عوامی قہر نے مودی لہر کو اکھاڑ پھینکا

ایک معمولی سے تنکے کی پرواز سے ہوا کا رخ معلوم ہوجاتا ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات کی یہی حیثیت ہے کہ یہ کسی ایک حصے تک محدود نہیں تھے بلکہ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کی نمائندگی اس میں ہوئی۔جملہ پندرہ حلقہائے انتخاب میں سے بھی ۵ خصوصیت کے ساتھ اپنی جانب تو جہ مبذول کراتے ہیں۔ ان میں سے دو اتر پردیش دو مہاراشٹر اور ایک بہار کا الیکشن ہے باقی مقامات پر کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ۔ کیرانہ کا انتخاب ام الحرب ہونے کے سبب سرِ فہرست ہے۔ اس کی بابت یہ غلط فہمی پھیلائی گئی ہے کہ مہابلی بی جے پی کو شکست دینے کے لیے پورے حزب اختلاف کومتحد ہونا پڑا۔ سچ تو یہ ہے کہ ؁۲۰۱۴ کے اندر اس حلقۂ انتخاب میں سابق رکن پارلیمان حکم سنگھ کو ۶ء۵۰ فیصد ووٹ ملے تھے اگر اقتدار میں آنے بعد بھی مودی جی اپنی وہ مقبولت برقرار رکھ پاتے تو حزب اختلاف کا اتحاد بھی بی جے پی کا بال بیکا نہیں کرسکتا تھا۔

اس شکست کی اصل وجہ یہ ہے کہ آنجہانی حکم سنگھ نے اپنے رائے دہندگان کی خدمت کرنے کے بجائے فرقہ واریت کی سیاست شروع کردی ۔ مسلمانوں کے خوف سے ہندو باشندوں کی جبری ہجرت کا تنازع کھڑا کردیا۔ اس کی تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ نقل مکانی کرنے والے ہندو مسلمانوں کے ڈر سے نہیں بلکہ دگرگوں حالات کے تحت ہجرت پر مجبور وئے تھے ۔ حکم سنگھ صاحب اگر ان کی فلاح و بہبود کا کام کرتے ان کے لیے روزگار اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرتے تو وہ دوسرے شہروں کا رخ نہیں کرتے ۔ چند ہندو خاندان کیرانہ سے نکل کر شہرچلے گئے اور حکم سنگھ صاحب دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ باقیماندہ رائے دہندگان نے حکم سنگھ کی بیٹی مرگانکا سنگھ سمیت بی جے پی کا بوریہ بستر گول کردیا۔
موروثیت کی مخالف بی جے پی کو کیرانہ کے اندر انتخاب لڑنے کے لیے حکم سنگھ کی بیٹی کے سوا کوئی مناسب امیدوار نہیں ملا۔اس طرح کانگریس کی خاندانی سیاست کے خلاف چھوڑا جانے والا کا غبارہ اپنے آپ پھوٹ گیا ۔ مغربی یوپی کے کسانوں کا سب سے سنگین مسئلہ گنے کاہے ۔بیچارے کسان گنا ّ کارخانوں کی جانب سے عدم ادائیگی کی دہائی دینے پیلی بھیت کی رکن پارلیمان مینکا گاندھی کے پاس پہنچے تو بقایہ جات کے بجائے ڈانٹ پھٹکار ان کے ہاتھ لگی۔ جانوروں کے حقوق کی خاطر لڑنے والی سورگ لوک کی مینکا بھول گئی کہ کسان بھی ایک سماجی جانور ہے۔انہوں نے پھٹکار لگائی کتنی بارکہا گنا مت بویا کرو پھر وہی کرتے ہو اور شکایت لے کر چلے آتے ہو ہمیں شکر کی ضرورت نہیں ہے۔ مینکا کی بات درست ہے اس لیے کہ اگر پاکستان سے کم داموں پر شکر کی درآمد ہوسکتی ہے تو اپنے کارخانوں کو زحمت کیوں دی جائے؟ ایسا کرنے سے اگر نوجوان بیروزگار ہوتے ہیں تو ہوا کریں ۔ ان کا بیٹا ورون گاندھی تو برسرِ روزگار ہے۔

مغربی اترپردیش کا یہ علاقہ گنے کی فصل کے لیے مشہور ہے۔ یوگی جی نے اپنے پہلے کابینی اجلاس میں کسانوں کے قرضوں کی معافی کا اعلان تو کردیا لیکن وہ اعلان بھی ایک انتخابی جملہ ثابت ہوا ۔ یوگی راج میں گنا کسانوں نے تقریباً ۳۰ ہزار کروڈ کا گنا شکر کے کارخانوں کو فروخت کیا لیکن اس کے بدلے انہیں صرف ۲۰ ہزار کروڈ کی ادائیگی ہوئی۔ مل مالکان نے ۴۴ فیصد یعنی تقریباً ۱۰ ہزار کروڈ دبا لیا۔ اس پر وبال تو مچنا ہی تھا لیکن یوگی سرکار گھوڑے بیچ کر سورہی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران جب بی جے پی رہنماوں کو دال آٹے کا بھاو معلوم ہوا تو صوبائی حکومت نے جلد بازی میں ۷۳ کروڈ روپئے کا بندوبست کیا۔ اس میں سے بھی کتنے روپئے نکلے؟ اور کہاں گئے؟؟ اس کا سراغ لگانا مشکل کام ہے ۔ اس لیے کہ کہاں ۱۰ ہزار کروڈ اوراس کے جواب میں ۷۳ کروڈ۔ اس معمولی رقم سے بی جے پی کے قریبی کسانوں کی جیب بھی نہیں بھرسکی ہوگی ۔ یوگی جی نے گناّ کے اس سنجیدہ معاملے کا مقابلہ جناح سے کرنے کی ناکام کوشش کی اور چاروخانے چت ہوگئے۔

مغربی اتر پردیش نے چودھری چرن سنگھ جیسا زیرک رہنما ہندوستان کی سیاست کودیا ۔ مسلمانوں اور جاٹوں کو متحد کرکے وہ نہ صرف وزیراعلیٰ بلکہ وزیر داخلہ اور وزیراعظم تک بنے لیکن ؁۱۹۹۸ میں کیرانہ کے اندر کمل کھل گیا۔بی جے پی کے ویریندر ورما کو ۲ لاکھ ۸۹ ہزار ووٹ ملے جبکہ سماجوادی پارٹی کے منور حسین ۲ لاکھ ۲۷ ہزار سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ کسانوں کے رہنما نقلی سنگھ نے ایک لاکھ ۱۸ ہزار ووٹ حاصل کیے اور بہوجن سماج پارٹی نے بھی ۶۲ ہزار ووٹ حاصل کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ؁۱۹۹۹ میں پھر سے انتخابات ہوئے تو اجیت سنگھ کی آریل ڈی کے امیر عالم نے اس پر دوبارہ قبضہ کرلیا لیکن ایک فرق یہ ہوا کہ بہوجن سماج پارٹی نے سماجوادی پارٹی کے منور حسین کو دوسرے سے چوتھے نمبر پر ڈھکیل دیا۔ ؁۲۰۰۴ کے اندر آر ایل ڈی کی انورادھا چودھری نے زبردست کامیابی درج کرائی اور بی جے پی کو تیسرے مقام پر ڈھکیل دیا اس بار بی ایس پی دوسرے نمبر پرتھی۔ ؁۲۰۰۹ کے اندر بہوجن سماج کے ٹکٹ پر تبسم بیگم نے بی جے پی کے حکم سنگھ کو ہرادیا اورسماجوادی کے شاہجہاں مسعود تیسرے نمبر پر رہے ۔ اس کے بعد مظفر پور کے اندوہناک فسادات اور مودی لہر کے چلتے حکم سنگھ نے زبردست کامیابی درج کرائی ۔سماجوادی کو بہوجن سماج پارٹی سے دوگنا ووٹ ملے مگر حکم سنگھ کو ۵۰ فیصد سے زیادہ ووٹ مل گئے ۔ اس پس منظر کو سامنے رکھ کر کیرانہ کے حالیہ ضمنی انتخابات کا جائزہ لیاجانا چاہیے۔

بہوجن سماج پارٹی ضمنی انتخابات پر اپنی توانائی ضائع کرنے میں یقین نہیں کرتی ۔ ویسے بھی کیرانہ میں ۳ لاکھ ۲۰ ہزار( ۲۹ فیصد) ووٹ حاصل کرنے والی سماجوادی پارٹی کو بی جے پی سے مقابلہ آرائی کا حق تھا لیکن اکھلیش یادو نے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ سیٹ آر ایل ڈی کو دے دی جسے ۴فیصد سے کم ووٹ ملے تھے۔ مقابلے کے لیے بہوجن سماج پارٹی کی اس تبسم حسین کا انتخاب کیا گیا جو ایک بار حکم سنگھ کو شکست دے چکی تھیں۔ اس صورتحال میں ایک خاص بات یہ ہے کہ نہ صرف کیرانہ بلکہ نورپور میں بھی گرم ہندوتوا کا مقابلہ کرنے کے لیے نرم ہندوتوا کا سہارا نہیں لیا گیا۔ یہ نہیں سوچا گیا کہ مسلمان امیدوار کو دیکھتے ہی ہندو ووٹ متحد ہوجائے گا بلکہ دونوں مقامات مسلمان امیدوار کو میدان میں اتارا گیا۔ اس طرح کی حکمت عملی اور خود اعتمادی رنگ لائی ۔ تبسم حسین تو گویا انتخاب سے قبل ہی کامیاب ہوگئیں اور نورپور میں سماجوادی سائیکل چل پڑی۔ بی جے پی کے لیے یہ دوہری شکست تھی کہ یوگی راج میں اسمبلی اور پارلیمان دونوں مقامات پر مسلمان امیدوار زبردست فرق کے ساتھ کامیاب ہوگئے۔ اس انتخاب کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ مظفر نگر فساد کے ذریعہ جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان جو نفرت کا بیج بویا گیا تھا اس کی بیخ کنی ہوگئی ۔

نورپور میں بی جے پی لگاتار ؁۲۰۱۲ سے کامیابی کا پرچم لہرا رہی تھی۔ ؁۲۰۱۲ کے اندر اس کے امیدوار لوکیندر سنگھ کو صرف ۴۷ ہزار ووٹ ملے تھے لیکن وہ کامیاب ہوگئے اس لیے کہ بہوجن سماج پارٹی کے محمد عثمان کو ۴۲ ہزار اور سماجوادی قطب الدین کو ۳۵ ہزار ووٹ ملے تھے۔ پچھلے سال لوکیندر سنگھ اپنے ووٹ بڑھاکر ۷۹ ہزار تک لے گئے لیکن سماجوادی کے نعیم الحسن نے ۶۶ ہزار اور بہوجن سماج کے گوہر اقبال نے ۴۶ ہزار حاصل کیے ۔ مسلمانوں کے ووٹ کی تقسیم سے کمل کھل گیا۔ لوکیندر سنگھ کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ اونی سنگھ کو بی جے پی نے میدان میں اتارا یعنی کہیں بیٹی تو کہیں بیوی کے ذریعہ ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اونی سنگھ کو اپنے شوہر سے زیادہ ۸۲ ہزار ووٹ ملے لیکن نعیم الحسن نے ۹۲ ہزار ووٹ حاصل کرکے انہیں ہرا دیا ۔ اس حلقۂ انتخاب سے کئی مسلم امیدوار قسمت آزما رہے تھے لیکن بی جے پی کو مسلم رائے دہندگان کی یکسوئی مہنگی پڑی۔ نور پور میں زعفرانی دیدوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔

کیرانہ حلقۂ انتخاب میں جملہ ۱۶ لاکھ ۹ ہزار ووٹرس ہیں ۔ ان میں سے پانچ لاکھ مسلمان ہیں ۔ دلت ۲ لاکھ ۴۶ ہزار، جاٹ ایک لاکھ ۵۲ ہزار، کشیپ ایک لاکھ ۲۳ ہزار، گوجر ڈیڑھ لاکھ ،براہمن ۶۰ ہزار، ٹھاکر ۶۵ ہزار، سینی ۳۲ہزاراور بنیا ۶۰ ہزار ۔ پارلیمانی انتخاب میں تو خیر بی جے پی کو واضح برتری حاصل تھی مگر پچھلے سال کے اسمبلی انتخاب تک حالات بدل چکے تھے۔ بظاہر اس پارلیمانی حلقے کی پانچ میں سے چار اسمبلی حلقوں پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی تھی مگر اس کے کل ووٹ صرف ۴ لاکھ ۳۰ہزار ہی تھے ۔ اس کے مقابلے ساری مخالف پارٹیوں کے جملہ ووٹ ۶ لاکھ دس ہزار تھےجن میں سماجوادی اور کانگریس اتحاد کے ۳ لاکھ اور بہوجن سماج پارٹی کے ایک لاکھ ۹۰ ہزار نیز آریل ڈی کے ایک لاکھ ۱۰ ہزار ووٹ تھے۔ ایسے میں اگر یہ چاروں جماعتیں اپنے الگ الگ امیدوار کھڑا کردیتیں تو بڑی آسانی سے بی جے پی کو کامیابی مل جاتی لیکن جیسے ہی حزب اختلاف متحد ہوا اس کے ووٹ بی جے پی سے ایک لاکھ ۸۰ ہزار زیادہ ہوگئے۔ اسی صورتحال نے بی جے پی کو حواس باختہ کردیا ۔

بی جے پی کے پاس چونکہ مرکزی اور صوبائی حکومت ہے اس لیے اس کی انتخابی مہم وزراء سے لیس تھی ۔ اس فوج کی کمان وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ سنبھالے ہوئے تھے اور نائب وزیراعلیٰ کیشو پرشاد موریہ ان کی نیابت فر مارہے تھے۔ ان دونوں مہارتھیوں کے علاوہ پانچ صوبائی وزراء کو کیرانہ روانہ کردیا گیا تھا ۔ جن میں مختلف ذاتوں کے رہنما موجود تھے مثلاً آیوش(عمر دراز لوگوں ) کے وزیر دھرم سنگھ سینی ، گنے کی ترقی کے وزیر سریش رانا، بنیادی تعلیم کے وزیر انوپم جیسوال ، وزیر زراعت سوریہ پرتاپ ساہی اور مذہبی امور ، ثقافت ، اقلیتی امور ، وقف اور حج کے وزیر لکشمی نارائن ۔ یہ سارے وزراء اپنی اپنی ذات برادری کے لوگوں کو کمل تھمانے کے کام میں جٹ گئے ۔ ان کے پاس لال بتی والی گاڑی تو تھی لیکن اس کی روشنی میں کوئی کام نظر نہیں آتا تھا ۔ اس کے برعکس حزب اختلاف نے مہم کی کمان اجیت سنگھ کے بیٹے جینت چودھری کو تھما کر اپنے کارکنان کے ذریعہ ان کا تعاون و حمایت کرنے کی حکمت عملی اپنائی ۔ بالآخر آسمان پر چمکنے والے ستاروں کے مقابلے زمین سے جڑے ذروں نے اپنی کامیابی کا لوہا منوا لیا۔

حزب اختلاف کی اس پختگی کے مقابلے بی جے پی والے اوچھی حرکتوں پر اتر آئے ۔ سب سے پہلے تو بلاوجہ قائد اعظم محمدعلی جناح کی تصویر کا مسئلہ اچھال کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیمی ماحول سے کھلواڑ کیا گیا۔ ان زعفرانیوں کو امید نہیں تھی کہ یونیورسٹی کے مسلم طلباء اس پامردی کا مظاہرہ کریں گے اور وہاں تعلیم حاصل کرنے والے غیر مسلم طلباء ان کے شانہ بشانہ بی جے پی کی گھناونی سازش کو ناکام بنائیں گے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء یونین نے سارے ملک کو یہ پیغام دیا کہ متحد ہوکر فسطائی قوتوں کا مقابلہ کیا جاسکتاہے ۔ اس کے بعد دوسری غیر انسانی حرکت یہ کی گئی کہ شدید گرمیوں کے رمضان میں پولنگ کی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔ ان احمقوں کو امید تھی کہ مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں گے ۔ انتخاب کے قریب جب مسلمانوں کے جوش و خروش نے ان کے ہوش اڑا دیئے تو ای وی ایم کا سہارا لینے کی مذموم کوشش کی گئی۔ اس بار لوگ ہوشیار تھے اس لیے انہوں نے رنگےہاتھوں پکڑ لیا تو گرمی کا بہانہ بنایا گیا اور کئی جگہ دوبارہ پولنگ کا اعلان کیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے مسلم اور دلت علاقوں کی مشینوں کو ہی گرمی لگی سورنوں کی مشینیں اس سے بے نیاز تھیں لیکن یہ حربہ بھی ناکام رہا اور استعفیٰ دینے کی دھمکی دینے والے یوگی مہاراج اپنے وعدے سے پسر گئے۔
کیرانہ اور نور پور کے علاوہ تیسری اہم ترین نشست بہار کے جوکی ہاٹ کی تھی ۔ آج کل ابن الوقتی کی سیاست کا بول بالہ ہے اور اس کے سب سے مہان گرو نتیش عرف پلٹو کمار فی الحال بہار میں برسرِ اقتدار ہیں اس کے باوجود جوکی ہاٹ کے منتخبہ امیدوار سرفراز عالم نے موقع پرستی کی روایت کے خلاف بغاوت کرکے اپنا استعفیٰ پیش کردیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دورِ پرفتن میں اصول پسندی کی یہ سعادت ایک مسلمان کے حصے میں آئی۔ سرفراز عالم ؁۲۰۱۰ کے اندر جے ڈی یو کے ٹکٹ پر جوکی ہاٹ سے کامیاب ہوئے تھے۔ اس وقت آر جے ڈی کے ارون یادو کو صرف ۱۵ ہزار ووٹ ملے تھے اور وہ ایک مسلمان آزاد امیدوار سے بھی نیچے تیسرے نمبر پر تھا۔ ؁۲۰۱۵ میں سرفراز عالم نے جے ڈی یو کے ٹکٹ پر ۹۳ ہزار ووٹ حاصل کیے ۔ اس بار ان کو آر جے ڈی اور کانگریس کی حمایت حاصل تھی اور ان کے ووٹ کا تناسب ۶۱ فیصد تھا۔ نتیش کمار نے جب دوبارہ بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا تو سرفراز عالم نے اپنی پارٹی سے استعفیٰ دے دیا اور الیکشن بھی نہیں لڑا۔ اس بار مقابلہ آر جے ڈی کے شہنواز اور جے ڈی یو کے مرشد عالم کے درمیان تھا ۔ مرشد عالم کو ایک آزاد امیدوار رنجیت یادو سے بھی کم ووٹ ملے اور شہنواز ۴۰ ہزار سے زیادہکے فرق سے کامیاب ہوگئے۔ جے ڈی یو کی مخالفت کے باوجود شہنواز کا ووٹ صرف ۴ فیصد کم ہوا۔ ان نتائج سے نتیش کمار کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔

مہاراشٹر کے بھنڈارہ گوندیا نشست کی حالت بھی جوکی ہاٹ جیسی تھی ۔ یہاں سے منتخب ہونے والے نانابھاو پاٹولے کسی زمانے میں کانگریس میں ہوا کرتے تھے لیکن وہ کسانوں کے تئیں حکومت کے رویہ سے ناراض ہو کر دور ہوگئے۔ اس ناراضگی کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی نے ان کو ٹکٹ دے دیا اور این سی پی کے طاقتور رہنما پرفل پٹیل سے لڑادیا ۔ نانا پاٹولے بی جے پی کی امیدوں پر پورے اترے اور انہوں نے پٹیل کو ڈیڑھ لاکھ ووٹ سے دھول چٹا دی۔ بی جے پی کے اندر جانےکے بعد پاٹولے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ بار بار کسانوں کے مسائل اٹھاتے تھے لیکن انہیں نظر انداز کردیا جاتا تھا ۔ بالآخر انہوں نے وزیراعظم کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تو انہیں خاموش کردیا گیا۔ اس توہین کو وہ برداشت نہیں کرسکے اور بی جے پی سے استعفیٰ دے کر کانگریس میں لوٹ آئے۔ اس کے باوجود پاٹولے کو ٹکٹ نہیں دیا گیا بلکہ این سی پی کے مدھوکر ککڑے کو امیدوار بنایا گیا لیکن نانا پاٹولے اس سے مایوس نہیں ہوئے ۔ انہوں نے اپنے حریف پرفل پٹیل کے ساتھ مل کر انتخابی مہم چلائی اور ککڑے کو کامیاب کیا ۔ ناناپاٹولے نے ثابت کردیا کہ کانگریس پر آمریت کا الزام لگانے والی بی جے پی کا دامن بھی داغدار ہے۔ پاٹولے نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ مرکزی وزیر نتن گڈکری کا مقابلہ کرنے کا دم خم رکھتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ نانا پاٹولے نے بی جے پی کے چہرے پر پڑی ریشمی نقاب نوچ کر سرِ بازارپھینک دی ۔

ملک کے گئے گزرے سیاسی ماحول میں جہاں سرفراز عالم اور نانا پاٹولے جیسے لوگ اصولوں اور عوامی فلاح بہبود کی بات کررہے ہیں وہیں ہندوتواوادی بی جے پی اور شیوسینا نے پالگھر میں کمال ابن الوقتی کا مظاہرہ کیا ۔ نیز اتنے نچلے پر بہتان تراشیاں کیں کے جسے دیکھ کر عوام کا سر شرم سے جھک گیا ۔ بھائی ٹھاکر کے بہوجن وکاس اگاڑی کو ملنے والے اس قدر ووٹ ہندوتوادیوں سے بیزاری کا ثبوت ہے۔ پالگھر میں معمولی فرق سے بہرحال بی جے پی کا کمل کھل گیا۔ ؁۲۰۰۹ کے اندر اس حلقہ انتخاب میں ۱۰ ہزار کے معمولی فرق سے بھائی ٹھاکر کی پارٹی بی وی اے نے بی جے پی کو ہرادیا تھا لیکن کانگریس کے دامود شنگڑا کو ایک لاکھ ۶۰ ہزار نیز کمیونسٹ امیدوار لہانو کوم کو ۹۲ ہزار ووٹ ملے تھے ۔ ؁۲۰۱۴ میں بی جے پی نے شیوسینا کے ساتھ مل کر ۵ لاکھ ۳۳ ہزار ووٹ حاصل کرلیے اور بی وی اے کو ۲ لاکھ ۴۴ ہزار کے فرق سے ہرا دیا۔ کمیونسٹ امیدوار کو اب بھی ۷۶ ہزار ووٹ ملے تھے۔

اس بار شیوسینا نے بی جے پی کو سبق سکھانے کی خاطر بی جے پی کے متوفی رکن پارلیمان چنتامن ونگا کے بیٹے کو اپنا امیدوار بنا لیا۔ اسے امید تھی کہ چنتامن کی ساری ہمدردیاں ان کے وارث شری نواس ونگا کے حصے میں آ جائیں گی۔ بی جے پی نے اس چانکیہ نیتی کا مقابلہ کرنے کے لیے کانگریس کے راجندر گاویت کو ٹکٹ دے دیا ۔ اس طرح انتخابی کامیابی کے لیے نظریات و اخلاق کا جنازہ اٹھا دیا گیا اور ایک دوسرے پر خوب لعن طعن کی گئی۔ اس ساری اٹھا پٹخ کے بعد بی جے پی کو ۲ لاکھ ۷۲ ہزار، شیوسینا کو ۲ لاکھ ۴۳ ہزار اور بی وی اے کو دو لاکھ ۲۳ ہزار ووٹ ملے ۔ اس مقام پر بی جے پی کو کرسی تو ملی لیکن عزت کی مٹی پلید ہوگئی۔ کیرانہ اور پالگھر نے ثابت کردیا کہ مودیتوا کا مقابلہ نرم یا سخت ہندوتوا نہیں کرسکتا اس کے لیے غیر ہندوتوا متبادل ضروری ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1222009 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.