تحریر: رافعہ مستور صدیقی، رحیم یار خان
میں اگر بولوں تو دم گھٹتا ہے۔ پر چپ رہنا بھی تو مشکل ہے۔ طویل خیالات پر
مختصر الفاظ کے پہناوے پورے نہیں آتے۔ خیالات کو الفاظ دینا ضروری ہے۔ کاغذ
پر دکھ اتارنا بھی تو مشکل ہے۔ تخیل کو لفظ دینا اور پھر لفظ کو الفاظ
بنانا بہت مشکل ہے۔ دکھ کو تحریر کرنا بھی تو دکھ ہی ہے۔ بے بنیاد سوچیں
مجھے خالی کر دیتی ہیں۔ آج عید ہے بابا۔ برسوں گزر گئے۔ پھر بھی میں سویاں
لے کہ آپ کے گھر آنے کا انتظار کرتی ہوں۔ میں آپ کی آہٹ پہچان لیتی تھی۔ آپ
نماز پڑھ کے آتے تو ہم آپ کو گھیر لیتے تھے۔ آپ عیدی کے لیے گل کو تنگ کرتے
تھے۔ اور وہ من چاہی عیدی لے کے دم لیتی تھی۔ مجھے ایسا لگتا ہے بابا لوٹ
آئیں گے۔ عید کا دن ہوگا۔ مجھے گلے لگا کر آپ میرے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ
رکھیں گے۔ پھر جب میری آنکھیں بھیگ جائیں گی۔ پیار سے ڈانٹ لگائیں گے ارے
پگلی روتی کیوں ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے۔میرے بابا لوٹ آئیں گے پھر میرے تخیل
کی وادی میں وہ قیامت خیز منظر لہراتا ہے کہ جب آپ جدا ہوئے تھے۔ دل دھڑکنا
بھول جاتا ہے۔ اشکوں کی لڑیاں تھمنے کا نام نہیں لیتی ہیں۔ کہ میرے سر پہ
اب آپ کا دست شفقت نہیں ہے۔۔۔ کہ اب فقط مجھ کو صرف اس گمان کو اپنے اندر
زندہ رکھنا۔ بابا آپ لوٹ آئیں گے۔ وہ ڈائری بند کرتے ہی کچھ برس پہلے کی
عید میں کھو گئی۔
اچھا تو آج عید ہے۔ میری شہزادی نے کپڑے بھی لیے ہوں گے۔ اس کے کانوں میں
بابا کی آواز آئی۔ تو جیسے خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جی بابا! پر ویسے نہیں
جیسے آپ دلاتے تھے۔ نور اداس ہوئی۔ نہ میری بچی رانی نہ، عید کے دن اداس
نہیں ہوتے۔ بابا نے اسے سمجھایا۔ بابا آپ کہاں چلے گئے تھے؟ اس کے آنسو
آنکھ کی دہلیز تک آ چکے تھے۔ کہیں نہیں میری جان۔ بابا آپ کے پاس ہی ہیں،
اپنی نور جبین کے پاس۔ بابا نے نور جبین کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
بابا عفرا کو چاچو نے اچھی والی شاپنگ کرائی جیسی آپ کرواتے تھے اور تو اور
ثمن بتا رہی تھی عیدی بھی ہزار لے گی وہ۔ نور نے بابا کے سینے پر سر رکھتے
ہوئے بتایا۔ اچھا تو میری شہزادی نے پچھلے سال دو ہزار لئیے تھے۔ بابا نے
اس کے سر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ اچھا تو ابھی میری عیدی نکالیں نہ بابا۔ اس
نے فوراً سے فرمائش کی۔
جی تو کتنے لے گی میری لاڈو رانی۔۔۔ ؟؟ میں پورے پانچ ہزار لوں گی بابا۔
چاچو آئیں گے جب ہر بار کی طرح تو میں عفرا کو دیکھاؤں گی۔ نور جبین اٹھ
جاؤ اوو نور جبین آج عید کا دن ہے۔ اتنی دیر نہیں سوتے۔ جیسے ہی آنکھ کھلی
اس نے بابا کو نہ پا کہ فوراً آنکھیں بند کر لیں۔ بابا آپ کہاں چلے گئے۔
عیدی تو دیں۔ اب کی بار آنسو بہہ کر گالوں کو بھگو چکے تھے۔ اٹھ کملی اے
دیکھ سکینہ نے سویاں بھیجی ہیں بہن بھائی کو بھی کھلا دے خود بھی کھا لے،
اماں کی آواز آئی۔۔
اماں سویاں بنائی نہیں ہیں کیا؟ اس نے دور سے ہی پوچھا۔ نہ پتر اتنے پیسے
کہاں سے آئے۔ تیری بہن بھائی کو عیدی بھی دینی ہے۔ اماں نے وضاحت کرتے ہوئے
کہا۔ اماں کتنے میں بن جانی تھیں۔ کنجوسی ہی کرتی ہو ہمیشہ۔ نور جبین نے
منہ بناتے ہوئے کہا۔۔ اچھا جلدی کریں اٹھ جائیں، تیرے چاچے کے گھر بھی چلنا
ہے، ناراض ہو ں گے پھر، اماں نے جلدی کرتے ہوئے کہا۔
کیوں؟ چاچو آتے ہیں نہ ہر بار ، نور کو جھٹکا لگا۔۔۔ تیرے ابے کے ہوتے آتے
تھے۔ اب کہا کے بھرجائی میرے تو بھائی رہے نہیں۔ بچوں کو بچوں سے ملنا ہو
تو لے آئیے گا، اماں لہجہ بناتے ہوئے بولیں۔ تو ٹھیک ہے اماں پھر ہم نہیں
جا رہے، اس نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔ نہ نہ ایسی بات نہیں کرتے۔ رشتے ٹوٹ
جاتے ہیں۔ اتنے سال آتے رہے وہ اب ہم چلے جائیں گے۔ کچھ نہیں ہوتا، اماں نے
سمجھاتے ہوئے کہا۔
اچھا! اماں تو کہتی ہے تو ٹھیک ہے، اس نے عید کے دن پریشان کرنا مناسب نہ
سمجھا۔ اے میری سونی شہزادی اے۔ جا گل جبین اور شیر جہاں کو تیار کر دے۔
اماں نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا۔ آپا چاچو کتنے خوش ہوں گے۔ وہ تو عیدی بھی
دیتے ہیں۔ مزا آئے گا۔ میں ویڈیو گیم لوں گا۔ شیر جہاں نے چہکتے ہوئے کہا۔
ہاں میرا سونا بھائی۔ جا نہا کے آ۔ اس نے شیر جہاں کے کپڑے اٹھائے۔ہاں بس
باتوں تک ہی رہنا۔ اس سے اوپر نہ جانا۔ صغریٰ بیگم نے ہاتھ ہلا ہلا کر حکم
دیا۔ شیر جہاں چھوٹا تھا پر سب سمجھتا تھا۔
فاران یہ میری چاکلیٹ اس کو کس نے دی، عبرا نے گل کو دیکھ کر رونے والا منہ
بنایا۔ ہم تو ان کے گھر کچھ نہیں کھاتے، گھن آتی ہے ہمیں تو۔ اور عذرا بیگم
سوچ رہی تھیں سمجھدار بچے ہیں اس لیے نہیں کھاتے، وہ ایک آہ بھرتی رہ گئیں۔
شیر جہاں سب سمجھتے ہوئے خاموشی سے اماں کے پاس آیا۔ اماں آپا کا داخلہ
کیسے بھیجیں گے۔۔۔؟ پتر وہ اﷲ ہے نا۔ اس کی حکمت لوگوں سے بہت بڑی ہے۔ یہ
کہتے ہوئے عذرا بیگم کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ اماں گھر چلیں، عید منانی ہے، گل
نے اماں کا منہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔۔۔ جی میرا بچہ
چلتے ہیں۔ اب تب تک نہیں آئیں گے جب تک میرے پیارے بچے کچھ بن نہ جائیں گے،
عذرا بیگم نے عزم کرتے ہوئے کہا جس پر تینوں نے اپنا سر ہلایا۔
کیا سوچ رہی ہے پتر؟ تیرا چاچا اور تیری پھپو آئے ہیں، عذرا بیگم نے نور کو
آ کر بتایا۔ اس نے پہلے آسمان کی جانب دیکھا۔ اﷲ کا شکر ادا کیا۔ پھر اماں
سے مخاطب ہوئی۔ کیوں آئے ہیں؟ میری پیاری بچی عید ہے آج، اماں نے پیار کرتے
ہوئے کہا۔ اماں 10سال پہلے بھی یہی عید تھی۔ میں نہیں آ رہی نیچے۔ اس نے دو
ٹوک لہجے میں کہا۔ نہ پتر نہ 10سال تو میں نے اس عید کا انتظار کیا کہ وہ
خود ملنے آئیں، عذرہ بیگم نے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔
اس کے خاموشی پر اکتفا کرنے پر عذرا بیگم پھر سے گویا ہوئیں۔ پتر وہ دن
بھولتا نہیں ہے۔ یہاں سینے پر نقش ہے۔ پر رشتے توڑنے کے لیے نہیں ہوتے۔
عزرا بیگم نے بدگمانی سے روکا۔ اور اس کو اپنی ان پڑھ ماں ہمیشہ پڑھی لکھی
لگتی تھی۔ اماں شیر جہاں سے رابطہ ہوا۔؟ہاں! بس پہنچنے والا ہوگا، میرا
ڈاکٹر پتر۔ فخریہ انداز میں اسے آنے کی تائید کرتے ہوئے کہہ کر چلی گئیں۔وہ
جیسے ہی نیچے آئی۔ چاچی اور پھپھو گل کے صدقے واری ہو رہی تھیں۔ سب کچھ اس
کے ذہن میں گھوم گیا۔ وہ سب کچھ بھولتے ہوئے ان کے پاس آئی کیونکہ اس کی
اماں یہ چاہتی تھیں۔
آج ان کے گھر میں دعوت سجی تھی۔ نور جبین سی ایس ایس پاس کرنے کے بعد اماں
کے پاس رہنے کی خاطر پروفیسر بن گئی تھی۔ شیر جہاں اب ڈاکٹر شیر جہاں بن
چکا تھا۔ گل جبین نے بھی ایک سال میں ڈاکٹر بن جانا تھا۔ عذرا بیگم پھولے
نہیں سمارہی تھیں۔ عید کا دن تھا ہر طرف خوشیاں تھیں۔ برسوں پہلے کی طرح
بابا آپ کے بہن بھائی بھی آئے ہیں۔ بابا لوٹ آئیں نا۔ وہ ایک کونے میں کھڑی
اپنے بابا کے سنگ گزری عیدیں یاد کر رہی تھی۔ آنکھیں اشکوں سے بھر گئی
تھیں۔ آپا آپ رو رہیں ہیں۔؟ گل جبین نے پیچھے سے آکر باہیں ڈالتے ہوئے کہا،
نہیں میری جان۔۔۔ نور جبین نے پیار کرتے ہوئے کہا۔۔۔ عید تو بہت اچھی ہوتی
ہے۔ گل نے بچوں کی طرح لاڈ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ہاں پر کوئی عید بابل کے بنا نہ
ہو۔ اس نے گل کی باہیں کھول کر اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ |