آزادکشمیر میں تصادم کی چنگاریاں اور مفلوک الحال لوگ

آزادکشمیر میں تصادم کی چنگاریاں اور مفلوک الحال لوگ

عید الفطر قریب آ رہی ہے اور رمضان کا مقدس ماہ اپنے ایام مکمل کرنے کو ہے رب کی نماز ‘ روزہ ‘ حج ‘ زکوٰۃ سمیت عبادات سے کچھ حاصل نہیں ہوتاہے وہ بے نیاز ‘ قادر المطلق ذات ہے ‘ بس انسان کو اپنی جانب سے رحمتوں ‘ نعمتوں ‘ برکتوں اور راحت کامیابیوں کے راستے عبادات کے بہانے سے سکھا دیئے ہیں ۔
درد دِل کے واسطے پیدا کیاانسان کو
ورنہ اطاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

مگر ان سب کے باوجود سارے جہاں خصوصاً مسلم دنیا میں نظر دوڑائیں تو کرب الم کے سائے چھائے ہوئے ہیں ‘ برصغیر خصوصاً دھرتی ماں پاکستان کے اپنے دُکھ درد ہیں اور یہاں آزادکشمیر اپنے معاشرے کی طرف بچوں کے تعلیمی سال کے اختتام پر بیگ ‘ کتابیں ‘ کاپیاں خریدنے کے موقع پر بک ڈپوز پر اُداس مجبور محکوم داستانوں سے بھرے چہرے ہوں یا عید الفطر ‘ عیدالضحیٰ کے قریب آتے ایام میں لاچار غم خوار بوڑھے ‘ مرد عورت ‘ نوجوان ‘ بچے ہوں ان کے رنجیدہ چہروں اور پیاسی آنکھوں کو دیکھ کر بے بسی کے ہاتھوں جان نکلتی تکلیف ناقابل برداشت ہوتی ہے۔
دنیا میں کتنے غم ہیں میر اغم کتنا کم ہے
لوگوں کا غم دیکھا تو اپنا غم بھول گیا
کوئی ایک ہزاروں میں شاید خوش ہوتا ہے
کوئی کسی کو روتا ہے کوئی کسی کو روتا ہے
حضرت شاہ ولی کے فرمودات میں پڑھا تھا

رب سب کا رزق دنیا میں بھیجتا ہے مگر ظالم حق دار کے حق پر ڈاکہ مارتے ہوئے دولت پر سانپ بنے بیٹھے ہیں ‘ زلزلے سے پہلے کبھی یہ منظر اپنی دھرتی مظفر آباد میں نہیں دیکھے تھے ہوٹل کے ٹیبل سے کھانا کھا کر لوگ اُٹھے تو فوراً بچے ہوئے کھانے کی طرف انتظار میں بیٹھے افراد آ کر کھانے لگے بہت بڑے کچن میں لاکھوں روپے کا سامان چھوڑ کر صرف آٹے ‘ دال ‘ چاول ‘ نمک ‘ مصالحے چوری کا واقعہ بھی سنا ‘ یہ سب کچھ کاش دیکھنے سننے کو نہ ملتا ‘ سردار یعقوب خان ایوان صدر میں میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے ہمارے دفاتر میں ماحول بن گیا ہے قیمتی ملبوس والوں کی خدمت ہوتی ہے میلے کچیلے کپڑے والوں کو دھتکار دیا جاتا ہے این جی اوز نے بطور تجربہ دو بچوں کو بازار میں بھیجا ایک کو کھلونے دیئے دوسرے کو بھیک مانگنے کو کہا گیا شام کو مانگنے والے کے پاس پانچ سو روپے تھے اور کھلونے والے کے پاس صرف سو روپے تھے ‘ ماکڑی زلزلے میں تباہ و برباد ہونے والا غریب خاندان پانچ ہزار کا فارم اور لاکھ روپے کا ڈرافٹ ڈیم کو جمع کرائے گا یہ کیسے ممکن ہے ہر طرف ہر جگہ یہ تماشہ معاشرتی فطرت مزاج بن کر سارے برہم ملیا میٹ کر جائے مگر اولیاء نیک لوگوں کا وجود بچائے ہوئے ہے ‘ بہت اچھا لگتا ہے ‘ تانگہ اسٹینڈ ایک دکان دار دستر خواں روڈ پر بچھا کر فٹ پاتھ پر چلنے والوں کو افطاری کرواتا ہے اور شاہ عنایت دربار کے احاطے میں کاسامیراں آرگنائزیشن کے رضا کارچوہدری شاہد عزیز ‘ عتیق رضا ‘ خواجہ نعیم ‘ نعمان میر ‘ دانش گل ‘ نعیم اسلم ‘ رضوان مظفر ‘ بلال درانی ‘عمر شیخ ‘ اخلاق احمد کاشر ‘ لالہ عقیل ‘ زبیر لون ‘ سید طلح رفیق ‘ خواجہ کاشف ‘ ایاز میر ‘ عدیل جلیل ‘ ذکی شیخ ‘ احسن خان ‘ باسط مقبول ‘ عبدالہادی ‘ حمزہ حسن ‘ کاکا بھائی ‘ وسیم لالہ سمیت تمام ارکان یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں ‘ یہی وہ عمل ہے جو سب کو اختیار کرنا چاہیے ‘ پھر شاید کارنامے عبادات کا صلہ بھی مل جائے ورنہ تعلیمی نظام سے افطار کے اہتمام تک نمود و نمائش اور اس کے لیے جائز ناجائز کا فرق ختم کرنے کا نتیجہ بے سکونی ہی ہے ‘ جس کا تدارک منصب اختیار دولت کار کوٹھی پلازے عیش عزت کا جنون نہیں بلکہ خدا خوفی اور حقیقت کا اعتراف ہے ‘ ایک بار پھر سکندر حیات حکومت میں میڈیکل کالجز کے نام پر تعصبات کی آگ سے نکلے ‘ نفرت کے شعلے چنگاریاں بننا شروع ہو گئے ہیں ‘ سپریم کورٹ کی طرف سے ممبر اسمبلی سردار خالد ابراہیم کی اسمبلی میں عدلیہ سے متعلق تقریر کے جملوں پر نوٹس کے بعد راولاکوٹ سے سردار صاحبان کی طرف سے ججز کیخلاف اور مظفر آباد سے خان برادرز کی طرف سے خالد ابراہیم کیخلاف مقدموں کا دائر کرنا تشویشناک عمل ہے ‘ یہاں کوئی میاں نواز شریف ‘ آصف زرداری ہے نہ عمران خان ہے ‘ ’’حضرت جون علیاء نے فرمایا تھاایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ ۔۔۔آج تلک بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی‘‘

برائے مہربانی سپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر پارلیمنٹرین سمیت سپریم کورٹ جائیں اور سب کی طرف سے معذرت کے ساتھ درگزر کا اہتمام کرائیں ؟؟؟

زمانے میں اور بھی ہیں غم جاناں کے سواکے مصداق محرومیوں کا شکار خاموش طبع طبقے کے دُکھوں کو بانٹنے کا سفر اختیار کریں جسے شاعرہ نیلم ناہید درانی نے دعائیہ رنگ کچھ اس طرح دیا ہے ۔
اُداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے
سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے
کوئی تو آئے خزاں میں پتے اُگانے والا
گلوں کی خوشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے
کوئی سکھائے محبتوں کے سیراب مجھ کو
میری نگاہوں سے بات کرنا کوئی تو سیکھے
کوئی تو آئے نئی رتوں کا پیام لے کر
اندھیری راتوں میں چاند بننا کوئی تو سیکھے
کوئی پیامبر کوئی امام زماں ہی آئے
اسیر ذہنوں میں سوچ بھرنا کوئی تو سیکھے

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149140 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.