مولانا منظور احمد مینگل کی آج کل ایک ویڈیو وائرل ہو رہی
ہےجس میں انہوں نے درس قرآن کے دوران کچھ ایسی باتیں کہیں جن پر کافی شور
ہو رہا ہے ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ مولانا مینگل نے ہاسٹلز میں رہائش پذیر
قوم کی بیٹیوں پر بہتان لگایا ہے تو دوسری طرف مولانا مینگل کی باتوں کا
دفاع کیا جا رہا ہے۔
مولانا مینگل ایک خاص مکتب فکر میں کافی معروف ہیں ان کی تقریروں اور دروس
کو بڑے شوق سے سنا جاتا ہے چند دن پہلے انہوں نے قرآن مجید کی ایک آیت کی
تفسیر بیان کرتے ہوئے کچھ باتیں کیں ان کا کہنا تھا کہ مدارس کے لڑکے غیر
فطری طریقے سے اپنی جنسی خواہشات پوری کرتے ہیں تو ہاسٹلز میں رہنے والی
لڑکیاں بھی اس حوالے سے پیچھے نہیں ہیں وہ بھی اپنی فطری جنسی ضرورت کو
پورا کرنے کے لئے غیر فطری راستہ اپناتی ہیں۔
جوان بچے اور بچیوں کے جنسی مسائل کے حوالے سے بات کرنا کوئی جرم نہیں ہے
اور اکثرو بیشتر اس حوالے سے مختلف فورمز پر گفتگو ہوتی بھی رہتی ہے لیکن
مولانا منظور مینگل نے اس موضوع پر جس انداز سے گفتگو کی ہے وہ واقعی قابل
مذمت ہے ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مولانا صاحب کے آگے قرآن رکھا ہوا
ہے جس کی ایک آیت پڑھ کر انہوں نے بعض علما کا نام لے کر جنسی حوالے سے ان
کے مضبوط ہونے کے قصے سنانے شروع کر دیئے یہی نہیں بلکہ اس کے بعد کہا کہ
میں کسی مدرسہ کے واش روم میں جاتا ہوں تو وہاں پر ایسی چیزیں موجود ہوتی
ہیں جن کا استعال غیر فطری طریقے سے جنسی خواہش پورا کرنے کے لئے کیا گیا
ہوتا ہے۔مولانا یہ باتیں اتنے مزے لے کر کرتے ہیں گویا یہ درس قرآن کی نہیں
بلکہ جنسی تعلیم کی کوئی کلاس ہو مولانا صاحب کی ایسی گفتگو پر سامنے بیٹھے
دینی طلبہ بھی قہقہے بلند کرتے ہیں مخالطین کا شوق و جذبہ دیکھتے ہوئے
مولانا صاحب اپنے علم کے خزانے کے دروازے کھولتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تعلیم
کی غرض سے ہاسٹلز میں رہنے والی لڑکیاں اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے
لئے ایک سبزی کا استعمال کرتی ہیں۔
جس پر کلاس روم میں ایک بار پھر قہقے بلند ہوتے ہیں خود مولانا صاحب بھی
ِغیر معمولی حد تک محظوظ ہوتے ہوئے سبزی کا نام لے کر اس کو اپنے نام مینگل
کا ہم وزن قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ لڑکیاں اپنی جنسی خواہش کو پورا
کرنے کے لئے( ۔۔۔) بر وزن "مینگل" استعمال کرتی ہیں جس پر خود مولاناصاحب
اور ان کے شاگرد ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔
اس ذھنی عیاشی کا مزا دوبالا کرنے کے لئے مولانا صاحب ایک بار پھر سبزی کو
اپنے نام کا ہم وزن قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سبزی کےاتنا ظلم ہوتا ہے
کہ یہ سبزی بھی اللہ سے کہتی ہو گی کہ اے اللہ تم نے مجھے کس مقصد کےلئے
بنایا تھا جبکہ دیکھ آج لڑکیاں مجھے کس مقصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔
اس کے بعد مولانا صاحب قہقہوں کے ساتھ دوبارہ قرآن مجید کی ایک اور آیت
پڑھتے ہیں اور دوبارہ تفسیر کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ گو کہ اس ویڈیو کے
منظر عام پر آنے کے بعد بڑے پیمانے پر رد عمل سامنے آیا جس میں لوگوں کا
کہنا تھا کہ کیا مولانا صاحب یا کوئی بھی ان کا حامی ایسی گفتگو اپنی ماں
بہن بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر سکتا ہے۔؟
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے لوگوں نے بھی مولانا
مینگل کی باتوں پر سخت رد عمل کا اظہار کیا جو میرے نزدیک نہ ہونے کے برابر
ہے اس لئے کہ پاکستان کی ایک بڑی تعداد کا واسطہ مولانا مینگل جیسے نام
نہاد علما سے پڑتا ہے میری پریشانی یہ ہے کہ جو مولانا اپنے درس اخلاق میں
اخلاق سے گری ہوئی اتنی گفتگو کرتا ہے وہ اپنی نجی محفلوں میں کیا کیا گل
کھلاتا ہوگا۔ اور آپ ان بچے بچیوں کی بے بسی دیکھیں جو مولانا منظور مینگل
جیسے لوگوں کے زیر تربیت ہوتے ہیں ایسے نام نہاد علما کی تربیت کا نتیجہ
دینی مدارس میں معصوم بچے بچیوں کے ساتھ ریپ کی صورت میں نکلتا ہے۔
اس صورت حال میں تعلیمی میدان میں کام کرنے والے ایک ایک فرد سے میری گزارش
ہے کہ خدارا مولانا مینگل جیسے لوگوں کا راستہ روکنے کے لئے اپنا اپنا
کردار ادا کریں۔
|