میاں محبوب اقبال ٹاٹا - ایک خدا ترس ‘ با وقار اور بہترین کاروباری شخصیت کی زندگی کی ایک جھلک

میاں محبوب اقبال سے میری پہلی شناسائی 20مارچ2005ء کی صبح ان کے ڈی ایچ اے کے گھر میں ہوئی جہاں انہوں نے بہت سے لوگوں کو ناشتے پر مدعو کر رکھا تھا۔ لاہور شہر کے بزرگ اور مہربان شخصیت حاجی انعام الٰہی اثر( جواب دنیا میں نہیں رہے ) کے حکم پر میں بھی وہاں موجود تھا۔ بے شک یہاں موجود ہر شخص اپنی ذا ت میں خود انجمن تھا لیکن میاں محبوب اقبال کی شخصیت نے مجھے بے حد متاثر کیا ۔جو اپنے گھر آنے والے ہر مہمان کا گرمجوشی سے استقبال کر رہے تھے۔ اسی محفل میں انہوں نے ہر دلعزیز شخصیت حاجی انعام الٰہی اثر کو اپنا مرشد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خدمت انسانی کے حوالے سے وہ ان کے ذمے جو بھی ذمہ داری لگائیں گے وہ اسے اعزاز سمجھ کر پوری کریں گے۔ مجھے یہ بات کہنے میں ذرا بھی عار نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے حاجی انعام الٰہی اثر کو اپنی بات برملا کہنے کا بہت حوصلہ دے رکھا ہے۔ وہ جس بھی محفل میں موجود ہوتے ہیں ان کی موجودگی اور شرکت کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ مخیر لوگوں کو خدمت خلق کے کاموں میں بھرپور حصہ لینے کی ترغیب د ینا۔

بے شک حاجی صاحب سے پہلی ملاقات کا باعث ‘ میری کتاب " رشتے محبتوں کے " بنی ۔جس میں ایک کہانی حجاز ہسپتال میں میرے ناک کے آپریشن کے حوالے سے بھی شامل تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا میں ان کے قریب ہوتا گیا۔ مجھے ان کی شخصیت میں چھپی ہوئی بے پناہ خوبیاں نظر آنے لگیں۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ عمر کے جس حصے میں وہ ہیں (یعنی 75سال) اس عمر کے لوگ تو خاندان اور معاشرے پر بوجھ بن کر رہ جاتے ہیں لیکن 75سال کی عمر پانے کے باوجود حاجی انعام الٰہی اثر ایک مستعد توانا اور متحرک انسان دکھائی دیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اﷲ کا فضل ہے کہ انہیں بظاہر کوئی بیماری دکھائی نہیں دیتی۔ اُٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اور گھنٹوں کی مسافت طے کرنے کے باوجود ان کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثاردکھائی نہیں دیتے۔ ان پر تو صرف ایک ہی جنون سوار نظر آتا ہے کہ وہ آخری سانس بھی دکھی انسانوں کی خدمت کیلئے صرف کر دیں۔
****************
میاں محبوب اقبال سے میری دوسری ملاقات ان کے دفتر میں اس وقت ہوئی ۔ میاں صاحب نے بتایا کہ چنیوٹ کی مٹی میں یہ تاثیر شامل ہے کہ وہاں کے لوگ پیدائشی طور پر کاروباری سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ چنیوٹ کے رہنے والوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ لوگ کاروبار کیلئے گھر کے نزدیک ترین جگہ کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ ان کے پیش نظربہترین کاروباری ماحول ہوتا ہے چاہے انہیں ہزاروں میل دورہی کیوں نہ جانا پڑے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے دادا حالانکہ چنیوٹ کے رہنے والے تھے لیکن کاروبار کیلئے انہوں نے کلکتہ شہر کا انتخاب کیا پھر مہاراجہ کی دعوت پر نیپال چلے گئے۔ لیکن ہر جگہ انہوں نے اپنی کاروباری دیانت کو برقرار رکھا۔ سویڈن کا ایک بزنس مین جو بہت عرصے سے ہم سے کھالوں کا کاروبار کرتا رہا تھا۔ پاکستان آمد پر اس نے چنیوٹ شہر دیکھنے کی آرزو کی۔ اس خواہش کی تکمیل کیلئے جب ہم اسے لے کر چنیوٹ پہنچے تو اس نے پورے شہر کا بغور جائزہ لیا ‘ اس شہر کی روایات کے بارے میں دریافت کیا۔ پھر ایک کچی جگہ پر بیٹھ کر جیب سے رومال نکالا اور دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر لی اور ایک رومال میں محفوظ کرلی۔ اس کا یہ فعل سمجھ سے بالاتر تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کررہے ہیں ؟ اس نے بتایا کہ میں یہ مٹی اپنے ملک لے جاناچاہتا ہوں اور اپنی اولاد کو تحفتاً دے کر نصیحت کروں گا کہ کاروبار صرف پاکستان کے چنیوٹی لوگوں سے ہی کرنا جو اپنے خمیر میں بلاکی دیانت اور بہترین کاروباری ساکھ رکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سویڈن کے اس بزنس مین کا یہ فقرہ چنیوٹ برادری کے لوگوں کیلئے بہت بڑی سند کا درجہ رکھتا ہے۔
**********
میاں محبوب اقبال ٹاٹا نے ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مشرقی پاکستان میں عرصہ دراز سے ہمارا کھالوں کا وسیع کاروبار تھا۔ وہاں زیادہ تر لین دین مقامی بنگالیوں سے ہی تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مشرقی پاکستان میں بغاوت کے آثار نمایاں نظر آنے لگے تھے ۔ عوامی لیگ کے حامی بنگالیوں نے پنجابیوں کی ہر سطح پر مخالفت شروع کر دی۔ ڈھاکہ میں ایک شخص جس کا نام ’’فضلو‘‘ تھا اس نے کھالوں کے کاروبار کرنے والے بنگالیوں کا اجلاس ڈھاکہ میں بلایا اور خوب زہر اُگل کر تمام بنگالیوں سے عہد مانگا کہ آج کے بعد کوئی بنگالی کسی پنجابی کے ساتھ کاروباری لین دین نہیں کرے گا۔ اجلاس میں تمام لوگ خاموشی سے’’ فضلو‘‘ کی باتیں سنتے رہے جب وہ اپنی بات ختم کر بیٹھا تو ایک بزرگ بنگالی کھڑا ہوا اُس نے کہا کہ ’’فضلو میاں‘‘ یہ درست ہے کہ پنجابیوں نے یہاں لیدر کے کاروبار پر قبضہ کر رکھا ہے لیکن یہ بھی یاد کرو کہ انہوں نے بد دیانتی کرتے ہوئے کبھی کسی بنگالی کے پیسے نہیں مارے۔ جو خوبیاں کاروباری اعتبار سے پنجابیوں میں نظر آتی ہیں کیا وہ خوبیاں ہم بنگالیوں میں ہیں ۔ہمیں پنجابیوں سے کاروبار کرتے ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں لیکن کوئی ایک بھی پنجابی کسی کے پیسے مار کر یہاں سے نہیں بھاگا ۔ بزرگ کی یہ باتیں سن کر پوری محفل پر سکتہ طاری ہو گیا اور کاروبار میں پنجابیوں کے بائیکاٹ کا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ میاں محبوب اقبال نے ایک سوال کے جواب بتایا کہ اﷲ تعالیٰ نے چنیوٹ کے رہنے والوں میں نسل در نسل یہ خوبیاں ودیعت کر رکھی ہیں کہ وہ خود نقصان برداشت کرنے کے باوجود کسی دوسرے کو دھو کا نہیں دیتے ۔
*********
میاں محبوب اقبال ٹاٹا کا شمار چنیوٹ برادری کے کامیاب ترین بزنس مینوں میں ہوتا ہے ۔ آپ 1935ء کو چنیوٹ شہر میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے آباؤ اجداد بھی اسی شہر کے رہنے والے تھے ۔ لیکن کاروبار کلکتہ اور نیپال تک پھیلا ہوا تھا ۔ آپ نے میٹرک کاامتحان اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ سے پاس کیا ۔پھر ہیلے کالج آف کامرس سے بی کام کی ڈگری حاصل کی۔تعلیم سے فارغ ہوکرآپ کاروبار میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے ڈھاکہ چلے گئے ۔ دسمبر1971ء میں جب ڈھاکہ پر بھارتی فوج نے قبضہ کرلیا تو دوسرے مغربی پاکستانیوں کی طرح آپ بھی بھارتی قید میں پابند سلاسل ہوگئے ۔ ان ایام کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے میاں محبوب اقبال ٹاٹا نے کہا جس منحوس دن مشرقی پاکستان ‘ بنگلہ دیش بنا اس وقت ڈھاکہ میں میرے دو بھائی اور ان کے بیوی بچے بھی وہاں موجود تھے ۔ ریڈکراس کی نگرانی ٹرین کے ذریعے جب ہم بھارت کے شہر کانپور پہنچے تو میں نے اسٹیشن سے ہی کانپور میں رہنے والے اپنے عزیزوں کو فون کرکے اپنی خیریت کی اطلاع دی ۔ جنہوں نے پاکستان میں یہ خبر پہنچا دی ۔ اس خبر سے والدین کو حوصلہ تو ہوالیکن بیک وقت تین بیٹوں ‘ دو بہوؤں اور پوتے پوتیوں کی دشمن میں قید میں موجودگی ایک ایک لمحہ انہیں اذیت پہنچاتی رہی۔دکھ اور مصیبت کی گھڑی میں ماں فرصت کے ہر لمحے قرآن پاک لے کر بیٹھ جاتیں اور دیر تک پڑھتی رہتیں ۔گڑگڑا کر رب سے ہماری رہائی کی دعائیں مانگا کرتی ۔انہی دنوں ماں نے تسکین قلب کے لیے ایک دینی مدرسے میں داخلہ لے لیا۔وہاں قرآن پاک کا ترجمہ ‘ معنی اور تفسیر پڑھیں ۔ والد ہماری جدائی میں اکثر روتے رہتے ۔ اس گریہ زار ی سے ان کی صحت پر اتنا برا اثر ڈالا کہ وہ بہت کمزور ہوگئے ۔

ایک جانب پاکستان میں میرے والدین ہماری رہائی کی دعائیں رو رو کر مانگ رہے تھے تو دوسری جانب ایک بھارتی ٹرین جس میں ہم سب مغربی پاکستانی بیوی بچوں سمیت سوار تھے وہ بھارت میں سات دن تک گھومتی رہی ۔جب بھی وہ ٹرین واہگہ پہنچتی تو پاکستانی حکام ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر ہمیں یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیتے کہ پہلے ہم ان کے بارے میں تصدیق کریں گے پھر پاکستان آنے کی اجازت دیں گے ۔ چنانچہ ہم قسمت کے ماروں کو میرٹھ چھاؤنی کی فوجی بارکوں میں جاکر بند کردیا گیا ۔ان بارکوں کے ارد گرد خار دار تاریں لگا دی گئیں ۔اس کیمپ میں تقریبا اڑھائی ہزار مرد ‘عورتیں اور بچے موجود تھے ۔ یہاں ہر قیدی کو فی کس پانچ روپے ماہوار ملتے ۔ہم ان پانچ روپوں میں سے دو روپے خرچ کرلیتے جبکہ باقی تین روپوں سے کیمپ میں موجود بچوں کے لیے کتابیں ‘ ٹافیاں اورکھلونے خرید لیتے ۔ اس کیمپ میں جتنے بچے پڑھائی کے قابل تھے انہیں اکٹھا کرکے میں اور میری طرح کے کچھ اور پڑھے لکھے لوگ پڑھانے لگے ۔ اس طرح فارغ وقت کا مصرف بھی نکل آیا اور بچوں کی پڑھائی بھی ہم نے متاثر ہونے سے بچا لی ۔ تختی ‘ سلیٹ اور کاپیاں مطلوبہ مقدار میں میسر نہ تھیں اس لیے بچوں کو سمجھانے کے لیے کبھی ہم دیوار پر لکھتے توکبھی زمین سے تختی کا کام لیتے ہوئے انگلیوں سے اس پر لکھتے ۔ کیمپ میں موجود ہر چھوٹا بڑا ننگی زمین پر ہی سوتا ۔ ایک مرتبہ میں نے ریڈ کراس والوں سے پوچھا کہ ہم نے آپ کو مغربی پاکستان لے جانے کا کہا تھا آپ نے ہمیں اس کیمپ میں لاکر بے یارو مددگار چھوڑ دیا ۔ یہ ناانصافی کیوں کی ؟ میرے اصرار پر ریڈ کراس کے ذمہ دار افیسر نے دستاویزات مجھے دکھائیں اور کہا کہ مغربی پاکستان پہنچانے میں بھارتی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں تھا ۔آپ کی اپنی حکومت ہی آپ لوگوں کولینے سے انکار ی تھی کہ کہیں بہاری پاکستان نہ آجائیں ۔

میں سمجھتا ہوں جہاں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی افسوسناک تھی وہاں سویلین لوگوں (جن میں معصوم بچے ‘ بیمار اور بوڑھی عورتیں اور مرد شامل تھے ان سب کو پورے دو سال تک بھارتی قید میں زندہ درگور رکھنا بہت بڑاقومی المیہ ہے ۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم زخم کھانے کے لیے بھی سبق حاصل نہیں کرتے بلکہ نئے زخم کھانے کے لیے سینہ تان لیتے ہیں ۔

یہاں ایک اذیت یہ بھی تھی کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ کتنا عرصہ اور یہاں ٹھہرنا ہے جب رہائی کے پر مسرت لمحات آئے تو ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پاکستانی حکومت نے یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ ہم بہاری نہیں پاکستانی ہیں ‘ پورے دو سال صرف کردیئے ۔ہمارے دیئے ہوئے کوائف کے مطابق ہمارے گھروں اور خاندانوں کے افراد سے رابطہ کیاگیا جو ہماری جدائی میں پہلے ہی زخم خوردہ تھے ۔ میں سمجھتا ہوں مشکلات اور مصیبتیں تو انسانی زندگی کا حصہ ہیں لیکن زندگی کے یہ دو سال جو بھارتی قید میں ناحق گزرے پوری زندگی پر بھاری نظر آتے ہیں ۔

جب ہم بھارتی قید سے رہا ہوکر چنیوٹ پہنچے تو خونی رشتہ داروں بالخصوص ماں اور باپ کی طرف سے جذباتی منظر دیکھنے میں آئے ۔ تین بیٹوں ‘دو بہوؤں اور ان کے بچوں کا غم والد کی صحت پر بہت اثرانداز ہوا انہوں نے ایک آہ بھرکر کہا خدا کا شکر ہے کہ میں نے اپنے بچوں کی شکل دیکھ لی ۔ پھر چند ماہ بعد ہی والد صاحب خالق حقیقی سے جاملے ۔ پاکستان آنے کے بعد کاروبار کے لیے میں نے کراچی کا رخ کیا جہاں خاندان کے باقی افراد بھی پہلے سے کاروبار کررہے تھے اس لیے وہاں ایڈجسٹ کرنے میں زیادہ مشکل نہ ہوئی ۔ اسی دوران ماں بھی دنیا سے چل بسی ۔جن کی رحلت کے بعد لاہور ہی ہمارا انتخاب تھا ۔ جہاں اب بھی کاروبار کیاجارہا ہے ۔

چنیوٹ میں والد صاحب نے 1953ء میں ایک ڈسپنسری قائم کی تھی جو اب 120 بستروں کا مکمل ہسپتال بن چکا ہے ۔ علاج معالجے کی تمام سہولتیں وہاں میسر ہیں ۔ ہزاروں غریب وہاں سے مفت علاج کی سہولتوں سے استفادہ کررہے ہیں ۔ میں انجمن حمایت اسلام کا ممبر اور فنڈنگ کمیٹی کا چیرمین ہوں ۔حجاز ہسپتال کی ایگزیکٹو کمیٹی اور فونٹین ہاؤس کا ممبر ہوں ۔ جناح ہسپتال اور علامہ اقبال میڈیکل کالج بورڈ آف مینجمنٹ کا چیئر مین ہوں ۔ اﷲ تعالی نے مجھے دو بیٹوں کی دولت سے بھی نواز رکھاہے جن کا نام منصور اقبال اور حسن اقبال ہے ۔ جن کی تربیت میں نے اسی انداز سے کی جس طرح والدین نے میری تربیت کی تھی ۔ دونوں گرایجویٹ ہیں اور چھوٹا بیٹا حسن اقبال انگلینڈ سے لیدر ٹیکنالوجی کی ڈگری حاصل کرکے کاروبار میں میرا ہاتھ بٹا رہاہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663108 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.