ایک خواب ایک حقیقت

ہم دنیا داری میں ایسے گُم ہیں کہ امتحان کے دن کی کوئی فکر ہی نہیں ہے لکن ایک دین آنا ہے جس دن ہم آخرت کے کمرا امتحان میں ہوں گے اِسے پہلے ہم کو ئس دن کی تیاری کرنی چاہے

سورج آگ برسا رہا تھا زمین سورج کی تپش سے تانبے کی طرح چمک رہی تھی ہر کوئی اپنے پسینے میں ڈوب رہا تھا۔پیاس کی شدت سے لوگ کسی صحرا کے پیاسے اُونٹ کی طرح تڑپ رہے تھے۔ کسی کو سکول کالج جانے کی فکر نہ تھی۔ماں جس بیٹے کے لیے پوری رات جاگتی تھی آج اِس سے نظریں چُرا رہی تھی۔بھائی بھائی کی بات سننے کو تیار نہ تھا۔ساری عُمر ساتھ گزارنے والے دوست ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ امیر، غریب،ڈاکٹر،انجییئر،صدر،وزیر،میں کوئی فرق نہ تھا سب ایک ہی میدان میں کھڑےتھے۔کسی خوف سے دل پھٹ رہے تھے،آج کوئی فکر نہ تھا صرف ایک فکر کے سِواکہ آج میرا کیا ہو گا۔میں یہ سارا ماجرہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔میری حالت بھی اِن سے کچھ مختلف نہ تھی۔میری آنکھیں کسی مسیحا کی تلاش میں تھیں،مگر آج تو سب لوگوں کو کسی مسیحا کی تلاش تھی۔ایک ایک پل صدیوں کی طرح گزر رہا تھا،لوگ موت کی حسرت کر رہے تھے،کہیں دُور سے آواز ارہی تھی۔ہائے اس سے تو قبر کا گڑا اچھا تھا مجھے خیال ہی نہ تھا کہ یہ دن بھی آئے گا میں نے کچھ نہ کمایا آج کے دن کیلے ۔ہر طرف سے ایسی ہی آوازیں اپنے دُکھ کی داستان سُنا رہی تھی۔ میرا دل بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے کو تھا کہ میں نے بھی زندگی غفلت میں گزار دی۔ اب ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے اِس بات سے سب بے خبر تھےکہ اچانک سے ایک آواز سُنائی دی کوئی پکارنے والا کہہ رہا تھا ۔اے میدان محشر کے باشندوں رستہ چھوڑ کر ادب سے کھڑے ہوجا ؤ کہ کچھ جانور جنت کے مسافر بن رہے ہیں۔ میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی کہ آج جانور جنت کے مسافر بن رہے ہیں اور میں انسان کتنا بدبخت ہوں جس نے اِس دن کی تیاری نہ کی۔میں اِسی سوچ میں تھا کہ ایک پُکارنے والا اِن خوش قسمت جانوروں کے نام پکارنے لگا۔حضرت موسی علیہ السلام کا بچھڑا جو اللہ کی راہ مین ذبح کیا گیا تھا آج جنت کا مسافر بنتا ہے۔حضرت یونس علیہ السلام کی ہوت(مچھلی) جس کےپیٹ میں یونس علیہ السلام کئی سال رہے وہ جنت کی نہروں کی مالک بن رہی ہے۔القِبش حضرت اسمااعیل کی جگہ ذبح ہونے والا مینڈا جنت کی چراگاہوں میں سیر کرنے والا ہے۔ عزل (بچھڑا) جسے ابراہیم علیہ السلام فرشتوں کے لیے بھون کر لائے تھے وہ بھی جنت کی سیر کرے گا۔نملا ،حضرت سلیمان علیہ االسلام کے لشکر کو دیکھ کر بات کرنے والی چیونٹی بھی جنت میں جائے گی۔ ہد ہد حضرت سلیمان علیہ السلام سے گفتگو کرنے والا پرندہ آج جنت میں اُڑے گا۔صالح علیہ السلام کی اُونٹنی اور نبی اکرمﷺ کی اُونٹنی بھی جنت کی خُوشبو سے مسرت حاصل کریں گی۔حضرت اوذیر علیہ السلام کا گدھا ۔اور اصحاب کہف کا کتا بھی آج کے دن جنت کی وادیوں سے لُطف اندوز ہوں گے۔یہ منظر سب کے لیے اور بھی زیادہ تکلیف دہ تھاکہ وہ جانور تو جنت میں جارہے تھےاور جس کو اللہ نے دل و دماغ دیا نعمتیں دیں اور وہ انسان اپنی غفلتوں کی وجہ سے جہنم کا مسافر بنے۔سب لوگ حسرت بھری نگاہوں کے ساتھ اِن جانوروں کو جنت کی طرف جاتا دیکھ رہے تھے۔ہماری نظریں شرم سے جُکی ہوئی تھیں کہ ایک آواز ہمارے کانوں میں گونجی۔وہ ہمارے سامنے کھڑے گدھے کی آواز تھی جو کہہ رہا تھا اے انسان تو مجھے بےوقوف سمجھتا تھا نہ۔گالی بھی دینی ہوتی تھی کسی کو بے وقوف کہنا ہوتا تھا تو گدھا کہتا تھا ۔ آج یہ بےوقوف تو جا رہا ہے جنت میں تُو کہا ں کا عقل مند نکلا کہ جہنم میں۔کیا تم کو کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا کیا تیرے پاس اللہ کا قُرآن اور نبیﷺ کی حدیث نہ تھی جس پر تُو عمل کر کے آج جنت کا راہی بنتا۔یہ باتیں ہماارے دل کو خنجر کی نوک سے چیر رہی تھیں۔مگر افسوس کے سوا ہمارے پاس کچھ نہ تھا۔اِسی درد میں ہم خود کو کوس رہے تھے۔کہ اصحابِ کہف کا کتا ہمارے سامنے آ کھڑا ہوا، اور کہنے لگا ۔اے اِنسان تُو مجھے ذِلت کی نظر سے دیکھتا تھا ، نہ اور میرا نام تو گالی تھا ،نہ۔اور میری حالت تو یہ تھی نہ کہ تم مجھے خشک روٹی کا ٹکڑا کھلاتے تھےمگر میں تیرا در، نہ چھوڑتا تھا۔اور تم کو جو پروردگار روز اتنی نعمتیں کھلاتا تھا۔تمہیں اِس کا در کبھی یاد نہیں آتا تھا۔میں ایک روٹی کی خاطر تمہارے گھر کا ساری رات جاگ کر پہرہ دیتا تھا۔اور تم اپنے رب کی اتنی نعمتیں کھانے کے باوجود اس کے ہاں رات دو نوافل ادا نہیں کر سکتے تھے۔کاش تم اُس وقت غفلت کی نیند سے جاگ جاتے تو آج کے دن کامیابی سے ہمکنار ہوتے۔وہ جنت کی طرف رواں تھا اور ہم حسرت سے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے اور اپنے انجام کا سوچ رہے تھے ۔خوف کی شدت سے جان نکل رہی تھی کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی میرے دل کی دھڑکن بجلی کی رفتار سے چل رہی تھی میں پسینے سے شرابور تھا اور اِس بات پر اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ یہ ایک خواب تھااور ایک ایسا خواب تھا جس نے مجھے خوابِ غفلت سے جگا دیا تھا دوستو: اِس سے پہلے کہ وہ وقت آئے کہ سوائے حسرت کے ہمارے پاس کچھ نہ ہو ہمیں چاہیے کہ اِس حقیقت کو سمجھیں اور اس دن کی تیاری کریں ۔ایسا نہ ہو کہ زندگی کے آخری دنوں میں ہمارے پاس اِس حسرت کے سِوا کچھ نہ ہو، کہ
ہم نہ ہو سکے ۔خدا کے ندیم
زندگی پھر کیا سے کیا ہو گئی

Muhammad Nadeem
About the Author: Muhammad Nadeem Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.