سائیں کرم دین !! مسلسل کھیتوں میں ہل چلانے میں مصروف
تھا ، کڑکتی دھوپ میں، پسینے کی بوندیں اس کے ماتھے سے گر رہی تھیں … اس کے
بازو مشقت سے تھک چکے تھے، لیکن صرف ایک سوچ تھی جو اسکی تھکن دور کر دیتی
اور وہ سوچ تھی اس کے بیٹے ننھے محبوب علی کی معصوم سی خواہش جسے وہ آج ہر
قیمت پر پورا کرنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دنیا سے بے خبر اپنے کام
میں مصروف تھا… بلآخر کھیتوں سے فارغ ھو کر کرم دین ، کمدار کے پاس پہنچا
اور اس سے اجرت کا مطالبہ کیا۔
کرم دین کی بات سن کر کمدار کے تیور ہی بدل گئے اور وہ غصے سے کرم دین کی
طرف یہ کہتے ہوئے بڑھا کہ ۔۔۔۔۔ کام تم سے ہوتا نہیں اور آجاتے ہو تنخواہ
لینے ساتھ ہی ایک زوردار دھکا سائیں کرم دین کو دیا…. سائیں کرم دین دھکا
لگنے سے زمین پر گرا۔۔۔۔۔۔۔کمدار تنخواہ کے پیسے اس کے منہ پر مارتا ہوا
وہاں سے رخصت ہوا۔۔
سائیں کرم دین نے اپنی تکلیف بھول کر جلدی جلدی رقم سمیٹی اور تیزی سے اٹھ
کر کپڑوں کی دوکان کی طرف چل دیا ، کیوں کہ آج اسے ننھے محبوب علی کے لیے
عید کا نیا جوڑا خریدنا تھا ، ہر دفعہ چوھدری کے بیٹے کا پرانا جوڑا لے کر
جانے والا سائیں کرم دین آج بہت خوش تھا ۔
وقت بہت تیزی سے گزرا آج سائیں کرم دین کا بیٹا محبوب علی پڑھ لکھ کر اچھے
عہدے پر فائز تھا ، اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزار رہا
تھا ،
آج پھر چاند رات تھی محبوب علی ہاتھوں میں شاپر تھامے گھر میں داخل ہوا جس
میں بچوں کے لئے نئے کپڑے، کھلونے ، بیوی کے لئے کپڑے اور ساتھ ہی بہترین
کھانے بھی تھے… پورا گھر عید کی خوشیوں سے مہک رہا تھا۔
سائیں کرم دین دوسرے کمرے میں لیٹا کھانس رہا تھا ، بیٹے کے کمرے سے آتی
شور کی آواز سن کر اس سے رہا نہیں گیا اور وہ لاٹھی ٹیکتا آہستہ آہستہ چلتا
ہوا بیٹے کے کمرے میں داخل ہوا جہاں بیٹے ، بہو ، بچوں کے چمکتے دمکتے چہرے
دیکھ کر اس کے اندر طمانت اور خوشی کی ایک لہر ڈور گئی، اپنی خوشی میں مگن
سائیں کرم دین یہ بھول گیا کہ کمرے میں محبوب علی کا دوست اور اس کی فیملی
بھی موجود ہے۔
کمرے میں داخل ہوتے کرم دین کو دیکھ کر بہو کے ساتھ ساتھ بیٹے محبوب علی کا
چہرا بھی غصے سے سرخ ہوگیا۔
محبوب علی کے دوست اور فیملی کی نظریں بوڑھے کرم دین پر تھیں۔۔
جس کے وجود پر لباس کئی جگہ سے پھٹا ہوا تھا ، لیکن سائیں کرم دین ان سب
باتوں سے بےخبر لاٹھی کا سہارا لیے محبوب علی کی طرف بڑھتا جارہا تھا، جیسے
ہی سائیں کرم دین نے محبوب علی کو سینے سے لگانا چاہا۔ ۔
محبوب علی نے اسے ایک زوردار دھکا دیا۔۔۔۔۔ سائیں کرم دین زمین پر آ گرا
۔۔۔ زمین پر گرتے ہی اسے وہ پہلا دھکا یاد آیا ، جس کے لگتے ہی وہ ایک نئی
سوچ کے ساتھ کھڑا ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔ مگر اس بار “دوسرا دھکا ” اس دھکے سے
زیادہ قوی تھا ، جس نے کسی سوچ کو ابھرنے ہی نہ دیا۔۔۔
اب صرف سائیں کرم دین کے لب ہل رہے تھے ۔۔۔ پیارے بیٹے تو ہمیشہ خوش رہے
۔۔۔۔ ! |