قومی سطح پر کیے جانے والے حالیہ چند فیصلوں سے سیاسی فضا
مکدر ہوچکی ہے۔ ان حالات میں سیاسی بے یقینی کا براہ راست اثر عوام پر
پڑرہا ہے۔ سوجھ بوجھ اور تدبر و فہم کی ضرورت کو بالائے طاق رکھ کر غیر
مستحکم سیاسی فیصلوں نے انتخابی ماحول کو پراگندا کیا۔ سیاسی جماعتوں کی
جانب سے ان فیصلوں پر سخت تحفظات بھی سامنے آئے ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی
جماعت کی جانب سے نامزد شخصیات کے ناموں میں بار بار تبدیلی جگ ہنسائی کا
سبب بھی بنی، کیونکہ کسی بڑی پارٹی سے غیر سنجیدہ رویوں کی توقع کم ہی کی
جاتی ہے۔ تین صوبوں میں سب سے اہم مسئلہ نگراں حکومتوں کے قیام کے حوالے سے
رہا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے
کہ نگراں سیٹ اپ کے پاس کوئی اہم اختیارات نہیں۔ تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ
حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں کا اتفاق رائے نہ ہونا اور کئی بار مذاکرات
کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ صرف نگراں وزیراعلیٰ کی تعیناتی پر
ڈیڈلاک نہیں ہوتا، بلکہ مذاکرات کا دوسرا سب سے بڑا نکتہ نگراں کابینہ کا
بھی ہوتا ہے۔ جس میں اپوزیشن اور حکمراں جماعت مل کر نگراں کابینہ کے قیام
پر بھی اتفاق رائے پیدا کرتے ہیں۔ موجودہ وفاقی نگراں کابینہ میں بعض
اراکین کی شمولیت اس کا عملی ثبوت ہے۔
سیاسی جماعتیں، جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہیں کہ جمہوریت کے استحکام کے لیے
ان کا کردار اہم ہے، لیکن بڑی مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ جماعتوں کے نزدیک
کوئی بھی ایسی سیاسی شخصیت نگراں حکومت کے لیے اہل نہیں تھی جو سیاسی عمل
کو آگے بڑھا سکے۔ تمام جماعتوں کا نگراں سیٹ اپ کے لیے انحصار بیوروکریٹ،
ٹیکنو کریٹ، ریٹائرڈ جسٹس صاحبان پر رہا، بلکہ ایسے ایسے نام بھی سامنے
آئے جن کا سیاسی امور سے کبھی واسطہ ہی نہیں رہا، صنعت کار سے لے کر میڈیا
کے تجزیہ نگاروں کو بھی نگراں سیٹ اپ کے لیے نامزد کردیا گیا تھا۔ یہ دیکھ
کر حیرانی ہوئی کہ سیاسی جماعتوں کے نزدیک کوئی بھی ایسا سیاستدان نہیں جو
اس سیٹ اپ کے تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔ حالاںکہ سیاسی رہنمائوں میں ملک کے
پہلے نگراں وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی تھے۔ ان کے علاوہ میر بلخ شیر
مزاری، ملک معراج خالد اور محمد میاں سومرو نگراں وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ تو
کیا اس موقع پر نگراں سیٹ اپ کے لیے سیاسی جماعتوں کے پاس ایسے نام نہیں
تھے جو تمام سیاسی جماعتوں میں یکساں قدر و منزلت کے حامل ہوتے۔
ریٹائرڈ بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والوں کی تعیناتی کو غیر جانبدار سمجھا
نہیں جاسکتا، کیونکہ ہر خاص و عام جانتا ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر تعینات بیورو
کریٹ حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے ‘‘ پل’’ کا کام انجام دیتے رہے ہیں۔ اسی
لیے بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ اور من پسند افسران کی تعیناتی نئی حکومت
کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ پاکستان میں نگراں سیٹ اپ کا تصور کمزور اداروں کی
وجہ سے فروغ پایا ہے۔ اگر ریاستی ادارے مضبوط اور بااختیار ہوتے تو کسی
نگراں سیٹ اپ کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ دنیا بھر میں کمزور حکومتوں میں بھی
نگراں سیٹ اپ نہیں بنایا جاتا اور خراب ترین سیاسی صورت حال کے باوجود
الیکشن کمیشنز اپنی ذمے داریاں پوری کرتے ہیں، لیکن پاکستان کی بدقسمتی رہی
ہے کہ یہاں اداروں کو کبھی مضبوط ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ قیام پاکستان کے
بعد جیسے تیسے پارلیمان نے دوسری مرتبہ مدت اقتدار پوری کی، لیکن افسوس اس
پر ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی جانب سے ایسی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں، جو کسی
طور پر مناسب قرار نہیں دی جاسکتیں۔ ابہام اور بے یقینی کی صورتحال نے
انتخابات کے شفاف انعقاد پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر رکھا ہے۔
سرفراز بگٹی کی جانب سے آئین کے برخلاف انتخابات موخر کرانے کی قرارداد نے
پوری دنیا میں پارلیمانی ادارے کو سبکی کا نشانہ بنایا۔ بلوچستان پہلے ہی
سیاسی طور پر انتہائی غیر مستحکم صورتحال کا شکار ہے، اُس پر اسمبلی سے
قرارداد منظور کراکے سیاسی دانش مندی کا ثبوت نہیں دیا گیا۔ بلوچستان
اسمبلی کی قرارداد کی گرد ابھی جمی نہیں تھی کہ پرویز خٹک نے الیکشن کمیشن
کو خط لکھ دیا کہ انتخابات موخر کرکے موجودہ اسمبلی کے ساتھ (سابق) فاٹا
میں بھی الیکشن کرائے جائیں۔ قابل غور بات ہے کہ جب فاٹا انضمام ہورہا تھا
تو واضح طور پر سب کے علم میں تھا کہ (سابق) قبائلی علاقوں میں ایک برس بعد
صوبائی انتخابات ہوں گے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے
والے(سابق) فاٹا اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔ اصلاحات منظوری میں واضح
لکھا اور سب نے منظوری دی تھی جس کے بعد فاٹا علاقے پاکستان کا آئینی حصہ
بن گئے۔ صدر مملکت کے باضابطہ دستخط ہوگئے۔ اس کے بعد پرویز خٹک کی جانب سے
انتخاب موخر کرانے کے لیے خط لکھنا حیران کن معاملہ بن کر سامنے آیا۔ اس
سے قبل چیئرمین تحریک انصاف جو قبل ازوقت انتخابات کروانے کے لیے اتائولے
ہورہے تھے۔ انہوں نے بھی اظہار کردیا تھا کہ انتخابات کچھ عرصے کے لیے موخر
ہوسکتے ہیں۔
انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد انتخابی حلقے بندیاں کالعدم قرار دی جانے
لگیں اور کاغذات نامزدگی پر دسمبر 2017 میں دائر پٹیشن پر اچانک اُس وقت
فیصلہ آیا، جب الیکشن شیڈول کا اعلان ہوچکا تھا۔ یہ ایسے معاملات تھے جس
نے سیاسی حلقوں کو ورطۂ حیرت میں ڈالا اور انتخابات کو تاخیر سے کروانے کے
سنگین نوعیت کے مفروضات سامنے آئے۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے عدالت عالیہ کا
فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر انتخابات میں اب کوئی تاخیر ہوئی
تو الیکشن کمیشن اُس کا ذمے دار ہوگا۔ نگراں وزیراعظم، عدالت عظمیٰ اور
الیکشن کمیشن متواتر باور کرارہے ہیں کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔
لیکن اہم بات یہ کہ اس قسم کی بے یقینی کی فضا قائم ہی کیوں ہوئی۔ سیاسی
عدم استحکام اور بے یقینی کا عمومی تاثر ویسے بھی عوام میں جاگزیں ہے۔ اس
پر متواتر متنازع معاملات کا سامنے آنا نیک شگون نہیں۔
نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ ’عالمی میڈیا الیکشن سے قبل دھاندلی کی رپورٹس دے
رہا ہے‘۔ چلیں ہم اسے ایک سیاست دان کا سیاسی بیان سمجھ کر نظرانداز کردیتے
ہیں لیکن الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکریٹری اس سے قبل کہہ چکے تھے کہ
’عالمی اسٹیبلشمنٹ سے خطرہ ہے کہ انتخابات موخر کرائے جاسکتے ہیں۔‘ عمران
خان بار بار ایک اہم ادارے پر الزامات کو دوہراتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے
الزامات کی سچائی میں کبھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور کسی ادارے نے بھی ان
الزامات پر عمران خان کو طلب کرکے وضاحت نہیں مانگی۔ پاک فوج کے ترجمان نے
کہا کہ ’فوج کو سیاست اور الیکشن میں گھیسٹا نہ جائے، انتخابات کروانا
الیکشن کمیشن کا کام ہے۔‘بہرحال ایک خدشہ ہمیشہ رہے گا کہ اگر انتخابات میں
نواز شریف یا عمران خان میں سے کوئی بھی کامیاب ہوجاتا ہے تو کیا دوبارہ
ادارے پر الزامات لگائے جائیں گے؟
بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انتخابات موخر کرانے کی سازش کا خدشہ،
مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے دائر آئینی درخواست، بلوچستان اسمبلی کی
انتخابات موخر کرانے کی منظور کردہ قرارداد، پرویز خٹک کا الیکشن کمیشن کو
انتخابات موخر کرانے کے لیے خط، عدلیہ کی جانب سے حلقہ بندیوں کو متعدد
اضلاع میں کالعدم قرار دے کر دوبارہ نئی حلقہ بندیاں کرانے کی الیکشن کمیشن
کو ہدایات، شیڈول کے بعد کاغذات نامزدگی کے خلاف عدالت عالیہ کا فیصلہ،
مردم شماری پر عدم اعتماد اور نشستوں کی کمی پر سیاسی جماعت کی جانب سے
الیکشن بائیکاٹ کی دھمکی اور سندھ میں الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر تربیت
یافتہ ریٹرننگ افسران کے تبادلے، سندھ کے نگراں سیٹ اپ اور22 رکنی بڑی
کابینہ پر اپوزیشن کے تحفظات سمیت کئی معاملات کا سامنے آنا قومی انتخابات
کے حوالے سے انواع اقسام کی بے یقینی صورتحال کا پیدا کرنا ایک مستحکم
پائیدار عمل نہیں، اس کے منفی اثرات براہ راست مملکت پر پڑرہے ہیں۔ تمام
ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو ایک صفحے پر صرف وطن عزیز کے لیے کام
کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر قومی انتخابات کو مزید متنازع بنایا جائے گا تو عوام
کا بھی موجودہ نظام سے اعتماد مزید کم ہوگا اور آئینی مدت پوری کرنے کے
بھی کوئی ثمرات نہیں ملیں گے۔ تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کے لیے سب سے
اہم بات یہ کہ عوام میں اعتماد پیدا کریں اور بے یقینی کی صورت حال کو اپنے
فروعی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے گریز کی راہ اختیار کریں۔ عوام یہی سوچ
رہے ہیں کہ انتخابات کے بروقت انعقاد پر خدشات ختم ہوگئے ہیں یا اب بھی
کوئی ابہام باقی ہے۔ یہ عوامی تاثر تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کے لیے
لمحہ فکریہ ہے، اگر ہم یہ سمجھ جائیں تو یہ سب کے حق میں بہتر ہے۔ |