چند روز قبل لاہور میں میاں صاحب اپنے خطاب کے دوران اس
نا چیز کو خراج تحسین پیش کر تے ہوئے اپنا موزانہ کرنے کی ناکام کوشش کر کے
عوام الناس کو بیوقوف بنانے کی بھونڈی کوششش کرتے نظر آئے۔ میاں صاحب کی بے
بسی دیکھتے ہوئے میں نے سوچا چلو میاں صاحب کے سوالوں کا جواب دے دیتے ہیں
، شاید ان کو کچھ سکون مل جائے۔
میں ذوالفقار علی بھٹو ولد سر شاہنواز بھٹو سکنہ گڑھی خدا بخش میاں صاحب کے
اقبال جرم پر تہ دل سے شکر گزار ہوں، حیران مت ہوں کہ کیسا اقبال جرم۔ جی
وہی اقبال جرم جس کے باعث مجھے نشان عبرت بنا دیا گیا، جی وہی جرم جو میں
نے اس قوم کو ایٹمی قوت بنا کر کیا۔ جی وہی جرم جس کی پاداش میں میں نے
اپنے سارے گھر کی قربانی دی، مجھے نہیں معلوم میاں صاحب کے اس بیان کے بعد
ان کے روحانی استاد ان کو معاف کریں گے یا نہیں لیکن میاں صاحب کے اس بیان
سے استاد محترم کی روح اپنی تربیت کو ضرور کوس رہی ہوگی کہ کیسا نالائق
شاگرد ان کے حصے میں آیا جس نے ساری تربیت خاک میں ملا دی دشمن کو ہیرو بنا
کر۔
آپ اکثر یہ سوال کرتے ہیں مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا آپ کی اس آہ
وزاری نے مجھے مجبور کیا کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں۔ محترم سنئیے 1947
سے لے کر آج تک ہماری جمہوریت اسٹبلیشمنٹ کی بیساکھیوں کے سہارے گھسٹ گھسٹ
کر چل رہی ہے، اکثر اوقات اسٹبلیشمنٹ کے شرارتی بچے اس سے چھیڑ چھاڑ کرتے
رہتے ہیں، بسا اوقات اپنی دل لگی کو مزید پر لطف کرنے کی خاطر وہ آپ جیسے
نظریاتی فصلی بٹیروں کو بھی ساتھ ملا لیتے ہیں۔ معاف کیجئے گا میں تو سورج
کو آئینہ دکھانے لگا، یہ سب آپ سے بہتر کون جانتا ہے جنکی تمام تربیت
اسٹیبلشمنٹ کی مر ہون منت ہے۔
جی تو بات ہو رہی تھی اسٹیبلشمنٹ کے شریر لونڈوں کی، جو آپ جیسے لوگوں کو
انواع اقسام کے لالچ دے کر اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر ساتھ ملا لیتے ہیں
اور مقصد پورا ہوتے ہی دودھ میں سے مکھی کی مانند نکال باہر کرتے ہیں۔
کراچی کا شرارتی کاکا تو یاد ہو گا آپ کو! آپ جیسے نظریاتی لوگ اپنے نظریہ
کرپشن کی حفاظت کی خاطر ان کے پیچھے دم ہلاتے پھرتے ہیں۔
اب ذرا نا چیز کا مختصر سا تعارف ہو جائے، تاکہ ہم آپ کے موازنے کی جانب
بڑھ سکیں۔ میں زلفی جس کی پرورش ایک سیاسی گھرانے میں ہوئی ، سیاست میری نس
نس میں بسی ہے۔ میرے والد میرے لئیے اتنی وراثت چھوڑ کر گئے کہ میری نسلیں
سکون سے زندگی گزار لیں بغیر کسی مشکل۔ شہرت ، عزت، مرتبہ مجھے بچپن سے
وراثت میں ملا، میری سیاست عوام کی سیاست، میری سیاست اصول کی سیاست ، میرا
مقصد ناموس کا تحفظ، میرے کارنامے آئین پاکستان، اقتدار کی عوام تک منتقلی،
پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا، اسلامی ممالک کا اتحاد، چند خاندانوں سے دولت
کی عوام تک منتقلی شعور روٹی کپڑا اور مکان۔ میری خطائیں اسٹیبلشمنٹ کے
شریر لونڈوں سے لڑائی، امریکہ کو انکار، نادان دوست، میری سچائی، اصول
پسندی اور دیانتداری۔
آپ کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت، آپ کا کاروبار سیاست، آپ کی روزی
روٹی سیاست، مڈل کلاس سے کھربوں کی جائیداد تک کا سفر بزریعہ سیاست، آپ کے
کارنامے آمر کے ناجائز کاموں کی حمایت، آئین پاکستان کے ساتھ دللگی، سپریم
کورٹ پر حملہ، اداروں کی تضحیک، ووٹرز کی تحقیر، اور کیا کیا گنواءوں آپ کے
کارناموں کی لسٹ اتنی لمبی ہے کہ شیطان کی آنت۔
انتہائی معزرت کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا کہ خدارا مجھے اپنے جیسے عظیم
لیڈر سے مت ملائیں، بھٹو کو پھانسی کی کوٹھری میں بھی صرف اک فکر تھی کہ
لوگ اس کو بدیانت نہ سمجھیں۔ شاید میری یہی حرکات چند مغربی آقائوں کو
ناگوار گزری اور انھوں نے مجھے آپ کے استاد محترم کے ہاتھوں مر وانا چاہا
لیکن دیکھو بھٹو آج مر کر بھی زندہ ہے۔ مجھے پھانسی پر چڑھا کر شاید آپ کے
استاد محترم اور آپ جیسے شاگرد یہ سمجھ بیٹھے کہ بھٹو کا باب بند ہو گیا،
میں نے مر کر بھی اس مملکت خداداد کی آبیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اپنا
سارا کنبہ وطن عزیز پر قربان کر دیا اور محترم آپ نے اپنی دولت اور کنبہ
باہر منتقل کر دیا۔
مجھے آپ کا اعتراف سن کر بہت اچھا لگا، یاد رہے بھٹو اک شخص کا نام نہیں اک
نظریہ ہے۔ انسان مرتے ہیں نظرئیے نہیں مرتے ، ورنہ یزید کربلا میں جیت گیا
ہوتا ۔ مان لیں آپ کی سیاست اقربا پروری ہے، آپ کا نظریہ کرپشن ہے، آپ کو
اس قوم کے ساتھ بار بار مزاق کرنے کے لئے نکالا، آپ کو اپنے پرانے دوستوں
نے کام ختم ہونے پر نکالا، آپ کے دوستوں کو آپ سے بہتر نظریاتی سیاستدان
ملنے پر نکالا۔ اللہ آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
بقول شاعر
سنتے رہو کہ وقت نے بدلی ہے راگنی
دم بھر میں انقلاب ہوا دیکھتے رہو
|