رمضان المبارک کی آمد سے لوگوں میں ایک خاص دینی جوش و
خروش پیدا ہو جا تاہے ۔ نیک کام کا رکا ہوا سلسلے پھرسے چل پڑ تاہے ۔ لوگ
دینی کاموں میں دلچسپی دکھانے لگتے ہیں اور قسم قسم کے مذہبی امور میں حصہ
لینا شروع کر دیتے ہیں۔احکام الٰہی کی پابندی ہونے لگتی ہے ۔دین کے مختلف
فراموش کردہ ہدایات کا باب دوبارہ سے کھل جاتاہے اور کئی ایک ایسے نئے نیک
افراد دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن کی زیارت سال بھر میں بس اسی ماہ میںنصیب
ہوتی ہے اور مہینہ کے اختتام پر وہ روپوش ہوجاتے ہیں۔اب ڈھونڈنے سے ملیں گے
۔شاید نہ بھی ملیں.
مسجدیں آباد ہو جاتی ہیں ۔گم شدہ نمازیوں کی واپسی ہوجاتی ہے۔ صفوں میں
بڑی حد تک اضافہ ہوجاتاہے ۔باقاعدہ سےنمازجماعت قائم ہونے لگتیہے ۔ مسجد کی
رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔روزہ داروں کو افطاری کرا ئی جاتی ہے۔ پا س پڑو س
اور غریبوں کو خاص خیال رکھا جاتاہے۔مختلف اقسام کی غذا مہیا کی جاتی ہے
اور لوگوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔
گھر سے باہر کا ماحول بھی کتنا سہانا سا ہو جاتاہے ۔وقت نماز چھوٹے بڑے سب
مسجد جاتے ہیں۔ملاقات کے وقت اسلامی آئین پر عمل در آمد کیا جاتاہے۔چھوٹے
بڑوں کو سلام اور بڑے چھوٹوں کو دعا سے نوازتے ہیں۔ساتھ ساتھ مسجد تک جاتے
ہیں۔بڑے بزرگ بچوں کو نماز سے متعلق آداب اور احکام بتلاتے ہیں۔بچے بھی
اپنے طور پر ان کو انجام دیتے ہیں ۔
یہ رمضان کا مہینہ ہے۔ بچہ روزہ رکھتے ہیں۔شام تلک رکھتے ہیں۔پورا ایک روزہ
رکھتے ہیں۔گرمی کی شدت کے سبب اگرچہ ہونٹ خشک ہو جائیں مگر پانی نہیں پیتے
۔ بھلے ہی دن میں دس بار اماں جان سے وقت افطار کے بارے میں سوال کریں ۔
لیکن چپکے سے بھی روزہ نہیں کھولتے ۔معلوم ہے نا کہ اللہ دیکھ رہاہے ۔ گھر
والے ننھے روزہ دارکاجی بہلائے رہتے ہیں ۔دوپہر ہوگئی ہے ۔ بس ذرا سا اور
وقت باقی ہے ۔تھوڑا سا لیٹ جاو۔ نیند آجائے گی ۔وقت آگے بڑھ جائے گا۔بچہ
سوجا تاہے۔ مگر بھوک پیاس کی شدت سے زیادہ دیر تک نہیں سوپاتا ۔ اب شام
ہوچلی ہے۔ بس وقت ختم ہو نے کو ہے ۔دیکھو اب سورج بھی ڈوبنے والا ہے۔چلو اب
نماز کے لیے آمادہ ہو جاو ۔ابوجان کے ساتھ مسجدمیں جانا ۔وضو صحیح سے کرنا
۔دیکھومنھ میں پانی ڈالتے خیال رکھنا ۔پانی مت پی لینا۔بھولے سے ۔
۔ ۔ ۔ اب کرتا پائجامہ زیب تن کرلیا ہے۔ابو جان کی انگلی پڑک کر چھوٹے
چھوٹے قدموں سے مسجد کی راہ کو چل پڑا۔ننھے ننھے قدموں سے راستہ عبورکیا۔
’’ابوجان نے کہا:‘‘بس بیٹا! دور نہیں ہے۔مسجد آگئی۔ دیکھو جوتے یہیں کہیں
کنارہ اتار دو اور کسی کے جوتوں پر پاوں نہ رکھنا۔ کہیں ان کو برا لگ گیا
تو۔۔۔!
’’دل کسی کا دکھانا بری بات ہے‘‘
چلو اب میرے ساتھ چلو ۔ وضو بھی تو کرنا ہے ۔یاد ہے ناممی نے کیا
کہاتھا۔۔۔؟
بچہ چلو میں پانی بھرتا ہے ۔ منھ میں ڈالتا ہے۔ امی کی بات یاد آگئی کہ
پانی مت پینا۔وضو مکمل کرکے۔ نمازیوں کی صف میں ابوجان کےساتھ بیٹھ جاتاہے
۔اگر بچوں کے ساتھ رہا تو شرارت کرتا۔ اس لیے ابوجان کے ساتھ بیٹھ گیا
ہے۔اور اس لیے بھی تاکہ قاعدہ سے ارکان نماز کو بجالائے اور دیکھ دیکھ کر
کچھ سیکھ جائے۔
ابوجان کےساتھ نماز اداکر کے ۔ سب سے مصافحہ کرتاہےاور بزگوں سےدعائیں پاتا
ہے۔بچہ افطار کے ذریعہ روزہ مکمل کرتاہے۔گھر آکر والدین اور بھائی بہن سے
ڈھیر ساری دعاوں کے ساتھ ساتھ انعامات بھی پاتاہے۔
اس مبارک ماہ میں ہرا یک بچوں کی تربیت میں کوشاں رہتا ہے ۔ چونکہ یہ
بہترین مہینہ ہے تریبت کا۔
بچے بہت ہی شوق سے مسجد جاتے ہیں ۔ قرآنی کلاسیزمیں شریک ہوتے ہیں۔ اس
مقدس ماہ میں جگہ جگہ قرآن کریم کا دور شروع ہوجا تاہے ۔ یہ کافی اہم کا م
ہے۔ اس ماہ میں ایک آیت کی تلاوت کا ثواب دیگر ماہ میں پورے قرآن کے ثواب
کے برابر ہے۔ان کلاسوں میں خوردو کلاں سب جاتے ہیں۔ یہ کلاس بلا استثنا ء
سب کے لیے رکھی جاتی ہے۔اس میں ایک مولانا ہوتے ہیں جو سکھاتے ہیں کہ قرآن
کو کیسے پڑھیں ۔سب باری باری تلاوت کرتے ہیں۔غلطیاں کرتے ہیں تو سدھا کرائی
جاتی ہے۔اچھا پڑھتے ہیں تو دعائیں دی جاتی ہیں۔اور مہینہ کے آخری ایام میں
انعامات سے بھینوازا جا تاہے ۔بچے انعام پاکر گھر سے بھی خوب دعائیں اور
پیسہ پاتے ہیں۔
علاوہ ازیں اور بہت سارے مذہبی کام ہوتے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں دین کی طرف
سبھی مائل ہوجاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دینکے رنگ میں رنگ جائیں۔ دین
کی جانب لوگوں کا دل مائل ہوجا تاہے۔اس لیے بہت ہی مناسب موقع ہوتاہے ۔
تربیت اور اسلامی ماحول سازی کا ۔
ان دنوں اگر کسی سے بھول سے کوئی خطا سرزد ہوجاتی ہےتو عذر خواہی کا سہارا
کے لر معاملہ کو فورا رفع دفع کرکے وہیں دفن کردیا جاتاہے اور اخوت و
برادری میں کوئی ہلکی سے دراڑ تک نہ آپاتی ۔
اس پر برکت ماہ میں غریبوں اور بے سہاروں پر خصوصی نظرکرم کی جاتی ہے
۔افطار کے وقت ان تک افطاری بہم رسانی کی جاتی ہے اور وقت ضرورت ان کی
ضروریات بھی پوری کی جاتی ہے۔بہت سے ایسے حضرات بھی ہیں جو پورے ماہ کئی
ایک گھرانہ چلاتے ہیں۔
محلہ اور رشتہ داروں کی خاطر بھی روزہ کشائی کا مکمل اہتمام کیا جا تاہے۔
یہ افطاریاں بانٹنا دراصل نیکیوں کی تقسیم ہے ۔اس سے معاشرہ پر کافی مثبت
اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ایک دوسرے سے ملاقات ہو جاتی ہے جوکہ صلح رحمی کیزمرے
میں آتا ہے۔ روزہ داروں کا روزہ افطار ہوجاتاہے ۔اس کابھی کافی ثواب بیان
کیا گیا ہے۔اگر کاروباردنیا کے سبب فاصلہ آڑے آگئے تھے تو روزہ کشائی کے
وسیلہیہ دوریاں، نزدیکیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
رمضان المبارک میں اسلامی فضا قائم ہو جاتی ہے۔اگر مکمل نہیں تو بہترییقینی
طور پر آجاتی ہے۔سلام و دعا کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔غریبوں کی مدد کی جانے
لگتی ہے۔دل اللہ سے قریب ہوجاتےہیں۔تربیت کا ماحول بن جاتاہے۔ بچوں کی
اسلامی تربیت کا ۔اگر یوں ہییہ سلسلہ چلتارہے تو وہ دن دور نہیں جب
مسلمانوں کو اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت دوبارہ مل جائے گی اور انشا ء اللہ
مل کر رہےگی!
|