظم بننے کا ناممکن خواب اب اس کی دانست میں چند ماہ کے اندر اندر شرمندہ تعبیر ہونے کو ہے۔

وزیر اعلیٰ شہباز شریف خود بھی اپنے منہ سے اپنی نام نہاد گُڈ گورننس کا راگ الاپتے نہیں تھکتا۔ کہیں سے بھی کوئی حقیقت پر مبنی الزام سامنے آئے تو موصوف بڑے فلسفیانہ انداز میں انگشت ہلا ہلا کر جوشِ خطابت میں فرمانے لگتے ہیں کہ ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو پھانسی پر لٹکا دیں۔ شرم کی حد تو یہ ہے کہ بڑا بھائی کرپشن پر پُوری دُنیا میں ذلیل و خوار ہوا، عدالت سے مجرم قرار پایا۔ عوام کی تذلیل کا نشانہ بنا، اور ذِلّت بالائے ذِلّت وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ مگر برادرِ خورد کرپشن کے سلسلہ ہائے دراز کو سمیٹنے کی بجائے نِت نِت راہیں اور جِدت طرازیاں وضع کرنے میں لگا ہوا ہے۔کہاں کہاں اور کس کس آڑ میں شہباز شریف نے عوامی پیسے پر ہاتھ صاف نہیں کیا۔گِنوانے کو بہت کچھ ہے مگر خوافِ طوالت سے یہاں پر درج نہیں کیا جا سکتا۔

ایک مثال یاد آ رہی ہے جو موقعے کی مناسبت سے یہاں درج کی جاتی ہے کہ ایک گیدڑ کو کسی دوسرے جانور نے شرارت سے ایک کاغذی پروانہ تھما کر کہا کہ جاؤ فلاں کھیت سے جتنے مرضی چاہو کماد کھاؤ، کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ گیدڑ بڑے مزے سے اُس کھیت میں جا کر کماد پر منہ مارنے لگا ہی تھاکہ لوگوں نے گھیر کر اُسے خوب مارا پیٹا۔ جبکہ اس دوران وہ بیچارہ بار بار اپنا پروانہ ہی دِکھاتا رہا۔ یہی حال اس وقت اس وقت غریب لوگوں کا شہباز شریف اور اس کی کرپٹ ٹیم کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ اس وقت مُلک بھر میں کرپشن کا سب سے بڑا گڑھ پنجاب کا وزیر اعلیٰ ہاؤس ہے۔ انہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں کوآرڈینیٹر بھرتی کر رکھے ہیں جو الیکشن کے دوران ان کے لیے دِن رات محنت کر کے جائز ناجائز حربوں سے ان کی جیت کو یقینی بناتے ہیں۔ ان کوآرڈینیٹرز کو خوش رکھنے کی خاطر انہیں عوام کے پیسے سے گاڑیاں اور دیگر سہولیات سے نوازا جاتا ہے۔ان کوآرڈینیٹرز کی ایک ذمہ داری اور بھی ہے، وہ یہ کہ ضرورت مندوں کو گھیر کر اُن کے جائز اور غیر قانونی کام کروا کر دولتِ شریفیہ کو دِن دُگنی اور رات چوگنی ترقی دینا۔بیچ میں ان کی بھی کمیشن بن جاتی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا قبضہ مافیا پہلے خود ہی پولیس کی مدد سے عالیشان گھروں پر قبضہ کرتا ہے پھر متاثرہ پارٹی کا رابطہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے کرایا جاتا ہے جہاں پر ’جرمانے‘ کی خطیر رقم طے کرنے کے بعد ہی ڈیل کامیاب ٹھہرتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی نے اپنا تبادلہ کہیں اور کروانا یا کسی جگہ پر رُکوانا ہو، کسی کو نوکری چاہیے ہو، یا کوئی سرکاری ٹھیکہ حاصل کرنا ہو۔ سب کام وزیر اعلیٰ ہاؤس سے ہی کیے جاتے ہیں۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ نذرانہ سمیٹنے کے بعد متعلقہ فرد کے لیے ڈائریکٹوز جاری نہیں کیے جاتے۔ اور اگر کر بھی دیئے جائیں تو متعلقہ اتھارٹیز کو اندر کھاتے ہدایات دی جاتی ہیں کہ ان ڈائریکٹوز پر عمل در آمد نہیں کرنا۔ان نام نہاد سرکاری پروانوں کو ہی عرفِ عام میں گِدڑ پروانہ کا نام دیا جاتا ہے۔ ہر کام کا ریٹ مقرر ہے۔ اگر پیسے تھوڑے لیے گئے ہیں تو سمجھیں پیسے ضائع ہو گئے۔ کام پُورا نہیں ہونا۔ صرف اُنہی لوگوں کے کام کیے جاتے ہیں جو بہت بھاری رقم شریفوں کے کارندوں کو تھماتے ہیں۔ اور جن خوش نصیبوں کے لیے پروانے جاری ہوتے ہیں، اُن کے حکم نامے کا خط جاری ہونے کا بھی ریٹ مقرر ہے۔ زمین پر قبضہ چھُڑوانے، تبادلے، نوکری ہر چیز پر پیسے ہیں۔ ظلم زیادتی کی حد تو یہ ہے کہ فری میڈیکل ٹریٹمنٹ (FMT)جو ہرغریب شخص کا قانونی حق ہے، اُس کے حصول کے لیے بھی غریبوں کو جوتیاں چٹخانی پڑتی ہیں اور وزیر اعلیٰ کے ایجنٹوں کو رقم دے دلا کر اپنا یہ ’ناجائز‘ کام کروانا پڑتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے صوابدیدی فنڈ سے کسی غریب کے لیے رقم کا حصول جُوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ زکوٰۃ فنڈ کی ساری رقم خُرد بُرد کی جا رہی ہے اور کسی خوش نصیب غریب کو مِل بھی جائے تو آدھی رقم تو شہباز شریف کے ایجنٹ کی جیب میں چلی جاتی ہے۔

کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ پنجاب کے ہر کونے سے سائلین اپنے جائز کاموں اور ظلم و زیادتی کے خلاف درخواستیں لیے لاہور کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ بیچارے بڑی مشکل سے لاہور آنے کا کرایہ اکٹھا کرتے ہیں، آنکھوں میں اُمید بساتے ہیں کہ صوبے کا حاکمِ اعلیٰ ان کی مشکلات کا ازالہ کرے گا۔ وہ وزیر اعلیٰ جو خود کو مغل شاہنشاہوں کی اولاد سمجھتا ہے اور ان کیڑے مکوڑوں جیسے غریبوں سے مِلنا تو کیا ان کے قریب آنا بھی پسند نہیں کرتا۔ ان بیچاروں کی داد رسی خاک ہو، کیونکہ ان کے پاس وزیر اعلیٰ کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا ہے۔سو عوام کو یہی مشورہ ہے کہ اگر ان کے پاس غریب و مُفلس وزیر اعلیٰ کی غربت دُور کرنے کے لیے کوئی مال متاع نہیں تو اپنا وقت ضائع کرنے کی زحمت نہ کریں۔

گُڈ گورننس کا راگ الاپنے والے وزیر اعلیٰ کا سارا دور احتجاج سے عبارت ہے۔ ڈاکٹروں کا احتجاج، کلرکوں کا احتجاج، سکول ٹیچروں کا احتجاج، معذور و نابینا افراد کا احتجاج، مذہبی طبقے کا احتجاج، سیاسی جماعتوں کا احتجاج۔ اور یہ احتجاج اس لیے بھی ہر بار شدید تر ہوتا چلا گیا کیونکہ یہ دھرنا مظاہرین سے ہر بار جھوٹے وعدے کر کے انہیں گھر بھجوا دیتے اور اپنی رعونت کے نشے میں اُن کے مطالبات پر سرے سے غور کرنا بھی گوارا نہ کرتے۔ سو اس دور کو دورِ احتجاج کہا جائے تو بلاشبہ غلط نہ ہو گا۔ شہباز شریف اور اس کے بچوں کی کرپشن عنقریب طشت از بام ہونے والی ہے، اس کے سامنے نواز شریف کے کھربوں کے اثاثوں کے چونکا دینے والے انکشافات بھی پھیکے دکھائی دیں گے۔ خدا کی مہربانی سے ان کا پُورا خاندان پکڑ میں آ رہا ہے۔ حمزہ شہباز، سلمان شہباز، داماد علی عمران اور کئی دیگر قریبی رشتے داروں کے معاملے بھی کھُلنا شروع ہو گئے ہیں۔ احد چیمہ جیسا افسر تو ایک ہے اس جیسے سینکڑوں بغل بچوں کے بارے میں انکشافات ابھی ہونے باقی ہیں۔ شہباز شریف اور اس کے خاندان پر صرف کرپشن کے ہی مقدمات قائم نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ ان پر غداری کا مقدمہ بھی ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے پنجاب کی ساری افسر شاہی کو کرپٹ بنا کر مُلک کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کیا اور مملکتِ خُدا داد پر سے عوام کا اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔ جو کام بھارت پچھلے ستر برسوں سے زائد عرصے کے دوران نہیں کر سکا، وہ اس کے پاکستانی خیر خواہ شریف خاندان نے بآسانی کر دکھایا۔ ویل ڈن آلِ شریف!

Naushad Hameed
About the Author: Naushad Hameed Read More Articles by Naushad Hameed: 21 Articles with 12280 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.