New Page 2
ڈاکٹر فہد انوار اسلام آباد سستی اور کاہلی (اسلامی نقطہءنظر) گزشتہ دنوں ایک موضوع پر لکھتے ہوئے یہ خیال آیا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں سستی اور کاہلی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے ؟اس حوالے سے مختلف تحقیقات سامنے آئیں جن میں مختلف معیارات کو اپنایا گیا تھا۔مثلا کسی میں سال بھر کے دورانیے میں کام کے گھنٹوں کو معیار بنایا گیا اور کسی میں روزانہ چلنے پھرنے کو۔اسٹین فورڈ یونیورسٹی کی تحقیق اس حوالے سے خاصی اہم سمجھی جاتی ہے جس میں روزانہ کے قدموں کی مقدار کو معیار بنایا گیاہے۔اس میں سمارٹ فون کے ذریعے 111 ممالک کے717،527 لوگوں کو شامل کیا گیا ہے۔اس تحقیق کے مطابق انڈونیشیا سست ترین ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر ہے جہاں لوگ اوسطا 3513قدم یومیہ چلتے ہیں۔اس کے بعد سعودی عرب اور ملائیشیا ہے جہاں لوگ اوسطا 3800 سے 3963 قدم یومیہ چلتے ہیں، پھر فلپائن ہے۔2017 کی اس رپورٹ کی اہمیت تاحال بھی ہے۔اس فہرست میں جنوبی افریقہ اور بھارت جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ پہلے تینوں ملک مسلم آبادی پر مشتمل ہیں۔حالانکہ مسلم قوم کے لئے نمونہء عمل نبیء اکرم ﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعے چستی اور مستعدی پر ابھارا ہے۔ دونوں جہانوں کے سردار کی مبارک دعاؤں میں یہ دعا بڑی جلی نظر اتی ہے: اللهُم إني أعوذُ بكَ مِن الهَم والحَزَن، وأعوذُ بكَ مِن العَجزِ والكسَل، وأعوذُ بك مِن الجُبن والبُخلِ، وأعوذُ بكَ مِن غلَبةِ الدين وقهْر الرجال(سنن ابی داؤد،2/651،رقم1555) ترجمہ: یا اللہ! میں تیری پناہ پکڑتا ہوں فکر اور غم سے، اور میں تیری پناہ پکڑتا ہوں کم ہمتی اور سستی سے، اور میں تیری پناہ پکڑتا ہوں بزدلی اور بخل سے، اور میں تیری پناہ پکڑتا ہوں قرض کے غلبہ اور لوگوں کے ظلم و ستم سے۔ یہ دعا آپ ﷺنے ایک صحابی ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو اس وقت تلقین کی جب انہوں نے اپنے فقر اور تنگی کا اظہار کیا ۔اسلامی تعلیمات کا سرسری نگاہ سے ہی مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ہمارا دین چستی اور مستدفی کو پسند کرتا ہے اور کاہلی اور سستی کو ناپسند کرتا ہے ۔نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں جفا کشی ،زہد اورمستدوی کی ترغیب ہے ۔آپ ﷺ نے اپنی عملی تعلیم سے ایسے کاموں کی ترغیب دی ہے جن ےانسان جفاکش اور مستعد ہو،سہل پسندی کی عادت اپنا لنےے سے دور ہو ،سادگی اس کا اشعار ہو اور وہ کسی پر بوجھ بھی نہ ہو ،بلکہ دوسروں کے لےں راحت رسانی کا باعث ہو۔ مثلا عبادات مںل نمازِ باجماعت کی پابندی، روزے کے ذریعے بھوک پا س برداشت کرنے کی عادت، زکوۃ کے ذریعے مال کی بےجا فروانی کو روکنا اور حج کے ذریعے جان و مال دونوں اللہ تعالی کے حکموں کے سامنے پش کر دینے کی ترغبر ہوتی ہے ۔پھر حج تو زندگی مں ایک بارفرض کار گاد لکنہ عمرے کو نفل قرار دے کر اس کی ترغب بھی دی گئی ۔ان سب سرفروشویں اور قربانوعں کی انتہا جہاد ہے جسے اسلام کاکوہان قرار دیا گاے۔ یہ تمام عبادات اپنے حن و کمال مںک مستعدی اور جفا کشی کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسلام کی معاشرتی تعلماےت کو دیکھا جائے تو ان مںی بھی ایک مجاہدانہ اور مستعدانہ مزاج نظر آتا ہے مثلا مومن کے لےایہ بات تو عبہ ہے کہ وہ خود کام کاج نہ کرے اور دوسروں کی اعانت و امداد کا منتظر رہے ۔لکنا اس کے لےمیہ بات پسندیدہ ہے کہ وہ خود کمائے اور دوسروں کی مدد کرے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ کون سی کمائی حلال وطیب ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: انسان کے ہاتھ کی مزدوری اور ہر سچی بیع و شراء (جس میں جھوٹ فریب نہ ہو ۔(مسند احمد ،28/502،الرسالہ) آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہےکسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کمائی کبھی نہیں کھائی اور اللہ کے نبی داؤد علہ السلام بھی اپنے ہاتھ سے کماتے تھے (صحیح بخاری،کتاب البیوع،2072)بیوہ اور مسکین کی ضرورت کے لئے دوڑڈھوپ کرنے والا ایساہے جیسے مجاھد فی سبیل اللہ یا رات کو نماز میں کھڑا ہونے والا اور دن کو روزہ رکھنے والا(صھیح بخاری،کتاب النفقات،5353) ۔ اسی طرح مسلمانوں کے اجتماعی امور مںھ حصہ لنےد کی ترغب بھی ملتی ہے جس سے اسلامی برادری کو تقویت وسعت ملتی ہے مسلمانوں کی خدمت سرلت طبہا کا روشن پہلو ہے . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاآپﷺ کی خانگی زندگی جاننے کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی کریمﷺگھر ہوتے تو اپنے گھر کے کام کاج میں رہتے تھے اورجب نماز کا وقت آتا تو نماز کے لیے باہر چلے جاتے۔ (صحیح البخاری: کتاب الصلوٰۃ، باب من کان فی حاجۃ اہلہ) آپﷺ گھر سے باہر بھی اپنے اصحاب کے درمیان ہوتے تو از خود ممتاز نہ بنتے۔خود بھی مخدومیت کی شان کو پسند نہ فرماتے اور دوسروں کو بھی خدمت کی ترغیب دیتے۔جب آپﷺاور سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ ہجرتِ مدینہ کے وقت اکٹھے تشریف فرما تھے تو پہلی مرتبہ دیکھنے والوں کو خادم و مخدوم اور آقا و جانثار کے درمیان فرق معلوم نہیں ہو رہا تھا۔یہاں تک کہ سورج کی شعاعوں میں تیزی ہوئی تو صدیقِاکبررضی اللہ نبی کریمﷺ پر کپڑا تان کر کھڑے ہو گئے، تاکہ آپﷺ کو تپش سے تکلیف نہ ہو۔اس وقت پہلی مرتبہ دیکھنے والوں کو رسول اللہﷺ کی پہچان ہوسکی (نبی رحمت ﷺ، بحوالہ سیرۃ ابن ہشام، ص: 252) آپﷺغزوۂ خندق کے موقع پر اپنے اصحاب کے ساتھ کھدائی میں شریک ہوئے۔یہ اس ہستی کا حال ہے، جس کے قدموں کی گرد کے سامنے کونین کی دولت ہیچ ہے۔جس کے ایک اشارے پر اس کے جانثار ساتھی اپنی جانوں کے نذرانے لیے حاضر ہیں۔جس کےلبوں سے نکلا ہوا ایک لفظ زمین و آسمان میں ہلچل بپا کر سکتا ہے۔اس سب کے باوجود جب یہ مقدس ہستی اپنے لشکر کے ایک عام آدمی کی طرح خدمت و تعاون کے کام میں لگی دکھائی دیتی ہے تو یہ ہمارے لیے امت کے اجتماعی کاموں میں تعاون کا درس ہے۔ یہ تمام مثالںں اس بات کا واضح ثبوت مہاس کرتی ہںت کہ نبی اکرم صلی اللہ علہک وسلم نے چستی اور مستعدی کو پسند فرمایا ہے اور مومن میں خدمت کا جذبہ ہونا چاہیے اوراجتماعی امور مںک مسلمانوں کا معاون بننا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علہو وسلم ہر وقت امور ِاخرت کے لےو متفکر رہتے تھے لکنر اس کے باوجودآپ صلی اللہ علہن وسلم سے چند کھلو ں کی ترغب ملتی ہے، یہ ایسے کھلا ہںی جو آدمی کو مستعد اور مجاہد بناتے ہں ان کے ذریعے بدن کی صحت و تندرستی محفوظ رہتی ہے اور جہاد کی تامری بھی ہوتی ہے ۔ ایک جگہ ارشاد وارد ہے :مردِ مؤمن کا ہر کھیل بیکار ہے سوائے تین چیزوں کے: (۱) تیر اندازی کرنا، (۲) گھوڑے سدھانا، (۳)اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا؛ کیوں کہ یہ تینوں کھیل حق ہیں۔(سنن الترمذی،باب ما جآء فی فضل الرمی فی سبیل اللہ) سواری کی مشق اور گھڑ سواری کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس نے اللہ کے راستے میں گھوڑا باندھ کر رکھا، اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے، اس کے وعدہ کی تصدیق کرتے ہوئے، تو اس گھوڑے کا تمام کھانا پینا حتیٰ کہ گوبر، پیشاب قیامت کے دن اس شخص کے نامۂ اعمال میں نیکی کے طور پر شمار ہوگا۔‘‘ (مشکاۃ، باب إعداد آلۃ الجھاد، 3868) دوڑلگانے کی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہے، طبی اعتبار سے بدن کے لیے یہ بھی مفید ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کی یاد سے تعلق نہ رکھنے والی ہر چیز لہوولعب(یعنی محض کھیل کود ہے) ہے، سوائے چار چیزوں کے: ۱-آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ خوش طبعی کرنا ۲- اپنے گھوڑے سدھانا، ۳- دونشانوں کے درمیان پیدل دوڑنا، ۴-تیراکی سیکھنا سکھانا (کنزالعمال،ج: ۱۵، ص: ۲۱۱، رقم: ۴۰۶۱۲) پیدل دوڑنے کی اسی افادیت کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عام طور پر دوڑ لگایا کرتے تھے اور ان میں آپس میں پیدل دوڑ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔ بلال بن سعد تابعیؒ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان بیان کرتے ہیں: بلال بن سعدؒ کہتے ہیں کہ میں نے صحابۂ کرامؓ کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان دوڑتے تھے اور بعض بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے، ہاں! جب رات آتی، تو عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے۔ (مشکٰوۃ،باب الضحک،4749) آنحضرت ﷺ کے رات دن کے معمولات کو دیںھت تو ان مںل ایک خاص نظام کی پابندی نظر اتی ہے ایسے نہں تھا کہ کبھی کوئی کام کر لاے اور کبھی کوئی بلکہ بعض کی پابندی تو اس حد تک ہوتی تھی کہ انہیں سنت موکدہ کہا گیا۔ آپ ﷺ کا سونا جاگنا ،عبادات ،ازواج مطہرات کے ساتھ حسن معاشرت جس مںو ہر زوجہ کے لےل دن مقرر کرنا وغریہ امور سب مستعدی سے ادا کےا جاتے تھے ۔امتی کو بھی چاہےں کہ اپنی زندگی کی قیتر اوقات کو سستی اور کاہلی کا شکار ہونے سے بچائںی کہ آسی یہ غنمت ہںک تر۔ی عمر کے لمحے کر لے وہی کام جو کرنا ہے یہاں آج
|