علامہ اقبالؒ اور مسئلہ کشمیر دورِ حاضر میں

کشمیری حریت پسندوں کی داستان ِ خونچکاں اور حضرت علامہ اقبال ؒ کی آزادی ٔکشمیر کے لیے کی جا نے والی کوششوں کو احاطۂ تحریر میں لایا جائے، اس سے پہلے وادیٔ کشمیر کے پس ِ منظر پر نظر ڈالنی نہایت ضروری ہے۔اس خطہ ٔ جنت نظیر کو زنداں میں بدلنے کے پیچھے ایک ہندو ڈوگرہ ، مہا رجہ گلاب سنگھ کا ہاتھ ہے۔جس نے انگریزی سامراج کی زیرِ سرپر ستی۱۸۴۶؁ء میں ریاست جموں و کشمیر میں ایک ایسے آمرانہ نظام کی بنیاد رکھی جس نے اسیّ فی صد مسلم اکثریت کو مصائب و آلام سے دوچار کر دیا کو ئی ایسا انسا نیت سوز سلوک نہیں جس سے اہلِ کشمیر بچ سکے ہوں۔کشمیریوں پر ہونے والے ظلم وستم کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر جابجا بکھری پڑی ہیں اور پکا رپکا رکہ رہی ہیں کوئی ہے جو ظلم کو ظلم کہ سکے، کوئی ہے جو حق کو حق کہ سکے،کوئی ہے جو مظلوم کی مدد کو آسکے، کوئی ہے جو بنیے کی عیاری اور مکاری کو طشت از بام کرسکے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ سر زمینِ کشمیر پر پہلی اسلامی حکومت ۱۳۲۰؁ء میں قائم ہوئی اور ۱۸۱۹؁ء تک قائم رہی۔یو ں مسلمانوں نے اس وادیٔ جنت نظیر پر قریباً پانچ سو سال تک حکومت کی ۔ ۱۸۱۹؁ء میں سکھو ں نے اس پر قبضہ کر لیا پھر ۱۸۴۶ ؁ء میں بیعنامہ امرتسر کے ذریعے یہ خطہ ڈوگروں کے ہاتھ۷۵۰۰۰ ہزار نانک شاہی کے عوض فروخت کردیا گیاجنہوں نے کشمیر پر ایک سو سال تک حکومت کی۔کشمیر میں برس ہا برس سے آمریت کے خلاف اندر ہی اندر نفرت کی جو آگ اورلاوہ پک رہا تھا اگر چہ اس کے اثرات ۱۹۳۱؁ء سے پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے لیکن اسی سال ۲۹ اپریل کو جموں میں خطبہ ٔ عید کی بندش،۴ جون کو تو ہینِ قرآنِ پاک کا سانحہ اور۱۳ جولائی کو سنٹرل جیل سری نگرکے سامنے قریباً سات ہزار مسلمانوں کے اجتما ع پر ڈوگرا پولیس کی فائر نگ سے کشمیری مسلمانوں کے صبر کا جام چھلک پڑا اور ریاست میں بنیادی حقوق کے حصول کے لیے عملی جد و جہد کا آغاز ہو گیااور یوں ایک اسلامی تحریک نے جنم لیا جس کی حمایت میں برطانوی ہند میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص دو تحریکوں کا آغاز ہوا۔ان میں سے ایک تحریک آل انڈیا کشمیر کی اخلاقی ،قلمی، مالی اور قانونی امداد کے لیے قائم کی گئی ۔ مرزا بشیرالدین کو اس کمیٹی کا صدر مقرر کیا گیااور جب ۱۷ مئی ۱۹۳۳؁ء کوانہوں نے استعفیٰ دے دیا تو ان کی جگہ جس شخصیت نے یہ ذمہ درار ی اٹھائی وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ،وہ شخصیت ایسی ہے کہ جس کے لیے ہزاروں سال منتظر رہنا پڑتا ہے،اس دانائے راز کا تعارف خود انہی کی زبانی سن لیجیے:
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
فکر ِ فردا نہ کروں ، محوِ غمِ دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں، اور ہمہ تن گو ش رہوں
ہمنوا!میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرأ ت آمو ز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اﷲ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو

یعنی مفکرِ پاکستان ،شاعرِ مشرق، حکیم الامت حضرت علاّمہ محمد اقبال ؒ جو ابتدا ہی سے کشمیر کمیٹی کے ممبر تھے،اس کمیٹی کے صدر بنے۔علامہ اقبال کو کشمیر سے والہانہ عقیدت ومحبت تھی اس لیے نہیں کہ ان کے آبا ؤ اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا بلکہ اس لیے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی غیر معمولی اکثریت تھی اور اس اکثر یت کو بنیے کی حکومت انگریز کی سر پرستی اور پشت پناہی کی وجہ سے تہ وبالا کر رہی تھی ، مسلمانوں کو کچلا جا رہا تھا ، ان کی عصمتیں پامال ہو رہی تھیں انہیں ہلا کتوں کے غار میں پھینکا جا رہا تھا علا مہ اقبال کا قلب ِ رقیق اس پر آ نسو بھی بہاتا تھا اور کو ئی حل بھی تلاش کرنا چاہتا تھا۔وہ کشمیر کی حالت ِ زار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل ِ نظر کہتے تھے ایران ِ صغیر
سینہ ٔ افلاک سے اٹھتی ہے آہ ِسوز ناک
مردِ حق ہوتا ہے جب مرعوبِ سلطان وامیر
کہ رہا ہے داستاں بے دردیٔ ا یام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانۂ دہقانِ پیر
آہ یہ قوم ِ نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روزِ مکافا ت اے خداۓ دیر گیر

۱۹۳۲؁ء میں جب کشمیر میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہونے کی وجہ سے حالات خراب ہو گئے اور مسلمانوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جانے لگا نیز جلسے ، جلوسو ں پر پابندی عائد کر دی گئی ، مکانات نظر ِآتش کیے جانے لگے اور تو اور عام شہریوں سے بھی جیلیں بھری جانے لگی اور آ زادی کی تحریک روز بروز زور پکڑنے لگی انہی دنوں مسلم کانفرنس کا ایک اجلاس منعقد ہواجس میں خطبۂ صدارت دیتے ہوئے حضرت علامہ اقبال نے فرمایا:
’’جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے، مجھے ان کے تاریخی پس ِ منظر میں جانے کی ضرورت نہیں جو حال ہی میں رونما ہوئے ۔۔۔کشمیر کی تحریک انصاف پر مبنی ہے اور مجھے کوئی شبہ نہیں کہ ذہین اور صنّاع قوم میں اپنی شخصیت کا احساس نہ محض ریاست بلکہ تمام ہندوستان کے لیے عافیت کا باعث ہو گا البتہ جس چیز کا سب سے زیادہ دکھ ہے وہ ہندوستان کی فرقہ وارانہ مخاصمت ہے۔۔۔جموں میں حکومت بالکل بے بس ہے اور جتنا کچھ بھی ہے برطانوی افواج کی موجودگی کی وجہ سے ہے۔ ریاستی حکام کی شرمناک سفاکی اور استبداد کی خبریں بدستور آرہی ہیں۔‘‘

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ علامہ اقبال کو کشمیر سے صرف وطنی نسبت ہی نہیں تھی بلکہ ملی نسبت تھی اور اسی نسبت کی وجہ سے اگر مسلمان کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھتا تھا تو اس کی چبھن وہ اپنے دل میں محسوس کرتے تھے کسی اسلامی ملک پر آفت آتی تو اقبال خون کے آنسو رونے لگتے ، ملت ِ اسلامیہ کا کوئی خطہ آفات و حادثات کا شکار ہوتا تو اقبال اس میں برابر کے شریک ِغم بن جاتے ، پھر کشمیر تو چند قدم کے فاصلے پر تھا اور تھا بھی آباکا وطن اور اس میں مسلمانوں کی غیر معمولی اکثریت بھی تھی اور اس اکثریت کے پاس کیا نہیں تھا ؟حسن وجمال، ذہانت ومتانت، فکر ونظر،اہلیت وقابلیت، رعنائی و برنائی ،جودت و فطانت،ایثار و قربانی ، پھر بھی یہ حقیر اقلیت کی غلام بنی ہوئی تھی چھوٹے چھوٹے ملک عروس ِآزادی سے ہمکنار ہو رہے تھے لیکن کشمیر طوقِ غلامی میں جکڑا ہو ا تھا۔اسے غلامی کی اور سخت بیڑیاں پہنائی جارہی تھیں ، اسے سفاکی ، وحشت ،درندگی اور بربریت کے سخت شکنجے میں کساجا رہا تھا۔کشمیریوں پر بے تحاشہ اور بے محابہ ظلم و ستم ڈھائے جارہے تھے آ زادی کا نام لینا جرم بن گیا تھا، علامہ اقبال یہ سب دیکھ کڑھتے تھے ۔وہ دنیا کو بھی اپنے ساتھ رلانا چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ دنیا بھی کشمیریوں کی آزادی کی تحر یک کا ساتھ دے۔ ان کا مدعا یہ تھا کہ جب مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل نئی مملکت معرض ِ وجود میں آئے تو کشمیریو ں کے گلے سے بھی طوقِ غلامی اتر جائے کیو نکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ اب کشمیر کے غیور مسلمان دبک کر نہیں بیٹھیں گے اور ان کے راستے میں آنے والی ہر دیوارخواہ و ہ پتھر کی ہو یا فولاد کی ، بارود کی ہو یا آگ کی ، گر جائے گی۔ ان حالات میں جبکہ تحریک زوروں پر تھی میر واعظ اور شیخ عبداﷲ کو گرفتار کر لیا گیا چناچہ ۷ جون ۱۹۳۳؁ء کو ایک اخباری بیان میں حضرت علامہ اقبال ؒ نے انتباہ کرتے ہو ئے فرمایا:

’’کشمیر گورنمنٹ کے تازہ ترین اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ سری نگر میں اب حالات پُر سکون ہیں لیکن جو اطلاع مجھے معتبر ذرائع سے ملی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات اتنے اچھے نہیں ہیں جتنے کہ سرکاری اعلامیے میں بتائے گئے ہیں ۔ میراتو خیال یہ ہے کہ خود حکومت ِ کشمیر میں ایسے لوگ موجو د ہیں جو کرنل کالو ن کی حکومت کو ناکام کرناچاہتے ہیں۔‘‘

علامہ اقبالؒنے باربار مسلمانوں کو نصیحت اور تلقین کی کہ وہ آپس میں متحد رہیں اپنی صفو ں میں نفاق کو داخل نہ ہو نے دیں کیونکہ اسی میں نجات کا رستہ نکلتا ہے چنانچہ سات جو ن ہی کے بیان میں فرمایا:
’’ آخر میں، میں مسلمانانِ کشمیر سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ ان تحریکوں سے خبردار رہیں جو ان کے خلاف کام کر رہی ہیں اور اپنے درمیان اتفاق اور اتحاد پیدا کریں۔ کشمیر میں ابھی بہ یک وقت دو یا تین اسلامی جماعتوں کے کام کرنے کا وقت نہیں۔وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کی نمائندہ صرف ایک ہی جماعت ہو ، کشمیر میں جب تک ایک سیاسی خیال پر متفقہ جماعت نہ ہو گی۔ ریاست کے لوگوں کے مفاد کی ترقی کے لیے لیڈروں کی کوئی کو شش کامیاب نہیں ہو سکتی ۔‘‘

علامہ اقبال ؒ ایک طرف کشمیری مسلمانوں کو صبر وتحمل سے کام کرنے کا درس دیتے ہیں تو دوسری طر ف ظالموں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وقت گیا کہ جب خان قاہوں میں بیٹھ کر زندگی بسر ہوا کرتی تھی ،جب بن مانگے حق مل جایا کرتا تھا، اب تو لہو کو گرم رکھے بن چارہ نہیں اسی لیے وہ جھپٹنے پلٹنے کا درس دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آزادی صرف اورصرف اسی طرح مل سکتی ہے اور اسی طرح ظلم کا خاتمہ ہو گا، اسی طرح ظلمتوں کی طویل رات دم توڑے گی اور ایک ایسا سویرا طلو ع ہو گاجو تمہاری قسمتوں کو روشن کر دے گا۔ مسمانو! اﷲ کے سوا کسی سے نہ ڈرو ، تمہاری جد و جہد رنگ لائے گی اور جبر و استبداد کا دور ختم ہو جائے گا، تمہاری قربانیاں رایئگاں نہیں جائیں گی ، آ ج نہیں تو کل ان کا ثمر ملے گا ۔ بنیا جیسے شہنشاہ اکبر کے یلوے چاٹتا تھا ، غیور کشمیریو! تمہارے سامنے بھی گٹنے ٹیکے گا۔دیکھیے ارمغانِ حجاز میں رسمِ شبیری ادا کرنے کا درس کس انداز میں دیتے ہیں:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقر ِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ترے دین و ادب سے آرہی ہے بوئے رہبانی
یہی مرنے والی امتوں کا عالم ِ پیری
شیاطینِ ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوقِ نخچیری
چہ بے پروا گذشتند از نوائے صبح گاہِ من
کہ برد آں شور و مستی از سیہ چشمانِ کشمیری

علامہ اقبالؒ کشمیر کے ازلی اور ابدی حسن کے بھی دلدادہ تھے۔ انہیں اس کے چشموں سے پھوٹنے والے پانیوں ، ا س کی برف پوش چوٹیوں ،اس کی وادیوں میں اگنے والے لالہ وگل،اس میں ہر سمت کھڑے سرو و صنوبر،اس کی آبشاروں کی خنک،اس کے سبزہ زاروں کی رونق،اس کے ندی نالوں کی گونج،وادیٔ جنت نظیرکی بلبلوں کے گیت، سارؤوں کی صدائیں،مرغِ ؂بلند آشیاں کی آوازیں،اکثر یاد آتی ہیں تو وہ بے تاب ہو جاتے ہیں ۔پیام ِ مشرق کی نظم ساقی نامہ میں ان کی یہ کیفیت بڑے بھر پور انداز میں بیان ہوئی ہے۔یہ نظم انہوں نے نشاط باغ کشمیر میں بیٹھ کر لکھی۔اس نظم میں خیالات کا تسلسل ایسا ہے جیسے سمندر امڈتا چلاآتا ہو۔علامہ پر گویا کیف اور بے خودی کا عالم طاری ہے اور ایسے میں وہ صدا دیتے ہیں:
خوشا روزگارے،خوشانو بہارے
نجومِ پرن رُست از مرَغ زارے
زمیں از بہاراں چو بالِ تدروے
ز فوّارہ الماس بار آب شارے
لبِ جو خود آرائی غنچہ دیدی؟
چہ زیبا نگارے ،چہ آئینہ دارے
چہ شیریں نوائے چہ دلکش صدائے
کہ می آید از خلوتِ شاخسارے
بہ تن جاں، بہ جاں آرزو زندہ گردد
ز آوائے سارے ز بانگ ِ ہزارے
اور پھر اس وادی ٔ جنت نظیر کے روح پرور نظاروں کو دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں:
تو گوئی کہ یزداں بہشتِ بریں را
نہا داست در دامنِ کوہسارے
کہ تار حمتش آ دمی زاد گاں را
رہا ساز د از محنت ِ انتظارے
اور مزید کہتے ہیں:
چہ خواہم دریں گلستاں گر نہ خواہم
شرابے ،کبابے، ربابے، نگارے
بہ ساغر فرو ریز آبے کہ جاں را
فروزد چونورے، بسوزد چو نارے
باقیات اقبال میں حسنِ کشمیر کو جوشِ خداوندی سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
دہر کی شانِ بقا خطۂ کشمیر میں دیکھ
باغِ جنت کی ہوا خطۂ کشمیر میں دیکھ
ذرے ذرے میں ہے اک حسن کا طوفان بپا
جوش میں لطفِ خدا خطۂ کشمیر میں دیکھ
علامہ اقبالؒ کشیرکے حسین و جمیل منظر کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچتے ہیں کہ جنت بھی اس پر ناز کرتی ہو گی۔ پیامِ مشرق کی ایک نظم بعنوان’’ کشمیر‘‘ میں کہتے ہیں:
رخت بہ کا شمر کشا، کوہ و تل و دمن نگر
سبزہ جہاں جہاں ببیں،لالہ چمن چمن نگر
باد ِ بہار موج موج ، مرغ ِ بہار فوج فوج
صلصل و سار زوج زوج، برسر نارون نگر

کشمیر اقبال کا آبائی وطن ہونے کے ناطے ہمیشہ ان کی نظروں میں رہا۔ اہلِ کشمیر کے دورِ غلامی کی تاریک پر چھائیوں کے آر پار ان کی عقابی نظروں نے بغاوت اور انقلاب کے دھارے دریائے جہلم کی لہروں سے پھوٹتے ہوئے دیکھے تھے اور’ کشمیر کی جدوجہد کا منظر اقبال نے وجدانی طور پر صاف اور واضح دیکھا تھا ۔اس سے قبل کہ کشمیر میں کسی ہل چل کے آثار ظاہر ہوں ان کو نظر آگیا کہ مطلع پر طوفانی بادل جمع ہورہے ہیں۔

علامہؒ6 فروری 1909 ء میں انجمن کشمیری مسلمانان کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انہیں کشمیر اور اہلیانِ کشمیر سے بے پناہ محبت تھی جس کا اظہار انہو ں نے نہ صرف منظوم انداز میں کیا بلکہ اپنی نثری تحریروں میں بھی اس محبت کا واشگاف الفاظ اظہار کیا۔اس سلسلے میں ان کے مختصر لیکن جامع مضامین کشمیری میگزین لاہور کی اشاعت میں دیکھے جاسکتے ہیں جو 1909ء میں شائع ہوئے علاوہ ازیں 1896ء میں بھی وہ کشمیری انجمن میں سرگرم رہے۔یہ انجمن اسی سال معرضِ وجود میں لائی گئی تھی اور اس کے پہلے ہی اجلاس میں علامہؒ نے محمد دین فوق کی فرمائش پر ایک طویل نظم پڑھی جس کا عنوان ’فلاح قوم‘ تھا۔

ؒ اسی زمانے میں علامہؒ نے درج ذیل مکتوب محمد دین فوق کے نام تحریر کیا جس میں کشمیر کے اس وقت کے حالات و واقعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔خط کے مندرجات اور حاصلِ مضمون پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یوں لگتا ہے جیسے یہ مکتوب آج کے حالات کی عکاسی ہے ۔لکھتے ہیں:

برادرم مکرم و معظم، السلام علیکمورحمتہ اﷲ وبرکاتہ
آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ ہمارے مربی و محسن جناب سر آنریبل خواجہ محمد سلیم اﷲ صاحب نواب بہادر کے سی ایس ، آئی سی آئی ای نواب ڈھاکہ نے 5فروری 1919ء کو وائسریگل کونسل میں کشمیریوں کے متعلق فوج اور زمینداروں کی بابت سوالات پیش کیے تھے ۔ فوج کے متعلق تو صاحب بہادر کماندر انچیف افواج ہند لارڈ کچزنے فرمایا کہ کشمیری مسلمانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے اگرچہ کشمیریوں کی کوئی کمپنی یا سکاڈرن علیحدہ موجود نہیں ہے۔ اس امر کے متعلق انجمن کشمیری مسلمانان لاہو ر علیحدہ کوشش کررہی ہے مگر فی الحال میں آپ کی توجہ دو سولاوں کی طرف منعطف کرنا چاہتا ہوں ۔

زراعت پیشہ اقوام کے متعلق جو جواب نواب صاحب کے سوال کا دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ لوکل گورنمنٹ جس قوم کو مناسب سمجھتی ہے اقوام بندی زمینداری میں شامل کر لیتی ہے۔گورنمنٹ پنجاب کو یہ دونوں سوال اور جواب زمینداری کے متعلق حضور وائسرائے بہادر نے بھیجے تھے۔گورنمنٹ ممدوح نے حکم صادر فرمایا کہ کمشنر اپنے اپنے علاقے کی مفصل رپورٹ کریں کہ آیا کشمیری مسلمان اقوام بندی زمینداری میں شامل کر لیے جائیں یا کیے جانے کے لائق ہیں۔کمشنر صاحب بہادر نے ڈپٹی کمشنروں کے نام حکم صادر فرمایا ہے کہ وہ ان کو اس معاملہ میں مدد دیں۔ ڈپٹی کمشنروں نے تمام کشمیری زمینداروں کی ایک فہرست مرتب کروائی ہے جس سے ان کو معلوم ہوگا کہ پنجاب میں کتنے کشمیری زراعت پیشہ ہیں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب سیالکوٹ کا حکم نہایت صاف ہے ۔ انہوں نے تحصیلداروں سے چار امور دریافت فرمائے ہیں یعنی۔
٭۱ قوم کشمیری کے افراد کا عموماََ کیا پیشہ ہے؟
٭کس قدر کشمیری ایسے ہوں گے جن کا گذارہ صرف زراعت کاری پر ہے؟
٭اگر وہ مالکانِ اراضی ہیں تو کب سے انہوں نے زمین حاصل کی ہے؟
٭کوئی کشمیری دخیل کا ر ہے یا نہیں؟
اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ مفصلات اور شہروں میں بود وباش رکھنے والے زراعت پیشہ کشمیریوں کی جو فہرست تیار ہو گی اس میں مندرجہ بالا چار امور کا خیال رکھا جائے گا۔

آپ مہربانی کرکے تحصیلدار صاحبوں کو اس فہرست کے مرتب کرنے میں خود بھی امداد دیں اور دیکھیں کہ یہ فہرست بموجب حکم ڈپٹی کمشنر بہادر تیار کی جاتی ہے یا نہیں۔تمام اہلِ خطہ کو جو آپ کے علاقہ میں رہتے ہیں اچھی طرح سمجھا دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے گاؤں میں فہرست تیار کرنے میں مدد دیں تاکہ مکمل فہرست تیار ہو سکے اور ہماری گورنمنٹ کو معلوم ہو جائے کہ کشمیری کس قدر پنجاب میں زمیندار ہیں اور زمینداری کرتے ہیں۔اگر آپ کو معلوم ہو کہ یہ فہرست بموجب حکم صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر تیار نہیں ہوئی تو صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں مودبانہ درخواست کریں کہ وہ ان کے بموجب حکم تیار کرنے کا صادر فرمائیں۔

جو نقشہ کہ تیار ہو رہا ہے اس کی ایک نقلانجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے پاس جس قدر جلد ممکن ہو سکے ارسال فرمانے کی کوشش کریں۔

یہ چھٹی اپنے بھائیوں کو جو مفصلات میں رہتے ہیں جلدی بھیج دیں تاکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ کس قسم کی فہرست ہونی چاہیے۔اگر وہ دیکھیں کہ فہرست بموجب حکم بالاتیار نہیں ہوئی یا نہیں ہوتی تو وہ آپ کی معرفت صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے خط و کتابت کریں۔

اس غرض کے لیے کہ مندرجہ بالا تمام قوم کے افراد متفقہ طور پر اپنی بہبودی کے لیے کو شش کریں نیز دیگر امور کے لیے جو قوم سے بحیثیت مجموعی تعلق رکھتے ہوں میں تحریک کرتا ہوں کہ آپ اپنے سنٹر(مرکز) میں ضرور کشمیر مجلس قائم کریں۔ اس کے علاوہ ہر ایسے مقام میں جہاں آپ کا اثر ہو اپنے دیگر بھائیوں کو کشمیری مجلس قائم کرنے کی ترغیب بھی دیں کیونکہ اس طریق سے نہ صرف قوم کے افراد میں اتحاد و یگانگت کی صورت پیدا ہوگی بلکہ قومی حقوق کی حفاظت اور توسیع میں بھی سہولت ہو گی۔
خاکسار
محمد اقبال بیر سٹر ایٹ لا
جنرل سیکرٹری انجمن کشمیری مسلمانان لاہور
میں سمجھتا ہوں کہ اگر اﷲ علامہ اقبا ل کو اور زندگی عطا کرتا تو یقیناً وہ کشمیر کی آزادی کے لیے اپنی تمام تر توانائیا ں بروئے کار لاتے مگر افسو س صد افسوس کہ فرشتہ ٔ اجل نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ ۱۹۳۸؁ء میں اس جہانِ فانی سے جہانِ ا بد کو سدھارگئے۔

حکیم الامت کے انتقال کے بعد آزادی کی تحریک جاری رہی اور بالآخر ۱۴ ؍اگست ۱۹۴۷؁ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا۔ جولائی ۱۹۴۷؁ء میں لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے یہ اعلان کیا کہ قیامِ پاکستان کے بعدکشمیری ( اس اصول کے مطابق کہ جو ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق چاہے وہ پاکستان سے الحاق کرلے اور جو بھارت کے ساتھ ملنا چاہے وہ بھارت کے ساتھ مل جائے ) اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے، لیکن ۲۷ ؍اکتوبر۱۹۴۷؁ء کو کشمیر کے عملاً معزول راجہ ہری سنگھ نے ڈرامائی انداز میں بھارت کے ساتھ ملحق ہونے کا اعلان کر دیا ، اس گناہِ عظیم میں شیخ عبداﷲ برا بر کا شریک تھا لیکن غیور کشمیریوں نے الحاق کا یہ فیصلہ تسلیم نہ کیا اور علمِ آزادی بلند کردیا اور ڈوگرہ فوج کو کچل ڈالا ۔اس موقع کا فائدہ ا ٹھاتے ہوئے بھارت نے لا رڈما وئنٹ بیٹن کی اجازت سے اپنی فوج کشمیر میں داخل کردی لیکن کشمیری مجاہدین اس وقت تک کشمیر کے ایک حصے پر قابض ہو چکے تھے جو ا ب آزاد جمو ں و کشمیر کہلاتاہے۔ مجاہدینِ آزادی بھارتی افواج سے بھی ٹکرا گئے اور بھارتی فوجوں کو اپنی شکست نظر آنے لگی تو بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔جہاں یہ مسئلہ ایک عرصے تک موضوع ِ بحث بنا رہااور پھر ۱۳ ؍اگست ۱۹۴۸؁ء اور ۵ ؍جنوری ۱۹۴۹؁ء کی قراردادوں کے مطابق یہ طے پایہ کہ کشمیر کا فیصلہ رائے شماری سے کیا جائے گا۔اسے پاکستان اور بھارت دونوں نے مان لیا اور یوں دونوں ملکوں کے درمیان کنٹرول لائن معرض ِ وجود میں آئی۔بھارتی حکمران ۱۹۵۵؁ء تک ان قراردادوں پر عمل کرنے کی یقین دہانیاں کراتے رہے ۔ ۵ مارچ ۱۹۵۴؁ء کو بھارتی وزیرِ اعظم پیڈت جواہر لال نہرو نے اپنے ایک مکتوب بنام وزیرِ اعظم پاکستان میں لکھا:
’’ ہم نے ہر مو قع پر یہ بات کھل کر کہی ہے کہ ریاست کی قانون ساز اسمبلی اس معاملے میں آزاد ہے کہ وہ الحاق اور دوسرے معاملات میں جو فیصلہ بھی چاہے کرے لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے ،ہم اس سلسلے میں بہر صورت اپنے بین الاقو امی وعدوں اور یقین دہانیوں کی پابندی کریں گے۔ــ‘‘

آل انڈیا ریڈیو سے ایک نشری تقریر میں نہرو نے اعلان کیا:
’’ ہماری یہ پالیسی رہی ہے کہ جہاں کہیں بھی کسی ایک یا دوسری مملکت کے ساتھ ریاست کے الحاق کا معا ملہ متنا زعہ ہو ، وہاں کا فیصلہ ریاست کے کے عوام کو ہی کرنا چاہیے۔‘‘

۱۵ ؍جنوری ۱۹۴۸؁ء کو اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب گوپال سوامی نے ان الفاظ میں یقین دہانی کرائی:
’’کشمیر چاہے بھارت سے الگ ہو جائے، چاہے وہ پاکستان میں شامل ہو جائے ،چا ہے خود مختار ہو کر اقوام متحدہ کی رکنیت کا حق مانگے، یہ ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ ان تمام امور کے بارے فیصلہ کرنا کشمیری عوام کا نا قابل تنسیخ حق ہے۔‘‘

یکم جنوری ۱۹۵۴؁ء کو کلکتہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے نہرو نے کہا:
’’ یہ ہم ہی تھے جو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے اور اس مسئلہ کے پر امن حل کے سلسلے میں یقین دہانی کرائی تھی اور ایک عظیم قوم کی حیثیت سے ہم اپنی اس یقین دہانی سے انحراف نہیں کر سکتے۔‘‘

۵ ؍اگست ۱۹۵۵؁ء کو بھارتی وزیر اعظم نے لوک سبھا میں کہا:
’’ہمارے وزیرِ داخلہ نے یہ بات ہر گز نہیں کہی کہ ہم مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں اپنی یقین دہانیوں سے انحراف کر رہے ہیں۔‘‘
لیکن ابھی ان یقین دہانیوں کی صدائیں فضا میں گونج ہی رہی تھیں کہ بھارت نے یکا یک ا ن کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں اور اب تو وہ ان کے وجود سے بھی انکار کر رہا ہے اور اب تو بنیے کا ظلم وستم اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ہلاکو خاں اور چنگیز خاں جیسے جابروں اور ظالموں کی روحیں بھی دہل جائیں۔ اسلام اور آزادی کے پروانوں پر جور وستم کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہمارا ایمان ہے کہ مومن کے جسم سے نکلنے والا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا بھارتی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور انسانیت سوز سلوک کب تک جاری رہے گا۔کشمیریوں کے خون سے یہ ہولی آخر کب تک کھیلی جائے گی۔ بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاکِ صحرا پہ جمے، یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ ِ بے داد پہ یا لاشۂ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

ہندو بنیے کے مظالم بڑھتے جارہے ہیں اور ہم خاموش ہیں۔ ایک وہ دور تھا جب مسلمان اتحاد کی بدولت پوری دنیا پر چھائے ہوئے تھے۔دنیا کے ایک کونے کے مسلمان کو تکلیف ہوتی تو دوسرے کونے میں رہنے والا مسلمان اس کا درد محسوس کرلیتا تھالیکن آج ہم بے حس ہو گئے ہیں۔ آج ہم میں کوئی محمد بن قاسم نہیں ، کوئی صلاح الد ین ایوبی نہیں، کوئی محمود غزنوی نہیں ، جو روتی سسکتی اور آہ و فریاد کرتی بہنوں،بیٹیوں کے سروں کو ڈھانپ سکے ۔ کشمیر کی بہنوں،بیٹیوں اور ماؤں کی نظریں عالم ِ اسلام پر مرکوز ہیں ۔

کشمیر کا مسئلہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ مسمان ہونے کے ناطے عالمِ اسلام کا مسئلہ ہے کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان ایک امت ہیں ۔ قرآن پاک میں یہ اعلان غیر مبہم انداز میں کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے:
اِ نّ َھذِ اُ مَّتُکُم اُ مَّۃ’‘ وَّ احِدَہ
’’بے شک یہ امت کہ ایک ہی امت ہے‘‘

علامہ اقبال ملت کے تصور کو واضح کرتے ہو ئے کہتے ہیں:
بتانِ رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی ، نہ افغانی

اسی عالمی اساسی نظریے کی وجہ سے نہتے کشمیری اپنے مسلمان بھائیو ں کی امداد کے منتظر ہیں ۔ وہ بے سروسامانی کے عالم میں دنیا ایک بڑی جارحیت کا سامنا کر ہے ہیں۔ بارہ مولا ہو یا انت ناگ،جموں ہو یا کشمیر،حضرت بل کی درگاہ ہو یا کپواڑہ، ہنڈواڑا ہو یا اسلام آباد،سری نگر ہو یا سو پور، ہر جگہ مصروفِ جہاد ہیں اور وہ دنیا کے منصفوں سے سوال کرتے ہیں کہ ۵ جنوری ۱۹۴۹ ؁ء کو پاس ہو نے والی قرارداد کا کیا ہوا؟اور بنیے کے اس وعدے کا کیا ہوا جو اس نے اقوام ِ عالم سے کیا تھا؟ لیکن انہیں کہیں سے تسلی بخش جواب کی باز گشت سنائی نہیں دیتی۔ کشمیری ، بنیے کی سازش سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو الجھائے رکھنا چاہتا ہے ، اس لیے اب وہ سر بکف ہو کرمیدان میں نکل آئے ہیں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتا۔ ہم بھی اپنے کشمیری بھائیوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ ان کی جانی ، مالی، اخلاقی اور سیاسی امداد جاری رکھیں گے جب تک کہ :
٭ بھارتی وحشت و بربریت کا بازار ٹھنڈا نہیں ہو جاتا!
٭ کشمیریوں کو حق ِ خد ارادیت نہیں مل جاتا!
٭ کشمیریوں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی بند نہیں ہو جاتی!
٭ بھارتی درندے کشمیر جنت نظیر سے اپنے ناپاک عزائم لے کر نکل نہیں جاتے!

انشااﷲ وہ وقت جلد آئے گا جب کشمیر یوں کا لہو رنگ لائے گا اوروہ کشمیر کی آزاد فضاؤں میں سانس لے سکیں گے۔خدا کشمیریوں کے حوصلے اور عزم کو بلند ر کھے اور اس کڑھے امتحان میں ان کے پائے اثبات میں کبھی لغزش نہ آنے پائے۔(آمین)

Afzal Rizvi
About the Author: Afzal Rizvi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.