جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے والے "مجید نظامی "

پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب قلم خاموش ہوچکے تھے ‘ شاعر گنگ ہوگئے تھے ‘ ادیبوں کے ذہنوں کو رائٹر گلڈز کی دیمک لگ چکی تھی ۔آتش نوائی کا دعوی کرنے والوں نے ہونٹ سی لیے تھے ۔ قلم و قرطاس کے وارثوں نے مصلحتوں کی راہیں اپنا کر تن و توش کو زندگی کا مقصد بنالیا تھا ۔ صحافت کے میدان میں قلم کی حرمت کے پاسبانوں کی اکثریت پر تماش بینوں کاگمان گزرتا تھا ۔شاہینوں کی جگہ کرگسوں کی زیادتی کے نتیجے میں ماحول مکدر نہیں ہوگاتو اور کیا ہوگا ؟ مگر حالات کی ایسی چیرہ دستیوں ‘ خوفناک فضا کی سنگینوں اور مارشل لاء اور اس کے بعد کے غیر جمہوری ماحول کی تاریکیوں میں احساس محرومی اور درماندگی سے دوچار عناصر کے لیے جو شخصیت روشنی کی کرن بن کر نمودار ہوئی وہ روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی تھے ۔ مجید نظامی جنہیں بعد میں پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی ڈگر ی بھی عطا ہوئی۔ اس اعتبار سے انہیں ڈاکٹر مجید نظامی کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔

وہ ایوب خان کے دور میں خوش رنگ و خوش پوش ‘ خوش رو اور خوش مزاج نوجوان ایڈیٹروں میں شامل تھے۔ جن کی ذات قدیم اقدار اور جدید روایات کا حسین امتراج تھی وہ آٹھ سال لندن میں نوائے وقت کے نامہ نگار کی حیثیت سے گزار کر پاکستان آئے ۔ پاکستان پہنچ کر ان کی سب سے پہلی خواہش ‘ بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح کے سیاسی تصورات کی روشنی میں جمہوری نظام کو پاکستان میں جلوہ گر دیکھنے کی تھی ۔ جب یہاں حالات بالکل برعکس دکھائی دیئے تو جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے خود سینہ تان کر میدان صحافت میں کود پڑے ۔ وہ بلاشبہ اول و آخر صحافی تھے جنہوں نے مشکل کے ہر دور میں پاکستانی قوم کی بہترین رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ۔ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے میں آپ شہرت رکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ جب آپ نے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے روبرو کلمہ حق اداکیا تو جنرل ضیاء الحق مسکرائے اور کہا جناب نظامی صاحب ۔آپ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کے لیے مشہور ہیں لیکن میں تو صابر سلطان ہوں ۔ اﷲ تعالی نے مجھ تنقید سننے اور برداشت کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے ۔ میں آپ کی ہر بات کو نہ صرف ٹھنڈے دل سے سن سکتا ہوں بلکہ اس پر عمل بھی ہوگا ۔ آپ پاکستان کے حقیقی ترجمان ہیں ۔آپ کاظاہر و باطن ایک جیسا ہے ۔ آپ وطن عزیز سے محبت کرنے والے عظیم صحافی ہیں ۔ آپ کی زندگی کا مقصد صرف اورصرف پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور اقوام عالم میں سربلندی ہے ۔مجیدنظامی مسکرائے اور خاموش ہوگئے ۔

آج کی نسل کو یہ بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ مجید نظامی کون تھے اور وہ کہاں پلے بڑھے کہاں تعلیم حاصل کی ۔ اور وہ کون سے حالات تھے جس میں شعبہ صحافت کا یہ روشن ستارہ ‘ چاند بن کر آسمان صحافت پر نمودار ہوا ۔ مجید نظامی سانگلہ ہلز ایک قصباتی شہر ہے ‘ جو لاہور اور فیصل آباد کے درمیان میں واقع ہے۔ 3 اپریل 1928ء کو پیداہوئے ۔ 1943ء میں میٹرک کرکے لاہور تشریف لائے یہاں گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے ایف اے کاامتحان پاس کیا ۔یاد رہے کہ یہ کالج اس دور میں مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کاترجمان اور تحریک پاکستان کے عروجی دور میں قومی سرگرمیوں کے حوالے سے بے حد فعال تھا ۔ 1945ء میں نوابزادہ لیاقت علی خان جب اسلامیہ کالج تشریف لائے تو انہوں نے مجید نظامی کو "مجاہد پاکستان " کا سرٹیفیکٹ اور ایک تلوار عطا کی ۔جو یقینا مجید نظامی جیسے پرجوش نوجوان کے لیے ایک اعزاز تھا۔ 1950ء کی دہائی کے اوائل میں آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا جہاں گرایجویشن اور ایم اے سیاسیات کی ڈگریاں حاصل کیں ۔1954ء میں بڑے بھائی حمید نظامی کے حکم پر نوائے وقت کو بطورنامہ نگار جائن کیا اور لندن روانہ ہوگئے ۔برطانیہ میں قیام کے دوران آپ نے لندن یونیورسٹی سے انٹرنیشنل افیئرز کاایک کورس پاس کیااور" گریزان " میں بارایٹ لاء کے لیے شرکت اختیار کی ۔فروری 1962ء کو بڑے بھائی حمید نظامی کی اچانک وفات کے بعد آپ تعلیم ادھوری چھوڑ کر لاہور پہنچے اور نوائے وقت کا نظم و نسق سنبھالا ۔اس کے ساتھ ساتھ ندائے ملت کی بنیاد رکھی ۔ آپ کی شبانہ روز محنتوں کے نتیجے میں اب نوائے وقت نہ صرف پاکستان کا سب سے ممتاز اور پسندیدہ اخبار کا درجہ حاصل کرچکا ہے بلکہ اسے بین الاقوامی اخبار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ پہلے نوائے وقت صرف لاہور سے شائع ہوتاتھا ‘ مجید نظامی کی بہترین حکمت عملی کے نتیجے میں اب نوائے وقت لاہور کے علاوہ اسلام آباد ‘ کراچی ‘ ملتان سے بھی شائع ہوتا ہے جبکہ انگریزی ریڈرز کے لیے دی نیشن اخبا ر نکالا جو اب لاہور ‘ اسلام آباد اور کراچی سے شائع ہوتا ہے ۔ مجید نظامی اکثر کہا کرتے تھے کہ جب تک معاشرے میں پاکیزہ قدروں کو فروغ حاصل نہ ہو اس وقت تک اسلامی معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کو اسلامی و فلاحی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے نوائے وقت گروپ آف پیپرز کے زیر اہتمام ہفت روزہ" فیملی "میگزین شروع کیا گیا ‘ جو اب پاکستان کے مقبول ترین فیملی میگزین میں شمار کیا جاتاہے ۔ بچوں کی ذہنی تربیت کے لیے ماہنامہ "پھول" کو شروع کیا گیا جو ابتداء سے آج تک کتنی ہی قومی ایوارڈ حاصل کرچکا ہے اور دور حاضر میں بچوں کی بہترین تربیت کا فریضہ بھی انجام دے رہا تھا ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ڈاکٹر مجید نظامی ایک ایسے سایہ دار درخت تھے جن کے سائے میں ہم جیسے بے شمار افراد نے میدان صحافت میں قدم رکھااور بلندیوں کو چھونے لگے ۔ آپ نے صحافتی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے ایسا ماحول متعارف کروایا جس میں رہتے ہوئے ایک فلاحی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہو ۔ زندگی میں دو تین مرتبہ مجھے ان کی قدم بوسی کرنے کا موقعہ میسر آیا ۔ ہر بار میں نے انہیں ایک شفیق باپ کے روپ میں ہی دیکھا ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بہت سخت مزاج کے حامل انسان تھے لیکن میں کہتا ہوں کہ بہت ہی نرم مزاج اور ہمدرد انسان تھے وہ مومن کے لیے نرم اور باطل کے لیے فولاد تھے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کو ایک مقصد کے تحت گزارا ۔ انسان جتنا بھی مضبوط اور توانا کیوں نہ ہو ۔ڈھلتی ہوئی عمر اور ساتھ چھوڑتے ہوئے اعضا ‘انسان کو بوڑھا کردیتے ہیں ۔ وہ اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ہمہ تن گوش تھے کہ 26 جولائی 2014ء کو ایک منحوس خبر سننے کو ملی کہ صحافتی آسمان کے درخشندہ ستارے "ڈاکٹر مجید نظامی " انتقال کر گئے ہیں ۔ آج انہیں ہم سے بچھڑے چار سال ہوچلے ہیں ان کی کمی یقینا محسوس ہوتی ہے لیکن ان کے صحافتی مشن کو جاری رکھنے کا فریضہ محترمہ رمیزہ مجید نظامی نہایت خوبی سے انجام دے رہی ہیں ۔انسان چلے جاتے ہیں لیکن ان کے کارنامے ہی ان کی پہچان بن کر تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر مجید نظامی جسمانی طور پر تو ہم سے جدا ہوچکے ہیں لیکن ان کے نظریات اور افکار آج بھی پوری آب و تاب سے پاکستانی قوم کی رہنمائی کررہے ہیں ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.