دس سال بیت گئے نام نہاد جمہوری گاڑی کو، اس گاڑی کا ٹریک
آج تک ٹیڑھا اور بے ترتیب ہے، غیر ہموار اور الجھاؤ کا شکار بھی ،جمہوریت
کے پائلٹ کئی دھائیوں سے ناکارہ، ناکام اور نا اہل ثابت ہوتے چکے آرہے ہیں،
کہیں جمہویرت کا انجن فیل ہوتارہا تو کہیں ڈبے پٹڑھی سے اترتے رہے، خیر
آمر کو کوسنے والے یہ بھول گئے کہ آمر کو تقویت ہمیشہ انھوں نے ہی دی
تھیں،جس ملک میں جمہوری حکومت مضبوط ہوتی ہیں وہاں آمر قطعی نہیں مداخلت
کرتے ہیں زیادہ دور نہ جائیں بھارت کو ہی لے لیں ،وہ بھارت جو پاکستان کے
ساتھ ایک الگ ملک دنیا کے نقشے پر اترا آج تک بھارت میں مارشلا یا غیر
جمہوری حکومت کا دور نہیں رہا اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں کے سیاسی جماعتیں،
سیاسی رہنماؤں کا کردار مثبت رہا ہے وہاں کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں
سب یک زبان جے ہند کا نعرہ بلند کرتے ہیں جبکہ اس ملک مین پاکستان سے کئی
زیادہ قومیں، زبانیں اور مذہب بھی ہیں لیکن وطن اور ریاست کے معاملے میں
کوئی ذرا برابر اختلاف دنیا کے سامنے ظاہر نہیں ہوتا ہے ، بھارتی فوجی افسر
ہو یا بیوروکریٹس یا پھر سیاست دان کبھی بھی اپنے وطن کے خلاف نہیں جاتا
چاہے اسے منصب و وزرا میسر ہو یا نہیں ، ہم لاکھ ان سے اختلاف کریں لیکن
حقیقت کو ماننا ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی بنتی ہے ، بھارتی سیاسی رہنما
اپنے ذات سے بھی بالاتر ہوکر اپنے وطن اور اپنی قوم کے فائدے کیلئے سوچتے
اور عمل کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انتہائی غربت کے با وجود بھارت کے لوگ
پاکستان کے مقابل تیزی سے ترقی اور خوشحالی کی جانب سفر کررہے ہیں، اگر
پاکستان کے خلاف اسے خطرہ نہ ہو تو بھارت وہ رقم جو پاکستان کے خلاف فوجی
آلات اور فوج پر سرف کررہا ہے یقیناً وہ تمام رقم اپنی قوم کی خوشحالی اور
ترقی میں لگائے گا، دشمن کی اچھی بات اور اچھے عمل سے سیکھنا چاہیئےوہ دوست
جو آستین کا سانپ بنے پھرتے ہوں اور وقت بے وقت ڈستے ہوں اُن سے بہتر وہ
دشمن ہے جو ظاہر بھی ہے اور عقل مند بھی کیونکہ ظاہری دشمن سے مقابلہ کیا
جاسکتا ہے لیکن آستین میں چھپے اپنے لوگوں کو پہچاننا اور اس کی شناخت
ہونے کے باوجود کچھ نہ کرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ، کچھ نہ کرنے سے مراد یہ
ہے کہ ایسے سیاسی رہنما جو اپنے مکار پن، فریب ،جھوٹ سے عوام کو مسلسل بے
وقوف بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ،کہیں عصبیت تو نہیں زبان اور صوبے کا
کارڈ استعمال کرکے اپنے مقاصد حاسل کرتے تھکتے نہیں تعجب اور شرم کی بات تو
یہ ہے کہ ہماری کچھ سیاسی جماعتیں ایسی بھی ہیں جو مذہبی ہیں لیکن ان کے
اطوار ایسے گھناؤنے ہیں کہ انہیں مذہب سے جوڑتے ہوئے بھی گھن آتی ہے، دکھ
اور افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں ایک مقدس اور نیک مقصد
کیلئے بنایا گیا تھا لیکن نیک ایماندار سیاسی و نوکر شاہی اور عسکری لوگوں
کی کمی کے باعث آج پاکستان کس قدر دلدل میں دھنس گیا ہے، یہاں ادارے نیست
و نابود ہوگئے ہیں۔۔۔ رشوت، شفارش، اقربہ پروری، حق تلفی، نا انصافی، بے
امنی، بداخلاقی اس قدر چھا گئی ہے کہ اب یقین ہوچلا ہے کہ اللہ بھی اپنی
رحمت کے دروازے اس قوم پر بند کردیگا، کیونکہ یہ قوم اپنی نفس کی اس قدر
غلام ہوگئی ہے کہ بد کرداروں کو سر کا تاج بنائے پھرتی ہے، معمولی سی رقم
اور عیش و تعائش میں اپنا ایمان تک بیچ جاتی ہے ، بے ضمیروں کا بازار سج
جاتا ہے ، لوگوں کو احساس تک نہیں ہوتا ہے کہ اپنے ووٹ کو کس قدر بے اہمیت
کررہے ہیں، وہ اپنی نادانی کی وجہ سے کس قدر اپنے بچوں کے مستقبل سے کھیل
رہے ہیں، کس قدر اپنے ملک کو نقصان سے دوچار کررہے ہیں، یقینا ایک اچھا
سیاسی رہبر ہی پاکستان کو مثالی اور اعلیٰ ملک بناسکتا ہے لیکن ایسا رہبر
ہے کہاں۔۔۔۔ ؟؟؟؟ کون ہے جو کرپشن، لوٹ مار، بد عنوانی اور تعصب سے پاک ہو
یقیناً ایسا اب تلاش کرنا ممکن نہیں ۔!! انہیں سیاسی جماعتوں کو ہی اگر
منتخب کرنا ہے تو ان پر اپنے شرائط لوگو کریں ، گروہ بناکر ،جماعت کی شکل
دیکر ہر آنے والے امیدوار سے ووٹرز کے گروہ حلف لیں اور ساتھ ہی سرکاری
ٹکٹ پر حلف نامہ تحریری لیں کہ وہ اپنے ووٹرز جہاں سے انہیں ووٹ ملے گا
انہیں بنیادی ضروریات لازماً فراہم کریں گے اور باہمی مشاورت کے بعد
ترقیاتی امور کو چسرانجام دیں گے ایسا نہیں ہوگا کہ پچھلی حکومتوں کی طرح
بادشاہ بن کر اپنی خواہشات کے مطابق کام کیئے اور تمام کام بے سود اور بوجھ
ثابت ہوئے، اگر الیکشن دو ہزار اٹھارہ میں ووٹرز نے اپنی اہمیت نہ دکھائی
تو میں خود کہتا ہوں کہ ایسی قوم پر ظالم و جابر حکمران کا آنا ہی اچھا
عمل ہے کیونکہ بے حس قوم ، بے غیرت قوم کو حق حاصل نہیں کہ وہ زندہ رہے ،زندہ
رہنے کیلئے عزت اور مقام چاہئے ،دولت تو بے ہودہ عورت بھی بہت کمالیتی ہے
لیکن غیور قوم عزت اور وقار کا سودا نہیں کرتی ، یقینا ً پاک وطن کی قوم
پاک اور غیور ہے میں سمجھتا ہوں کہ قوم اس الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں
کو احساس دلادے گی کہ اس قوم کی کوئی قدر ہے اسی لیئے اب اس قوم کی رہبری
کیلئے بھی مثالی ، عالی کردار کا مالک ہونا چاہیئے، اگر اس قوم سے اب دھوکہ
کیا گیا تو قوم کو خود چاہیئے کہ ان کا احتساب خود کریں جوتوں ،لاٹھیوں ،
گندگی کچرے سے انہیں پلیٹ دیں، ان وہ درگت بنائیں کہ نسلیں یاد رکھیں،
آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر مکمل اترنا چاہیئے، جس کو قرآن کا عمل نہیں،
کلمے یاد نہیں، نماز کے فرض و سنت کا عمل نہیں، نماز جنازہ کے اراکین نہیں
جانتا، تاریخ ہجرت پاکستان سے بے خبر ہو ، قائد اعظم محمد علی جناح ،نوابزادہ
لیاقت علی خان اور علامہ اقبال سے واقف نہیں ایسے لوگوں کو اقتدار پر
برجمان ہونے کا کوئی حق نہ دیا جائے۔۔۔سیاسی رہنماؤں کا بھی سی ایس یس سے
زیادہ مشکل امتحان لیا جائے تاکہ وہ پاکستان کی ریاست ،آئین کو بہتر انداز
میں چلاسکیں، نظام ریاست کیلئے قابل ذہین نیک اور ایماندار سیاسی شخصیات کو
ووٹ دیں ، انہیں منتخب کریں جو اہل ہو ضروری نہیں وہ آپ کا اپنا ہو ، ہم
سب ایک قوم ہیں اسی لیئے ہم سب کے رہبر میں وہ تمام خوبیاں ہونی چاہیئے جو
ایک اچھے پاکستانی میں ہوں۔۔، وطن عزیز پر جان نچھاور کرنے کوئی کوئی دیر
نہ کرے، ایثار و قربانی ، عزت نفس اور اخلاقیات کا پابند ہو ،حرام چیزوں سے
پاک ہو، قول و فعل میں تضاد نہ ہو، سچ و حق پر چلتا ہو اور سچ و حق پر قائم
رہے۔۔۔
بہت ہوگئی ہے ظلم سہتے سہتے
اب نہیں ہوگا ظالم کہتے کہتے
قوم کرچکی ہیں بہت خود کشیاں
اب کی بار ہوگی تمہاری پٹائیاں
بنیادی سہولتوں کو فراہم کرنا ہے تم نے
لٹیروں سے دولت واپس لانا ہے تم نے
قوم ووٹ دیکر اس مید سے انتظار کرے گی کہ سابقہ ڈاکوؤں، لٹریروں، رہزنوں
سے کس طرح چھٹکارا دلائیں گے، ان سے کس قدر قومی دولت واپس لائیں گے اور
خود اپنا کردار کس حد تک شفاف رکھیں گے۔ اللہ اس قوم اور وطن عزیز پر اپنا
کرم و فضل فرمائے اور پاکستانی قوم کو اپنے ووٹ کی اہمیت اور اچھے نیک
سیاسی رہنماکو منتخب کرنے کی عقل و دانشمندی سے نوازے آمین ثما آمین۔۔۔۔۔
۔۔۔پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔!! |