اشرف المخلوقات ہونا ایک بڑا شرف ہے۔ اشرف المخلوقات کو
ثابت کرنا ایک امتحان بھی ہے اور کامیابی بھی۔ صحت ہے تو زندگی کی رونقیں
اچھی لگتی ہیں ورنہ سب فضول اور بے معنی لگتا ہے۔ جس جس کو یہاں بھی موقع
ملتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ایک مسیحا بن کر کسی کے کام آنے نہ ان کے لیے ایک
جلاد ثابت ہو۔ جو آپ نے کھالیا ، جو پہن لیا یا جو کچھ اپنے ہاتھ سے آپ نے
خیرات ، صدقہ کر دیا یہ آپ کا ہے باقی جو کچھ بھی وہ آپ کا نہیں ، دم مسافر
ہونے کے بعد وہ سب کچھ پرایا ہو جاتا ہے۔ بلکہ الٹا مرنے والے کے لیے عذاب
بھی بن جاتا ہے۔ اس کی بندر بانٹ شروع ہو جاتی ہے۔ جن کے لیے جائز و ناجائز
طریقے سے کمایا ہوتا ہے وہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں فائدہ دوسرے اٹھاتے ہیں۔
آئیے اپنے اپنے وسائل کے مطابق مل کر اس ملک اور قوم کو مسیحا بن کر ثابت
کریں۔تاکہ ہماری ماؤں ، بہنوں کو کو باہر روڈ پر بچوں کو جنم دینے کی نوبت
نہ آئے اور نہ ہی کسی درخت کے ساتھ ڈرپ نصب کرنا پڑے۔
ایک خوبصورت صبح ، صبح صادق سورج کی کرنیں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، باغ
میں کوئل کے چہکنے کی سریلی آواز نے سب ضبط کے بدھن توڑ ڈالے، کتنا خوش
نصیب یہ پرندہ ہے کہ اس کو یہ ماحول دستیاب ہے ، اپنی مستی میں بول رہا ہے
اور انسانی معاشرے کو کتنا اچھااور سریلا پیغام دے رہا ہے۔ کہ میری طرف
دیکھو اﷲ رب العزت نے مجھے کتنا اچھا ماحول دیااور کتنی اچھی صحت بخشی ہے
لیکن آپ ایک اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ۔۔۔۔۔؟ میں یہ سب سوچنے پر
مجبور ہو گیا کہ کوئل کی کانوں میں سنائی دینے والی کُو کُو کتنی اچھی اور
بھلی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس انسانی چیخ و پکار ، دل سوز واقعات ،
صحت کے معاملے میں ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کا رویہ وہ ڈاکٹرز جنہیں مسیحا کا
نام دیا جاتا ہے خدا جانے اب مسیحا بھی ہیں یا بس …………۔انسان ایک اشرف
المخلوقات ہونے کے ناطے کتنا خوش قسمت ہے لیکن اس نے خود ہی اپنی زندگی کو
اپنے ہی جیسے حکمرانوں کے ہاتھوں اجیرن بنا رکھا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی
چھوٹی سے چھوٹی نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ بڑی نعمتوں کا
شکر ادا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں یہ تو رب العزت کا ہی مقام ہے کہ ہمیں
مسلسل عطا کئے جا رہا ہے۔ جس کا کوئی حساب کتاب نہیں لیکن رب کائنات نے
اپنے اس گلشن ، باغ یعنی کائنات کو خوبصورت رکھنے اور رہنے کے لیے ہمیں
مکمل ضابطہ حیات بھی دے دیا لیکن پھر بھی ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ اس کو اپنی
زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنانے میں ناکام ہیں۔ صحت ہر جاندار کے لیے کتنی
اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا اندازہ اس بیمار سے پوچھیں جو شب و روز آ ہ و پکار
میں گزار رہا ہے اور اﷲ کریم سے رو رو کر اپنی صحت کے لیے دعا ئیں مانگتا
ہے۔ رب جل جلا ل نے انسان کو بے پناہ عقل ، دانش مندی، سوچ اور تحقیق کی
صلاحیت عطا کر رکھی ہے ۔ا نسان کو رب کائنات کی طرف سے یہ شرف حاصل ہے کہ
وہ مختلف بیماریوں کی تحقیق کرنے کے بعد اس کی میڈیسن تیار کرتا ہے اسی طرح
مختلف شعبہ جات میں مختلف بیماریوں کی ادویات تیار کرچکا ہے اور کررہا ہے۔
لیکن اس کے بر عکس انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود بھیڑیوں جیسا رویہ
کیوں اختیار کئے ہوئے ہے۔صحت کے لیے بھی انسان نے خود ساختہ قوانین بنا
رکھے ہیں فلاں حیثیت کے ملازم کو فلاں فلاں کیٹیگری میں رکھا جائے گا ،
افسوس کے ساتھ سوچنا یہ ہے کیا صحت کا بھی کوئی پیمانہ ہے؟، صحت تو سب کے
لیے برابر ہے اس کے لیے ایک جیسا علاج کیوں ممکن نہیں ۔ یہاں ذکر کرنا
ضروری سمجھوں گا کہ ہمارے نام نہاد سیاستدان/اشرافیہ جو اس انسانی معاشرہ
کی فلاح اور بہتری کے لیے صوبائی اور قومی پنچائت(اسمبلی، ایوان) میں تشریف
فرما ہیں ان کی صحت اور ضروریات زندگی علیحدہ کیوں ہیں؟ ان کا علاج بیرون
ملک ہی کیوں ممکن ہے ؟ شائد اس لیے کہ کہیں زیادہ دیر بیمار رہنے سے ملک کو
لوٹنے میں پیچھے نہ رہ جائیں ۔ جس طرح کم تر طبقے کو گندی نالی کا کیڑا
سمجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے اگر وہ نہ رہا تو جس کے ووٹ سے آپ کو
دوبارہ ان پنچائتوں/ایوانوں میں بیٹھنے کا موقع ملے گا؟۔ان سے پوچھا جائے
کبھی اپنی اولاد کے ساتھ بھی ایسا ہی علاج کروانے میں رویہ رکھا ہے؟ جس طرح
کا پاکستانی قوم کے ساتھ برتاؤ کیا جارہا ہے۔ رعایا بھی ایک اولاد کی طرح
ہوتی ہے، اس کو کب تک غلام سمجھا جائے گا ؟آخر ایک دن رب کائنات کی عدالت
میں پیش بھی ہوناہے یا پھر ان حکمرانوں کا ایمان کمزور ہے کہ رب کی عدالت
پر ان کو یقین نہیں!ایک چھوٹا سا واقعہ پیش کرتا ہوں، توجہ طلب ہے، آہ بھری
آواز میں کہنے لگا کہ میری بیٹی بیمار ہو گئی وسائل نہیں تھے۔ لوکل سرکاری
ہسپتال میں لے کر گیا تو ڈاکٹر نے لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کا کہا اگلے ہی روز
کسی پرائیویٹ لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائے کیونکہ تحصیل لیول کے ہسپتال شاید
انسانیت کے لیے نہیں بلکہ بادشاہوں کے غلاموں کے لیے ہے جہاں کسی بھی قسم
کی کوئی سہولت میسر نہیں ہوتی اور ڈاکٹر بھی اتنے قابل ہوتے ہیں کہ مریض کو
دیکھتے ہی ڈسٹرکٹ ہسپتال کا مشورہ دیتے ہیں، خیر ٹیسٹ رپورٹ کروانے کے بعد
ڈاکٹر کے پاس گیا تو اس نے یہی کہا کہ ہمارے بس کی بات نہیں کہیں اور لے
جاؤ۔ ایک غریب آدمی جس کے پاس کرائے کے پیسے نہیں وہ کہاں جائے؟ کس کے
سامنے اپنی سفید پوشی کا پردہ چاق کرے ، ایسے حالات میں تو اپنا سایہ بھی
ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ کہنے لگا کہ جیسے تیسے کر کے اسلام آباد پولی کلینک
پہنچ گیا ، ہسپتال کے اندر داخل ہوا تو ایسے محسوس ہو کہ شائد کسی پرائیویٹ
ہسپتال میں پہنچ گیا ہوں وہاں جا کر مزید تکلیف یہ ہوئی کیا اسلام آباد
پاکستان کا حصہ نہیں، اگر ہے تو یہ اسقدر بہتر کیوں ہے؟ اور ہمارے تحصیل
لیول پر ہسپتالوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے یا اس کو فنڈز ریلیز نہیں ہوتے یا
پھر کمیشن مافیا سرفہرست ہے۔ یا پھر اسلام آباد کی مخلوق کوئی سپیشل اشرف
المخلوقات میں سے ایک ہے اور باقی دیہاتی مخلوق کوئی جنگلی مخلوق ہے، اس کے
ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہذا اس جنگلی مخلوق کو بہتر
ٹریٹمنٹ کی ضرورت نہیں۔ تو وہ کہنے لگا ٹھیک ہے میرے مریض کی زندگی کم ہی
سہی اس کی بے وقت وفات میرے لیے ایک بہت بڑا صدمہ ہی سہی لیکن اس سے زیادہ
مجھے افسوس اس بے حسی پر ہوا کہ ایک ہی ملک، ایک ہی بادشاہت کہنے کو ایک ہی
قانون تو پھر اتنا تضا د کیوں؟ یہ امر غور طلب ہے اس کے ساتھ ہی ایک اور
واقعہ عرض کروں کہ شام کے وقت تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں جانے کے اتفاق
ہوا تو میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب آموں کی پیٹی کو ہاتھ سے توڑنے کی کوشش
کر رہے ہیں ، حوصلہ کرکے اس ڈاکٹر صاحب سے پوچھا سر یہ کیا ہے؟ انہوں نے
جواب دیا کہ ایک مریض ہے جس کا ایکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے ایک بازو
فریکچر(ٹوٹ) ہو گیا ہے اس کو سیدھا کرکے باندھنا ہے تاکہ اس کو کسی دوسرے
ہسپتال لے جانے میں آسانی ہو ، میں سکتے میں آگیا کہ ایک وسیع و عریض
ہسپتال میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں کہ ایکسیڈنٹ میں ٹوٹ جانے والا بازو
باندھا جاسکے۔اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ THQ کو اپ گریڈ کرکے بلڈنگ کو
کشادہ کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ گردے کی بہتر ٹریٹمنٹ کے لیے سنٹر قائم کر
دیا گیا ہے۔اب ڈاکٹرز کا کیا رویہ ہے اس پر بحث عجیب سی لگتی ہے، انسان ہیں
ہم سب کوانسانیت کے دائرہ میں رہ کر ہی انسانی معاشرہ کی دیکھ بھال کرنا
ضروری ہے۔ چلتے چلتے ایک اور دلچسپ بات کہ اکثر و بیشتر تحصیل لیول کے
ہسپتال کے ڈاکٹر مریض کو کسی دوسرے بڑے ہسپتال لے جانے یا خاص کر اپنے ہی
پرائیویٹ کلینک پر جانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں اور کچھ دیر بعد وہی ڈاکٹر
صاحب وہاں پہنچ کر ان کا علاج کرتے ہیں۔ایسا کیوں ہے یہ ہمارے لیے ایک لمحہ
فکریہ ہے۔ اس کے ساتھ رفاہِ عامہ کے لیے قائم کیئے جانے والی فاؤنڈیشن
ہسپتال کی کہانی بھی بڑی عجیب سی ہے ،گو کہ ایک بڑی سہولت ہے لیکن اس سے
ایک عام سفید پوش آدمی کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ سائل مریض کو لے کر
فاؤنڈیشن ہسپتال پہنچتے ہیں تو سب سے پہلے حکم ملتا ہے کہ کاؤنٹر سے اپنی
پرچی بنوا لیں ، ٹھیک ہے ہسپتال کے اخراجات ہے لیکن کبھی اس مریض کے ورثا
سے بھی پوچھا ہے کہ آیا اس کے پاس ڈاکٹر کی فیس اور اتنی مہنگی میڈیسن
خریدنے کے پیسے ہیں ، اگر نہیں تو وہ کیسے اس فاؤنڈیشن سے استفادہ کر
سکتاہے۔ جہاں تک کہ بچے کو نبلائز کروانا پڑ جائے تو وہ بھی پرچی اور ساتھ
ہی سٹور سے دوائی لے کر آؤ ۔ میرے جیسی بیوقوف عوام کو بتایا جائے کیا ایک
بچے کو فری نبلائزکیوں نہیں کیا جا سکتا ؟ فاؤنڈیشن ہسپتال میں کسی مخیر
صاحب نے ادویا ت دینے کے لیے فری ڈسپنسری قائم کر دی ہے، بہت اچھی بات،
معاشرہ کے کام آنا ہی اصل میں انسانیت ہے لیکن سوچنا یہ ہے کیا اس کا کوئی
طریقہ کا ر وضع کیا گیا ہے کہ ایک مستحق اور ضرورت مند آدمی بغیر اپنی سفید
پوشی ظاہر کیئے اس ڈسپنسری سے ادویات کیسے حاصل کر سکتا ہے ؟ جبکہ ہر پل ہر
با ت پر پرچی ، پرچی کا حکم ملتا ہے جاؤ کاؤنٹر سے پرچی بنوا کر لے آؤ۔میرے
دوستو! ان مسائل کو ذرا سوچیں اور جہاں ہماری ضرورت ہے تو اپنا اپنا مثبت
کردار ضرور ادا کریں تاکہ کسی کی جان بچائی سکے۔ اس پر ضرور سوچیں اور اس
سسٹم کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اس کالم میں کسی بھی ذاتی عناد
یا تنقید کا نشانہ بنانا مقصد نہیں بلکہ صرف اور صرف ان مسائل کی طرف توجہ
دلانا ہے جس سے معاشرہ بہترانداز میں قائم رہ سکتا ہے۔ صحت نہیں تو کچھ
نہیں ، صحت سے کھیلانہ جائے بلکہ اس کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کی جائے۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ ہم سب کو اشرف المخلوقات کی پہنچان عطا فرمائے
اور پاکستان میں ہر ضرورت مند کے لیے ایک فرشتہ نما مسیحا بنائے آمین۔ |