"آپ بہت خوبصورت ہیں۔،علی رضا خمار آلود لہجے میں
بولا۔نشے کا جادو سر چڑھ کر بولا رہا تھا ۔باقی چندا کے حسن نے اس کے ہوش
گھما دیے تھے۔
یہ بات تو ہر دوسرا مرد ایک طوائف کو کہتا ہے۔۔وہ اداسی سے بولی۔
"مجھ سے شادی کرو گی۔۔۔۔؟"،علی نے کہا تو چندا نے حیرت سے اس کی طرف
دیکھا۔"ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔؟"،اس نے سوال کیا۔
"مذاق اچھا کر لیتے ہیں آپ۔۔۔۔!"،وہ ہنسی، اس کی مسکراہٹ میں دنیا جہاں کا
درد چھپا تھا جسے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔
"میں مذاق نہیں کر رہا۔؟حقیقت میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔"،علی سنجیدگی
سے بولا۔وہ چلتے ہوئے بیڈ پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی اور زمین کو تکنے
لگی۔علی اس کے جواب کا منتظر تھا۔
"آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ میں ایک طوائف ہوں اور ہمارے اس نام نہاد شریف
معاشرے میں طوائف ہونا ایک گالی ہے۔یہ معاشرہ عورت کو ایک طوائف تو بنا
سکتا ہے لیکن اسے طوائف سے عورت بنا کر عزت نہیں دے سکتا۔"،وہ دکھ سے بولی۔
"میں دوں گا تمہیں عزت"،وہ زمین پر دو زانوں ہو کر بیٹھ گیا۔"میں تمہیں
بیوی بنا کر اپنے گھر لے جاؤں گا۔"،وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔
"یہ صرف باتیں ہیں۔"،وہ ہاتھ چھڑا کر کھڑی ہو گئی تھی۔علی بھی ساتھ ہی اٹھ
گیا تھا۔"آپ چلیں جائیں،گاہکوں کا ٹائم ہو گیا ہے۔"،وہ آنسو ظبط کرتے ہوئے
بولی۔
٭٭
چندا صرف پانچ سال کی تھی جب اسے گھر کے پاس سے اغواہ کیا گیا۔اسے اپنے ماں
باپ کی بس ہلکی سی جھلک یاد تھی ۔وہ محلے کی دکان پرچیز لینے آئی تھی جس
ایک آدمی نے اسے پاس بلایا ۔اسے چاکلیٹ دی اور کھانے کو کہا۔جیسے ہی اس نے
کھائی وہ بے ہوش ہوگئی اور جب آنکھ کھلی تو کسی اور جگہ پایا۔اس نے گھر
جانے کی ضد کی لیکن ایک عورت نے اسے بہلا پھسلا کر راضی کر لیا۔اسے مختلف
کھانے کی چیزیں دی گئیں۔
یوں تھوڑے دنوں میں اپنے ماں باپ کو بھو ل گئی تھی۔وہاں اس کی طرح اور
لڑکیاں بھی تھیں۔یہ خانم بھائی کا کوٹھا تھا۔اور جس کی تراشی ہوئی مورتیاں
ہیروں کے بھاؤ بکتی تھیں۔اور اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ خانم بھائی کے
کوٹھے پہ ایک سے بڑھ کر ایک پری پیکر تھی۔یہی وجہ تھی کہ سیاستدانوں سے لے
کر وڈیرے تک اس کے کوٹھے پہ حاضری دینے آتے تھے۔خانم بھائی نے اسے نیا نام
چندا دیا تھا۔
دس سال کی عمر میں اسے شعور آنا شروع ہوا کہ یہاں کیا ہوتا ہے۔اور اسے بھی
یہی کرنا ہوگا۔اس بات کا احساس اسے تب ہوا جب ایک آدمی اسے ڈانس سکھانے کے
لیے آیا ۔سب اسے استاد ببن بول ہے تھے۔اور یوں اس کی ٹریننگ سروع
ہوئی۔پندرہ سال کی عمر میں وہ ایک نو خیز کلی بن چکی تھی۔وہ خوبصورت تو تھی
لیکن اچھے لباس اور میک اپ نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیے تھے۔پہلے ہی
مجرے میں اس نے محفل لوٹ لی تھی۔اور تماش بین نے دل کھول کر اس پر نوٹوں کی
بارش کی تھی۔خانم بہت خوش تھی۔اس لیے کہ چندا نے پہلے ہی دن اس کی جھولی
نوٹوں سے بھر دی تھی۔وہ جناتی تھی کہ اب اس کے امید وار اس کی بولی لگائیں
گے۔لیکن وہ اتنی جلدی اسے کسی کی جھولی میں نہیں ڈالنا نہیں چاہتی تھی۔
٭٭
"کیا سوچا تم نے۔۔۔۔؟،علی پھر اس کے سامنے موجود تھا۔
"کس بارے میں۔۔۔۔؟"،وہ انجان بن کر بولی۔
"انجان مت بنو۔۔۔!،تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں کس بار ے میں پوچھا رہا ہوں۔؟"،وہ
جھنجھلا کر بولا۔
"جو کام ممکن ہی نہیں وہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔؟،وہ بے پناہ سنجیدہ لہجے میں
بولی۔
"تم حامی تو بھرو باقی میں سنبھال لوں گا۔"،۔اوراس نے نیم رضامندی ظاہر کر
دی تھی۔خانم نے دو کروڑ طلب کیے تھے۔جسے علی نے بخوشی ادا کر دیے تھے۔یوں
چندا اور علی کی شادی ہو گئی۔علی نے اسے الگ فلیٹ میں رکھا۔اور ابھی گھر
والوں کو نہیں بتایا تھا۔
٭٭
علی مشہور صنت کار محمد رضا کا بیٹا ہے ۔محمد رضا بھی جوانی میں خاصا رنگین
مزاج رہا تھا۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی عادت چھوٹ گئی تھی۔کبھی کبھار
نجی محفلوں میں اگر مجرے کا انتظام ہو تو دوست اسے زبردتی لے جاتے ہیں لیکن
وہ بھی صرف دیکھنے کی حد تک۔علی بھی باپ کی کاپی ہے اس لیے باپ کی طرح
رنگین مزاجی اس میں بھی پائی جاتی ہے۔علی پہلے سے شادی شدہ ہے اور ایک بیٹے
کا باپ ہے۔اس کی بیوی کا نام مرینہ ہے۔ پیسہ پاس ہو تو انسان بہک ہی جاتا
ہے۔اس کے دوست بھی ویسے ہی ہیں اور ایک دن دوست ذبردستی اسے خانم کے کوٹھے
پہ لے گئے۔پہلی ہی نظر میں چندا اس کے دل کو بھا گئی تھی۔
"کاش اسے صرف میں دیکھوں۔"،اس کے دل سے آواز آئی۔اس کے بعد اس کا معمول بن
گیا وہ روز خانم کے کوٹھے پہ جانے لگا۔چندا اس کے حواسوں پہ سوار ہو گئی
تھی۔پھر ایک دن اس نے چندا سے محبت کا اظہار کر دیا تھا۔اور یوں چندا اس کی
زندگی میں آگئی ۔
٭٭
"میری اولاد کو شناخت چاہیے،باپ کا نام چاہیے،جو فخر سر سر اٹھا کر کہہ
سکیں کہ یہ میرا باپ ہے۔"،چندا نے تفکر سے کہا۔اس وقت علی چندا کے ساتھ
اپنے فلیٹ میں موجود تھا۔شادی کے بعد وہ چندا کو اپنے فلیٹ میں لے آیا
تھا۔چندا نے اسے باپ بننے کی خوش خبری سنائی تھی۔
"میں سمجھتا ہوں۔
"،علی گہری سنجیدگی سے بولا۔
"تم کچھ نہیں سمجھتے،جن بچوں کے باپ نہیں ہوتے زمانہ انہیں ٹھوکریں مارتا
ہے۔"،چندا نے کہا۔
"کیسی باتیں کرتی ہو۔۔۔۔؟،میں ہوں نا اپنے ہونے والے بچے کا باپ۔"،علی تڑپ
کا بولا۔
"دنیا کو بتا سکتے ہو کہ تم نے مجھ سے شادی کی ہے۔۔۔۔؟،چندا کی اس بات پہ
علی نے اسے چونک کر دیکھا۔"مجھے وہ مقام اور وہ عزت دے سکتے ہو جو ایک عورت
کا حق ہوتا ہے۔۔؟،چندا نے اس سے سوال کیا۔اور اس نے سر جھکا لیا تھا۔
اگلے دن علی چندا کو لے کر اپنے گھر پہنچ گیا۔اس کے باپ محمد ضا نے ایک
ہنگامہ کھڑا کر دیا۔چندا کی باتوں نے اس کی مردانگی کو ٹھیس پہنچائی
تھی۔لحاظہ وہ اب چندا کو بیوی کی حیثیت سے اپنے گھر والوں سے متعارف کروانا
چاہتا تھا۔مرینہ بھی موجود تھی۔
"ایک طوائف میری بہو نہیں ہو سکتی۔۔۔۔!،رمحمد رضا غصے سے بولا۔
"پاپا یہ طوائف نہیں میری بیوی ہے۔"،علی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"لیکن میں اسے اپنی بہو تسلیم نہیں کروں گا۔اس کی اس گھر میں کوئی جگہ
نہیں۔بہتر ہوگا تم اسے وہی چھوڑ آؤ جہاں اس کی جگہ ہے۔"۔محمد رضا پھنکارتے
ہوئے بولا۔چندا ابھی تک خاموش تھی۔اس نے پہلی بار لب کھولے۔
"کیوں طوائف عورت بھی تو ہے۔اسے کیوں نہیں حق باعزت زندگی گزارنے
کا۔۔۔۔؟،جب ایک تماش بین شرافت کی زندگی گزار سکتا ہے تو طوائف کیوں
نہیں۔۔۔؟"،چندا غصے سے بولی۔
"ہمارے ہاں طوائف محفلوں میں مجرا تو کر سکتی ہے لیکن اسے عزت نہیں دی
جاتی۔"،مرینہ نے حقارت آمیز لہجے میں کہا۔
"تو پھر شوہر کو سنبھال کر رکھنا تھا نا۔۔۔!۔کیوں اسے ایک طوائف کے پاس
جانے دیا۔"،چندا غصے سے بولی۔چندا کی اس بات پہ مرینہ طلملا کر رہ گئی۔اور
آگے سے کچھ نہیں بولی۔
"کچھ بھی ہے تمہاری اس گھر میں جگہ نہیں ہے۔علی بہتر ہے تم اسے طلاق دو اور
فارغ کرو۔"،محمد رضا غصے سے بولا۔
"اگر نہ چھوڑوں تو۔۔۔؟،علی نے سوال کیا۔
"تمہیں پھر یہ گھر چھوڑنا ہوگا اور جائداد میں سے ایک پھوٹی کوڑی نہیں ملے
گی۔"،رضا نے اسے دھمکی دی۔
"لیکن ڈیڈ۔۔۔۔۔!،علی نے کچھ کہنا چاہا تو رضا نے اس کی بات اچک لی۔
"بس۔۔۔۔!،میں کچھ سننا نہیں چاہتا۔تمہیں ابھی فیصلہ کرنا ہوگا۔"،رضا نے نے
اسے دو ٹوک لہجے میں کہا۔چندا نے سراسیمہ نظروں سے علی کو دیکھا تو اس نے
سر جھکا لیا۔
٭٭٭
"کہا تھا نا تجھے مت کر محبت۔۔۔!،طوائف کبھی عورت نہیں بن سکتی۔"،خانم نے
کہا تو اس کے چہرے پہ دکھ کی ایک لہر آکر ٹھہر گئی۔"،
"میری اولاد کا کیا ہوگا۔۔۔۔؟،چندا نے سوالیہ لہجے میں خانم سے پوچھا۔
"بیٹا ہوا تو دلال بن جائے گا اور بیٹی ہوئی تو طوائف۔"،خانم نے کہا۔اور
چندا ٹھنڈی آہ بھر کر ر گئی۔وہ جانتی تھی ایسا ہی ہوگا۔
مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے۔"،نرس نے آکر کہا تو خانم کے چہرے پہ پھول سے کھل
اٹھے۔وہ جلدی سے چندا کے پاس گئی،چندا بیڈ پر لیٹی سامنے دیوار کو تک رہی
تھی۔اس نے سوالیہ نظروں سے خانم کی طرف دیکھا۔
"بیٹی ہوئی ہے۔"،خانم نے کہا تو چندا کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں
٭٭٭
"میرے بیٹے کی شادی ہے،مرینہ علی رضا کے بیٹے کی شادی ہے۔انتظامات میں کوئی
کمی نہ رہے۔"،نوکروں کی فوج سر جھکائے کھڑی تھی اور مرینہ انہیں ہدایات دے
رہی تھی۔
"فضل خان۔۔۔!،اس نے ایک ملازم کو پکارا ۔
"جی بیگم صاحبہ۔۔۔!،فضل خان نامی ملازم ادب سے بولا۔
"گانے کا انتظام اعلی درجے کا ہونا چاہیے۔پتہ چلے رضا ہاؤس میں شادی
ہے۔"،مرینہ فخر سے بولی۔
٭٭٭
ستارہ پندرہ سال کی ہو چکی تھی۔وہ بلا کی حسین تھی۔اتنی حسین تھی کہ چاند
بھی سامنے ہوتا تو شرما جاتا،یہ مبالغہ آرائی نہیں تھی۔حقیقت تھی۔چندا
جانتی تھی کہ ستارہ اس کے بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔آج اسکا پہلا مجرا تھا۔وہ
آئینے کے سامنے کھڑی تیار ہو ہی تھی۔
"کیا دیکھ رہی ہیں اماں۔۔۔؟،ستارہ آئینے کے سامنے بال بناے ہوئے بولی۔
"سوچ رہی ہوں تو اتنے زخم سہہ لے گی جتنے میں نے سہے ہیں۔"،چند ا دکھ سے
بولی۔ستارہ ماں کے پاس آکر رک گئی بیٹھ گئی۔
"آپ کی بیٹی ہوں سہہ لوں گی۔ایک بات پوچھوں۔۔۔؟،ستارہ کسی سوچ میں گم ہو کر
بولی۔
"میرا باپ کون ہے۔۔۔؟،"ستارہ کی اس بات پہ اس کے چہرے پہ ایک رنگ آکر گزرا۔
"کیا کرے گی جان کر۔۔۔؟،یہاں تیرے جیسی کئی ہیں۔جن کے باپ ہوتے ہوئے بھی وہ
یتیم ہیں۔اور کئی مردوں کو تو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ جس کا وہ مجرا دیکھنے
آئے ہیں وہ انہی کا گناہ ہے۔"،چندا نے کہا تو ستارہ نے چونک کر دیکھا۔
"مطلب۔۔۔؟،ستارہ نے نہ سمجھنے والے لہجے میں کہا۔تو چندا ایک ٹھنڈی آہ بھر
کر رہ گئی۔
"کبھی کبھی میں سوچتی تھی کہ عورت طوائف کیوں بنتی ہے۔۔۔؟،اسکا جواب میں نے
تب جانا جب میں ماں بنی۔جب ایک مرد طوائف کو محبت کا جھانسہ دے کر اسے شادی
کرتا ہے تو وہ اسے طوائف سے عورت تک کا مقام نہیں دے پاتا۔اور پھر اس محبت
کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کا مقدر پھر وہی کوٹھا ہوتا ہے۔اور اگر
بیٹی ہو وہ بھی ماں کے نقش قدم پہ چلنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔نا جانے یہاں
کتنے نام نہاد شریف زادوں کی بیٹیاں جوان ہو کر طوائفیں بن چکی ہیں۔اور پھر
وہی لڑکیاں اپنے باپ کے سامنے بھی مجرا کرتی ہیں۔"،چندا نے اسے زمانے کی
ایک تلخ حقیقت بتاتے ہوئے کہا تو ستارہ حیران رہ گئی۔اس نے ماں کے سینے پہ
اپنا سر رکھ دیا۔
٭٭٭
چھن۔۔۔چھن۔۔چھن۔۔۔سازندے بیٹھ گئے تھے۔چندا پہلے سے موجود تھی۔اس نے
گھونگھٹ نکالا تھا۔علی رضا بیٹے اور بہو کے ساتھ سٹیج پر بیٹھا
تھا۔چھن۔۔چھن۔۔چھن۔۔۔ گھنگھرو کی آواز گونجی تو تمام ہال میں سناٹا چھا
گیا۔ستارہ ایک ادا کے ساتھ ہال میں وارد ہوئی۔مرداٹھ اٹھ کر دیکھ رہے تھے
اور عورتوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔چندا اور ستارا دونوں نے ایک ساتھ
گھونگھٹ پلٹا تھا۔سازندوں نے ساز چھیڑا تو چندا کی مدھر آواز نے سر بکھیر
دیے اور ستارہ نے رقص شروع کیا۔علی آواز سن کر چونکتا ہے۔اور وہی ساکت و
جامد بیٹھا رپہ گیا۔وہ پھٹی پھٹی نظروں سے چندا کو دیکھ رہا تھا۔مرینہ بھی
چندا کو پہچان چکی تھی۔محفل تھمی توہر طرف سے واہ واہ کی آوازیں گونج
اٹھیں۔فرش نوٹوں سے بھر چکا تھا۔ ، چندا نے نوٹ سمیٹے اور اپنے بیگ میں ڈال
لیے۔اور گھر کی طرف روانہ ہوئیں۔گیٹ سے باہر ڈرایؤر ان کا انتظار کر رہا
تھا۔
"چندا۔۔۔۔۔!"،علی رضا کی آواز نے چندا کے گاڑی کی طرف بڑھتے قدم روک دیے
تھے۔اس نے پلٹ کر دیکھا۔علی پاس پہنچ چکا تھا۔ستارہ بھی حیران کن نظروں سے
علی کو دیکھ رہی تھی۔دونوں کی نظریں ٹکرائیں اور علی کسما کر رہ گیا۔
"کیا بات ہے صاب جی۔۔۔۔مجرا تو ہوگیا۔۔۔۔ اب کیا کہنا ہے۔۔؟"،چندا نے اس پر
چوٹ کی۔علی شرمندہ سا ہو کر رہ گیا وہ بار بار ستارہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"یہ میری بیٹی ہے۔۔۔! ستارہ"۔یہ آج اسکا پہلا مجرا تھا۔کبھی آیے نا ہمارے
غریب خانے پر،بہت زبردست رقاصا ہے میری بیٹی میری طرح۔"،چندا نے طنز کے
نشتر چھوڑے تو علی کے چہرے پہ کئی رنگ آکر گزرے۔"چلو ستارہ۔۔۔۔۔!،چندا نے
اسکا ہاتھ پکڑا اور گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔
٭٭٭
اگلے دن اخبار میں شہ سرخی نمایاں تھی۔
ملک کے نامور صنعت کار علی رضا نے گھریلو حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لی۔
ختم شد
|