پانی وہ انمول نعمت ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال
ہے۔ کرہ ارض پر چہار سو رنگ بکھیرتی زندگی، زراعت، صنعت اور معیشت کے تمام
شعبہ جات کی زندگی کا دارو مدار ’’پانی‘‘ کا ہی مرہون منت ہے، لیکن ہم اس
عظیم نعمت کو دن بد ن کھوتے جارہے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا
ادراک بھی نہیں کہ ہمیں پانی کی قلت سے بچنے کے لیے دور رس پالیسیاں بنانی
چاہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں سیاست دانوں اور ذرائع ابلاغ کی
توجہ آنے والے انتخابات اور سیاسی مسائل پر مر کوز ہے، ایسے میں ملک کے آبی
ماہرین پانی کی قلت پر پریشان ہیں اور اس کے حل کے طریقے سوچ رہے ہیں۔ کئی
بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان تیزی سے ایسی صورتِ حال کی طرف بڑھ
رہا ہے، جہاں آنے والے وقتوں میں اسے شدید پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے
گا۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں تازہ پانی (خاص طور پر پینے کے قابل پانی) کی
قلت ہے۔ اس مسئلہ پر مستقبل میں جنگیں ہونے کا بھی امکان ہے۔ آبادی اور فی
کس استعمال میں اضافے اور عالمی حدت کی وجہ سے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان
میں بھی پانی کی شدید قلت ہونے کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔
ارسا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آبپاشی کے لیے پانی کی قلت میں خطرناک
حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ ارسا اعداد وشمار کے مطابق دریاؤں میں پانی کی آمد
ایک لاکھ 12ہزار 9 سو اور اخراج ایک لاکھ 19 ہزار 3 سو کیوسک ہے۔ آبی ذخائر
میں پانی کا ذخیرہ بھی صرف 2 لاکھ 20 ہزار ایکڑ فٹ ہے۔ سندھ اور پنجاب کو
51،51 فیصد کمی کا سامنا ہے۔ دونوں صوبوں کو بالترتیب 55 ہزار اور 57 کیوسک
پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کو 8 ہزار اور خیبرپی کے کو 3 ہزار
کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ مجموعی طور بھی پانی کی قلت 49 فیصد سے
زیادہ ہے۔ ارسا کے مطابق رم سٹیشنز پر 51 اور کینالز میں قلت 65 فیصد تک ہے۔
ترجمان ارسا کے مطابق مجموعی طور پر پانی کی قلت 49 فیصد سے تجاوز کر گئی
ہے۔ اگر نہروں میں پانی کے نقصانات کو شامل کیا جائے تو پانی کی قلت 65سے
70فیصد تک ہے۔ گزشتہ برس آج کے دن پانی کا بہاؤ 3لاکھ 75ہزار 100کیوسک تھا۔
آبی وسائل کی دستیابی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان
میں ہر سال 70 ارب ڈالر کا پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ 1950ء میں ملک
میں پانی کی فی کس دستیابی 5 ہزار کیوبک میٹر تھی، جو 2015ء میں کم ہو کر
ایک ہزار کیوبک میٹر ہو گئی ہے، جبکہ 2009ء کے دوران پاکستان میں فی کس
1500 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار پانی کی
قلت کے مسائل کا سامنا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے اور اس وقت پاکستان میں
کل دریائی پانی 153 ملین ایکڑ فٹ ہے، جبکہ زیر زمین پانی کا تخمینہ 24 ملین
ایکڑ فٹ ہے۔ آبادی کی شرح میں ہونے والے موجودہ اضافہ کے تناظر اور اگر آبی
دخائر تعمیر نہ کیے گئے تو سال 2025ء تک پاکستان کو 33 ملین ایکڑ فٹ پانی
کی قلت کا سامنا ہوگا۔ارسا نے خبردار کیا ہے کہ پانی کی کمی نہ صرف رواں
موسم خریف، بلکہ آئندہ ربیع سیز ن میں بھی ہوگی۔ اگر غیر متوقع مون سون
بارشیں نہ ہوئیں یا پھر پہاڑوں پر برف نہ پگھلی تو پانی کی قلت مزید شدید
ہوسکتی۔پانی کا بحران ملک کو زرعی پیداوار کے کڑے امتحان میں ڈال سکتا
ہے۔کپاس، چاول اور گنا سمیت ملک کی کما فصلیں بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ
ہے۔ ربیع سیزن میں بہتر پیداوار کے لیے مون سون بارشوں پر سارا انحصارکیا
جارہا ہے۔ قلت آب سے زرعی شعبہ ہی متاثر نہیں ہے، بلکہ توانائی بحران بھی
بڑھ گیا ہے۔ ہائیڈرل پیداوار میں کمی کے باعث ساڑھے 4 ہزارمیگا واٹ سے زائد
کا شارٹ فال ہے۔ طلب اور رسدکے فرق نے کئی علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ
10 گھنٹے تک پہنچا دیا ہے۔
کچھ ماہرین کے خیال میں پاکستان آنے والے چند برسوں میں پانی کی شدید قلت
کا شکار ہو سکتا ہے، جبکہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا
جا رہا۔ اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے تو مستقبل میں ہم تباہی سے دو چار
ہو سکتے ہیں۔ پانی کو ذخیرہ کرنے والے ڈیموں کی استعداد کم ہوتی جا رہی ہے،
لیکن ہم نئے ڈیموں کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ کالا باغ ڈیم کو ہم نے سیاست
کی نظر کر دیا، جب کہ بھاشا ڈیم میں کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے، اس کے
باوجود بھی ہم اس ڈیم کو نہیں بنا رہے ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم اس لیے بنایا
نہیں جارہا کیونکہ اس میں ممکنہ طور پر بارہ برس لگیں گے، جب کہ کوئی بھی
حکومت پانچ سال سے آگے سوچنا نہیں چاہتی۔ ہر حکومت ایسے اقدامات کرتی ہے جس
سے صرف آئندہ الیکشن کے لیے ووٹ پکے ہوں سکیں، ملک کے مستقبل کا سوچنا شاید
ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ اس معاملے میں ہمیں قومی مفادات کو پیشِ
نظر رکھ کر سوچنا ہوگا۔ عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کو کم از کم 120
دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک ایک سے
دو سال کے لیے پانی ذخیرہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں دریاؤں کا صرف 10 فیصد
پانی ہی ذخیرہ ہو پاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 5 کروڑ پاکستانی آلودہ پانی
استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ زیر زمین پانی میں آرسینک نامی زہر اور آلودگی
شامل ہونے سے خطرناک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ رہی سہی کسر بارشوں کی قلت
نے پوری کر دی۔ پاکستان میں سالانہ 500 ملی میٹر، جبکہ بھارت میں 1000 ملی
میٹر بارش ہوتی ہے۔ پاکستان میں شہریوں کو فی کس 1017 کیوبک میٹر، جبکہ
بھارت میں 1600 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔ ہمارے پانی کے ذخائر وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ کم ہوتے جارہے ہیں، جن کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی
ضرورت ہے۔
پاکستان میں بارش کا پیٹرن بہت مختلف ہے اور اب اس پیٹرن کے ساتھ گلوبل
وارمنگ کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جا رہا۔ یورپی ممالک کے برعکس ہمارے ہاں
مختصر مدت کے لیے زیادہ بارش ہوتی ہے، جو صحیح طرح زیر زمین جذب نہیں ہوتی
اور چونکہ ہمارے پانی جمع کرنے کے ذخائر بھی کم ہیں۔ اس لیے ہم اس پانی کا
ذخیرہ بھی نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ جہاں ایک
طرف حکومت کو پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز بنانے چاہیے، وہیں ہمیں گوٹھ اور
دیہات کی سطح پر سرکاری سرپرستی میں چھوٹے اسٹوریج ٹینک بھی بنانے چاہیے،
جس سے نہ صرف پانی جمع ہوگا، بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی، جو
بلوچستان سمیت کئی علاقوں میں خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔ ہمیں سیلابی
نہریں بھی بنانی چاہیے اور اگر مون سون کے دور میں بارش بہت زیادہ ہو اور
سیلابی شکل اختیار کر لے تو ان سیلابی نہروں کے ذریعے ایک طرف ہم اپنی
فصلوں کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں اور دوسری طرف ان نہروں کی بدولت بھی
زیرِ زمین پانی کی سطح کو بلند کیا جا سکتا ہے۔ مصنوعی جھیلیں بنا کر بھی
پانی کو ذخیرہ کرنا چاہیے، جس سے نیچرل اکوافر ریچارج ہوگا۔ اس کے علاوہ
فیلڈ اریگیشن کو ختم کر کے ہمیں دوسرے طریقے اپنانے چاہیں۔ پانی کی قلت کا
مقابلہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر درخت لگانا بھی ضروری ہے۔ پینے کے صاف
پانی کی دستیابی کا معاملہ بحرانی شکل اختیار کر چکا ہے، لیکن اس کے باوجود
ہمارے ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ حکومت شہر کی تمام
آبادیوں کو پانی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے اور زیادہ ترلوگ
پینے کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ تاہم بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت کے
باعث بڑی تعداد میں لوگ پانی خریدنے کے استطاعت نہیں رکھتے۔ اگر پاکستان کے
حکمران طبقے اور سیاسی جماعتوں نے نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے، تو پانی
کی قلت سے صنعت، زراعت سمیت متعدد شعبے تباہ ہو جائیں گے جس سے ملک میں قحط
اور سول وار کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
|