آ ج کا نوجوان ۔۔۔۔۔رہنمائی کا محتاج
(Dr-Muhammad Saleem Afaqi, Peshawar)
تحریر: ڈاکٹر محمد سلیم آ فاقی
آج کا نوجوان ۔۔۔۔رہنمائی کا محتاج
21 ویں صدی کا نوجوان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ وہ اپنے بزرگوں کی شاندار روایات اور کارناموں سے غافل ہو چکا ہے، زندگی کے اصل مقصد سے دور اور اپنی خواہشات کا غلام بنتا جا رہا ہے۔ آج کا نوجوان، جس کے ہاتھ میں علم کی روشنی پھیلانے والا قلم ہونا چاہیے، وہ موبائل فون تھامے سوشل میڈیا پر اپنی شناخت بنانے میں مصروف ہے۔ اس کی آنکھوں میں تعلیم حاصل کرنے، شعور بیدار کرنے اور معاشرے کی خدمت کا جذبہ ہونا چاہیے تھا، مگر اب اس کی توجہ صرف لائکس، ویوز سیلفی آور سیر سپاٹے پر مرکوز ہے۔
یہ نوجوان نہ اپنی اصل پہچان جانتے ہیں، نہ وقت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، بس یہ چاہتے ہیں کہ لوگ انہیں سراہیں، ان کی تعریف کریں اور انہیں مقبولیت ملے۔ وہ سٹارز اور سپر سٹار بننا چاہتے ہیں۔
کیا ہم نے کبھی اس پہلو پر غور کیا ہے؟ یہ تعریف کرنے والے لوگ کل کسی اور کی ویڈیوز دیکھ رہے ہوں گے، اور ہمارا نوجوان بے مقصدیت، تنہائی اور احساسِ کمتری کی دلدل میں پھنس چکا ہے ۔
یہ صرف چند ویڈیوز نہیں، بلکہ ایک پوری نسل کا مستقبل ہے جو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ضائع کر رہے ہیں۔
یہ صورتحال والدین، اساتذہ اور باشعور افراد کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ اقبال کے شاہین آج کہاں جا رہے ہیں۔ کیا ان میں خودداری، صبر اور اخلاقی اقدار پروان چڑھ رہی ہیں یا وہ ان سے دور ہوتے جا رہے ہیں؟ آج کا نوجوان سوشل میڈیا کی رنگینیوں میں کھو چکا ہے اور تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو صحیح سمت میں رہنمائی اور شعور دیا جائے۔ انہیں یہ سکھانا ہوگا کہ کامیابی نہ تو لائکس میں ہے اور نہ ہی فالوورز کی تعداد میں، بلکہ اصل کامیابی اپنی صلاحیتوں کو انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال کرنے میں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی دنیا عارضی ہے، جبکہ قلم اور کتاب سے حاصل ہونے والی کامیابی دیرپا اور مثبت اثرات رکھتی ہے۔ حقیقی کامیابی وہ ہے جو انسانیت کی خدمت اور اللہ کی رضا کے لیے کی جاتی ہے، جسے بے لوث خدمت کہا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کے سوشل میڈیا نے نوجوانوں کی سوچ اور ترجیحات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ گھروں میں بیٹھے بچے اب کھیل کے میدانوں کی بجائے اسکرین پر وقت گزار رہے ہیں۔ ان کا یہ دورانیہ کسی طور بھی دس گھنٹوں سے کم نہیں ہوتا ۔ دوستیاں اب حقیقی کم اور آن لائن زیادہ ہو گئی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ دونمبری سیکھ رہے ہیں ۔ والدین کی نصیحتیں اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہیں، اساتذہ کی باتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ ہر کوئی آسان راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے، جہد مسلسل اور جستجو کی کمی نظر آتی ہے۔ وقت کا ضیاع عام ہو گیا ہے، خواب تو بڑے ہیں مگر کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اصل علم کی جگہ اب صرف معلومات نے لے لی ہے۔ اگر ہم نے آج نوجوانوں کو صحیح سمت نہ دکھائی تو کل ہمیں سخت پچھتاوا ہو گا ۔آج کے نوجوانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے سب سے پہلے والدین اور اساتذہ کو اپنا کردار مضبوط بنانا ہوگا۔ انہیں چاہیے کہ بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کریں، ان کی بات سنیں اور انہیں وقت دیں تاکہ نوجوان اپنی مشکلات اور خیالات کھل کر بیان کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، گھر اور اسکول میں مثبت ماحول فراہم کیا جائے جہاں اخلاقی اقدار، محنت اور ایمانداری کو فروغ ملے۔
دوسرا اہم قدم یہ ہے کہ نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے آگاہ کیا جائے اور انہیں وقت کے درست استعمال کی تربیت دی جائے۔ انہیں حقیقی زندگی کے رول ماڈلز سے متعارف کرایا جائے اور عملی سرگرمیوں، کھیلوں اور سماجی کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دی جائے۔ اس کے علاوہ، نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور انہیں مثبت سمت میں استعمال کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
ایک اور منفرد قدم یہ ہے کہ معاشرے میں رہنمائی اور مشاورت کے مراکز قائم کیے جائیں جہاں نوجوان اپنی مشکلات اور سوالات کے جوابات حاصل کر سکیں۔ دینی اور اخلاقی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جائے اور نوجوانوں کو یہ باور کرایا جائے کہ اصل کامیابی انسانیت کی خدمت اور اللہ کی رضا میں ہے، نہ کہ وقتی شہرت یا لائکس میں۔ اس طرح نوجوان مضبوط کردار کے حامل اور معاشرے کے مفید فرد بن سکتے ہیں۔ |
|