خواب کی باتیں

میں رات میں دیر سے سونے کا عادی ہوں، یہ بیماری مجھے برس ہا برس سے لاحق ہے، اس سے نقصان تو کچھ نہیں ہوا البتہ فوائد بے شمار ہوئے ان میں سے ایک یہ کہ میں لکھنے پڑھنے کا عادی ہوگیا، میرے دامن میں متعدد تصانیف و تالیفات ،بے شمار مضامین وکالم میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ میں نے جس قدر بھی لکھا پڑھا وہ رات میں ہی ہوا، لکھاری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ لکھنے کے لیے سُکوُن اور خاموشی کی ضرورت ہوتی ہے، رات کا وقت اس مقصدکے لیے بہترین وقت ہوتا ہے۔ خواب ایک حقیقت ہے۔ خواب سچے بھی ہوتے ہیں اور غیر معمولی بھی۔ ایسے بھی کہ جن پر یقین نہیں کیا جاسکتا لیکن خواب کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ معمول کے مطابق رات کا کھانا سب کے ہمراہ کھایا، بیٹا ، بہو اور پوتے صاحب اوپر سونے چلے گئے ، ہم نے بھی لائٹ بند کی سونے کی کیفیت طاری کر لی،کچھ دیر بیگم نے ادھر ادھر کی باتیں بنائیں چند ہی لمحات میں خرانٹوں نے پیغام دیا کہ کام ہوچکا اب اپنا کام جاری رکھا جاسکتاہے۔ ہم حسب عادت اپنے آرام دہ بستر سے آہٹ کیے بغیر اٹھے اور اپنی کمپیوٹر والی نشست پر براجمان ہوگئے ، رات کا سنناٹا تھا، خاموشی چھائی ہوئی تھی، آج لکھنے کو کچھ تھا نہیں ، اپناکالم صبح ہی بھیج چکا تھا، نئے عنوان کے لیے سوچ کا دھارا ادھر ادھر بھٹک رہا تھا، سیاسی حالات بہت ہی گرما گرم چل رہے تھے ، عدالتوں نے میاں نواز شریف کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا، ایک کے بعد ایک ناہلی ہورہی تھی، عدالتی نا اہلی نے میاں صاحب کے ہوش گم کیے ہوئے تھے۔ مجھے کیوں نکالا کی سدائیں ،ووٹ کو عزت دو، خلائی مخلوق وغیر قسم کے بیانیوں میں بے بسی، مایوسی دیکھائی دے رہی تھی ، کالم نگاروں کے لیے آجکل موضوع کی کمی نہ تھی، نواز شریف کے بیانات کو بھی موضوع بنایا جاسکتا ہے، عمران خان تو مجسم موضوع ہیں، شیخ رشید اپنی جگہ دلچسپ انسان ہیں، غرض موضوعات کی کمی نہیں تھی لیکن آج کچھ طبیعت اچاٹ سی تھی، خاموشی سے خوف آرہا تھا،خوف کی اس کیفیت میں نگاہ اپنی دوستوں پر پڑی جو الماری میں قطار در قطار میری جانب پٹر پٹر دیکھے جارہی تھیں، کبھی کوئی میری جانب بڑھتی کبھی کوئی ، اس وقت مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا چنانچہ میں نے اپنی تمام دوست کتابوں سے معزرت چاہی اور پھر کمپیوٹر میں انٹر نیٹ کھول لیا، فیس بک پر موجود کچھ باتیں سرسری انداز میں پڑھیں اور تصاویر دیکھتا رہا ، تیزی تیزی سے پوسٹوں کو دوڑا رہا تھا، اپنی ٹائم لائن دیکھی ، خیال آیا کہ میں نے کیا کچھ اس پر ایسا چھوڑا جو میرے بعد کسی کے کچھ کام آسکے، اس سے پہلے کبھی میں نے اس طرح نہیں سوچا تھا ، نہ معلوم آج مجھے یہ احساس ہوا اپنی ٹائم لائن کا پوسٹ مارٹم کیا جائے ، کام کی چیز رہنے دی جائے اور فضول باتوں کو ڈیلیٹ کردیا جائے۔ اپنے اس عمل پر مجھے یکا یک خیال آیا کہ ہوسکتا ہے کہ آج آخری بار میں اپنی فیس بک کو دیکھ رہا ہوں ، اس کے بعد اسے کوئی دیکھ تو سکتا ہے لیکن یہ اسی جگہ رک جائے گی، جیسے میرے دوست عبد الصمد انصاری ، سید محمد انور اور میرے چچا مغیث صمدانی کی فیس بک جامد ہوگئی ہیں، موجود تو ہیں ان میں اضافہ کرنے والا اب اضافہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ، وہ سوچتا ہوگا کہ دیکھو یہ ہے دنیا ، وہاں سے چلے آنے کے بعد سب اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ کبھی خیال آگیا تو دو لفظ مغفرت کے کہہ دیے اور بس، میں فیس بک دیکھتے دیکھتے اپنے احباب کے بارے میں سوچنے لگا جو کچھ عرصہ قبل ہی دنیا چھوڑ کر دوسری دنیا میں جا آباد ہوئے۔ پھر خیال آیا کہ صرف وہی تو نہیں بے شمار لوگ دنیا کو خیر باد کہہ چکے ان میں میرے عزیز ترین لوگ بھی تو ہیں، میری ماں ،میرے باپ، ننھی بیٹی ’سحر‘، پوتا’راحم اور سبحان‘، بے شمار احباب دنیا سے جاچکے، سوچ کا دھارا دنیا سے چلے جانے والوں کی جانب ہوگیا۔اسی سوچ میں ذہن تھک گیا اور میں نے کمپیوٹر بند کیا ، خاموش فضاء موبائل کی روشنی کے سہارے میں اپنے بستر پر جا لیٹا۔ وقت دیکھا تو صبح کے تین بج رہے تھے۔لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی اور میں خوابوں کی دنیا میں جا پہنچا ۔

دیکھتا کیا ہوں کہ رات اپنا سفر اختتام کر کے جاچکی ہے ، دن نکل آیاتھا، سورج نے اپنی تپش سے روشنی پھیلا دی تھی، شہناز (میری شریک حیات) حسب معمول فجر کی نماز کے بعد قرآن کی تلاوت اور دیگردعائیں پڑھ کر واپس کمرہ میں اس خیال سے آتی ہیں کہ وہ کچھ دیر سو کر پھر اٹھیں گی۔ بیٹا ، بہو بیٹے ارسل کو اسکول چھوڑ کر اپنے اپنے اسپتال جاچکے تھے۔ ان کا یہی معمول ہے کہ ارسل کو اسکول ڈراپ کرتے ہیں پھر نبیل ثمرہ کو اسپتال ڈراپ کرکے اپنے اسپتال چلے جاتے ہیں۔بستر پر لیٹتے لیٹتے شہناز کی نظر مجھ پر پڑتی ہے ، وہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ میرے جسم کی کیفیت وہ نہیں جو سوئے ہوئے انسان کی ہوتی ہے، کمرے میں باہر کی روشنی آرہی تھی لیکن زیادہ روشن نہیں تھا ، انہوں نے میرے ہاتھ کو چھواتو ہاتھ کو غیر معمولی ٹھنڈا پایا، تشویش میں اضافہ ہوا، فوری لائٹ جلائی، میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر اٹھایا تو وہ بے دم ہوکر نیچے آگیا، میرے سینے پر کبھی ادھر کبھی ادھر ہاتھ رکھ کر مجھے جگانے کے لیے آوازیں دیں ، پر کوئی جواب نہیں تھا۔ اس لیے کہ مجھے اس دنیا سے گئے کوئی دو گھنٹے ہوچکے تھے۔ گھر میں وہ اکیلی تھیں ، ان کی سوچوں میں یہ نہیں تھا کہ میں اس دنیا سے جاچکا ہوں، ان کا خیال تھا کہ میں بے ہوش ہوگیا ہوں چنانچہ نبیل کو فون کیا، نبیل اپنے اسپتال جو کافی دور ہے پہنچ چکے تھے، اس نے واپسی کا سفر باندھا ، آتے آتے ثمرہ کو بھی اس کے اسپتال سے لے لیا۔ اتنے میں شہناز میرے چھوٹے بھائی ندیم کے گھر گئیں اور اسے بلالائیں اس نے بھی میرے دل کی دھڑکن محسوس کرنے کی ناکام کوشش کی ، کبھی ایک ہاتھ کبھی دوسرے ہاتھ کی نبض ٹٹولتا رہا، دل کی دھڑکن کو محسوس کرتا رہا، کچھ نہ سوجھا تو میرے سینے پر اچھل کود شروع کردی، کہ شاید میرا دل پھر سے چلنا شروع کردے ،آخر چہرے سے مایوسی کا اظہار ہونا شروع ہوگیا، آنکھوں میں پانی چھلک آیا، دوسری جانب شہناز بھی پریشان و افسر دہ، آنسوجاری، نبیل جلدی آجاؤ ، نبیل جلدی آجاؤ ان کی زبان پر تھا۔ ندیم نے میرے دوسرے دو بھائیوں پرویز اور تسلیم کو بھی خبر کردی ، تما م لوگ دوڑے چلے آئے۔ کھیل ختم ہوچکا تھا۔ سب ہی غم زدہ تھے۔ اپنے اپنے اسٹائل سے مجھے یاد کر رہے تھے۔اتنے میں بیٹا نبیل اور بہو ڈاکٹر ثمراگھر پہنچ گئے۔ ایک ڈاکٹر دائیں دوسرا ڈاکٹر بائیں ، ایک دل کی دھڑکن دوسرا بلڈ پریشر دیکھ رہا تھا ،دونوں کے چہرے پر ایک رنگ آرہا ایک جارہا، بیٹے اور بہو اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ میں اب اس دنیا میں نہیں پر انہوں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے ایمبولینس بلوائی اور کئی لوگوں نے میرے مردہ جسم کو ایمبولیس میں ڈال دیا، کچھ دیر میں ہم کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز(KHID)پہنچ گئے، وہاں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے اس لیے کہ دونوں یعنی بیٹا اور بہو اسی اسپتال میں جاب کرتے ہیں ، سب ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے خوب آو بھگت کی پر بیٹے اور بہو کو مایوس ہونا پڑا، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے دوسری ایمبولیس میں گھر واپسی ہوئی ، اس دوران گھر پر اطلاع ہوچکی تھی کہ ہم اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ جب ایمبولیس گھر پہنچی تو ایک جمع غفیر تھا، کچھ آنسوں بہارہے تھے، کچھ کی آنکھوں میں نمی تھی، کچھ رونے کی کیفیت طاری کرنے کی کوشش میں تھے، کچھ لوگ ہمارے چلے جانے کی دہائی دے رہے تھے، ایک ایک کر کے سب لوگ ہمارے بیٹے کو گلے لگا کر صبر کی تلقین کرتے، خواتین نے باری باری ہماری بیگم کو گلے لگایا لیکن جوں ہی کوئی گلے لگاتاان پر بے حوشی طاری ہوجاتی ۔ شہناز بہت جلد بے حوش ہوجاتی ہیں۔ اب کیا ہوسکتا تھا، کچھ دیر میں سب نارمل ہوگئے، باہر ٹینٹ لگا دیا گیا، کرسیاں سجادی گئیں، لوگ آنا شروع ہوگئے اور ہماری شان میں قصیدے پڑھے جانے لگے۔کوئی کہتا بڑے اچھے انسان تھے، اللہ مغفرت کرے، سیلف میڈ تھے، اپنے بچوں کو پیروں پر کھڑا کر گئے، نیک آدمی تھے، لکھنا پڑھنا ہی کیا زندگی بھر، بہت لکھا پڑھا، بہت سوشل تھے، کئی انجمنوں سے وابستہ رہے، بے شمار شاگرد چھوڑ گئے،
آخری وقت تک پڑھاتے ،پڑھنااور لکھتے لکھاتے رہے وغیروغیرہ، شارق کیفی کا یہ شعر ہماری نمائندگی کررہا تھا ؂
موت نے ساری رات ہماری نبض ٹٹولی
ایسا مرنے کا ماحول بنا یا ہم نے

اب ہماری تدفین کی باتیں شروع ہوئیں۔ ہمارے تینوں بھائی اور بیٹا سر جوڑ کر بیٹھ گئے، پرویز گویا ہوئے نبیل تم نے عدیل کو اطلاع کردی ؟ عدیل ہمارا بڑا بیٹا ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ جدہ میں مقیم ہے۔ جواب ملا جی کردی، اور فاھینہ کو جرمنی میں اطلاع کردی۔ (فاھینہ ہماری اکلوتی بیٹی ہے جو جرمنی میں رہتی ہے) ان کا کیا پروگرام ہے۔ نبیل نے کہا کہ عدیل بھائی نے کہا ہے کہ ابھی بتا تا ہوں البتہ عاصم اورفاھینہ کا آنا مشکل ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں عدیل نے سعودی عرب سے چھوٹے بھائی کو فون کیا، ہاں بنیل میں نے سیٹ کرالی ہے رات تک پہنچ جاؤنگا۔ گویا اب ہماری تدفین آج کی تاریخ میں ممکن نہیں تھی بلکہ اب کل پر بات چلی گئی۔ کچھ دیر میں ہمارے بھتیجوں اور بھانجوں نے خاموشی سے کہا’ کہاں پر تدفین ہوگی‘، تینوں بھائیوں اور نبیل گویا ہوئے، اگر یٰسین آباد کے قبرستان میں امی پاپا کے پاس ہوجائے تو اچھا ہے۔ ہم نے جب یہ سر گوشی سنی تو ہم خوش ہوگئے کہ چلو اپنے امی ابا کے آس پاس ہی رہیں گے۔ اب مرحلہ رات گزارنے کا تھا۔ ہمارا اپنا گھر ہمارے لیے پرایا ہوچکا تھا، بے روح جسم کو ایک رات کا ٹھکانا بھی میسر نہیں تھا، کیسا نظام ہے اللہ کا، ہر ایک یہاں بے بس اور مجبور ہوجاتا ہے۔ کون چاہتا ہے کہ وہ ایسا کرے لیکن نظام قدرت کے ہاتھوں بے بس و مجبور، حکم خدا وندی ہے کہ جو ں ہی روح پرواز کرجائے جسد خاکی اس مٹی کی امانت ہوجاتا ہے ،امانت کو جلد از جلد امانت دار کے سپرد کر دیا جائے۔ ایسی صورت میں جب بے جسم کو ایک یا چند دن دنیا میں گزارنا پڑ جائیں تو وہ بے روح جسم کو گھر میں نہیں رکھا جاسکتا ۔ تدفین تک بے روح جسم سرد خانے میں رکھ دیا جاتا ہے۔اب ہمیں بھی رات گزارنے ایدھی سرد خانے جانا تھا ، مجبوری تھی، بعد مغرب ایمبولینس منگوائی گئی اور ہمارے جسد خاکی کو ایمبولیس میں لٹا دیا گیا ، بھائی، بیٹا ، بھانجے ، بھتیجے،چند دیگر احباب ہمیں ایدھی سرد خانے پہنچانے ساتھ ہولیے۔یہ ہم سے محبت کا اظہار تھا، لیجئے ہماری منزل ایدھی سرد خانہ آن پہنچی، کاروائی ہوئی اور ہم ایدھی کے سرد خانے میں ایک شیلف پر لٹادیے گئے۔ ہم نے تمام عمر کتابوں کو شیلف میں سجایا تھا، سلیقے سے رکھا تھا، ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہم بھی ایک دن کتابوں کی مانند شیلف میں سجادئے جائیں گے۔ عزیز و اقارب ہمیں ایدھی سرد خانے چھوڑ کر واپس
ہوئے۔
خزاں کی دُھوپ سے شکوہ فضول ہے محسنؔ
میں یوں بھی پھول تھا، آخر مجھے بکھرنا تھا

ایدھی سرد خانہ میں مجھے اندر چھوڑ کر جوں ہی میرے احباب باہر گئے ، سرد خانے کا دروازہ بندہوا بہت سی نظریں میرا تعقب کرتی دکھائی دیں۔ میں بھی یہاں کے مکینوں کو ایک ایک کر کے دیکھے جارہا تھا، شاید کوئی شناسا نظرآجائے لیکن کوئی چہرہ ایسا نہیں دکھائی دیا۔ انہی لمحات میں ایک عمررسیدہ بزرگ میرے نذدیک آئے ، گویا ہوئے کہ جناب آپ کا قیام یہاں کب تک ہے؟ میں نے کہا کہ بس رات میں بیٹا جدہ سے آجائے گا صبح کسی بھی وقت رخصت ہوجاؤنگا۔ میں نے جواب میں پوچھا آپ کب سے یہاں ہیں اور کب تک ہوں گے۔ کہنے لگے بھئی ہماری مت پوچھو ، ہم پنجاب سے آئے تھے روزی کمانے، بس یہیں کے ہورہے، مڑ کر واپس گھر کی جانب نہیں دیکھا ، عمر بڑھتی رہی اور ہم اپنی یاد داشت کھوتے رہے، نہ گھر کا معلوم، نہ بیوی کا ، نہ بچوں کا، انہوں نے بھی ہمیں ڈھونڈنے کی زحمت نہیں کی، ایک دن راہ چلتے گرپڑے اور یہاں پہنچادئے گئے، ہم تو لاوارثوں میں ہیں ، سنا ہے کہ ایدھی والے لاوارثوں کے ورثہ کا کچھ دن انتظار کرتے ہیں ، جب کوئی نہیں ملتا تو قانونی کاروائی کے بعد خود ہی مٹی کے سپرد کردیتے ہیں۔ ان کا اپنا ایک الگ قبرستان ہے ، جہاں باقاعدہ نشانی لگادیتے ہیں کہ یہ قبر کس کی ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ وہ اس قبرستان میں مردوں کو امانتاً دفن کرتے ہیں۔ ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ ایک کم عمر بچہ میرے نذدیک آیا اور کہنے لگا انکل میں اپنے امی ابا کے پاس جانا چاہتا ہوں ، مجھے کوئی اٹھا کر لے گیا تھا، پھر نہیں معلوم میںیہاں کیسے آگیا۔ میں نے اسے تسلی دی کہ بیٹا تم اپنے امی اور ابا سے ضرور ملوگے دیکھو میں بھی تو اپنے امی اورابا سے ملنے ہی تو جارہا ہوں۔ وہ بچہ گردن ہلاتا اپنی جگہ جا لیٹا۔ ایک بڑی عمر کی خاتون پٹر پٹر مجھے دیکھے جارہی تھیں، محسوس ہوا کہ جیسے پہنچاننے کی کوشش میں ہیں۔ میں خود ان کے پاس جا بیٹھا، اتنے میں دروازے پر آہٹ ہوئی اور دروازہ کھلا ، میں پھرتی سے اپنی جگہ جا لیٹا، معلوم ہوا کہ ایدھی کے خدمات گار ایک نئے مسافر کو یہاں چھوڑنے آئے ہیں۔ یہ زخموں سے چور اور لہو لہان تھا، ابھی اسے غسل اور کفن نہیں دیا گیا تھا، اس کی یہ حالت جب ہم سب نے دیکھی تو سب ہی اس کے پاس دوڑے چلے آئے اور اس سے دریافت کیا کہ اس کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا اس نے کہا کہ وہ موٹر سائیکل پر اپنے گھر جارہا تھا ایک تیز رفتار ٹرالر نے اسے موٹر سائیکل سمیت کچل دیااور اس نے موقع پر ہی دم توڑدیا۔ پولیس کو میرے گھر والوں کی تلاش ہے ۔ افسوس کرتے اور اسے تسلی دیتے ہم سب اپنی اپنی جگہ جا لیٹے۔بزرگ خاتون کی نظریں میرا پھر تعقب کرنے لگیں۔ محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہیں، میں پھر ان کے نذدیک گیا، سلام کیا، پوچھا آپ یہاں کیسے اور کب سے ہو، آہ بھر کر کہنے لگیں کیا بتاؤں مجھے تم اپنے بیٹے جیسے لگ رہے ہو، اس لیے تمہیں تکے جارہی تھی۔ میں نے کہا کہ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھو، کیا ہوا تمہارے بیٹے کو ، اسے معلوم ہے کہ تم یہاں ہو۔کہنے لگی بیٹا ، میرا بیٹا پیسے والا ہے، پڑھا لکھا ہے، گھر بار سب کچھ ہے، اللہ نے اسے بہت پیسہ بھی دیا پر اسے بیوی اچھی نہیں ملی، اسے نہیں معلوم مجھ سے کیا بیر ہوگیا، بس مجھے اپنے بیٹے کے گھر میں دیکھنا نہیں چاہتی تھی، بیٹا بھی اس کے سامنے مجبور اوربے بس ہوگیا، میں نے عافیت اسی میں جانی کے اپنے بیٹے کی خاطر ان کی زندگی سے دور چلی جاؤں، میں پشاور سے دور ایک گاؤں میں رہتی تھی ایک دن رات کی تاریکی میں گھر سے نکل پڑی، کسی نے کچھ دے دیا کھا لیا، نہیں ملا بھوکی رہی، سفر کرتی رہی،کسی نے ریل گاڑی میں بیٹھا دیا اور میں کراچی پہنچ گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے بیٹے نے مجھے ڈونڈا یا نہیں ، میں نے کراچی میں محنت مزدوری کی، لوگوں کے گھروں میں کام کیا، اپنی زندگی گزارتی رہی، آخر کب تک میرے ہاتھ پیر میرا ساتھ دیتے، جن لوگوں کے گھروں میں کام کیا کرتی تھی انہوں نے بھی سہارا دینے سے انکار کردیا ، مجبور ہوکر ایک درخت کے سایہ میں زندگی گزارنے لگی، لوگ کچھ کھانے کو دے جاتے کھا لیتی، بس اسی جگہ ایک دن موت کا فرشتہ آیا اور میں یہاں آگئی۔ اب ایدھی والے مجھے کب قبر کے سپرد کرتے ہیں نہیں معلوم۔ رات کب میں گزرگئی معلوم بھی نہ ہوسکا ، ہم نے باری باری سرد خانے کے عارضی مکینوں سے الوداعی ملاقات کی اور انہیں خدا حافظ کہا۔
ادھر میں ایدھی سرد خانے میں اپنے جیسوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھا،دوسری جانب میرے بارے میں تعزیتی پیغامات سوشل میڈیا پر چلنا شروع ہوگئے تھے۔ میری موت کی تصدیق کے لیے فون کا تانتا بندھا ہوا تھا،احباب افسو س کرنے کے ساتھ تدفین کا وقت دریافت کر رہے تھے، میں سوشل میڈیا میں بہت مصروف رہتا تھا۔ میرے مضامین اور کالم ہماری ویب، دانش کے علاوہ متعدد ویب سائٹس پر شائع ہوتے تھے ، فیس بک پر میرے دوستوں کی تعدادچار ہزار پر پہنچ رہی تھی، میسنجر، واٹس اپ، انسٹا گرام، لنکڈ ان کا استعمال میرے معمولات میں تھا۔بے شمار علمی و ادبی اور سیاسی گروپس کا میں ممبر تھا، کئی ویب سائٹس کا ایڈمن بھی ۔ جس نے بھی میرے انتقال کی خبر سنی یا پڑھی تعزیتی پیغام دے دیا، فیس بک فرینڈز میں میرے دوست اور شاگردوں کی تعدا زیادہ تھی۔ گھڑی نے 11بجائے تو ہم نے تیاری شروع کردی، اب ہم تیار تھے اگلی منزل پر روانہ ہونے کے لیے ۔ ہمارے گھر افسوس کے لیے آنے والے تعزیت کرکے جاچکے تھے چند قریبی لوگ کبھی سوتے کبھی جاگتے ، صبح ہوئی ہمارے بیٹے صاحب اپنے بچوں کے ہمراہ گھر پہنچے ، جس پر ایک مرتبہ پھر کہرام کی کیفیت طاری ہوئی لیکن میرے دونوں بچوں کو اللہ نے بہت ہمت اور صبر عطا کیا ، وہ سب کو صبر کی تلقین کرتے رہے اور خود بھی صابر رہے۔ ظہر کی نماز سے قبل ہمیں واپس گھر لایا گیا، سب نے ہمارا چہرہ دیکھا ، اب ہماری کیفیت بدلنا شروع ہوگی تھی، یہ تو روح کی کرشمہ سازی ہے کہ انسان خوب سے خوب نظر آتا ہے،روح کے رخصت ہوتے ہی جسم اپنی سابقہ کیفیت میں جانا شروع کردیتا ہے، یعنی انسان مٹی سے بنا، روح کے پرواز کرتے ہی مٹی کی جانب اس کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ ہم شہر خموشاں پہنچ چکے تھے، لحد ہماری امی اور ابا کے پہلومیں تھی، ہمارے لیے یہ بات اطمینان بخش تھی۔ ہم دل ہی دل میں خوش ہورہے تھے کہ چلو ہماری دلی خواہش تو پورہوئی۔ہمارے دونوں بیٹوں اور بھائیوں نے ہمیں لحد میں اتارا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قبر کے اوپر کا پتھر بھی رکھ دیا گیا اور احباب آخری رسم ادا کرنے لگے یعنی مٹی بھر مٹی کا نذرانہ ہمیں پیش کیا جارہا تھا۔ ہم سب کا شکریہ ادا کررہے تھے۔ ہم نے اپنی زندگی میں ایک نظم میں ان احباب کا شکریہ ادا کردیا تھا ۔ شاید کسی نے پڑھا ہو ، ہم نے بہ آواز بلند سب کا شکریہ ادا کیا، کسی نے ہمیں دیکھا نہ ہی ہمارا شکریہ سنا پر ہم نے اپنا فرض پورا کیا۔
مرَقدَتک میرے ساتھ آنے والو تمہارا شکریہ
میری خاطر زحمت اٹھا نے والو تمہارا شکریہ
ہے اب جوسفر باقی کرلیں گے وہ تنہا ہی ہم
حوصلہ بڑھا کرلحد تک پہنچانے والو تمہار ا شکریہ
اگلا پَڑاؤ ہے کٹھن اوررستہ بھی ہے اڑچن اڑچن
مغفرت کی دعا دینے والو تمہارا شکریہ
بنا تھا جس خاک سے ر ئیسؔ آپہنچی ہے منزل پہ وہ
مٹھی بھر خاک نجھاور کرنے والو تمہارا شکریہ

قبر کی سختی کا خوف، منکر نکیر کے سوالوں کا ڈر ہمارا تعاقب کر رہا تھا اسی لمحے ہمیں مفتی محمد عاشق الہٰی بلند شہری کی کتاب میں درج ایک حدیث کا خیال آیا جس میں کہا گیا کہ قبر کا مؤمن کا دبانا ایسا ہوتا ہے جیسے ماں بیٹے کا سر دباتی ہے۔ یہ حدیث کتاب کے صفحہ 31پر درج ہے اور شرح الصدور کے حوالے سے نقل کی گئی ہے ’حضرت سعید بن مسیبؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حضورِ اقدس ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ! جب سے آپ نے منکر نکیر کی (ہیبت ناک) آوازوں اور قبر کے بھیچنے کا ذکر فرمایا ہے اس وقت سے مجھے کسی چیز سے تسلی نہیں ہوتی(اور دل کی پریشانی دور نہیں ہوتی)۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عائشہؓ ! منکر نکیر کی آواز مؤمن کے کانوں میں ایسی ہوگی جیسے (ایک سُریلی آواز کانوں میں بھلی معلوم ہوتی ہے جیسے) آنکھوں میں سُرما لگانے سے آنکھوں کو لذت محسوس ہوتی ہے اور مؤمن کو قبر کا دبانا ایسا ہوتا ہے جیسے کسی کے سر میں درد ہو اور اس کی شفقت والی ماں آہستہ آہستہ اپنے بیٹے کا سر دباتی ہے۔ اور وہ اس سے آرام و راحت پاتا ہے اور (یاد رکھو) اے عائشہ ! اللہ کے بارے میں شک کرنے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے اور قبر میں اس طرح بھینچے جائیں گے جیسے انڈے پر پتھر رکھ کر دبا دیا جائے‘۔ اس حدیث مبارکہ کو یاد کر کے ہمیں اطمینان ہوااور ہم تیار ہوگئے اللہ کے فرشتوں کا انتظار کر نے لگے۔ اس لمحے ہمیں اپنے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی نعت کا ایک شعر یاد آگیا، یہ نعت ان کے دیوان ’’دیوانِ آزاد‘‘ میں موجود ہے۔
منکر نکیر آئے تو مولا بھی آگئے
کس کو رہا تھا ہوش سوال و جواب کا

جوں ہی لحد کے ارد گرد سناٹا ہوا،ہمیں کچھ آہٹ سی محسوس ہوئی، ساتھ ہی کچھ روشنی بھی دکھائی دی، محسوس ہوا جیسے کوئی میرے نذد یک آرہا ہے۔ سمجھ گیا کہ آگئے اپنا کام کرنے منکر و نکیر، جن کی دھوم دنیا میں خوب سنی تھی، سوال و جواب کیے جائیں گے۔ یہی ہوا، ایک نے کہا کہ میں منکر ہوں دوسرا بوالا میں نکیر ہوں، ایک دائیں اور دوسرابائیں تھا دونوں نے ہمیں لیٹے سے بٹھادیا۔ دونوں کے سامنے کچھ کاغذات یا کتابیں سی رکھی تھیں جو ہمارے دائیں جانب تھا اس کے سامنے کتابوں کا اونچا سا ڈھیر تھا اور جو ہمارے بائیں ہاتھ بیٹھا تھا اس کے سامنے چند کاغذ رکھے تھے۔ ہمیں لگا یہ ہمارے وہ اعمال ہیں جوبائیں جانب کے فرشتے نے نوٹ کیے اور جوتعداد میں کم تھے وہ دائیں جانب والے فرشتے نے جمع کیے وہ زیادہ ہیں ۔ گویا ہمارا اعمال نامہ اچھائی والا اور تعداد میں زیادہ تھا۔ اب منکر بولا ! آواز میں پیار تھا، مِٹھا س تھا، حلاوت تھی ،خوش گلو پن تھا، اپنائیت تھی، نرمی تھی، ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کوئی ہمارا ہمدرد، بہی خواہ، ہمارا اپنا ہم سے مخاطب ہے۔ پوچھا تیرا رب کون ہے؟ جواب میں عرض کیا ’میرا رب اللہ تعالیٰ ہے’، دوسرا سوال کیا گیا کہ ’تیرا مذہب (دین) کیا ہے؟، ہم نے جواب دیا ’میرا دین اسلام ہے‘، پھر نکیر نے سوال کیا کہ تیرا نبی کون ہے؟ ہم نے برجستہ جواب دیا ’میرے نبی حضرت محمد ﷺ ہیں‘۔منکر و نکیر کے بارے میں ایک تحریر میں نے یہ بھی پڑھی تھی کہ’ جب دفن کرنے والے دفن کر کے وہاں سے چلے جائیں گے، وہاں کے جوتوں کی آواز سنے گا ۔ اس وقت اس کے پاس ہیبت ناک صورت والے منکر و نکیر نامی دو فرشتے اپنے دانتوں سے زمین چیر تے ہوئے آئیں گے اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں مردے سے سوال کریں گے ‘۔لیکن میرے ساتھ تو ایسا نہیں ہوا دونوں فرشتے منکر بھی اور نکیر بھی بالکل مختلف ،نرم مزاج، شگفتہ گفتگو، پیار و محبت سے سوال پوچھنا، مجھے تو دانتوں سے زمین کو چیرتے فرشتے کہیں نظر نہیں آئے۔ اس مرحلے کے بعدہم سرخ رو ہوئے، منکر نکیر بولے چلو اب وہاں جانا ہے جہاں دیگر لوگ موجود ہیں یعنی برزخ میں۔ اب تمہیں وہیں رہنا ہوگا، وہ آگے ہم پیچھے پیچھے، اب ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ وہی فرشتے منکرو نکیر ہیں یا کوئی اور بس ہمیں ان کی پیروی میں چلتے رہنا تھا، نہ وہ میری جانب منہ کر رہے تھے کہ میں یہ دیکھ پاتا کہ یہ کون ہیں، بس اس قدر محسوس ہورہا تھا کوئی شبیہ یا سایہ ہے جو میرے آگے آگے چل رہا ہے۔صحرا، بیابان، ریگزار ،میدان ، ریت کا ٹھاٹھے مارتا سمندر دکھائی دے رہا تھا۔ ابھی تو صورت حال کچھ ایسی تھی کہ نہ بندہ نہ بشر، نہ انسان، نا حیوان ، نہ چرند نہ پرند، لیکن اس سنناٹے میں خوف نہیں تھا، ڈر نہیں تھا،سفر تھا ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا،اُس وقت جب ہم اللہ کی کسی مخلوق کے پیچھے چل رہے تھے تو ہم نے پیچھے مڑ کر تو نہیں دیکھا لیکن ایسا احساس ضرور ہوا کہ جیسے ہم ہی نہیں چل رہے بلکہ ایک قطار ہے ، اس میں بے شمار مرد ، خواتین اور بچے بھی ہمارے ساتھ رخت سفر ہیں۔ سب ہماری طرح خاموشی سے چلے جارہے تھے ، ہمیں چلنے سے قبل ہی خاموش رہنے کو کہہ دیا گیا تھا کہ ہم نے کوئی سوال نہیں کرنا بس اپنے سے آگے جو ہوں ان کی پیروی کرنا ہے ۔ چلتے چلتے ایک مقام ایسا آیا جہاں محسوس ہوا کہ اب ایک سرحد ختم ہوئی اور دوسری سرحد شروع ہورہی ہے، ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ، بھینی بھینی خوشبو کا احساس، بدلا بدلا موسم، آسمان پر ستاروں کی جھل ملاہٹ، قوس و قضا کے رنگ آب و تاب بکھیررہے تھے، کچھ آوازیں بھی محسوس ہوئیں لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا ، خاموشی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ہمیں بتا یا گیا کہ یہ’ عالم برزخ ‘ ہے۔ اب یہی ہمارا ٹھکانا ہے ، یہاں پر آئندہ کی زندگی کے فیصلے تک رہنا ہوگا اور یہ بھی بتا یا گیا کہ یہاں تم سے پہلے آنے
والے بھی ہیں اور تمہارے بعد جو دنیا سے آئیں گے وہ بھی اسی جگہ قیام کریں گے۔

عالم برزخ کا نام سن کر ہمارے بدن میں جھر جھری سے آئی، اس کے بارے میں تو ہم پڑھ چکے تھے، اس کا ذکر کلام مجید کی سورۃ المومنون کی آیت 100 میں آیا ہے ۔ اسے ’عالم قبر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ ’برزخ‘ کے معنی دو چیزوں کے درمیان حائل چیز کو کہا جاتا ہے ، گویا یہ مقام دنیا و آخرت کے درمیاں قرار پانے والی جگہ ہے۔دنیا میں رہتے ہوئے عالم برزخ کے بارے میں ہمارا یہ مطالعہ تھا کہ انسان کے مرنے سے لے کر قیامت کے دن تک اس کے اٹھنے تک کو برزخ کہا جاتا ہے، جس کا خاتما اسلام پر ہوتا ہے اسے نعمتوں سے نوازا جاتا ہے اور جس کا خاتمہ کفر پر ہوتا ہے اسے عذاب کا سامنا کرنا ہوتا ہے،عالم برزخ کے موجود ہونے پر تو کوئی بحث نہیں تھی، لیکن وہاں کی زندگی کیسی ہوگی ، اس سلسلے میں مختلف صورتیں بیان کی گئیں تھیں سب سے واضح اور روشن یہ تھی کہ انسان کی روح دنیا وی زندگی کے خاتمے کے بعد لطیف جسم میں قرار پاتی ہے اور اس مادہ کے بہت سے عوارض سے آزاد ہوجاتی ہے اور چونکہ ہمارے اس جسم کے مشابہ ہے تو اس کو’ قالب مثالی‘ یا’ بدن مثالی ‘کہاجاتا ہے، جو نہ بالکل مجرد ہے اور نہ صرف مادی، بلکہ ایک طرح سے ’تجرد برزخی‘ ہے۔ بعض عالموں اور محققین نے روح کی اس حالت کو خواب سے بھی تشبیہ دی۔ گویا ہم اس وقت اسی صورت میں عالم برزخ میں خوش و خرم تھے حالانکہ میں نے کسی کی یہ تحریر بھی پڑھی تھی کہ مسلمان کی ارواح خواہ قبر میں ہوں یا چاہ زمزم شریف میں یا آسمان و زمین کے درمیان یا آسمانوں پر یا آسمانوں سے بلند یا زیر عرش قندیلوں میں خواہ کہیں ہوں ، ان کی راہ کشادہ کردی جاتی ہے۔ جہاں چاہتی ہیں آتی جاتی ہیں، آپس میں ملتی ہیں اور اپنے اقارب کا حال ایک دوسرے سے دریافت کرتی ہیں اور جو کوئی قبر پر آئے اسے دیکھتی ،پہنچانتی اور اس کی بات سنتی ہیں ۔ لیکن دنیا کے لوگ اب انہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ بات کرسکتے ہیں۔ ہمیں یاد آیا کہ دنیا میں ہمارے ذاتی لائبریری میں ایک کتاب مفتی محمد عاشق الٰہی بُلند شہری کی بعنوان ’’مَرنے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ تھی اور ہم نے اس کا اچھی طرح مطالعہ بھی کیا تھا۔ اس میں برزخ (قبر) اہل قبر، دوزخ، قیامت ، حشر و نشر، حساب و کتاب شفاعت اور اعراف والوں کے مفصل حالات قرآن و حدیث کی روشنی میں درج کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جنت اور اہل جنت کی نعمتیں پوری تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔

ہماری سوچ کا دھارا مالکِ کائینات کی تخلیق پر تھا کہ اس نے دنیا بنائی کس قدر حسین، وہ تو ہم انسانوں نے اسے خراب کردیا، یہ درمیان کی جگہ برزخ اس سے بھی اچھی ہے اور آخرت یعنی جنت کس قدر حسین ، دلفریب اور خوبصورت ہوگی اس کا اندازہ کچھ کچھ ہوچکا تھا۔ مفتی محمد عاشق الہٰی بلند شہری نے مشکوٰۃ المصابیح کے حوالے سے حدیث شریف نقل کی ۔ حضرت ابوہریرہ روایت فرماتے ہیں حضرت محمد ﷺ نے فرمایا : جب فرشتے مؤمن کی رُوح کو لے کر (ان) مؤمنین کی ارواح کے پاس لے جاتے ہیں (جو پہلے سے جاچکے ہیں) تو وہ اس کے پہنچنے پر ایسے خوش ہوتے ہیں جیسا کہ (اس دنیا میں) تم بھی اپنے کسی غائب کے آنے پر اتنا خوش نہیں ہوتے، پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ فلاں کا کیا حال ہے، فلاں کا کیا حال ہے؟ پھر وہ (خود ہیّ پس میں ) کہتے ہیں کہ اچھا ابھی ٹھہرو، (پھر پوچھ لینا چھوڑ دو ذرا آرام کرنے دو چوں کہ دنیا کے غم میں مبتلا تھا) پھر وہ بتانے لگتا ہے کہ فلاں اس طرح ہے اور فلاں اس طرح ہے اور کسی شخص کے بارے میں کہتا ہے جو اس سے پہلے مرچکا تھا کہ وہ تو مر گیا کیا تمہارے پاس نہیں آیا؟ یہ سُن کر وہ کہتے ہیں کہ (جب وہ دُنیا سے آگیا اور ہمارے پاس نہیں آیا تو) ضرور اس کو دوزخ میں پہنچا دیا گیا ‘۔اس حدیث مبارکہ کو یاد کر کے ہم تیار ہوگئے اپنے سے پہلے یہاں پہنچ جانے والوں سے ملاقات کے لیے جو ہمارے قریبی عزیز دوست ، رشتہ دار، جاننے والے تھے ۔اب ہم آزاد تھے، جہاں چاہیں جائیں ، جس سے چاہیں ملیں، ایک نئی دنیا آباد تھی، ہم نے اپنے سے پہلے یہاں آنے والوں کی تلاش کے لیے کوشش شروع کی، ہماری اولین منزل اپنی ماں اور باپ جنہیں ہم امی اورپاپا کہا کرتے تھے، ہماری بیٹی سحر، پوتے راحم اور سبحان سے ملاقات تھی اور پھر دیگر احباب سے ملاقات ، انہیں ڈھونڈ نا تھا۔ اب ہم اس مقصد کے حصول کے لیے چل پڑے، بھوک، پیاس ،سردی ، گرمی کا احساس نہیں تھا، نہ گرمی ، نہ سردی، خوشگوار موسم، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، آسمان پر ستارے جگ مگ چمک رہے تھے، ہم اپنی دھن میں چلے جارہے تھے، محسوس یہ ہوا کہ کوئی تنہا کھڑا ہے، کوئی بیٹھا ہوا ہے، کوئی لیٹا ہے، کچھ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بھی موجود ہیں،کچھ بڑے بڑے اجتماعی صورت میں بھی نظر آرہے تھے، ہر کوئی اپنی دھن میں مگن تھا، کسی نے ہماری جانب نظر اٹھا کر نہیں دیکھا، حالانکہ ہماری خواہش تھی کہ کوئی ہم سے مخاطب ہو تو ہم اپنا مقصد اس سے بیان کریں۔ ہمیں دیکھ کر کسی نے خاص توجہ نہیں دی، اس لیے کہ یہ سلسلہ تو جاری و ساری ہے۔ ہمت کر کے ہم ایک سے مخاطب ہوئے۔ زبان اپنی ہی بولی اس نے سنی ان سنی کردی، ہم آگے بڑھ گئے، پھر کسی ایک کو اپنے جیسا محسوس کرتے ہوئے ہم اس سے مخاطب ہوئے اس سے مدعا بیان کیا کہ ہم اپنی امی اور ابا کی تلاش میں ہیں، کہاں اور کیسے مل سکتے ہیں وہ ہمیں ۔ اس نے کہا تو کچھ نہیں ہاتھ سے اشارہ کیا آگے جانے کے لیے۔ اس کے اشارے کو ہم نے اپنی منزل پالینے کی آس تصور کیا اور آگے بڑھ گئے، ابھی کچھ دور ہی چلے تھے کہ ایک آواز سنائی دی ’ارے بھئی صمدانی ادھر، ادھر، ادھر تم بھی آگئے، چلو اچھا ہوا، وہ یہ کہہ کر ہم سے بغل گیر ہوگیا، یہ میرا دوست عبد الصمدانصاری تھا، خیر خیریت پوچھتا رہا، سب کا حال معلوم کیا، ایک ایک کا نام لے کر پوچھا کہ وہ کیسا ہے وہ کیسا ہے، اپنے گھر والوں کے بارے میں پوچھا کہ وہ سب کیسے ہیں۔ ہم بہت دیر تک اس سے باتیں کرتے رہے، اس سے باتیں کرنے کے تو ہم عادی تھے ہی، ہمیں تو محسوس ہوا کہ جیسے ہم یونیورسٹی روڈ پر المصطفیٰ اسپتال کے برابر پٹھان کے ہوٹل کے باہر بیٹھے چائے بھی پی رہے ہیں اور باتیں بھی کیے جارہے ہیں۔ اسکول کے بارے میں پوچھا کہ کیسا چل رہا ہے ،کہنے لگا مجھے معلوم ہے کہ وہاں کیا ہوا، یہ تو ہونا ہی تھا، اب کون چلا رہا ہے مجھے اس کا بھی علم ہے، میں نے کہا کہ جب تمہیں علم ہے تو میں کیا بتاؤں۔بس ٹھیک ہے، جو کچھ میں کرسکتا تھا کیا، جو تم کرسکتے تھے تم نے کیا۔صمد انصاری کے مل جانے سے گویا میری جان میں جان آگئی۔ میں نے گلہ بھی کیا میرے یار کیا جلدی تھی تجھے آنے کی، ایک دم اچانک تم دنیا چھوڑ آئے ، کہنے لگا کہ بس یہ معاملہ انسان کے اختیار میں کہاں ہے، اللہ کا حکم ہوا ، ہم نے لبیک کہا۔ میں نے اس سے ملاقات کا وعدہ کیا اور اپنی منزل پر پہنچنے کا بتا یا کہنے لگا ، ضرور ملیں گے، بس چلتے چلے جاؤ۔مجھے بھی اپنے امی ، ابا اور بڑے بھائی مشکل سے ملے تھے، لیکن مل گئے تھے اب ان سے ملاقاتیں رہتی ہیں۔تم سے بھی ملتے رہیں گے۔ خدا حافظ کہا اور آگے چل دیا ۔

ابھی کچھ دور ہی چلا تھا دیکھا کہ دو اشخاص ایک جیسی قد کاٹ ، شکل صورت بھی ملتی جلتی، گندمی رنگ، لمبا قد ہماری جانب چلے آرہے ہیں ہاتھ ہلاتے ہوئے، چند قدم دور آئے تو ہم پہچانے ، یہ ہمارے سمدھی یعنی ہماری بہوڈاکٹر سمرا نبیل کے والد مسعودکمال خان اور ان کا چھوٹا بھائی ڈاکٹر مقصودتھے، مسعودصاحب نے ایک دم یہ کہتے ہوئے ارے رئیس بھائی آپ کب آئے کہہ کر گلے لگ گئے۔ ہمیں بھی خوشی ہوئی ، ڈاکٹر صاحب سے بھی بغل گیر ہوئے ، اب ہم تینوں ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے ہمارا حال پوچھا، اپنی بیٹی ثمرا کے بارے میں پوچھا ، گھر والوں کے بارے میں خیریت پوچھی، اپنے نواسے ارسل کو بہت یاد کیا، اسے یاد کر کے ان کی آنکھوں میں پانی بھر آیاپھر وہ زارو قطار رونے لگے ، ان کی آواز بھرا گئی ، کہنے لگے رئیس بھائی اب تو وہ نانا ہی نہیں بلکہ دادا سے بھی محروم ہوگیا۔ بہت یادآتا ہے۔ ان کی ان باتوں نے ہمیں بھی دل گرفتہ کردیا، ہم سے بھی آنسوں نہ روکے جاسکے۔ پھر ہم ایک دوسرے سے لپٹ گئے،بھئی کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ کی یہی مرضی ، مالک اسے خوش و خرم رکھے، اس کے والدین کا سایہ اس کے سر پر سلامت رہے۔میں نے بھی یہی کہا کہ مسعود صاحب سب سے زیادہ بچھڑنے کا غم ارسل سے ہے، بس یہ سمجھ لیں کہ میں اپنا دل وہی چھوڑ آیا ہوں۔اللہ اسے سلامت رکھے۔ پھر کہنے لگے رئیس بھائی بھاری ذمہ داری چھوڑ کر آگیا ہوں، احباب اسے نبھا رہے ہیں، میں نے کہا جی ہاں مجھے علم ہے آپ کس ذمہ داری کی بات کر رہے ہیں، انشاء اللہ آپ کی چھوٹی بیٹی جلد اپنے گھر کی ہوگی، کہنے لگے اس کے ماموں نے یہ کام کیا ، اورسچی بات یہ ہے کہ آپ کے بیٹے عدیل نے بھی اپنے ہاتھ کی تکلیف اور اس پر پلستر چھڑنے کے باوجود اس کام میں جو مثبت کردار ادا کیا وہ بھی قابل تعریف ہے۔ میں نے جواب میں کہا کہ وہ تو اسے کرنا ہی تھا، آپ کو معلوم ہے نکاح ہوچکا ہے اور رخصتی بھی طے ہوگئی ہے ، کہنے لگے جی مجھے سب علم ہے، میں تقریباً روز ہی گھر جاتا ہوں، شکر ہے سب لوگ حمت سے کام لے رہے ہیں۔ اللہ بہتر کرنے والا ہے۔ میں نے ان سے بھی اپنا مدعا بیان کیا کہ میں اپنی امی اور ابا سے ملاقات کا متمنی ہوں ، کہنے لگے ضرور رئیس بھائی ، ضرور ملیں گے، مجھے تو میری امی اور ابا مل چکے ہیں، بہن سے بھی ملاقات ہوگئی ہے۔ ماشاء اللہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ بلکہ کئی بار ان سے ملاقات ہوئی۔ آپ جائیے اپنے مشن پر پھر ملاقات ہوگی۔ میں ان سے سلام دعا کر کے آگے بڑھ نے والا ہی تھا کہ سامنے سے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ جناب مشکور احمد میرے نذدیک آئے اور ہم سے لپٹ گئے۔ کہنے لگے آپ کب آئے ، میں نے جواب دیا کہ حال ہی میں آیا ہوں۔ مسعود صاحب سے مشکور صاحب کا تعارف کرایاکہ یہ بھی میرے سمدھی ہیں، میری بیٹی فاھینہ کے سسر ہیں اور مسعود صاحب بھی میرے سمدھی ہیں ، ان کی بڑی بیٹی میری بہو ہے۔ اب ہم تینوں سمدھی آپس میں شیر و شکر ہوگئے۔میں نے ان سے یہ بھی دریافت کیا کہ میرے ایک اور سمدھی میرے بڑے بیٹے کی بہو مہوش کے والد سے کیسے ملاقات ہوسکتی ہے جب کہ نہ ان کا نام معلوم ہے نہ ہی میں ان کی شکل سے واقف ہوں۔ وہ بہت پہلے یہاں آچکے ہیں۔ مشکور صاحب نے کہا کہ فکر نہ کریں ، ان سے بھی آپ کی ملاقات ہوجائے گی،بس اپنے دل میں ان سے ملاقات کی خواہش رکھیں، میں خوش ہوگیا۔ کچھ باتیں کیں اور رخصت چاہی۔

میرے بائیں ہاتھ کئی لوگوں کا مجمع سا لگا تھا کوئی دس بارہ احباب ہوں گے۔ ان میں سے ایک شخص دوڑتا ہوا میری جانب آیا ،یہ میرا دوست سبطین رضوی تھا، گلے ملا ، کہنے لگا یار رئیس تم کب آئے میں نے کہا کہ بس یہاں تو ابھی پہنچا ، کہنے لگا کہ آؤں ہم اپنے بچپن کے دووستوں سے ملتے ہیں۔وہ مجھے اس مجمع میں لے گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں میرے پرانے محلے کے دوست موجود ہیں، منظور احمد بٹ، محمد وسیم، ربانی خان، سراج الحق، انیس فاروقی، معین فاروقی، عارف صدیقی، فیاض خان، عثمان خان اور دیگر دوست موجود تھے سب سے گلے ملا ، سب مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ منظور بٹ صاحب کا وہی انداز تھا، محبت سے ملے۔ میں نے انہیں بھی اپنی منزل پر جانے کو کہا انہوں نے مجھے خوشی خوشی رخصت کیا۔ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا، بے شمار علمی ادبی شخصیات نظر آتی گئیں ان میں احسان دانشؔ ، بیخودؔ دہلوہ، فیض احمد فیضؔ ، سلیم احمد، جمیل الدین عالیؔ ، انتظار حسین، منٹو، آفاق احمد بھوپالی، اختر جونا گڑھی، اسلم فرخی، فرمانؔ فتح پوری، انعام الحق کوثر، سید انور محمود، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، فاطمہ ثریا بجیا، ریاض انصاری جیوری، شفیع عقیل اور جمیل الدین عالیؔ شامل تھے۔ایک اورمحفل سجی تھی جس میں شاعر مشرق علامہ اقبال محفل کی صدارت فرمارہے تھے ، دیگر شعرا میں غالبؔ ، میر تقی میرؔ ، اکبر الہ آبادی، محسن کاکوروی، نظم طبا طبائی، بیخود دہلوی، سائل دہلوی، آرزو لکھنوی، سیماب اکبر آبادی، نوح ناروی، غلام بھیک نیرنگ، مولانا حسرت موھانی، سر سید احمد خان ،اصغر گونڈوی، فانی بدایونی، جگر مرادآبادی، حفیظ جالندھری، عبدالحمید عدم، جان نثار اختر، ناصر کاظمی، حبیب جالب،احمد فرازؔ ، جوش ملیح آبادی، داغ دہلوی، ابن انشاء، بہزاد لکھنوی، قتیل شفائی، رئیس امروہی، جون ایلیا، قمر جلالوی، محسن بھوپالی، ماہر القادری موجود تھے۔حیرت ہوئی جب اکثر شاعر اٹھ کر مجھ سے ملے ، حیرت مجھے ان پر ہوئی جنہوں نے مجھ سے کہا کہ تمہارا شکریہ کہ تم نے ہماری شخصیت اور شاعری پر مضمون لکھا۔ غالب ؔ گویاہوئے میاں ہمارے بغیر اردو شاعری ادھوری ہے، تم نے خوب لکھا ہم پر، حبیب جالب ؔ کے تو ہم عاشق تھے ہی ان سے مل کر دل باغ باغ ہوگیا، ناصر کاظمی بھی بڑی محبت سے ملے۔ کہنے لگے کہ آپ کو سرگودھا اور وہاں کے لوگ کیسے لگے، ہم نے کہاں سرگودھا اور وہاں کے لوگوں کی کیا بات ہے، محبت کرنے والے لوگ ہیں بیخود دہلوی نے بھی شاباش دی ، کہنے لگے اچھا لکھا تم نے، تم ہمارے شاگرد رشید شیخ محمد ابرہیم آزادؔ کے پڑ پوتے ہو ، تم میں بھی انہیں جیسی خصوصیات ہیں، میں نے قطع کلامی کرتے ہوئے پوچھا حضرت آزاد ؔ صاحب سے ملاقات کہا ہوسکتی ہیں کہنے لگے بھئی ابھی ابھی یہاں سے گئے ہیں اپنا کلام سنا کر، ان کے کوئی عزیز آئے ہیں ان سے ملاقات کرنے، ان کا زیادہ وقت یہیں گزرتا ہے ہمارے ساتھ،میں نے کہا کہ آزاد ؔ صاحب تو آپ کے شاگرد رشید تھے ، کہنے لگے ہاں ہاں بالکل بھئی بڑی محبت تھی ہم دونوں میں، اب بھی ہے، میں نے کہا کہ مجھے ان کے بارے میں آپ کے دو شعر یاد آرہے ہیں کہنے لگے سناو کیا ہیں ۔ میں نے یہ شعر سنائے ؂
یہ محدث ہیں نہ یہ مورخ ہیں..........یہ تو عشق نبی کے ہیں بیمار
ہیں یہ مداح سیرتِ بنوی................ اور مداح ان کا بیخودؔ زار

حضرت بیخودؔ دہلوی یہ شعر سن کر بہت خوش ہوئے، کہنے لگے بھئی واہ تمہارا مطالعہ اور ذوق آزادؔ کے بارے میں بہت وسیع ہے۔ میں نے کہا جی ایک تو تعلق بہت گہرا ، پھر میں نے ان پر ایک کتاب بھی مرتب کی تھی۔ اچھا اچھا یہ وجہ ہے ۔ کہنے لگے کوئی تکلیف ہو توبلا تکلف مجھ سے کہنا، اچھا پھر ملاقات ہوگی۔ اس جگہ بابائے اردو مولوی عبدالحق بھی موجود تھیہم نے پہچان لیا، ویسی ہی داڑھی، وہی شکل و صورت ، ہم نے آو دیکھا نہ تاؤ بغل گیر ہوگئے، ہم ان سے اردو کالج اور انجمن ترقی اردو کے دفتر میں ملاقات کرچکے تھے، ہمارا قیام اس زمانے میں ، لیاری ہی میں تھا۔ انہوں نے بھی محبت سے ہمیں گلے لگا لیا، کہنے لگے آ پ نے انجمن ترقی اردو کے حوالے سے کافی لکھا ہے، ہمیں معلوم ہے کہ آپ انجمن جاتے رہتے ہیں اور ہمارے کتب خانہ عام و خا ص کے بارے میں لائبریری کے احباب سے ذکر کرتے رہتے ہیں۔کتب خانے کو سب ہی اچھے منتظمین ملے لیکن اس وقت معروف اور زبیر جمیل محنت سے کتب خانے کو تریب دے رہے ہیں۔میں نے کہا جی ہاں ، بہت محنتی ہیں دونوں ،یہ میرے شاگرد ہیں۔ مولوی عبد الحق گویا ہوئے یہ کتب خانہ انجمن کے پرانے دفتر میں تھا تو ہمیں اطمینا ن تھا، تقویت رہتی تھی، پھریہ گلشن اقبال کے ایک بنگلے میں منتقل ہوگیا، بلکہ پوری انجمن ہی گلشن منتقل ہوگئی۔ لیکن اب یہ علمی و ادبی سرمایا اپنی آخری منزل پر پہنچ رہا ہے، یعنی ’ اردو باغ‘ میں، اب اس کے ذخیرے میں توسیع ضرور ہونی چاہیے، مجھے افسو س ہے کہ منتظمین نے کتب خانے کی کتابوں میں اضافے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی، بس جو کتابیں تحفہ میں آگئیں ان پر اکتفا کر لیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج اس کتب خانے کو جدید کتب سے آراستہ کہنا مشکل ہوگا، ناہی اس کتب خانے کو کمپیوٹرائز کرنے کی جانب توجہ دی گئی، اب تک تو اسے کمپیوٹرائزڈ ہوجانا چاہیے تھا۔ امید ہے اب اردو باغ میں کتب خانے پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی۔ انجمن کی ترقی میں جمیل الدین عالیؔ کے بعد ڈاکٹر فاطمہ حسن اور پروفیسر سحرؔ انصاری نے بہت محنت کی اور کر رہے ہیں۔ جمیل الدین عالی ؔ تو اب یہیں آگئے ہیں ، ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، میں نے ان سے بھی اردو باغ کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی تھی۔ انہوں نے انجمن کے لیے اپنا صحیح جانشین ڈھونڈا ہے۔فاطمہ بہت محنتی خاتون ہیں۔ انجمن ان کی زیر نگرانی ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ بابائے اردو ایک ہی سانس میں ڈھیر ساری باتیں کر گئے۔ دراصل تعلق کی بات ہے۔انجمن ان کی جان ہے، وہ اسے دل سے چاہتے ہیں، اس کے خیر خواہی کے لیے دعا کرتے ہیں۔یہ پودا انہوں نے اپنے ہاتھولگایا اور اس کی آبیاری کی۔ میں نے ان سے اجازت چاہی اور آگے بڑھ گیا۔ تابش ؔ صمدانی بھی اس محفل میں موجود تھے، یہ ہمارے والد کے چچا زاد بھائی ہیں ، ہمیں دیکھا تو دوڑے چلے آئے ارے رئیس میاں تم یہاں کب آئے، کیسے ہو، گھر کے احباب کیسے ہیں، میں نے کہا کہ سب ٹھیک ہیں۔ ملتان میں آپ کے دونوں صاحبزادوں رہبر اور سرور نے ادبی سرگرمیوں میں جان ڈالی ہوئی ہے۔ خوب شعر کہتے ہیں۔ ملتان میں بہت مقبول ہیں۔ سیاست میں بھی سرگرم ہیں۔ سرور میاں صاحب کے چاہنے والوں میں شامل ہیں، پھر وہ اور میں ایک جانب بیٹھ گئے اور خاندانی شخصیات پر خوب باتیں کیں۔ حسین صمدانی کا بھی ذکر آیا، میں نے کہا کہ ابھی چند دل قبل ان کا فون آیا تھا الحمد اللہ ٹھیک ہیں۔ ان کا انداز اور عادتیں وہی ہیں۔ کہنے لگے ارے بأی وہ آپ کے چچا مغیث صمدانی بھی کچھ عرصہ قبل آئے تھے ان سے ملاقات ہوئی ، ماشاء اللہ خو ش تھے، میں نے پوچھا کہ اب کہاں ہیں کہنے لگے انہیں اپنے داماد کی تلاش تھی، کچھ دن ہوئے وہ اس کی تلاش میں گئے ہوئے ہیں۔ البتہ انہیں وحید الرحمٰن کے والد سید امام تو مل گئے تھے۔ ملیں گے آپ سے سب لوگ ایک ایک کر کے۔ میں نے تابشؔ صمدانی سے کہا کہ میں اپنے امی ابا سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ، آپ سے پھر ملاقات کرونگا، انہوں نے مجھے اللہ حافظ کہا اوراپنے سفر پر چل دیا۔

اب جو سفر شروع ہوا کچھ ہی قدم چلا ہوں گا کھلے میدان میں کچھ لوگ موجود تھے لیکن کسی سے شناسائی نہیں تھی اس لیے میں تیزی سے آگے بڑھتا گیا۔ آگے ایک بہت بڑا اجتماع ہورہا تھا، بے شمار ہوگ سر جھکائے بیٹھے تھے، صرف ایک صاحب کھڑے ہوئے تقریر کر رہے تھے۔ میں جب نذدیک گیا تو دیکھا کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، میں نے انہیں نذدیک سے دیکھا تھا، ان کی تقریریں سنی ہوئی تھیں، اس لیے انہیں پہنچاننے میں مشکل نہیں ہوئی۔ پھر ان کی تقریر کا انداز ہی نرالا تھا۔ وہ کس موضوع پر بول رہے تھے یہ اندازہ نہ ہوسکا۔ البتہ اس اجتماع میں جو لوگ مجھے نظر آئے ان میں قاضی حسین احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، مخدوم طالب المولا، رسول بخش تالپور، پروفیسر عبد الغفور احمد، محمود اعظم فاروقی، شاہ تراب الحق، اصغر خان ، ولی خان شامل تھے۔ بعدمیں معلوم ہوا کہ بھٹو صاحب پاکستان کے سیاسی حالات پر اظہار خیال کر رہے تھے، شہید بے نظیر بھٹو، محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان ایک ساتھ تھیں ۔بھٹو صاحب نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا، نواز شریف میں صلاحیت نہیں تھی حکمران بننے کی، بس قسمت نے اس کا ساتھ دیا ، فوجی حکمراں نے اسے لیڈربنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دولت کے بل پر نواز شریف سیاست کے افق پر جمکتا رہا ہے۔ حقیقت آشکار ہوئی تو عدالتوں کے چکر لگا رہا ہے، کہتا ہے میں نظریاتی ہوں، آیا کہی کا نظریاتی، شکل دیکھی ہے اس نے اپنی، 30 سال تک نظریات کا خیال نہیں آیا، احتساب شروع ہوا، سپریم کورٹ نے نا اہل پے نا اہل قرار دیا تو اسے نظریات یاد آگئے اور ووٹ کے تقدس کا خیال آگیا۔ارے ووٹ کے تقدس کے ساتھ ساتھ ووٹر کا تقدس نہیں ہوتا، اسے تو تو تیس سال سے پامال کر رہا ہے۔ اس شخص نے جس قدر پاکستان کو نقصان پہنچایا کسی نے نہیں پہنچایا، اس کا انجام اس سے بھی برا ہوگا۔ اسے تینوں مرتبہ نکا لا گیا، الیکشن میں اس نے پنجاب کے بل پر ووٹ حاصل کیے، اور حکمرانی کی، حکمرانی کے لیے جو صلاحتیں ہونی چاہیں وہ اس میں موجود نہیں۔ عدالت نے اسے جس مقام تک پہنچا دیا ہے وہ اس سے سبق نہیں سیکھ رہا بلکہ عدالت کے سامنے سینہ زوری کر رہا ہے۔ اب اس کا مقدر جیل لگتا ہے۔ یہ جیل جائے گا، اس کی پارٹی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی۔بھٹو صاحب نے کہا کہ میں اپنے داماد کی پالیسی سے بھی خوش نہیں وہ پارٹی کو اوپر لے جانے کے بجائے تنزلی کی جانب لے گیا ہے۔ جب تک آصف پارٹی پر حکمرانی کرتا رہے گا ، پارٹی اٹھ نہیں سکے گی،البتہ بلاول میں یہ صلاحیت موجود ہے وہ پارٹی کو اوپر لے جاسکتا ہے ۔ ایک وقت پھر ایسا آئے گا کہ ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگی۔ اب اگر انتخابات ہوئے تو مرکز میں مجھے عمران کی جماعت تحریک انصاف اقتدار میں آتی نظر آرہی ہے۔سندھ میں میری جماعت ہی حکومت بنائے گی، بلوچستان میں پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف، خیبر پختونخوا میں عمران اور پنجاب میں عمران خان کسی سیاسی جماعت یا اتحا د سے مل کرحکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گا یا اسے ایسا کرنے پر مجبور کردیا جائے گا۔ اس طرح میں مرکز میں عمران خان کو مستقبل کا حکمراں بنتادیکھ رہا ہوں۔ میں نے بھٹو صاحب کی باتیں سنیں ، تو مجھے ستر اور اسی کی دہائی والا بھٹو یاد آگیا۔مختصر الفاظ میں بھٹو صاحب نے پاکستان کی سیاست کاتجزیہ کرکے کمال ہی کردیا اور آیندہ کی حکومت کی پیشنگوئی بھی کر ڈالی۔بھٹو کی کیا بات ہے ، میں نے تو بھٹو کو بہت قریب سے دیکھا ، اس کی تقریریں سنی، البتہ میں پیپلز پارٹی کا حامی اُس وقت بھی نہیں تھا ، بس بھٹو کا سیاسی انداز پسند تھا۔میں گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد سے ریٹائر ہوا تھا، جب ہم اسٹاف روم میں ہوا کرتے تو کبھی کوئی سابقہ دور طالب علم آجاتا تو وہ بتا یا کرتا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے تانے بانے اسی کالج کے اسٹاف روم میں بنے گئے۔ بھٹو صاحب یہاں آیا کرتے تھے ان کے ساتھ دیگر کے علاوہ معروج محمد خان بھی ہوا کرتے تھے۔ میں اپنی منزل کی جانب چل پڑا۔ ابھی کچھ دور ہی چلا ہوں گا کہ سامنے سے حکیم محمد سعید اپنے منفرد انداز ، منفرد لباس ذیب تن کیے ہلکی مسکراہٹ لیے چلے آرہے تھے، ان کے ایک جانب پروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری اور دوسری جانب ، محمود احمد برکاتی تھے۔ میرے لیے یہ لمحہ انتہائی خوشی گوار تھا، تینوں سے میرا تعلق رہا تھا، حکیم صاحب قبلہ سے کئی بار ملاقاتیں اور پھرپروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری صاحب کا میرے پی ایچ ڈی میں سپروائیزر ہونا، مشکلات کا پیش آنا سب کچھ یاد آگیا، پی ایچ ڈی کے حوالے سے محمود احمد برکاتی صاحب سے بھی کئی ملاقاتیں کیں تھیں۔ تینوں بڑی محبت سے ملے۔ پروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری نے حکیم صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے میری جانب اشارہ کیا کہنے لگے حکیم صاحب یہ ہیں صمدانی صاحب جنہوں نے آپ کی کتاب اور کتاب خانوں سے محبت اور خدمات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا۔ یہ آپ پر پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے محقق ہیں۔ حکیم صاحب نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ شفقت سے گلے لگایا۔ برکاتی صاحب سے بھی سلام دعا ہوئی، کہنے لگے بھئی ہم کسی ضروری کام سے جارہے ہیں پھر ملاقات ہوگی۔ انہیں خدا حافظ کیا اور ہم اپنے مشن پر روانہ ہوگئے۔ایک غول مردوں کا ایسا دکھائی دیا جس میں جامعہ کراچی کے میرے اساتذہ بھی موجود تھے۔ میں سب کو ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہوا اور خوش بھی۔ کسی موضوع پر گفت وشنید ہورہی تھی۔ ان سب کو سلام کیا ہاتھ ملایا ۔ ان میں ڈاکٹر عبدالمعید، ڈاکٹر انیس خورشید، اختر صدیقی، اسرار احمد صدیقی، ڈاکٹر سید جلا ل الدین حیدر،محمد شفیع ، الطاف شوکت، پروفیسر اختر حینف، سید امتینان علی شاہ بخاری اور ماسٹر رشید، شامل تھے۔ معید صاحب نے گلے لگایا، انیس خورشید نے بھی تھپکی دی، جلال صاحب بغلگیر ہوئے، تباک سے ملے، وہی مخصوص مسکراتا چہرہ، بہت خوش ہوئے، بہت دیر باتیں کرتے رہے، کہنے لگے ارے بھئی صمد سے ملے، میں نے کہا جی ہاں یہاں قدم رکھتے ہی صمد سے ہی پہلی ملاقات ہوئی۔ بخاری صاحب بھی دیکھ کر خوش ہوئے۔ اختر حنیف نے اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ہلایا۔دیگر احباب سے بھی سرسری گفتگو ہوئی اور ہم اپنے سفر پر گامزن ہوگئے۔

میرا سفر جاری تھا اللہ کی کرشمہ سازی دیکھ کر حیران تھا ، دل میں اپنے مقصد کے حصول کی دعائیں کیے جارہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بچی جس کی عمر15 یا20 سال کی ہوگی ایک دم لپک کر میرے جانب آئی اور ابو کہہ کر مجھ سے لپٹ گئی ۔ میں سمجھ گیا کہ یہ میری بیٹی ’سحر‘ ہے، اس کی خوشبو نے مجھے تروتازہ کردیا، میں نے پیشانی کو چوما ، وہ بھی مجھے پیار کرتی رہی، عرصہ دراز کے بچھڑے باپ بیٹی کا یہ ملاپ خوشگوار و مقدس مقام پر ہورہا تھا، بہت پیاری لگ رہی تھی، آنکھوں میں آنسوں لیے ہم ایک دوسرے سے جو الگ ہوئے دو چھوٹے چھوٹے معصوم خوبصورت پھول بھی تھے۔ سحر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہاابو ہمیں معلوم ہوگیا تھا کہ آپ یہاں آگئے ہیں ہم تو آپ ہی کی تلاش میں آرہے تھے۔ پھر کہنے لگی ابو آپ نے انہیں پہچانا یہ ’سبحان ‘ ہے اور یہ ’ راحم ‘ ۔ میں نے دونوں کی جانب دیکھا مجھے دیکھ کر مسکرائے اور مجھ سے لپٹ گئے۔ میری بیٹی ’سحر‘ چالیس دن کی تھی جب اس نے دنیا چھوڑ دی تھی، سبحان اور راحم میرے پوتے ہیں۔ سبحان میرے چھوٹے بیٹے نبیل کا بیٹا اور راحم میرے بڑے بیٹے عدیل کا بیٹا ہے۔ دونوں اپنی پیدائش کے چند دن بعد ہی دنیا چھوڑ آئے تھے۔ہم تینوں ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مجھے میری منزل مل گئی۔ بیٹی دوڑی ہوئی گئی گلاس میں پانی لے آئی ،پانی کیا تھا میٹھا ، خوشبو دار، لذیز، میں نے پینے میں کچھ تردد کیا ، بیٹی نے کہا کہ ابو مجھے معلوم ہے کہ آپ کیوں ہچکچا رہے ہیں، آپ کو شوگر تھی ، دل کی تکلیف تھی ، وہ آپ سب اسی دنیا میں چھوڑ آئے ہیں ،یہاں کسی کو کوئی بیماری نہیں ، آپ بے فکر ہوکر پئیں۔ کیا ذائقہ تھا، کس قدر لذیذ، خوشبو دار،یہ عالم برزخ کا پہلا پانی تھا جو میں نے اپنی بیٹی کے ہاتھوں پیا۔ راحم اور سبحان دوڑ تے ہوئے گئے نہ معلوم کہا ں سے پلیٹ میں کچھ کھانے کے چیزیں لے آئے ، دونوں کے ہاتھوں میں ایک ایک خوبصور پلیٹ تھی، کونسا پھل ایسا تھا جو ان میں نہیں تھا، دونوں پوتوں نے مجھے زبردستی کھلایا، سحر کہنے لگی ابو نہیں معلوم آپ نے کب سے کچھ نہیں کھایا ہوگا۔ پیٹ بھر کر کھائیں۔ میں نے ایسا ہی کیا، خوب سیر ہوکر کھایا اور پانی بھی پیا۔ میں نے تینوں کو خوب جی بھر کر پیار کیا۔ سحر کہنے لگے ابو آپ امی کو اکیلا چھوڑ آئے ، اب وہ کیسے رہیں گی۔ راحم کہنے لگادادا سب لوگ کیسے ہیں میرے ابو ، میری امی ، میرے بھائی صائم اور صارم ، میری بہن حبیبہ کیسی ہے۔ وہ تو جدہ میں رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہاں بیٹا رہتے تو جدہ میں ہیں ، تم بھی تو وہیں سے یہاں آئے ہو، وہ سب ٹھیک ہیں، تمہیں بہت یاد کرتے ہیں۔ سبحان کہنے لگا دادا میرے ابو اور امی کیسی ہیں مجھے یاد کرتے ہیں یا نہیں، میرا بھائی ارسل کیسا ہے۔ اسکول جانے لگا ہے۔میں اسے اکثر دیکھنے جاتاہوں ۔ بس میں ہی اسے دیکھ سکتا ہوں لیکن وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ میں نے سب کے بارے میں بتا یا کہ سب لوگ ٹھیک ہیں تمہیں بہت یاد کرتے ہیں۔ سحر نے کہا ابو میری بہن فاھینہ اور میری بھانجی نیہا اور کشف ، میرا بھانجا ارحم کیسا ہے ۔ وہ تو آپ سے بہت دور جرمنی میں رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہاں جرمنی میں ہیں لیکن اب انٹر نیٹ کی وجہ سے دوری کوئی دوری نہیں۔ سب روز ہی بات چیت کرتے ہیں۔کہنے لگی عدیل بھائی ، بھابی مہوش کیسی ہیں، چھوٹا بھائی نبیل اور بھابی ثمرا کیسی ہیں۔ سب کے بارے میں خوب باتیں کیں۔ میں ان کے ساتھ بہت دیر بیٹھا رہا، بلکہ میرا دل نہیں کر رہا تھا ان کا ساتھ چھوڑنے کو۔ وہ خود ہی کہنے لگے داداہم اب ایک ساتھ ہی رہیں گے۔ میں نے اثبات میں سر ہلا یا ،ابھی آپ کہیں جارہے ہیں تو چلے جائیں ہم پھر ملیں گے۔ میں نے کہا کہ ہاں بیٹا جیسے تمہیں مجھ سے مل کر خوشی ہوئی اسی طرح میں بھی اپنے امی ابا سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ سحر نے کہ ابو ابھی ہم دو دن قبل ہی تو دادا اور دادی سے ملیں ہیں۔ انہیں کسی سے ملاقات کے لئے جانا تھا وہ وہاں گئے ہیں۔ آپ کو وہ مل جائیں گے، سیدھے سیدھے چلیے گا وہ مل جائیں گے آپ کو،میں نے اپنے بچوں کو خدا حافظ کہا اور اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے چل دیا۔

ابھی چند قدم ہی چلاتھا کہ دیکھا دور سے کوئی رئیس میاں ، رئیس میاں کہتے ہوئے ہاتھ ہلا رہا ہے۔ جوں ہی ہم ایک دوسرے کے آمنے سامنے پہنچے بغل گیر ہوگئے۔ یہ میرے مغیث چچا تھے، انہیں یہاں آئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہوں گے۔ کہنے لگے یار رئیس تم یہاں کب آئے ، میں نے وہی جواب دہرایا کہ بس ابھی آیا ہوں۔ آپ سنائیں کیسے ہیں ، کہنے لگے شکر ہے مالک کا، اچھا ہوں، بلکہ خوش ہوں اور تم کیسے ہو، میں نے کہا کہ ابھی غم تازہ ہے، سب لوگ بہت یاد آرہے ہیں، رفتہ رفتہ عادی ہوجاؤں گا، کہنے لگے ہاں ہاں فکر مت کرو یہاں بہت لوگ ہیں، دیکھو وہ عارف اور خالد بھی بیٹھے ہیں،عارف بھائی اٹھے اور گلے لگایا،کب آئے بھئی، سب ٹھیک ہیں، جواب میں کہا کہ اللہ کا شکر ہے ، آپ سنائیں کیسے ہیں، ٹھیک ہوں، خالد بھی گلے ملا، انعام بھائی ،سید امام بڑے تپاک سے ملے ، کہنے لگے رئیس بھائی آپ نے میرا خاکہ بہت عمدہ لکھا تھا، بہت شکریہ آپ کا، سید امام ڈا کٹر وحید الرحمٰن یاسر رضوی کے والدہیں، ان سے بہت یادیں اور باتیں وابستہ ہیں۔میں نے پوچھا وحید کہا ہے کہنے لگے ابھی کہیں کام سے گیا ہے۔ہوسکتا ہے اپنی امی کے پاس گیا ہو۔ اسرار پھوپا بھی ایک جانب بیٹھے نظر آئے، کچھ پڑھ رہے تھے، چلوچلو میں تمہیں بہت سے لوگوں سے ملواؤں۔ میں نے راستے میں سرگوشی کی کہ پہلی بیگم بھی ملیں یا نہیں ، کہنے لگے ارے بھئی سب سے پہلے تو انہوں نے ہی ہمارا استقبال کیا، بہت خوش ہیں، ان سے ملاقاتین رہتی ہیں، تم سے بھی ملوائیں گے۔وہ مجھے دائیں پہاڑ کی جانب لے گئے، پہاڑ کیا تھا خوبصورت سبز ہ ہی سبزہ ۔ اس سبزہ زار پر بہت سے احباب بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھا تو سب کھڑے ہوگئے اور باری باری مجھے گلے لگایا۔ میں جن کو پہچان سکا ان میں میرے چچا ظریف احمد ،چچا جلیس احمدتھے، باقی کو میں نہیں پہچان سکا۔ انہوں نے خود تعارف کرایا وہ سب میرے والد کے چچا، ماموں، پھوپھی اور خالاؤں کے بیٹے تھے۔ سب لوگ خوش ہوکر ملے۔ پھر وہ مجھے برابر والے حصے میں لے گئے دیکھتا ہوں کہ میری ساری پھوپیاں انیسہ پھوپی، نسیمہ ، نعیمہ، موبینہ ، تسلیمہ پھوپی موجود ہیں۔ ان سب نے جوں ہی مجھے دیکھا لپک کر مجھے گلے لگالیا، خوب پیار کیا سب نے، یہاں حامدہ پھوپھی اور ساجدہ پھوپھی بھی تھیں۔ میں نے مغیث چچا سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ پاپا اور امی اور میرے دادا اور دادی نہیں، کہنے لگے وہ آگے ملیں گے ، ہم آپس میں ملتے رہتے ہیں۔ میں بہت دیر یہاں بیٹھا سب سے باتیں کرتا رہا۔ ،مغیث چچا نے پھر کہا رئیس میاں چلو تمہیں ایک اہم شخصیت سے ملواؤں ، میں نے پوچھا کون؟ ارے چل تو سہی یار، دیکھو گے تو حیران رہ جاؤ گے۔ اچھا ایسی کون سی شخصیت ہیں وہ،کیا آپ کی پہلے بیگم ہیں کیا ، ارے نہیں بھئی چلو خود ہی دیکھ لینا۔ کچھ دور ہی چلے تھے کہ ایک سایہ بان کے نیچے چند احباب بیٹھے تھے۔ وہ ان لوگوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے آخر میں ایک صاحب کے پاس پہنچے اور ادب سے ان سے ہاتھ ملا کر میرے بارے میں بتا یا، انہوں نے میری جانب دیکھا اور مجھے اپنے پاس بلانے کا اشارہ کیا، ہم بھی احباب سے بچتے بچاتے ان کے پاس پہنچ گئے۔ بیٹھنے کا اشا رہ کیا ، بیٹھ گے، ہمارے سر پر ہاتھ رکھا، مغیث چچا نے کہا کہ یہ ہمارے مورث اعلیٰ دیوان باری بخش ہیں، میں نے جو ہی یہ سنا ان سے بغل غیر ہوگیا۔ دیوار باری بخش نے 1088ء میں اسلام قبول کیا تھا، میں اور میرے خاندان کے احباب آج اگر اس مقام پر ہیں تو اس میں جناب دیوان باری بخش ؒ کا بنیادی کردار تھا۔ انہیں دیکھ کر طبیعت باغ باغ ہوگئی۔ اب میں نے مغیث چچا سے اجازت طلب کی اور اپنا سفر جاری رکھا۔

میں تیز تیز چل رہا تھا، مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مجھے کتنا چلنا ہے اورمیری امی اور پاپا سے کب ملاقات ہوگی۔ بس ایک دھن تھی، خواہش تھی اپنی امی اور پاپا سے ملنے کی، میں چلا جارہا تھا۔ اچانک ایک شخص نے میرے دونوں کاندھے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور مجھے اپنے سینے سے لگا لیا، یہ میرے والد صاحب تھے ’’پاپا‘‘، یہ تو میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں پاپا سے مل سکوں گا۔ بس ہم دونوں روئے جارہے تھے،جیسے زبان بندہوگئی ہو۔ مجھے یوں محسو س ہوا جیسے خوشگوار ٹھنڈک میرے سینے سے پورے جسم میں سرائیت کررہی ہے۔ پاپا نے اپنے ہاتھ سے میری کمر کو اس طرہسار میں لیا کہ جیسے کوئی اپنی بچھڑی ہوئی چیز کواچانک پاکر مطمئن ہوجاتا ہے۔کوئی آدھا گھنٹہ اسی کیفیت میں گزرا، کہنے لگے تم کب آئے، میں کسی سے ملاقات کرنے آگے گیا تھا، تمہاری امی اپنے امی ، ابا اور بہن بھائیوں سے ملنے آگے گئیں ہیں۔ میرا دل گھبرارہا تھا میں نے ان سے کہا کہ تم خود ہی آجاتا ، اب جارہا ہوں اپنے بہن بھائیوں کے پاس۔ کہنے لگے مجھے معلوم تو ہے لیکن تم بتاؤ سب بچے(پرویز، تسلیم، ندیم، ناہید ،شاہین اور روحی) اور ان کے بچے کیسے ہیں۔ ٹھیک تو ہیں۔ میں نے ہر ایک کی الگ الگ تفصیل بتائی، بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے میرے سب بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہیں اب تو ان کے بچے بھی شادی شدہ ہوگئے ہیں۔ بس ہمارے لیے یہی خوشی کی بات ہے۔ کہنے لگے تم سب بھائی ایک جگہ آگئے یہ اچھا کیا، سب کو ایک دوسرے سے سہارا رہتا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے تو اپنی امی سے ملنا ہے۔ میں بہت سوں سے ملاقات کرچکا ہوں، کہنے لگے ایسا کرو کہ سیدھے جاؤ تمہیں تمہاری امی مل جائیں گی۔ میں نے کہا کہ آپ کہاں جارہے ہیں کہنے لگے میں اپنے بہن بھائیوں کے پاس جارہا ہوں ہم سب نذدیک نذدیک ہی ہوتے ہیں ۔ سب آپس میں ملتے رہے ہیں۔ تم ملے اپنی بیٹی اور پوتوں سے ؟ میں نے کہا کہ جی ان سے ملاقات ہوئی۔ اب میں ان کے ساتھ ہی رہونگا۔کہنے لگے بیٹا وہ ہمارے پاس ہی ہوتے ہیں ، ہم سب ان کا بہت خیال رکھتے ہیں، تم فکر مت کرو ، اپنی امی سے مل آؤں پھر ایک ساتھ بیٹھیں گے ، سحر، سبحان اور راحم کو بھی بلوا لیں گے۔ فکر مت کرو ہم سب ایک ساتھ ہی رہیں گے۔ جاؤ جاؤ شام ہونے سے پہلے پہلے ان سے ملاقات کر لو، ہوسکے تو انہیں اپنے ساتھ ہی لے آنا۔ میں نے پاپا کو خدا حافظ کہا اور اپنے سفر کوجاری رکھا۔ میں عجب شش و پنج میں تھا، اللہ سے دعا کہ پروردگار مجھے سب ہی مل گئے، میں جس سے ملنا چاہتا ہوں ، اس سے ملنے میں اب کتنا وقت اور لگے گا۔ کھڑے ہوکر دعا مانگی، آنکھیں بند تھیں ہاتھ منہ پر پھیر کر جوں ہی آنکھیں کھولی میرے سامنے ایک بزرگ کھڑے تھے۔ میں نے احترام سے سلام کیا، جواب میں انہوں نے وعلیکم السلام کہا ، کہنے لگے بیٹا تم نے مجھے نہیں پہچانا، میں محمد ابراہیم آزاد ہوں ، تمہارا پردادا اور دیکھو یہ ہیں تمہارے دادا حقیق احمد، خلیق احمد صمدانی،عتیق احمد صمدانی،لئیق احمد صمدانی ،مفیق احمد، انیق احمد، خلیل احمد اور اسماعیل احمد، میرے دادا حقیق احمد نے مجھے سینے سے لگا یا اور دعائیں دیں۔ آزاد صاحب نے کہا کہ بھئی تم نے تو خوب لکھا، ہمارا بھی ریکارڈ توڑدیا، ماشاء اللہ خوب لکھتے تھے تم، تم نے مجھ پر مضمون بھی لکھے اور ایک کتاب بھی مرتب کی اور مغیث میاں نے ہمارا دیوان ’’دیوان آزاد‘‘ تمہاری معاونت سے ہی دوبارہ شائع کیا، یہ کام تم دونوں نے بہت اچھا کیا، اب ہمارا نعتیہ کلام انشاء اللہ آئندہ سو سال کے لیے دنیا میں محفوظ ہوگیا۔ تم ملے مغیث میاں سے، جواب میں کہا کہ جی ابھی ان ہی سے ملاقات کر کے آرہا ہوں۔ میرے دادا نے مجھے پھر سے گلے لگایا، کہنے لگے ، رئیس میاں ہمیں معلوم ہے کہ اپنی امی سے ملاقات کے لیے جارہے ہو ، وہ مل جائیں گئیں، ہم پھر ملیں گے۔ بلکہ ہم سب ایک جگہ ہی ہوتے ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ ہم دنیا میں جن کا ذ کرکر کے انہیں اکثر یاد کیا کرتے تھے، جن کی مغفرت کی دعا ئیں کیا کرتے تھے وہ سب آج ہمارے سامنے ہیں اور جن سے روز ملاقات ہوتی تھی اب ان سے دوری ہوگئی ہے، اب وہ ہم سے مخاطب نہیں ہوسکتے، بات نہیں کرسکتے، ہم انہیں کچھ کہہ نہیں سکتے، ان کے دکھ تکلیف کو محسوس کرسکتے ہیں ، اسی طرح وہ اب ہماری مغفرت کی دعا کرتے اور درجات بلند کرنے کی دعا کرتے ہوں گے۔ یہ ہی قدرت کا نظام ہے۔ میں چلتے چلتے تھکا تو نہیں تھا جس قدر میں پیدل چلا تھا ، دنیا میں اتنا پیدل چلنا میرے لیے ناممکن ہوتا تھا، میں سوچ میں پڑ گیا کہ مجھے شوگر تھی، دل میں ایک اسٹینٹ پڑا ہوا تھا، کمر کی تکلیف تھی، بلڈ پریشر تھا وہ سب تکلیفیں کیا ہوئیں ،میں اپنے آپ کو بالکل تندرست وتوانا محسوس کر رہا تھا۔یعنی دنیاکی تمام بیماریاں ، تمام پریشانیہ ، سارے دکھ درد دنیا میں ہی رہ جاتے ہیں ۔ میں دل ہی دل میں اب یہ دعا مانگ رہا تھاکہ اللہ پاک بس اب مجھے اپنی امی سے ملوا دینا ، میں سب سے مل چکا۔ اسی دوران چلتے چلتے موسم اور زیادہ خوشگوار ہوگیا، چارو جانب ہریالی، رنگ برنگِ پھولوں اور سبز درختوں نے منظر کو حسین بنا یا ہوا تھا، شام ہونے کو تھی،ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی، ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے ماحول کوخوشگوار بنا یا ہوا تھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ آگے راستہ بند ہے لیکن ایسا نہیں تھا، تنگ سے راستے میں اندر داخل ہوا تو وہاں بھی بے شمار لوگ موجود تھے، ان میں سے چند کو پہچان سکا، امی کے بھائی جناب زبیر احمدسبزاری، محبوب احمدسبزوزری، مطلوب احمد اور محمد احمدسبزواری کے ساتھ شہناز کے ابا خورشید احمد قریشی یعنی میرے خالو اور سسر ،بڑے خالو منظور سبزواری، غلام مصطفی سبزواری بھی موجود تھے۔ سب خوش ہوکر ملے، گلے لگا یا، شہناز کے ابا مجھے ایک جانب لے گئے، آنکھوں میں پانی بھرا تھا، کہنے لگے رئیس میاں مجھے سب علم ہے کہ سب لوگ کیسے ہیں ، کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ تم بتاو کہ کیا حال ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کے تینوں بیٹے اللہ کے فضل سے اپنی فیملی کے ساتھ خوش و خرم ہیں، بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش حال ہیں، البتہ آپ کی شریک حیات اور شہناز کی امی اب بڑھاپے کی زندگی گزار رہی ہیں۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ بچوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں ، وہ صاحب اولاد ہوجاتے ہیں تو ان کی ذمہ داریاں اور ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔میں شہناز کو بھی یہی کہتا ہوں کہ اپنے بچوں سے بہت امیدیں اور توقعات نہ رکھا کروں اب ان کی زندگی ان کی بیوی اوربچوں سے جڑ چکی ہے ان کی ترجیحات اب وہ نہیں جو ہم والدین سمجھتے ہیں۔ پھر بھی اللہ کا شکر ہے سب کچھ بہت اچھا ہے۔

یہاں بھی میں اپنی امی کو نہ پاکر مایوس ہوا۔ آخر امی کے بھائیوں سے پوچھا کہ میری امی کہاں ہیں، کسی نے اشارہ کیا کہ وہ سامنے دائیں جانب اپنے امی اور ابا کے پاس ہیں۔ میں خوش ہوگیا کہ چلو نا صرف امی سے بلکہ اپنے نانا اور نانی سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔ دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی، نظریں امی کوتلاش کررہی تھیں۔یکا یک ایک آواز سنی رئیس تم آگئے۔ امی نے یہ جملہ کہا اور میں لپک کر ان کے گلے سے لگ گیامیں نے دونوں ہاتھو ں سے انہیں اپنے سینے سے لگا لیا ، وہ بھی مجھ سے لپٹ گئیں اور پیار کر نے لگیں۔ میری آنکھوں سے اشک جاری تھے، زبان بند سی ہوگئی تھی ، کچھ بول نہیں پارہا تھا، امی بھی خاموش تھیں ۔ محسوس ہوا کہ میرے سینے پر بوجھ سا ہے، کسی نے میرے سینے کو دونوں ہاتھوں سے دبایا ہوا ہے، گھبراہٹ کی کیفیت تھی، بدن پسینے سے شرابور ہورہا تھا۔ اسی لمحہ میری آنکھ کھل گئی جاتی ہے، دیکھتا ہوں کہ میرا پوتا ارسل میرے سینے سے لپٹا ہوا ہے، اسکول جانے سے قبل آج وہ مجھے خدا حافظ کہنے کمرہ میں آیا مجھے سوتا دیکھ کر میرے سینے سے لپٹ گیا۔ میں نے اسی کیفیت میں اسے پیار کیاا ور خدا حافظ کہا۔ کچھ دیر تک حواس قابو میں نہ رہے ، سوچتا رہا کہ آج یہ میں نے کس قسم کا خواب دیکھا ہے۔ جلدی جلدی تمام باتوں کو ریکال کرتا رہا تاکہ یہ باتیں ذہن سے محو نہ ہوجائیں۔ خواب بھی خوب ہیں، خواب میں انسان وہ کچھ دیکھتا اور کرلیتا ہے جو عام حالات میں نا ممکن ہوتا ہے۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279647 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More