(محمد مظہر بیگ)
ماہ رمضان آتے ہی ٖفضا یکسربدل جاتی ہے۔ہر طرف نیکی کا ایک منفرد سماں بندھ
جاتا ہے۔ مسجدوں میں جگہ کم پڑجاتی ہے ۔ خصوصاً نوجوان اور بچے اذان سے بھی
پہلے مسجدوں میں اگلی صفوں میں موجود ہوتے ہیں۔ہر کوئی اپنے رب سے رشتہ اور
تعلق مضبوط کرنے کی فکر میں ہوتا ہے۔ سخت گرمی میں بھی روزہ اور نماز کا
اہتمام پابندی سے کیا جاتا ہے۔لوگوں کی فیاضی اور سخاو ت بھی عُروج پر ہوتی
ہے۔گویا ہر شخص نیکی کے ماحول میں رنگا ہوا نظر آتا ہے۔
ایسا کیوں نہ ہوکہ اس ماہ مبارک میں رب رحیم کی عنایات ہی اس قدربڑھ جاتی
ہیں کہ ہر کوئی اﷲ پاک کی رحمتیں اور اس ماہ کے فیوض و برکات سمیٹنے کے لئے
دوڑ پڑتا ہے۔اس ماہ مبارک میں مالک کی رحمت اپنے پورے جوش میں اور فیاضی
اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے ۔ہر نیکی کے اجر و ثواب میں بے پناہ اضافہ کردیا
جاتا ہے۔ اس میں مالک کی حکمت کار فرما ہے کہ اپنے بندوں کو ایک ریفرشر
کورس کروا دیا جائے تاکہ میرے جو بندے غفلت یا سستی کا شکارہو جاتے ہیں وہ
عملی زندگی میں دوبارہ مستعد ہو جائیں۔
اپنے مالک کو راضی کر نے اوراس کی عنایات کا شکر ادا کرنے کے لئے لوگ دس
دنوں کے لئے اپنے آرام دہ گھر،بچے،کاروبارو دیگر معاملات زندگی ترک کر کے
اﷲ کے گھر میں بسیرا کر لیتے ہیں۔دن رات پوری یکسوئی سے اپنے رب کی عبادت
کرتے ہیں۔ہر طرح کا آرام اور مصروفیت چھوڑ کر مسجد کے فرش پر آبیٹھنا بھی
ایک مشکل عمل ہے۔لیکن یہاں بھی نوجوان سبقت لیتے جارہے ہیں۔ایک وقت
تھانمازاور اعتکاف میں محلے کے صرف بزرگ نظر آتے تھے ۔آج الحمد ﷲ سال بھر
نوجوان بھی مسجدوں میں نظر آتے ہیں۔ نمازاوراعتکاف میں نئی نسل کی دلچسپی
انکی دین کی طرف رغبت کی غمازی کرتی ہے۔اس پر اﷲ رب العالمین کا جتنا شکر
ادا کیا جائے کم ہے کہ ہمارا مستقبل راہ راست کی طرف متوجہ ہے۔
بچوں کی راہ نمائی اور تربیت کاخصوصی اہتمام کریں انکے ساتھ شفقت اورہمدردی
کا رویہ اپنائیں۔ان کو فوقیت دیں وہ مسجد میں اپنے آپ کو اجنبی نہ محسوس
کریں۔انکی غلطیوں پر حکمت اورپیارکے ساتھ سمجھائیں۔وہ آ گئے ہیں(اور وہ بس
اتنا ہی کر سکتے تھے)اب انکو دین سکھانے کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ اگر ہماری
وجہ سے وہ مسجد سے باغی ہوگئے تو پھر کہیں اور کا رُخ کریں گے۔ شیطان ان کو
اُچک لے جائے گا۔اس لئے اپنے مستقبل کی حفاظت ہم نے خود کرنی ہے ۔ کل کو
ہمارے گھروں اور ہمارے ملک کو وارث یہی ہیں۔
مسجد کسی کا ذاتی اثاثہ نہیں ہے۔ مسجدیں اﷲ کا گھر ہیں اور یہاں آنے والا
ہر امیر غریب ،چھوٹا بڑا اﷲ کا مہمان ہے۔ہم بھی اﷲ کے مہمان کی حیثیت سے
حاضر ہوتے ہیں اور وہ بھی۔ اسلئے ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ کسی کے مہمان
کواس کے گھر سے دور کریں۔ مہمان جانے اور میزبان۔وہ دلوں کے حال جانتا ہے
اور معاف کرنا پسند فرماتا ہے بلکہ معاف کرنے کے بہانے تلاش کرتا ہے۔وہ تو
اپنے بندے کے انتظار میں رہتا ہے اور اپنے گناہ گار بندے کے رجوع پر اپنے
فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے۔نوجوان نمازاور اعتکاف کے دوران جو بھی
کوتاہیاں کریں بلکہ کوئی بھی عمل نہ کر سکیں صرف مسجد میں آ کے بیٹھ جائیں
تو بھی بحر حال ان کا اجر و ثواب مالک کے ذمہ ہے۔آسودہ و پریشان حال سکون
کے متلاشی اگراﷲ کے گھر کا رخ نہ کریں گے تو کہاں جا کراپنے دکھوں کامداوا
کریں۔وہ اعمال کا نہیں نیتوں کا رب ہے۔ نیکی کی طرف قدم بڑھانے والے کے دل
کا حال بھی صرف وہی جانتا ہے۔ عمل اگرتھوڑا بھی ہو لیکن خالصتاً اﷲ کے لئے
ہوتو مقبول ہے نہیں تو اعمال کے انبار بھی نجات کی ضمانت نہیں ہیں۔نجانے کس
کی کون سی ادا اُسے پسند آ جائے اور کونسا عمل معیار مطلوب کو چھو جائے
اوربار گاہ الٰہی سے اسکی نجات کا پروانہ جاری ہو جائے۔ جیسے عمر بھر گناہ
کمانے والی عورت ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے پرنجات پا جاتی ہے۔کوئی کیسا
بھی ہے اﷲ نے اسے آپکے پاس لا بٹھایا ہے تواب اسکے دل کی دنیا بدلنا آپکی
ذمہ داری بن گئی ہے۔ انہوں نے اپنے دس د ن رات آپکے حوالے کر دئیے ہیں۔ خیر
خواہی کے جذبے کے ساتھ کوشش کریں اﷲ مدد کرے گا۔اگر آپکی وجہ سے کسی کی
اصلاح ہو گئی تو سمجھیں آخرت کے لئے سامان ہو گیا۔یاد رکھئیے خدا کوصرف
سجدوں کی کثرت مطلوب نہیں ہے اقامت دین اور معاشرے کی اصلاح ہم سب کی
اَوّلین ذمہ داری ہے۔
بعض دفعہ اعتکاف کے لئے آنے والے لوگوں کو کسی وجہ سے دانستہ انکار
کردیاجاتا ہے بلکہ نوجوانوں کو تو دھتکار دیا جاتا ہے۔ایک نوجوان کو جواب
ملا! کیا تمہیں گھر والے نہیں رکھتے؟ کیا آپ نے لوگوں کے دل پڑھ لئے ہیں کہ
یہ آپکے پاس اعتکاف کی درخواست کیوں لے کر آرہا ہے؟ یاد رہے اعتکاف اگر
گھروں میں کرنے کی اجازت ہوتی تو کوئی مسجد انتظامیہ کی منتیں نہ
کرتا۔اعتکاف کے لئے آنے والے نوجوانوں کو غنیمت سمجھا جائے۔ یہ ہی ہمارا
سرمایہ ہیں۔انکو مایوس کرنے کی بجائے انتظامات میں وسعت پیدا کی جائے۔آخر
ایک بستر بچھانے کی جگہ ہی تو درکار ہوتی ہے یا پھربجلی پانی کا خرچ۔کھانا
گھروں سے آجاتا ہے بس۔ باقی سب تو ہمارا شوق اورآسائشیں ہیں جنکا مطالبہ
کوئی نہیں کرتا۔اے سی اور اجتماعی سحری و افطاری کا بوجھ اگر نہیں اٹھا
سکتے تومت کریں لوگوں کو عبادت سے تو نہ روکیں۔ اگر سحری وافطاری اجتماعی
کرنا نا گزیر ہے تومعتکف حضرات سے مناسب زر تعاون بھی لیا جا سکتا ہے۔
قابل تحسین ہیں منتظمین مساجد جو سال بھر نمازیوں کو سہولیات کی
خاطرانتظامات میں مصروف رہتے ہیں۔ ان سے بھی گزارش ہے کہ پیدا ہونے والے
مسائل کو خندہ پیشانی سے حل کرنے اور وسائل مہیاکرنے کی کوشش کریں ۔ امام
صاحب کی مشاورت سے بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کا اہتمام کریں۔شکایت کرنے
والے نمازیوں کو بھی سمجھایا جائے ۔نوجوان اگر بڑوں کے درمیان رہیں گے تو
زیادہ سیکھیں گے۔پھر بھی اگربزرگوں کی عبادت اور آرام میں خلل واقع ہو
تونوجوانوں کے لئے برآمدوں یا دوسری منزل پراعتکاف کا الگ انتظام کیا جا
سکتا ہے۔ بچے جس ماحول میں پلیں بڑھیں گے وہ ہی ان کی عادت بن جائے گا
اسلئے بچوں کے شور، شرارتوں اور صف میں سے گزرنے وغیرہ کو تحمل سے برداشت
کریں۔ڈانٹنے اور مسجد سے نکالنے کی بجائے سمجھائیں۔اپنی کھیتی اپنے ہاتھوں
سے تبا ہ نہ کریں۔
مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ عشاء کی نماز کے
دوران سجدے کی حالت میں حضرت حسنؓ اورحضرت حسین ؓ نبی کریم ﷺ کی پشت مبارک
پر بار بار چڑھ جاتے تھے اور آپ ﷺ ہر بار ان ؓ کو پیار سے ہٹا کرپھر کھڑے
ہوتے۔
نوٹ: قارئین کی رائے مختلف بھی ہو سکتی ہے اگراتفاق کرتے ہیں تو اپنی مسجد
تک ضرور پہنچائیں۔
|