انسان کا نفس ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے, اسی لیے
انسانی نفس کے تزکیہ واصلاح کا کام بھی آنسان کے ہی سپرد کیا گیا ہے اور
اسی پر انسانی فلاح کا دارومدار قائم ہے. یہ مضمون آپ کو محاسبہ نفس کی
دعوت غور ؤ فکر کے ساتھ انشاءاللہ دے گا کیونکہ اصلاح معاشرہ'' اسلام کا
اولین مقصد وہدف ہے.
وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا
تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ
وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ}
بے حیائی ظاہری ہو یا باطنی اس کے قریب بھی مت جاؤ، اور اللہ کی طرف سے
حرام کردہ جان کو ناحق قتل مت کرو، اسی کی تمہیں اللہ تعالی وصیت کرتا ہے،
تا کہ تم عقل کرو۔[الأنعام : 151]
لغوی اعتبار سے بھی محاسبہ: ''حساب وکتاب '' کرنے کو ہی کہتے ہیں ، محاسبۂ
نفس یعنی نفس کی ہی حساب رسی کرنا۔ اسی معنی کی وضاحت میں مرحوم علامہ
نراقی فرماتے ہیں:''انسان اپنے نفس کا حساب و کتاب کرنے کے لئے روز وشب میں
سے کسی ایک وقت کا تعین کرے کہ آج کتنے اعمال انجام دیئے ہیںاور اپنی
فرمانبرداری اور نا فرمانی کا موازنہ کرے، اگر اس دن خدا کی نا فرمانی کی
یا معصیت کا مرتکب ہوا ہو تو چاہیئے کہ اپنے نفس کی ملامت کرے اور اگر
واجبات انجام دیئے ہوں یامعصیت کا مرتکب نہ ہوا ہو تو خدا کا شکر بجا لائے
نیز اگر مستحبات پر عمل کیا ہے تو مزید شکر بجا لائے''۔
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ
وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا}
جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اسکی پیچھے مت چلو ، اور وہ
خواہش پرست بن چکا ہے، اور اسکا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے[الكهف : 28]
امام خمینی ؒنے اس تعریف کے علاوہ مزید اضافہ کیا ہے کہ اگر وہ معصیت کا
مرتکب ہوا ہو تو چاہیئے کہ وہ اپنے نفس کو سر زنش کرے اور آئندہ گناہ نہ
کرنے کا مصمم ارادہ بھی کرے.
آنحضرت ﷺنے فرمایا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں ۔جس شخص نے رمضان کے
روزے ایمان کی حالت میں رکھے اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے
گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ رمضان کی
کیا کیا فضیلتیں ہیں تو تم ضرور اس بات کے خواہش مند ہوتے کہ سارا سال ہی
رمضان ہو۔تو یہاں دو شرطیں بیان کی گئی ہیں ۔ پہلی یہ کہ ایمان کی حالت اور
دوسری ہے محاسبۂ نفس ۔اب روزوں میں ہر شخص کو اپنے نفس کا محاسبہ کرتے
رہنا چاہئے ،دیکھتے رہنا چاہیے کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں میَں جائزہ
لوں کہ میرے میں کیا کیا برائیاں ہیں؟ ان کا جائزہ لوں ،ان میں سے کون کون
سی برائیاں ہیں جو میں آسانی سے چھوڑ سکتا ہوں ان کو چھوڑ وں ۔
{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ
مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا
تَعْمَلُونَ } (الحشر 19)
اے وہ لوگوجو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر
رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے اور اللہ کا تقوی اختیار کرو ۔
یقیناََاللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَ ۃ َ ؓیَبْلُغُ ِبہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَاناً
وَّاِحْتِسَاباًغُفِرَلَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَنْ قَامَ
لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَاناً وَّاِحْتِسَابًاغُفِرَلَہٗ مَاتَقَدَّمَ
مِنْ ذَنْبِہٖ
(ابو داؤد کتاب شھر رمضان باب فی قیام شھرِرمضان ،حدیث نمبر:1369)
حضرت ابو ہریر ہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺنے فرمایا کہ جس نے رمضان کے
روزے ایمان کی حالت میں اور اجر کی توقع سے رکھے ، اسے اس کے رمضان سے پہلے
کئے گئے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جو لیلتہ القدر کی شب عبادت کے قیام کی
غرض سے اور اجر کی توقع سے کھڑا ہوا اُسے اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں
گے۔
عَنْ شَدَّادِبِنْ اَوْسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ قَالَ اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ
الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مِنْ اتَّبَعَ نَفْسَہٗ وَ ھَوَا ھَا وَتَمَنَّی
عَلَی اللّٰہِ … وَیُرْوَی عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ قَالَ
حَاسِبُوْااَنْفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوا وَ تَزَیِّنُوْالِلْعَرْضِ
الَْاَکْبَرِ وَ اِنَّمَا یَخِفُّ الْحِسَابُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ عَلٰی
مَنْ حَاسَبَ نَفْسہٗ فِی الدُّنْیَا وَیُرْوَی عَنْ مَیْمُوْنِ بْنِ
مِھْرَانَ قَالَ لَایَکُوْنُ الْعَبْدُ تَقِیاًّحَتَّی یُحَاسِبُ نَفْسَہٗ
کَمَا یُحَاسِبُ شَرِیْکَہٗ مِنْ اَیْنَ مَطْعَمُہٗ وَمَلْبَسُہٗ
(ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع،باب نمبر 25حدیث نمبر:2459)
حضرت شدّادبن اوسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
جو شخص اپنا محاسبۂ نفس دنیا میں کرتا ہے اور موت کے بعد کی زندگی کے لئے
نیک اعمال بجا لاتا ہے اسے کَیّس کہتے ہیں۔اور جو شخص اپنی نفسانی خواہشات
کی اتباع کرتا ہے اور اللہ تعالی سے نیک تمناّ رکھتا ہے اسے عاجز کہتے
ہیں…اور حضرت عمر ؓبن خطاب سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اپنا محاسبٔہ
نفس کروقبل اس کے کہ تمہارامحاسبہ کیا جائے اور بڑی پیشی کے لئے (یعنی اللہ
تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے) زینت اختیار کرو اور جو شخص دنیا میں
اپنا محاسبہ کرتا رہے گا قیامت کے روز اس کا ہلکا پھلکا حساب لیا جائے
گا…اور میمون بن مہر ان کا قول ہے کہ انسان کو اس وقت تک عبد نہیں کہہ سکتے
جب تک کہ اپنا محاسبہ نفس نہ کرے جس طرح وہ اپنے شریک کار کا محاسبہ کرتا
ہے…کہ کھانا کہاں سے کھاتا ہے اور لباس کہاں سے لیتا ہے ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نَوَّرَ اللّٰہُ مَرْقَدَہٗ فرماتے ہیں:
’’ بجائے اس کے کہ انسان سال کے بعد اپنے اعمال کا محاسبہ کرے یا چھ ماہ یا
چار ماہ یا ایک ماہ بعد ۔ اس طرح کرے کہ قرآن کریم کے اوامر اور نواہی پر
نشان لگالے اور پھر عہد کرے کہ روزانہ ایک دو تین یا جتنے رکوع پڑھ سکے
پڑھا کرے اور پڑھتے وقت اس بات کی احتیاط رکھے کہ طوطے کی طرح نہ پڑھے
۔بلکہ اوامر اور نواہی پر غور کرے اور روزانہ پڑھتے وقت جس حکم کا ذکر آوے
اس پرسوچے کہ کیامیں یہ کام کرتا ہوں۔ اور جس نہی کا ذکر آوے اس پر غور
کرے کہ کیا میَں اس سے باز رہتا ہوں ۔اس طرح بآسانی محاسبہ ہو جائے گا۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي
الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ
يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ
إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا
وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا
تَفْعَلُونَ{
اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم
دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی
تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو
پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ
تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91]
اللہ کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا
کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور
اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
مؤمن شخص محاسبہ نفس اور نگرانی جاری رکھتے ہوئے اچھی حالت پر نفس کو قائم
رکھتا ہے، تو وہ اپنے افعال کا محاسبہ کرتے ہوئے عبادات اور اطاعت گزاری
کامل ترین شکل میں بجا لاتا ہے، تقوی الہی اختیار کرو، اللہ کے پسندیدہ
اعمال کے ذریعے قرب الہی تلاش کرو، غضبِ الہی کا موجب بننے والے اعمال سے
دور رہو ، متقی کامیاب و کامران، اور خواہشات کے پیرو کار نامراد ہونگے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10) كِرَامًا كَاتِبِينَ (11)
يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ }
اور بیشک تم پر محافظ مقرر ہیں [10]وہ معزز لکھنے والے ہیں[11] اور جو بھی
تم کرتے ہو اسے جانتے ہیں [الانفطار : 10 - 12]
{مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ}
جب بھی کوئی لفظ اس کی زبان سے نکلتا ہے اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر
باش نگراں موجود ہوتا ہے [ق : 18]
تمام تر تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہی مالک کائنات ھے جو توبہ قبول کرتا ہے،
اور گناہوں کو مٹاتا ہے، اسکی رحمت و علم ہر چیز پر حاوی ہے، اپنے فضل سے
نیکیاں زیادہ فرما دیتا ہے، اور نیک لوگوں کے درجات بلند فرماتا ہے، اور
میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا ہے
، آسمان و زمین میں کوئی بھی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی، اور میں یہ بھی
گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے
بندے ، اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی نے ذاتی مدد اور معجزات کے ذریعے آپ
صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تائید فرمائی، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول
محمد ، آپکی اولاد اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے صحابہ کرام پر اپنی
رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما.
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ}
بیشک اللہ تعالی فساد یوں کے کام نہیں سنوارتا ۔[يونس : 81]
{إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ}
بیشک تمہارا رب گھات میں ہے۔ [الفجر : 14]
اس قسم کے لوگ یہ یاد نہیں کرتے کہ ایک دن انہیں اللہ رب العالمین کے سامنے
کھڑا کیا جائے گا، کیا وہ اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرتے؟ !کیا وہ اپنی عقل
سے سوچتے نہیں ؟!
{رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا
مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ}
اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ مت کرنا، اور ہمیں
اپنی طرف سے رحمت عطا فرما، بیشک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔[آل عمران : 8]
}إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا{
یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی
ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]،
حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں
ایک علاقے کے گورنر تھے اسوقت امیر المومنین شہر کی جامعہ مسجد میں جاتے
اور عام لوگوں سے گورنر کی بابت پوچھتے کے لوگوں تمھیں گورنر سے کوئ شکایت
تو نہیں
جب حضرت عمر فاروق نے حضرت سعید بن عامر کی بابت لوگوں سے پوچھا کہ گورنر
سے کوئ شکایت تو نہیں تو لوگوں نے جواب دیا چار شکایتیں ھیں تو حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ نے گورنر کو بلایا اور فرمایا چار شکایتیں ھیں لوگوں کو
آپ سے پہلی یہ کہ آپ لوگوں سے فجر کے وقت نہیں ملتے اشراق کے وقت ملتے ھیں
حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میری بیوی جسنے تیس سال
میری خدمت کی اب بیماری کی وجہ سے معذور ھو گئی ھے میں صبح نماز پڑھ کر
اپنی بیوی کو ناشتہ بنا کر دیتا ھوں اسکے کپڑے دھوتا ھوں اسکا پاخانہ صاف
کرتا ھوں اسلیے دیر ھو جاتی ھے لوگوں سے ملنے میں ابھی جب لوگوں نے پہلی
شکایت کا جواب سنا تو انکے رونگٹے کھڑے ھوگۓ
دوسری شکایت یہ ھے کہ آپ ھفتے میں ایک دن ملتے نہیں لوگوں سے
سعید بن عامر بولے میں اسکا جواب ہرگز نہ دیتا اگر پوچھنے والے آپ نہ ھوتے
بہرحال بتا دیتا ھوں میں گورنر ضرور ھوں لیکن بہت غریب ھوں میرے پاس یہی
ایک جوڑا کپڑوں کا ھے جسے میں ھفتے میں ایک دن دھوتا ھوں پھر سوکھنے تک میں
اپنی بیوی کے کپڑے پہنتا ھوں اسلیے لوگوں کے سامنے نہیں آتا اس دن یہ سنکر
عمر فاروق رونے لگے اور سعید بن عامر کے بھی آنسو جاری ھو گئے
تیسری شکایت یہ کہ آپ رات کو ملتے نہیں
سعید بن عامر رضی اللہ عنہ بولے دن سارا مخلوق کی خدمت کرتا ھوں میری داڑھی
سفید ھو چکی ھے مطلب کہ کسی وقت بھی مالک کا بلاوا آسکتا ھے اسلیے پوری رات
اس رب زوالجلال کی عبادت کرتا ھوں کہیں دن حشر کو رسوا نہ ھو جاؤں
چوتھی شکایت ان لوگوں کی یہ ھے کہ آپ بے ھوش کیوں ھو جاتے ھیں
سعید بن عامر رضی اللہ عنہ بولے میں چالیس سال کی عمر میں مسلمان ھوا ان
چالیس سالوں کے گناہ یاد کر کے روتا ھوں کیا پتا میرے مالک مجھے بخشے گا
بھی یا نہیں بس خشیت الہی سے میں بے ھوش ھو جاتا ھوں اے عمر رضی اللہ عنہ
ان شکایتوں کے نتیجے میں جو میری سزا بنتی ھے دے دو
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ھاتھ اٹھے اور رب سے التجا کی یا اللہ اسطرح کے
کچھ اور گورنر مجھے عطا کیے جائیں مجھے ان پر فخر ھے
انسان کی فلاح و بہبود اپنے نفس کو قابو رکھنے میں ہے، چنانچہ محاسبہ نفس،
اور ہر قول و فعل پر مشتمل چھوٹے بڑے کام میں مکمل نگرانی ضروری ہے، لہذا
جس شخص نے محاسبہ نفس، اور اپنے قول و فعل پر رضائے الہی کے مطابق مکمل
قابو رکھا ، تو وہ بڑی کامیابی پا گیا،
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى[40]
فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى}
اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اور نفس کو خواہشات سے
روکا [40] تو بیشک جنت ہی اسکا ٹھکانہ ہوگی[النازعات : 40-41]
{وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ}
اور اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرنے والے کیلئے دو جنتیں ہیں۔[الرحمن :
46]
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا
قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا
تَعْمَلُونَ}
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل
کیلئے کیا بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ تعالی تمہارے عملوں کے
بارے میں خبر رکھنے والا ہے۔ [الحشر : 18]
{إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ
تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ}
بیشک متقی لوگوں کو جب شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ لاحق ہوتا ہے تو اللہ کو
یاد کرتے ہیں، پھر وہ حقیقت سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔ [الأعراف : 201]
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ}
اور میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی
[القيامہ : 2]
{وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ
اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ}
اور جو لوگ ہمارے لئے کوشش کرتے ہیں، ہم انہیں اپنے راستے کی طرف ضرور
رہنمائی کرتے ہیں، اور بیشک اللہ تعالی احسان کرنے والوں کے ساتھ
ہے۔[العنكبوت : 69]
{وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ
عَنِ الْعَالَمِينَ}
اور جو شخص کوشش کرتا ہے بیشک وہ اپنے لئے ہی کوشش کرتا ہے، بیشک اللہ
تعالی تمام جہانوں سے غنی ہے۔ [العنكبوت : 6]
{إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ
مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ[2] أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ }
بیشک ہم نے آپکی طرف حق کیساتھ کتاب نازل کی ہے، چنانچہ صرف ایک اللہ کی
اخلاص کیساتھ عبادت کریں، [2] خبردار! خالص عبادت صرف اللہ کیلئے ہی
ہے۔[الزمر : 2-3]
سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میں نے اپنی نیت سے زیادہ کسی کا علاج
نہیں کیا، کیونکہ یہ پل میں بدل جاتی ہے"فضل بن زیاد کہتے ہیں: "میں نے عمل
میں نیت کے بارے میں امام احمد سے پوچھا: "نیت کیسے ہوتی ہے؟" تو انہوں نے
کہا: "عمل کرتے ہوئے اپنے نفس کا علاج کرے، کہ عمل سے لوگوں کی خوشنودی
مراد نہ ہو
مفسرین کا کہنا ہے کہ : اللہ تعالی نے ایسے نفس کی قسم اٹھائی ہے جو واجبات
میں کمی اور کچھ حرام کاموں کے ارتکاب پر بھی اپنے آپ کو اتنا ملامت کرتا
ہے کہ نفس سیدھا ہو جاتا ہے۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اللہ تعالی اور روزِ آخرت پر
ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، یا پھر خاموش رہے) بخاری و
مسلماور شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: (عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے، اور موت کے بعد کیلئے تیاری
کرے، اور عاجز وہ شخص ہے جو نفسانی خواہشات کے پیچھے لگا رہے اور اللہ سے
امید لگا کر بیٹھے)یہ حدیث حسن ہے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "محاسبہ شروع ہونے سے پہلے اپنا محاسبہ
کر لو، اپنے نفس کا وزن کر لو اس سے پہلے کہ اسکا وزن کیا جائے، اور بڑی
پیشی کیلئے تیاری کرو"میمون بن مہران رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کنجوس شراکت دار
سے بھی زیادہ سخت محاسبہ متقی افراد اپنے نفس کا کرتے ہیں"ابن مسعود رضی
اللہ عنہ کہتے ہیں: "مؤمن اپنے گناہوں کو پہاڑ کی چوٹی پر سمجھتا ہے، اور
اندیشہ رکھتا ہے کہ وہ اس پر آ گریں گے، جبکہ فاجر اپنے گناہوں کو مکھی کی
طرح سمجھتا ہے، جو اس کی ناک پر بیٹھے تو ایسے اڑا دے، یعنی: ہاتھ کے اشارے
سے" بخاری |