پاکستان اور بھارت دوست بن سکتے ہیں

 فرانس اور جرمنی بھی کٹر دشمن تھے۔ دونوں کے درمیان عالمی جنگیں لڑی گئیں۔ ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضے کئے گئے۔ 1939-40کو فرانس کی جنگ میں ہٹلر نے فرانس ، برطانیہ سمیت اتحادیوں کو شکست دی۔ جرمنی نے ڈیرھ ماہ سے بھی کم وقت میں فرانس پر قبضہ جما لیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب مغربی جرمنی میں فرانس کو اپنی جلا وطن حکومت قائم کرنا پڑی۔ پھر عالمی جنگ دوم میں نیا دور شروع ہوا جب جرمنی کو شکست ہوئی اور فرانس نے برلن سمیت مغربی جرمنی پر قبضہ کر لیا۔ جرمنی کے ٹکڑے ہو گئے۔ یورپ کے یہی دو بڑے ممالک تھے۔ جو برسوں تک آپس میں لڑتے رہے۔ ہزاروں لوگ مارے گئے۔ لا تعداد معذور ہوئے۔ یورپ پسماندہ ہو گیا۔ یہ کریڈٹ فرانس کے جین مونٹ کو جاتا ہے کہ جس نے یورپ کو متحد کرنے اور یورپین یونین کی بنیاد رکھی۔ جسے آج یورپ کے باپ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ ایک سیاستدان، سفارتکار، معاشی ماہر تھے۔ آ ج ہمارے سیاستدان، سفارتکار ، سول سرونٹ بھی خلوص کا مظاہرہ کریں تو اس خطے میں اہم کردار ادا ر سکتے ہیں۔ جرمن اور مغربی جرمنی دوت بنے۔ پھر دیواربرلن بھی ٹوٹی اور جرمن ایک ہو گئے۔ دیوار برلن کا گرنا بھی کشمیریوں کی جدوجہد کے اس نئے مرحلے کا نکتہ آغاز ثابت ہونے کی ایک وجہ بنا۔ اس امید پر کہ کبھی جموں و کشمیر بھی ایک ہو گا۔ سیز فائر لائن ختم ہو گی۔ اسے کونی لکیر اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے ہزاروں افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ دونوں اطراف سے کشمیری ہی نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے شہری اور فوجی بھی اس پر جانیں گنوا رہے ہیں۔ سرحد اور سیز فائر لائن کے آر پار لوگوں کی زندگی جہنم بن چکی ہے۔ ہر وقت لوگ پریشان رہتے ہیں۔ کشٰٓیدگی بڑھ جاتی ہے۔ معصوم لوگ مارے جاتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیاں بار بار جنگ بندی معاہدے ہوتے ہیں۔ اس لکیر کے احترام کی بات ہوتی ہے۔ فائرنگ نہ کرنے کا عہد کیا جاتا ہے۔ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ چند روز بعد پھر وہی کھیل شروع ہوتا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں۔ اپنے ممالک میں پروپگنڈہ مہم تیز کی جاتی ہے۔ میڈیا بھی واویلا کرتا ہے۔ چند دن اس میں گزر جاتے ہیں۔ بھارت اگر کشمیر کے نصف سے زیادہ حصہ پر فوجی قبضہ نہ کرتا تو شاید پاکستان اور بھارت دوست ہوتے۔ جس طرح آج یورپ متحد ہے۔ یورپین یونین قائم ہے۔ یورپ کی اپنی کرنسی ہے۔ یورپ میں کوئی سرحد نہیں۔ علامتی سرحدی لکیریں ہیں۔ آپس میں تعاون ہو رہا ہے۔ لوگ آزادی سے جہاں چاہیں۔ آ جا سکتے ہیں۔ تعلیم، سیاحت، تجارت، روزگار جیسے مسائل نہیں۔ آ پ جہاں چاہیں روزگار اور رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔ صرف تعاون اور دوستی کے تصور نے یہ سب کچھ ممکن بنایا۔ تعلیم نے انہیں روشن دماگ بنا دیا۔ وہ سمجھ گئے۔ دشمنی، جنگ و جدال سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ صرف تباہی ملتی ہے۔ جہالت اور بے روزگاری جنم لیتی ہے۔ آ ج کی دنیا میں باہمی تعاون اور دوستی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ آ پ کے پاس مضبوط فوج اور جدید تریں جنگی ٹیکنالوجی ہو مگر یہ جنگ اور کسی ملک پر قبضہ کے لئے نہیں صرف اپنے دفاع کے لئے اور امن کی خاطر۔ جسے ڈٹرنٹ کہا جاتا ہے۔ اس تصور کا احترام بھی ہو۔ کسی فوج کو اپنا لوہا منوانے کے لئے جنگی ماحول پیدا نہ کرنا پڑے، بلکہ سیاستدانوں کو از خود یہ احساس ہو کہ عسکری قوت کی ضروریات کیا ہیں۔ کسی ادارے کو داخلہ اور خارجہ پالیسی میں مداخلت نہ کرنا پڑا بلکہ متعلقہ وزارت کو پتہ ہو کا سب کے تحفظات سمجھنے ہیں اور انہیں اہمیت دینا ہے۔

گزشتہ ہفتوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی جنگ بندی لکیر پر جنگی تصادم ہوئے۔ گولہ باری اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ معصوم لوگ مارے گئے۔ ہزاروں لوگ گھروں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پاکستان نے امن کے لئے پہل کی۔ 29مئی 2018کو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے اپنے بھارتی ہم منصب کو خصوصی ہارٹ لائن پر ٹٰیلیفون کیا۔ یہ خصوصی ہارٹ لائن پاکستان کی کوششوں سے قائم ہوئی۔ دونوں ڈی جیز نے جنگ بندی لکیر اور جموں کی ورکنگ باؤنڈری کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ دونوں نے باہمی طور پر اتفاق کیا کہ امن کے لئے مخلصانہ اقدامات کئے جائیں گے۔ سرحدوں کے آرپار شہریوں کی مشکلات پیدا کرنے سے گریز کیا جائے گا۔ 2003کے سیز فائر لائن معاہدے پر سیاق و سباق کے مطابق عمل ہو گا۔ دونوں ممالک سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ اگر کوئی مسلہ ہوا تو صبر و تحمل کا مطاہرہ ہو گا اور ہارٹ لائن سمیت مقامی کمانڈرز کی فلیگ میٹنگ سے اس مسلے کو حل کیا جائے گا ۔ مگر توپ یا گولی نہ چلے گی۔ مگر اس معاہدے کے بعد پھر سیز فائر لائن پر توپیں اور گولیاں چلیں۔ مزید معصوم لوگ مارے گئے۔ لوگوں میں مزید خوف پید اہوا۔

پھر ایک مثبت پیش رفت ہوئی۔ ڈی جی ایم اوز کے بعد بی ایس ایف اور رینجرز کے مقامی کمانڈرز کے درمیان فلیگ میٹنگ ہوئی جس کا ڈی جی ایم اوز نے فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلہ پر عمل در آمد کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کی فوج خطے میں امن کے قیام کے لئے کام کر رہی ہے۔ اسے مخلصانہ کاوش سمجھا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کی سول حکومت جس میں بیہوروکریسی بھی شامل ہے، امن کی اس خواہش کے لئے کام کرسکتی ہے۔ سفارتی سطح پر بھی سرگرمی کا مظاہرہ ہو سکتا ہے۔ جو کہ وقت کی ضروت ہے۔ پاکستان اور بھارت 70سال سے لڑ رہے ہیں۔ جرمن اور فرانسیسی بھی لڑ رہے تھے۔ جنوبی اور شمالی کوریا بھی 70سال بعد دوستی کر رہے ہیں۔ مگر جرمنی اور فرانس نے ایک دوسرے کی سرزمین پر قبضے تم کئے تو دونوں مین دوستی ہوئی۔ اس دوستی کا فائدہ دو ملکوں کو ہی نہیں ہوا بلکہ پورا یورپ ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس کا اثر دنیا پر بھی پڑا ہے۔ سارک ممالک بھی ایک ہو سکتے ہیں۔ سارک بھی یورپین یونین جیسا بن سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے پاکستان اور بھارت کی دوستی ضروری ہے۔ یہ اس خطے کے لئے اہم ہے۔ مگر اس کے لئے بھارت کو جبری قبضہ ختم کرنا ہے۔ پاکستان بھی بھارتی تحفظات پر بات کر سکتا ہے۔ قبضے برقرار رکھنا یا ان میں وسعت لانا یا بالا دستی کے عزائم خطرناک ہیں۔ ان سے جنگ کا ماحول بنتا ہے۔ بلکہ دونوں ممالک میں جنگ ہو رہی ہے۔ روزانہ معصوم لوگ مر رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں دوستی ہو سکتی ہے۔ سارک اتحاد کا میاب ہو سکتا ہے۔ اگر ناجائز تسلط ختم ہوں ، کشمیر میں بھارت نے رمضان میں نام نہاد سیز فائر کا اعلان کیا ہے۔ یہ صرف سیاست ہے۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ پاکستان کو سفارتی طور پر زیر کرنا کا ایک حربہ ہے۔ دونوں ممالک کو اس صورتحال سے کچھ نہیں ملا ہے۔ صرف ترقی اور خوشھالی کا راستہ بند ہوا ہے۔ اگر دونوں ملکوں کے سیاستدان، سفارتکار، فوج، بیروکریسی عزم کر لے تو دونوں ملک دوست بن سکتے ہیں۔ کشمیر سے فوجی انخلاء کسی کی جیت ہار نہیں بلکہ امن اور دوستی وترقی کی جیت ہو سکتی ہے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555521 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More