الحمد ﷲ! مسلمان اپنے خالق و مالک کی خوشنودی حاصل
کرنے اور آقائے دوعالم، رحمۃ للعالمین ،سرور کونین، رسالتمآب ﷺ کی سنتوں پر
عمل کرنے کی سعی کرتے ہوئے نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ماہِ صیام میں مشغول
ہوچکے ہیں۔ سبحان اﷲ ہر طرف نورانی چہرے ، لڑائی جھگڑوں سے دور ، ایک دوسرے
کا خیال کرنے کا جذبہ اور کئی خوبیوں سے آراستہ مسلمان اس ماہِ مبارک کی اس
عظیم نعمتوں سے سرفراز ہورہے ہیں یہ اصل میں اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم کا
معاملہ ہوتا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کا خیال بھی کرتے ہیں اور لڑائی جھگڑوں
سے دور ہوتے ہوئے اسلامی زندگی گزارنے کی اس ماہ میں کوشش کرتے ہیں۔حرمین
شریفین میں افطار اور تراویح کے اوقات میں جو روحانی ماحول بنا رہتا ہے یہ
بھی دیکھنے کے لائق رہتا ہے۔ چاہے حرمین شریفین ہو کہ دیگر ممالک میں افطار
کا موقع ۔ ہر طرف مسلمان اپنے روزہ دار بھائیوں اور بہنوں کے لئے افطار کا
اہتمام کرتے نظر آتے ہیں۔ مسلمان اس ماہ مبارک میں عطیات ،زکوٰۃ و صدقات کے
ذریعہ اپنے غریب مسلم بھائیوں کی بھی مدد کرتے ہیں۔ اسلام ہی وہ واحد اور
انصاف پسند مذہب ہے جس میں انسانیت کی فلاح و بہبود اور ایک دوسرے کی مدد
کیلئے ایک ایسے اہم معاشی اورروحانی فیض کو جاری کیا ہے جس کے ذریعہ سے
انسان ایک طرف اپنے غریب مسلم بھائیوں کو عطیات، زکوٰۃ،خیرات و صدقات دے کر
خوش ہوتے ہیں ، انہیں روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے تو دوسری جانب وہی غریب
مستحق مسلمان اپنے معاشی ضروریات پورے ہونے پر سجدہ شکر بجا لاتے ہیں اور
خالق و مالک انہیں بھی ذہنی و روحانی سکون عطا فرماتا ہے ۔ معیشت کا مسئلہ
ہر انسان کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔
آج عالمِ اسلام کے کئی ممالک معاشی اعتبار سے پسماندگی کا شکار ہوچکے ہیں
اس کی وجہ ان ممالک میں دشمنانِ اسلام کی وہ چال بازیاں ہیں جس کے نتیجہ
میں ان ممالک میں دہشت گردانہ ماحول بنایا گیا ، مسلمان ، مسلمانوں کے خون
کے پیاسے نظر آرہے ہیں۔ کہیں حکمراں عوام کو دہشت گردی کے نام پر نشانہ
بنارہے ہیں تو کہیں شدت پسند یا دہشت گرد مسلمانوں کو حکمراں کا ساتھ دینے
یا پھر کسی اور وجہ سے حملوں کا شکار بنارہے ہیں۔ مشرقِ وسطی کے سنگین
حالات سے کون واقف نہیں ہیں۔ سعودی عرب کی معیشت گذشتہ تین سال سے بُری طرح
متاثر ہوچکی ہے گذشتہ تین سال سے سعودی بجٹ خسارہ میں بتایا جارہا ہے۔ شام
اور یمن کے حالات مشرقِ وسطیٰ کیلئے سنگین نوعیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔
مغربی و یوروپی طاقتیں مشرقِ وسطی کو جنگ زدہ ماحول میں جھونک کر اپنے
کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار کی نکاسی جس انداز میں کررہے ہیں اس سے کون واقف
نہیں۔ ایک طرف امریکہ اپنی دہشت گردی کا کھلا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیل اور
فلسطین کے مسئلہ کو مزید سنگین رخ پر لاکھڑا کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
نے تل ابیب سے یروشلم میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرکے دنیا کو بتادیا کہ
وہی اصل میں دہشت گردی کا سب سے بڑا ساجھے دار ہے۔امریکہ اور دیگر جوہری
طاقتور ممالک دنیا کے دیگر ممالک کو جو ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کررہے
ہیں یا انہیں ان ممالک پر شک ہے تو ان پر کئی طرح کی معاشی پابندیاں عائد
کرتے ہیں تاکہ وہ معاشی طور پر کمزور ہوجائے اور ایٹمی طاقت بننے کے قابل
نہ رہے۔ اس کے باوجود بعض ممالک جن میں شمالی کوریا اور ہوسکتا ہے کہ ایران
جو معاشی پابندیوں کے باوجود اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط و مستحکم کرنے
اور اپنے دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کیلئے جوہری طاقتور
ممالک کی صف میں نہیں تو کم از کم ان کے پیچھے کھڑے ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے
کہ امریکہ ا ور دیگر ایٹمی ممالک کو کئی خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔ ان میں سب
سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر اسلامی ممالک بھی جوہری طاقت حاصل کرلینگے تو
پھر ان ممالک کے جوہری ہتھیار کی نکاسی ٹھپ ہوکر رہ جائے گی اور دشمنانِ
اسلام جو دبدبہ و خوف ان ممالک پر مسلط کئے ہوئے ہیں اس میں کمی واقع
ہوجائے گی اور ان کا کروڑہا ڈالرس کی فوجی سازو سامان کی تجارت پر بُری طرح
اثر پڑے گا، یہی وجہ ہیکہ عالمی ایٹمی طاقتیں نہیں چاہتے کہ اب دنیا میں
دیگر ممالک خصوصاً عالمِ اسلام جوہری طاقتورکی حیثیت حاصل کرے۔ ذرائع ابلاغ
کے مطابق 21؍ مئی کو ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے افطار کے ساتھ عشائیے
کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم انصاف کی بات کریں اور منصفانہ
رویہ اختیار کریں تو جوہری ہتھیار سے لیس ممالک کا یہ کہنا کہ جوہری پاور
اسٹیشن خطرہ ہیں تو ان کا بین الاقوامی برادری کے سامنے کوئی اعتبار نہیں
رہ جاتا۔ انہوں نے جوہری ہتھیار کے حامل ممالک پر الزام عائد کیا کہ وہ
دنیا کو دھمکارہے ہیں جبکہ ساتھ ہی انہوں نے امریکہ کو ایران جوہری معاہدے
سے نکلنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ صدر ترکی نے کہا کہ جن ممالک کے پاس
پندرہ ہزار سے زائد جوہری ہتھیار ہیں وہ اس وقت دنیا کو دھمکارہے ہیں ان کا
اشارہ دنیا بھر کے مجموعی ایٹمی ہتھیاروں کی جانب تھا جس میں سے زیادہ تر
امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق رجب طیب اردغان
نے اسرائیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ مشرقِ وسطیٰ کو تمام طرح کے جوہری
ہتھیار سے پاک کرنا ہوگا ۔ کیونکہ اس خطے میں اسرائیل ہی وہ واحد ملک ہے جس
کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ صدر ترکی نے
ایران جیسے ممالک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جوہری ہتھیار سے لیس
ممالک انہیں کیوں دھمکارہے ہیں ۔واضح رہے کہ 12؍ مئی کو امریکی صدر نے
ایران کے ساتھ چھ عالمی ممالک کے جوہری معاہدے سے خود کو علیحدہ کرلیا تھا
اس معاہدے کا مقصد ایران کی جوہری سرگرمیوں پر لگام لگانے کے عوض اس پر
عائد پابندیاں ختم کرنا تھا۔ لیکن امریکہ ایران پر مزید سخت پابندیاں عائد
کرنا چاہتا ہے۔ گذشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے ایران سے کہا
کہ وہ شام کی خانہ جنگی سے اپنے آپ کو الگ کرلے۔ ایران نے امریکی وزیر خاجہ
کی دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ ایران
میں حکومت تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہیکہ
ایران اور دنیا کے فیصلے کرنے والا امریکہ کون ہوتا ہے؟ ہم جو کام کررہے
ہیں وہ کرتے رہیں گے۔ ایرانی صدرکا مزید کہنا تھاکہ ایران اپنے ساتھی ممالک
کے ساتھ اپنے راستے پر ثابت قدم رہے گا۔ صدر ترکی نے ایران سے متعلق کہاکہ
جہاں تک ترکی کا سوال ہے ہم ایران کے جوہری معاہدے جسے سلادیا گیا ہے اسے
پھر سے بھڑکانا نہیں چاہتے۔ امریکی انتظامیہ کے فیصلے کے باوجود مثبت بات
یہ ہے کہ معاہدے کے دوسرے دستخط کنندگان اس معاہدے کا پاس رکھ رہے ہیں یعنی
پانچ عالمی طاقتیں اس معاہدے کا پاس رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
ایران شام میں صدر بشارالاسد اور یمن میں حوثی باغیوں کا ساتھ دینے کی وجہ
سے خطے کے حالات مزید سنگین نوعیت اختیار کرتے جارہے ہیں ایک طرف یمن میں
سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک عبدربہ منصور ہادی کے اقتدار کو بچائے
رکھنے کے لئے حوثی بغاوت کو کچلنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب شام میں
بشارالاسد کو اقتدار سے محروم کرنا چاہتے ہیں اس طرح سعودی عرب کا شام میں
اپوزیشن کو تعاون اور یمن میں عبد ربہ منصور ہادی کو تعاون کا نتیجہ ہے کہ
شام اور یمن کی خانہ جنگی مزید سنگین نوعیت اختیار کرسکتی ہے ۔ سعودی عرب
اور ایران اگر مشرقِ وسطیٰ میں خوشحالی لانا چاہتے ہیں تو وہ امریکہ اور
روس کے بہکاوے میں آئے بغیر عالمِ اسلام کے دیگر ممالک کے ساتھ بات چیت کے
ذریعہ ایک لائحہ عمل بنائیں تاکہ شام اور یمن کے حالات پر قابو پایا جاسکے
اور ان دونوں ممالک میں جو بغاوت کی تحریکیں چل رہی ہیں انہیں کسی نہ کسی
طرح ختم کرنے کی کوشش کریں ورنہ ان ممالک میں حکمراں اور اپوزیشن کے درمیان
ہونے والی خانہ جنگی کا نتیجہ ہے کہ لاکھوں شامی اور یمنی عوام بے گھر
ہوچکے ہیں انکی رہائش اور کھانے پینے کا کوئی موثر انتظام نہیں جس طرح
ہزاروں لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں جن کے لئے صحت کے مراکز بھی
ندارد اور ادویات کی عدم فراہمی کا نتیجہ ہے کہ ان بیماریوں میں مزید اضافہ
ہورہاہے ۔ اس ماہِ مقدس کے پیشِ نظر عالم اسلام اور دنیا میں بسنے والے
کروڑوں مسلمان مشرقِ وسطیٰ کو دہشت گردی سے چھٹکارہ دلانے کے لئے اجتماعی
دعا کا اہتمام کریں ۔ برما کے مسلمانوں کی حا لت زار کو بھی دیکھتے ہوئے اس
ماہِ مقدس میں انہیں کسی نہ کسی طرح مدد بہم پہنچانے کی کوشش کرنی ہوگی۔
بنگلہ دیش میں لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان پناہ لئے ہوئے ہیں ان
روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں میں غذائی اجناس اور ادویات وغیرہ کی قلت کو
ختم کرنے کے لئے بھی مسلمانوں کا تعاون ضروری ہے۔ یہی وہ مبارک مہنہ ہے جس
میں مسلمان اپنے خالق ومالک کو منانے کے لئے بھرپور کوشش کرتے ہیں اگر
مسلمان اس ماہِ مبارک میں عالمی سطح پر جہاں جہاں مسلمان پریشان کن حالات
سے دوچار ہیں یا دہشت گردی کا شکار ہیں انہیں تعاون فراہم کرنے کی سعی کریں
تو اس سے پریشان کن صورتحال سے دوچار مسلمانوں کی معیشت بہتر ہوسکتی ہے اور
وہ خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے ان پڑوسیوں اور
غریب و مساکین کاسب سے پہلے خیال کریں جو ہمارے آس پاس موجود ہیں ایسانہ ہو
کہ ہم دوسروں کا خیال کرنے کے بہانے اپنوں کو بھول جائیں ، سب سے پہلے اپنے
عزیز و اقارب اور پڑوس کا خیال کرنا ضروری ہے۔ یہ بات دنیا جانتی ہیکہ اگر
صاحبِ استطاعت مسلمان زکوٰۃ ، عطیات اور صدقات کا اہتمام کرتے ہوئے غرباء و
مساکین کا خیال کریں نگے تو دنیا میں کوئی بھی مسلمان معاشی بدحالی کا شکار
نہ ہوگا۔ مسلمانوں کا یہی وہعمل ہے جو اسلام کی حقیقت کو مزید تقویت
پہنچاتا ہے۔
اسرائیل میں یہودی دہشت گردی کے خلاف امریکی سائنسداں خاتون کا اہم اقدام
رمضان کے باوجود فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی دہشت گردی کے
نتیجے میں زخمی ہونے والے مزید 2 فلسطینی شہری شہید ہوگئے جس کے بعد
30؍مارچ سے جاری پرتشدد تحریک میں قابض فوج کے حملوں میں شہید ہونے والے
فلسطینیوں کی تعداد 119ہوگئی ہے ان میں 63 فلسطینی صرف گذشتہ ہفتہ کو شہید
کیے گئے ۔ جب کہ متعدد فلسطینی شہدا کے جسد خاکی اسرائیلی فوج کے قبضے میں
بتائے جارہے ہیں۔ قابض فوج کے وحشیانہ تشدد سے گذشتہ چھ ہفتوں کے دوران
13ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔شہدا میں 18 سال سے کم عمر کے 13 بچے بھی
شامل ہیں۔ چھ شہدا کو فلسطینی وزارت صحت نے اپنی فہرست میں شامل نہیں
کیا۔وزارت صحت کے مطابق 7618 فلسطینی گولیاں لگنے،5572 آنسوگیس کی شیلنگ سے
زخمی ہوئے،زخمیوں میں 2096بچے اور 1029 خواتین شامل ہیں۔322 فلسطینی زخمیوں
کی حالت بدستور تشویشناک ہے۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھتے
ہوئے امریکہ کی ایک سرکردہ خاتون سائنسدان نے فلسطینی قوم کے خلاف صہیونی
ریاست کے مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے یہودی ہونے پر شرمندہ
ہے کیونکہ اس کے ہم مذہب فلسطینیوں پر بدترین ظلم ڈھا رہے ہیں۔اسرائیل کے
ایک کثیرالاشاعت عبرانی اخبار ہارٹز نے اپنی رپورٹ میں امریکی سائنسداں
ڈاکٹر پروفیسر افولین فوکس کیلر کا ایک بیان نقل کیا ہے۔ اس بیان میں انہوں
نے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کی ہے۔انہوں نے اسرائیل کی
طرف سے دیا گیا سائنس ایوارڈ فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کیلئے کام کرنے
والے اداروں کیلئے وقف کردیا ہے۔
ہند و پاک کی خفیہ ایجنسیوں کے دو سابقہ سربراہ کی کتاب
ہندو پاک کے درمیان منجمد رشتوں سے متعلق ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘کے
سابق سربراہ اے ایس دولت نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان جو جمود طاری ہے
اسے توڑنے کی ضرورت ہے انہوں نے ایک ایسے وقت جبکہ دونوں ممالک کے درمیان
امن کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ان حالات میں کیا کیا جانے چاہیے سوال کے
جواب میں کہا کہ ہندوستان کو چاہیے کہ وہ پاکستانی فوجی سربراہ جنرل قمر
جاوید باجوہ کو دہلی آنے کی دعوت دیں۔ اے ایس دولت نے بتایاکہ کچھ عرصہ قبل
ٹریک ٹو کی ایک میٹنگ میں یہ صلاح دی گئی تھی کہ انڈیاکے قومی سلامتی کے
مشیر کو لاہور بلایا جائے لیکن پاکستان میں کسی نے اس مشورے کو اہمیت نہیں
دی ۔ سابق را سربراہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ وقت بدل چکا ہے ، دونوں
کوریا ایک دوسرے سے بات کرسکتے ہیں ہیں ، امریکی صدر ٹرمپ اور کم جونگ اِن
کی ملاقات ہوسکتی ہے تو پھر پاکستانی فوجی سربراہ کے لئے ریڈ کارپٹ بچھائیے
اور انہیں دلی آنے کی دعوت دیجئے پھر دیکھے کیا ہوتا ہے۔یہاں یہ بات قابلِ
ذکر ہیکہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی اور
ہندوستانی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے مشترکہ طور پر ایک
کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’اسپائی کرونکل: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الیوژن
آف پیس‘‘ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں سابقہ جاسوسوں نے کتاب کا بیشتر حصہ
دبئی، استنبول اور کٹھمنڈو میں لکھا ہے یہ کتاب باضابطہ طور پر اسی ہفتے
منظر عام پر آنے والی تھی لیکن جنرل درانی ویزا نہ ملنے کے سبب دلی نہ
آسکے۔ اے ایس دولت کا کہنا ہیکہ دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ
ایک مشترکہ کتاب لکھتے ہیں یہی ایک غیر معمولی بات ہے ۔ انکا کہنا ہیکہ امن
مشکل ضرور ہے لیکن اسے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات
بہتر کرنے کے لئے پروزیں بڑھائی جانی چاہئیں اور دونوں ملکوں کو کرکٹ کے
روابط فوری طور پر بحال کرنے چاہئیں۔ اب دیکھنا ہے کہ ہندوستانی حکومت سابق
خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے مشورہ پر کس طرح کا اظہار کرتی ہے کیا موجودہ
نریندرمودی حکومت اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتی
ہے یا نہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
*** |