خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں واقع جامعہ عثمانیہ نامی
مدرسے کا باغ دیکھنے میں تو ایک عام باغ لگتا ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کا
انوکھا باغیچہ ہے۔
اس باغ میں صرف ان 21 انواع کے پودے لگائے گئے ہیں جن کے ناموں کا ذکر قرآن
میں آیا ہے۔
|
|
منتظمین کے مطابق اس باغ کا ایک مقصد تو لوگوں میں ان پودوں کی افادیت کے
بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پایا جا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ اس تصور کو بھی غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مدرسے کے
طلبا غیرنصابی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔
مدرسے میں موجود اس باغ کی بنیاد سنہ 2009 میں رکھی گئی اور یہ باغ تقریباً
چار کنال رقبے پر محیط ہے۔
باغ کا داخلی دروازہ اینٹوں سے بنایا گیا ہے جبکہ باغ کے اندر ہر ایک پودے
کے ساتھ چھوٹی سی سٹیل کی تختی نصب ہے۔
اس تختی پر اسی پودے کے بارے میں معلومات درج ہیں کہ پودے کا عربی، اردو
اور پشتو نام کیا ہے اور یہ کہ اس کا ذکر قران کے کون سے پارے، سورت اور
آیات میں آیا ہے۔
|
|
پچھلے 18 سال سے اسی مدرسے میں کام کرنے والے منتظم مجیب اللہ نے بی بی سی
کو بتایا کہ آج کل کے زمانے میں جہاں ماحولیاتی تدبیلیاں بڑا مسئلہ ہے وہاں
درخت لگانے سے بڑا کوئی صدقہ نہیں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ایک طرف اگر درخت سایہ اور پھل دیتے ہیں تو دوسری طرف
آج کل کے گرد و غبار اور ماحولیاتی آلودگی سے بھی ماحول کو صاف رکھنے کا
ذریعہ ہیں۔‘
باغ کے پودوں پر تحقیق
اسی باغ میں موجود 80 پودوں پر مدرسے کے ایم فل (مدرسہ نظام میں ایم فل عام
ایم فل سے مخلتف ہوتا ہے) کے طلبا انھی پودوں پر 20 سے لے کر 80 صفحات تک
مقالے لکھتے ہیں۔
کچھ پودوں پر لکھے ہوئے مقالے دکھاتے ہوئے مجیب اللہ نے بتایا کہ اس باغ کو
چلانے اور ان پودوں پر تحقیق کے لیے ایک الگ بورڈ ہے جس کے ارکان میں پشاور
یونیورسٹی اور پشاور کی زرعی یونیورسٹی کے اساتذہ شامل ہیں۔
’باغ کے پودوں پر اب تک درجنوں مقالے لکھے گئے ہیں اور مقالے لکھنے کے بعد
ان کا درست طریقے سے زرعی یونیورسٹی کے زیر نگرانی دفاع کیا جاتا ہے۔'
|
|
انھوں نے کہا کہ پہلی دفعہ پشاور کے کسی مدرسہ میں طلبا کو اس طرح کے مثبت
سرگرمیوں میں مصروف کیا گیا ہے جس سے ان کی تحقیق کی صلاحیت میں بھی اضافہ
ہوگا۔
باغ کی دیکھ بھال طلبا کے ذمے
جس وقت میں باغ کے احاطے میں داخل ہوا تو دور سے مدرسے طلبہ باغ میں کچھ
پودوں کو پانی دے رہے تھے جبکہ کئی طلبہ باغ کی صفائی میں مصروف تھے۔ قریب
ہی ایک طالب علم پودوں سے اضافی شاخیں کاٹنے میں لگا ہوا تھا۔
اس باغ میں 21 انواع کے جو پودے لگائے گئے ہیں ان میں انگور، انجیر، دالیں،
کیلا، مختلف قسم کی سبزیاں، انار اور بیر شامل ہیں۔
منتظم نے بتایا کہ باغ کے لیے الگ ملازمین نہیں رکھے ہیں بلکہ مدرسے کے
طلبا ہی اس کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتے ہیں اور یہی سرگرمی ان ذہن کے لیے
ایک مفید سرگرمی بھی ہے۔
|
|
مدرسے میں دہم جماعت کے طالب علم حذیفہ رحمان نے افطار کے لیے انجیر کے
پودے سے انجیر توڑتے ہوئے بتایا کہ جب درس سے فارغ ہو جاتے ہیں تو یہی باغ
ان کا سب کچھ ہوتا ہے۔
'فارغ وقت میں یہاں آکر اسی باغ کی دیکھ بھال کرتا ہوں جو مجھے ایک دلی
سکون بھی دیتا ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ یہاں پھلوں کے درخت بھی ہیں اور پکنے کے بعد مدرسے کے
طلبا ان کو کھاتے بھی ہیں۔
منتظم کے مطابق طلبا میں پودوں کی اہمیت کے بارے میں آگاہی کے بعد انہیں
کچھ پودے دیے جاتے ہیں جن کو یہ گھروں میں جا کر لگا دیتے ہیں۔
'یہی تو ہمارا بنیادی مقصد ہے کہ مدرسے کے طلبا اور پورے معاشرے کو پودوں
کی افادیت کے بارے میں معلومات حاصل ہوں۔'
عادل ظریف پشاور میں ماحولیاتی آلودگی پر پچھلے کئی برسوں سے کام رہے ہیں
اور خیبر پختونخوا کنزرویٹیو نیٹورک کے بانی رکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طلبا
اور بالخصوص مدرسے کے طلبا کو اس اہم کام میں لگانا نہایت مفید ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ باغ 2009 میں پشاور یونیورسٹی اور ایگری
کلچرل یونیورسٹی کے اساتذہ کی مدد سے بنایا گیا۔
انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی ایک سینجیدہ مسئلہ ہے اور جس
طرح یہ باغ بنا ہے اسی طرح کے طریقوں سے عوام میں آگاہی پیدا کی جانی چاہیے۔
|
|