پاکستان اس وقت زرعی، آبی اور معاشی مشکلات سمیت اندرونی
اوربیرونی خطرات سے دوچارہے۔ پچھلے 35 , 40 سالوں میں ملک کو اس قدر لوٹا
گیا کہ آج ملکی معیشت برباد ہے۔ اگلا منظر کسقدر خوفناک اور خطرناک
ہوسکتاھے اسکاجائزہ بھی لیتے ہیں ، پہلے ایک ایسا واقعہ سن لیں جسے سن کر
پاکستان سے محبت کرنے والوں کو یقین سے سکون ملے گا۔ یہ 2004 کاواقعہ ہے،
بوسنیا ہرزگوینا کے شہر سرائیوو میں "یوتھ ڈویلپمنٹ پیس کانفرنس" ہو رہی
تھی۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے نوجوان شریک تھے۔ کانفرنس میں معذوروں کی
نمائندگی امریکہ کے وکٹر اور پاکستان سے ھمارے ایک دوست شفیق الرحمٰن نے کی۔
شفیق الرحمٰن ھمیں بتاتے ہیں کہ ’’میرے لئے فخر تھاکہ میں پاکستان کی
نمائندگی کر رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب نائن الیون کے بعد دنیا افغانستان
کی خبروں سے پاکستان کومنسلک کر رہی تھی۔ پاکستان کا تاثر مسخ کیاجارہاتھا۔
چونکہ میرا پہلا عشق پاکستان ہے، اس لئے میرے لئے یہ خبریں بہت تکلیف دہ
تھیں مگر پھر قدرت میرے لئے ایک ایسا لمحہ لے آئی جب میں سینہ تان کر
کانفرنس میں شریک ہو گیا۔ اس کی وجہ کانفرنس میں میری کیلئے مختص مترجم ایک
30سالہ خوبصورت لڑکی تھی۔نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں نے اس کے حسن کو
چارچاند لگا رکھے تھے۔ تعارف ہوا تو میں نے بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں۔
یہ سننے کی دیر تھی کہ میری مترجم آگےبڑھی۔ اس نے میرا ہاتھ تھاما، اسے
چوما، چوم کر آنکھوں سے لگایا۔ اس غیرمتوقع حرکت پر میں حیران ہوا۔ وہ
میری حیرت کو دیکھ کر بولی ’’کاش ہماری نسلوں میں پاکستانی پیدا ہونا شروع
ہوجائیں۔‘‘یہ جملہ سننے کے بعد میں مزید حیرت میں ڈوب گیا۔ میں نے خود کو
سنبھالتے ہوئے پوچھا تو وہ کہنے لگی ’’کیا آپ مجھ سے شادی کرسکتے ہیں؟‘‘
پہلی ہی ملاقات میں ایسے جملے سن کر مجھے مزید حیرت ہوئی۔ خیر میں نے اسے
بتایا کہ میں شادی کرچکا ہوں مگر آپ بتایئےکہ آپ ایسا کیوں چاہتی ہیں؟ اس
نے بتانا شروع کیا کہ’’ جب سربیا کے غنڈے ہم مسلمان لڑکیوں کی عزتوں سے
کھیلنا چاہتے تھےتو اس وقت ہمیں بچانے والے پاکستانی فوج کے جوان تھے۔ بین
الاقوامی امن فوج میں شامل پاکستانی جوانوں نے نہ صرف ہمیں بچایا بلکہ وہ
ہمیں اپنے کیمپوں میں لے گئے۔انہوں نے ہمیں اپنی بہنوں اوربیٹیوں کی طرح
رکھا۔ جب وہ ہمیں کھانا دیتے تو خود نہیں کھاتے تھے۔ ہمارے پوچھنے پربتاتے
تھے کہ ہمارا روزہ ہے۔ کچھ ہفتوں بعد ہمیں پتا چلا کہ وہ ہمیں اپنے راشن سے
کھانا دے کرخود بھوکے رہتے۔ وہ پاکستانی فوجی جوان ہمارے بچوں سے بہت
پیارکرتے تھے، ہمارے بزرگوں کا بہت احترام کرتے تھے، ہماری حفاظت کرتے ہوئے
کچھ پاکستانی جوان شہید بھی ہوگئے تھے۔ تم پاکستانی عظیم لوگ ہو۔‘‘ اس کےاس
جملے نے میرا سرفخر سے بلند کردیا۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اپنی بہن
سمجھتے ہوئے دعا دی اور پھر اس سے کہا کہ’’پاکستان کی فوج ہم پاکستانیوں
کےلئے فخر کا باعث ہے۔دنیا میں اگرکسی نے غریب اور متوسط طبقے کے افراد
پرمشتمل شاندار ادارہ دیکھناہو تو وہ پاکستانی فوج کو دیکھ لے۔‘‘ یہ واقعہ
2004ء میں ہوچکاہے مگر اب جب میں سیاستدانوں کی طرف سے فوج پر تنقید کے
مناظر دیکھتا ہوں تو پھر سوچتا ہوں کہ فوج کو برا کہنے والے سیاستدان کبھی
اپنے بچوں کو سرحدوں پر بھیجیں تو انہیں پتا چلے کہ دھرتی سے عشق نبھانا
کیا ہوتا ہے؟ مگر انہیں تو بس لوٹ مار، مہا کرپشن کا پتہ ھے یا ھر وقت پاک
مسلح افواج اور آزاد عدلیہ پر تنقید کرنا ھے۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ، پاکستانی سیاستدان علامہ راجہ ناصر عباس کے
کلاس فیلو ہیں۔حسن نصراللہ نے اپنے پاکستانی دوست راجہ ناصر عباس کو نصیحت
کی کہ کبھی بھی اپنی افواج کو نہ چھوڑنا۔ ہمیشہ اپنی افواج کے ساتھ
رہناکیونکہ ہمیں بہت سی اطلاعات ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل مسلمان ملکوں کی
افواج کو توڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اسی منصوبے کے تحت لیبیا اور عراق کی
فوج کو توڑا، یمن کی فوج توڑی، اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کی فوج نہیں
بننے دی۔ دراصل یہ مسلمان ملکوں کی افواج کو توڑ کر خطے کی ازسرنو ترتیب
چاہتے ہیں۔ اب ان کی ترتیب میں اور توسیع شامل ہوگئی ہے اور اب ان کا ناپاک
مشن پاک مسلح افواج کو توڑنا ہے۔ اسے کمزور کرنا ہے کیونکہ جغرافیائی طور
پر پاکستان اھم ملک ہونے کےعلاوہ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بھی ہے۔
پاکستان کی آبادی بھی بھرپور ہے۔ یہ طاقتور بھی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ
سازش کامیاب ہوگئی تو پھر ایران اور افغانستان بھی ٹوٹ جائیں گے اسی لئے
میری آپ کو وصیت ھے کہ ہر حال اپنی افواج کا ساتھ دینا۔ آپ کا ملک اور
عوام اسی صورت میں بچیں گے جب آپ کے پاس طاقتور فوج ہوگی۔ علامہ راجہ ناصر
عباس کہتے ہیں کہ’’میں اکثر سوچتا تھا کہ میرا دوست کیوں یہ منظر مجھے
بتاتا ہے۔ اب جب حالات میرے سامنے آئے تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ سچ کہہ
رہا تھاکیونکہ میرے لئے وہ دن حیران کن تھا جب تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے
والے نوازشریف نے اپنی ہی بہادر افواج کے خلاف بولنا شروع کیا۔ تب مجھے
بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر کام کرنے والوں کی سمجھ آئی۔ میں سوچ بھی نہیں
سکتا تھا کہ ایک ایسا شخص جو تین بار ملک کاوزیر اعظم رہا ہو، وہ بھی ایسا
کرسکتا ہے؟ اسکے خاندان نے تو پاکستان کے لئے کوئی قربانی بھی نہیں دی۔ ان
کے پورے خاندان میں کوئی شہید نہیں ہے بلکہ انہوں نے تو پاکستان کو خوب
لوٹا اور بے پناہ کرپشن کرکے پاکستانیوں کی دولت بیرون ممالک منتقل کی۔
پاکستانیوں کی لوٹی دولت سے کھربوں پتی بن گئے اور یہ پاکستان پر الزام
تراشی کر رہے ہیں۔ جب فاٹا میں امن ہو چکا تھا تو پھر یہ منظور پشتین کہاں
سے آگیا؟ کہاں سے آگئے اچکزئی اور’’اچکزئی نظریے‘‘ والے پاکستان کے غدار
ثابت ہیں۔ کیوں منظورپشتین کو لاہور بلوا کر یہ جلسے کرواتے ہیں؟ کسی بات
پر اختلاف کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ اپنی مسلح افواج کے خلاف باتیں
کریں۔ منظورپشتین نے کیوں اسرائیلی فوج کے حق میں نعرے بازی کی؟ کوئی
پاکستانی کبھی ایسا سوچا بھی نہیں سکتا۔ ہم نے 20ہزار جنازے اٹھائے ہیں، حق
کے لئے دھرنے دیئے ہیں مگر کبھی اپنے وطن کے خلاف بات نہیں کی۔ ہمیں ھر حال
یہ یاد رکھناچاہئے کہ ہماری پہلی اور مضبوط دیوار صرف اور صرف ھماری بہادر
پاک مسلح افواج ہے۔ ہمارے معاشرے کے اندر تو اختلافات کے نام پر بہت تقسیم
ہے۔ ہمیں اندرونی اختلافات ختم کرکے اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہئے۔
اگلا منظر زیادہ خطرناک لگتاہے جب کئی اطراف سے خطرناک کھیل شروع ھوسکتے
ہیں۔ یہ کھیل عیدالفطر کے بعد شروع ہوسکتے ہیں۔ عیدالفطر کے بعد منظور
پشتین جیسےکئی گھٹیا کردار سامنے آئیں گے۔ یہ چھوٹی چھوٹی تحریکوں کے نام
پر سامنے آسکتے ہیں۔ ان تحریکوں کو ’’اچکزئی نظریے‘‘ کے پاکستان دشمنان
سپورٹ کریں گے۔ اس سلسلے میں گلگت میں بھی کام شروع ہوچکا ہے۔ کوئٹہ کے
اندر لوگوں کو بہلانے پھسلانے والے بھی سرگرم ہیں۔ لندن میں بیٹھا ہوا ایک
بدنام کالا کردار کراچی اور حیدر آباد کے کئی کرداروں سے رابطے میں ہے۔
عید کے بعد جب شریف خاندان کے لوگوں کوسزا ہوگی تو’’اچکزئی نظریہ‘‘ پنجاب
میں نظر آ سکتے ہیں۔ اس دوران لوڈشیڈنگ بھی ہوگی، یہ لوگوں کو گمراہ کرنی
کی کوششیں کر سکتے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کے کرپٹ راہنماء پیسے کے زور پر
پاک فوج کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلائے گی۔ ان کے سارے سوشل میڈیا کنونشن
سرگرم ہوجائیں گے۔ اس دوران بیرونی میڈیا سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ چند
بیرونی طاقتیں پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے چکر میں ہیں۔ اسی لئے تو
پاکستان کو بھارت کی مدد سے پانی سےمحروم کیاجارہا ہے۔ کالے روپیہ کے بل
بوتے احتجاجوں کا سلسلہ اگلے ماہ جولائی 2018ء میں شروع کرسکتے ہیں جس سے
جنرل الیکشن بھی متاثر ھوسکتے ہیں۔ جن لوگوں کو ابھی بھی یقین نہیں آرہا
وہ کچھ دن انتظار کرلیں کیونکہ شہبازشریف اور نواز شریف پاکستان اور اسکے
اداروں سے دشمنی کے نظریے پرمتفق ہوچکے ہیں۔ شریف فیملی کے جس آخری فرد کا
جہاں کہیں بھی خاص رابطہ تھا، اب وہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔ بس ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل
منظرنامے کی اگلی بدصورتی بیان کر رہا ہے اور اگلی بدصورتی یہ لگتی ھے کہ
25 آئندہ یعنی اگلے ماہ جولائی 2018ء کو شاید الیکشن شاید نہ ہوں۔ الیکشن
جب بھی ھوں اس سے قبل سے پہلے صفائی ستھرائی بنیادی تقاضا اور ساری قوم کا
مطالبہ ھے۔ اور یہ بھی کہ پاکستان سے پیار کرنے والے ایک ہو جائیں کیونکہ
پاکستان کے دشمن ہمارے وطن کے خلاف ایک ہیں اور انہیں ملک کے اندر سے
’’اچکزئی نظریے‘‘ کے حامل کئی غدار وطن افراد میسر ہیں۔
|