شا ید بہت کم لو گو ں کو
اس بات کا علم یا احساس ہو گا کہ وطن عزیز میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو
اپنے ہا تھوں میں علم کی شمع لئے ہو ئے لاکھوں پاکستا نیوں کو منزل مقصود
کی طرف رواں دواں رکھتے ہیں مگر خود ایک ایسی تاریک جگہ پر کھڑے ہیں جہاں
وہ کسی کو نظر نہیں آتے خاص کر حکو مت کی نظریں تو ان کی طرف اٹھتی ہی نہیں
ہیں ۔وہ طبقہ نجی تعلیمی اداروں میں پڑ ھانے والے اسا تذہ کرام ہیں۔ان کی
حالت دیہا ڑی دار مز دو رو ں سے کسی طور مختلف نہیں۔ مثلاً بیما ری کی صورت
میں یا کسی اور ایمر جنسی کی صورت میں اگر ان کو چھٹی کرنی پڑ جا ئے تو ان
کی اس دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔اگر خدا نخواستہ بیماری چند دنوں تک رہے
تو پھر اسے ملازمت سے بر خواست کیا جاتا ہے اگر اسے امتحان یا کسی اور
ضروری کام کے لئے ہفتہ یا اس سے زیادہ دن چھٹی کی ضرورت پڑ جائے تو پھر بھی
اسے ایک لیٹر ہاتھ میں تھما دیا جا تا ہے جس میں لکھا ہو تا ہے کہ ۔۔ ادارے
کو آپ کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں ، ،الغر ض اگر وہ دیہا ڑ ی کر لے، مز دو
ری کر لے تو اجرت مل جا ئیگی ورنہ نہیں ملے گی۔عمو ماً چھٹیو ں کے دوران
بھی کسی نہ کسی بہا نے ان کو سکول کالج میں بلا لیا جاتا ہے۔ کام نہ بھی ہو
تو ان کے لئے کام پیدا کر دیا جاتا ہے کیو نکہ اس طر ح تعلیمی ادا رو ں کے
ما لکا ن کو تسکین و قرار حا صل ہو تا ہے۔گو یا وہ قوم کے معمار نہیں،کسی
عما رت کے معمار ہیں۔لیکن ان تمام با توں کے علاوہ جو بات سب سے زیادہ قا
بل افسو س ہے وہ یہ ہے کہ ان کو جو دیہا ڑی یعنی تنخواہ ملتی ہے وہ رو زا
نہ اجرت کی بنیا د پر کام کر نے والے مز دور سے بھی کم ملتی ہے۔آج کل ایک
مز دور کم از کم تین سو رو پے ایک دن کی اجرت لیتا ہے اگر وہ تین چار
چھٹیاں بھی کر لیتا ہے تو پھر بھی تقریبا آٹھ ہزار روپے ایک مہینے میں کما
ہی لیتا ہے۔مگر افسوس کہ ما سو ائے چند ایک نجی تعلیمی اداروں کے زیا دہ تر
تعلیمی اداروں میں اس لکھے پڑھے مز دو ر طبقے کو ایک ماہ کی اوسط تنخواہ
صرف پا نچ ہزار روپے ملتی ہے۔،خواتین اسا تذہ کی تنخواہیں تو اس سے بھی کم
ہیں۔مگر حکو مت کو اس طبقے کا ذرہ بھر بھی خیا ل نہیں۔ایک طرف حکومت ان
لکھے پڑھے نو جوا نوں کو روزگار دلا نے میں کو ئی دلچسپی نہیں رکھتی جبکہ
دو سری طرف ان کو سر مایہ داروں کے استحصال سے بچا نے کے لئے کوئی ضا بطہ،
قانون یا رو لز ریگو لیشن بنانے سے بھی قا صر ہے حکومت نے ان لکھے پڑھے نو
جو ا نوں سے آ نکھیں پھیر رکھی ہیں اور ان کو نجی تعلیمی اداروں کے ما لکان
کے رحم و کرم پر چھو ڑ رکھا ہے۔ حا لانکہ یہ وہ طبقہ ہے جس کی کار کر د گی
سر کا ری تعلیمی ادا روں میں پڑ ھا نے والے اساتذہ کرام سے کئی گنا بہتر ہے
۔ہر سال بو ر ڈ کے امتحا نا ت میں نجی تعلیمی اداروں کا نتیجہ سر کا ری
تعلیمی اداروں سے زیا دہ بہتر ہو تا ہے جو مذ کو رہ لکھے پڑھے مز دور طبقے
کے محنت، مشقت اور بہتر صلا حیتوں کا وا ضح ثبوت ہے۔بے شک وطن عزیز میں
ایسے تعلیمی ادارے بھی مو جو د ہیں جو اپنے اسا تذہ کرام کو معقول تنخواہیں
اور سہو لیا ت دیتے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ زیادہ تر
تعلیمی اداروں کے ما لکان ان لکھے پڑھے نو جوانوں کے استحصال کے مر تکب ہو
رہے ہیں۔
اندریں حالات یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس لکھے پڑھے مز دور طبقے کے
حقوق کا تحفظ کرے ۔نجی تعلیمی اداروں کے لئے کو ئی قانون،کو ئی قا عدہ کوئی
ضا بطہ وضع کرے۔کو ئی مو ثر کنٹر و ل اتھا ر ٹی قا ئم کرے۔سر کا ری اسا تذہ
کے لئے مقر ر کردہ پے ا سکیلز کے طرز پر ان کے لئے بھی پے اسکیلز بنا ئے جا
ئیں۔اگر وہ پڑ ھا نے کا مقد س فر یضہ بخو بی انجام دے رہے ہیں تو ان کے
حقوق کا تعین بھی ضرور کیا جانا چا ہیے۔ کیو نکہ لا کھوں طلبا کو پڑ ھانے
والے اسا تذہ اگر فر سٹر یشن ،ذہنی د باؤ اور ما لی کسمپر سی کا شکار
رہینگے تو پو ری قوم ترقی و خو شحا لی کی منزل پر کبھی نہیں پہنچ سکے
گی۔بلا شک و شبہ اقوام و افراد کی ترقی کا انحصار علم و تعلیم پر ہے اور
علم و تعلیم کا انحصار در سگا ہو ں میں پڑھانے والے اسا تذہ کرام پر ہے۔
اگر حکومت یا معا شرہ ان کا خیا ل نہیں رکھے گی تو یقیناً قدرت بھی ان کا
خیال کبھی نہیں رکھے گی۔۔۔ |