کچھ دنوں سے فیس بک پر ایک اشتہار چل ہے کہ سکولوں میں
سیرت پڑھائی جائے۔
اچھی بات ہے ایسی سوچ ہونی چاہیے اور اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔
اشتہار بنانے والے موصوف کی میری طرح اردو اتنی اچھی ہے کہ ’’زندگی‘‘ کو
’’ذندگی‘‘ لکھا ہوا ہے
یہ عاشق رسول عشق میں صرف دوسروں کی جان ہی لیتے ہیں۔دوسروں کی جان بچاتے
نہیں اسلامی ریاست کے اندر قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ، انسانی خون کرنے
کے بعد غازی بن جاتے ہیں اور پھانسی لگنے کے بعد شہید غازی۔ ایسی بات کرتے
ہوئے بھی ہمارے معاشرے میں اپنی زندگی کی حفاظت کا خوف طاری ہوجاتا ہے۔
خیر۔۔۔۔۔۔
جس سے سچا عشق ہو اس کی ہر ادا اچھی لگتی ہے اور معشوق کی ہر ادا کی جھلک
سچے عاشق کیزندگی میں نظر بھی آتی ہے۔ عاشق محبوب سے عشق جتاتے نہیں بلکہ
عشق میں اپنے آپ کو گھائل کر دیتے ہیں۔
یہ محض نعرے لگانے والی قوم ہے۔ نفاذ شریعت کے نعرے تو لگاتے ہیں مگر اپنے
چھ فٹ کے جسم پر نافذ نہیں کر سکتے۔ یہ حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ ان پر
زبردستی نافذ کرے۔
مسلمان کے بچے کو تو سکول داخل ہونے سے بھی پہلے والدین کو اپنے محبوب کی
سیرت سکھا دینی چاہیے۔
نعروں سے کچھ نہیں ہوگا۔ اپنے ماحول بدلیں بچوں کی تربیت اسلام کے مطابق
کریں۔
جب تک ہم خود نہیں بدلیں گے کوئی ہمیں زبردستی بدلنے سے رہا۔
بات محبت کی ہے۔ ہمیں محبت نہیں بلکہ ہمارے ذہنوں میں محبت کے نام پر
انتہاء پسندی ٹھونس دی گئی ہے۔ دوسرے کو برداشت نہیں کرسکتے۔ کتنے شرم کی
بات ہے کہ ناموس رسالت کے قانون کی زد میں زیادہ مسلمان ہی آئے ہیں۔
مسلمانوں پر ہی الزامات آئے ہیں۔
جب تک ہمارے اندر تبدیلی نہیں آئے گی کچھ حاصل نہیں ہوگا سوائے تبدیلی کے
نعروں کے، نفاذ شریعت کے نعروں کے۔
کیا قرآن سنت پڑھانے والا کوئی ادارہ نہیں ہے۔
ہم بچوں کو بھیجتے آکسفورڈ اور آکسفورڈ کے پڑھے ہووں کے پاس اور ان سے
توقع کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو قرآن و حدیث پڑھائیں ۔
کہتے ہیں علماء کا سیاست میں کیا کام اور توقع کرتے ہیں سلیبس کی تبدیلی
کا۔ علماء کا آپس میں اور دوسروں کا سلوک دیکھ لیں۔ کیا یہی سیرت ہے۔
اس منافقت کی سیاست سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
عملی زندگی اسلام کے مطابق بنانی پڑے گی۔ اپنی اولادوں کو ماحول دینا ہوگا
محض اشتہاروں سے کام نہیں چلے گا۔
جہاں مسجد بنی ہوئی ہو وہاں یہ موجودہ ترقی پسند قائد اور سیاستدان گھر تو
درکنار گزرنا بھی پسند نہیں کرتے یہ تمھارے اور میرے بچوں کو سیرت پڑھائیں
گے۔جہاں مسجد بن جائے وہاں کوئی پلاٹ یا گھر خریدنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
ہم گھروں میں تو بچوں کو جدت کا ماحول دیں : میوزک ، کیبل وغیرہ اور سکولوں
سے سیرت کی توقع رکھیں ۔ ایسا ممکن نہیں |