جمہوریت زندہ باد

الیکشن کی آمد آمد ہے۔ ہر طرف سیاسی وابستگیوں میں تبدیلی، جوڑ توڑ اور سودے بازی کا بازار گرم ہے۔ دُوسری طرف مخالف سیاسی جماعتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور لیڈروں کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے نِت نئے سکینڈل سامنے لائے جا رہے ہیں۔مخالفین کی اخلاقی ، سیاسی اور ذہنی اہلیت پر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔ سیاست کے اس مچھلی بازار میں ابھی الزامات کا نیا تعفن اُٹھنے کو باقی ہے۔ہمارے مُلک میں ایک خلائی مخلوق وہ ہے جو الیکشن کے دوران سیاسی مفادات کے راکٹ پر سوار ہو کر آتی ہے اور الیکشن جیتنے کے بعد یہ مخلوق نادیدہ ہو جاتی ہے۔ عوام ان کی شکلیں دیکھنے کو ترس جاتے ہیں۔ انتخابی وعدوں کا جو اچار ڈالا جاتا ہے، وہ اُمید کے تیل کے انتظار میں ہی گل سڑ جاتا ہے۔ اسی طرح پانچ سال گزر جاتے ہیں۔ نیا الیکشن نمودار ہوتا ہے تو یہ خلائی مخلوق بھی اپنی نخوت کے آسمان سے اُتر کر کچھ عرصہ کے لیے دھرتی نشین ہو جاتی ہے۔ عوام پر اپنے گھروں کے دروازے بند رکھنے والے گھر گھر جا کر عاجزی کے پیکر بنے ووٹ کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ تکبر اور غرور کے سانچے میں ڈھلے ان سیاست دانوں کی کمریں عوام کے آگے ووٹ کی خاطر خمیدہ ہوئی جاتی ہیں۔ منافقت، دو عملی اور مفاد پرستی کی بدبو دار سیاست نے اس وقت پورے انتخابی منظر نامے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

اُمیدوار ٹکٹوں کے حصول کے لیے پارٹی رہنماؤں کے آگے ذِلّت کی حد تک بِچھ بِچھ جا رہے ہیں۔ ان کا بس چلے تو عملی طور پر قائدین کے جُوتے چاٹ چاٹ کر شیشے کی طرح چمکا دیں۔ اشرافیہ کے یہ نمائندے تقریبات پر کروڑوں روپے لُٹا دیتے ہیں مگر ٹریفک اشاروں پر محتاجوں کی جانب سے دس روپے کا ایک نوٹ مانگنے پر سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ مسجد کو سو روپیہ چندہ بھی ان کی جیب اور طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ مگر اب جبکہ ٹکٹ کے حصول کے لیے پارٹی فنڈ میں کروڑوں روپے کا حصّہ ڈالنے کا وقت آیا ہے تو ان کی ناجائز ذرائع سے کمائی دولت بھی باہر آنا شروع ہو گئی ہے۔ سالانہ چند ہزار روپے ٹیکس بھی رو رو کر دینے والے ان ارب پتیوں کی جانب سے پارٹی سربراہان پر یوں رقم لُٹائی جا رہا ہے جیسے کوئی عادی تماشبین بازار حُسن میں نئی آنے والی بائی پر لُٹاتا ہے۔ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ اس پارٹی فنڈ کی مد میں جمع ہونے والا چندہ اندرون مُلک دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے پاکستان سے باہر بیٹھے ملک مخالف عناصر کو بھی اُن کے تخریبی عزائم کی تکمیل کے لیے نوازا جاتا ہے۔ پارٹی فنڈ میں کروڑوں کا چندہ جمع کرانے والوں میں ایک قِسم اُن کی ہے جو ہاتھ سے پیسے دے کربھی اپنے گھر کی عورتوں کی عزتوں کے سودے کرنے کو تُلے بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے واسطے خواتین کی مخصوص سیٹوں پر سلیکشن کے متمنّی ہیں۔ یہ نام نہاد غیرت مندان اپنی بیگمات کو ان مخصوص نشستوں پر کامیاب کروانے کی خاطر بے شرمی اور عصمت فروشی کی تمام حدیں پار کرنے کو تیار ہیں۔ ان کا ماٹو ہی یہی ہے کہ عزت آنی جانی شے ہے، اختیار اور دولت کا انبار نصیبوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ایک بار یہ موقع ہاتھ سے چلا گیا تو اگلے پانچ سال تک کفِ افسوس ہی ملنا پڑے گی۔

بدقسمتی سے کئی عشروں تک مُلک کے اہم عہدوں پر فائز رہنے اور عوام کے کھربوں روپے لُوٹنے والا نواز شریف ابھی تک اس مُلک کی جان چھوڑنے کے درپے نہیں۔ کرپشن کیس کے نتیجے میں ہونے والی نااہلی کا بدلہ اجمل قصاب کے حوالے سے بیان دے کر لینے کی مذموم کوشش کی گئی۔ اس بیان کا مقصد صرف انڈیا کو ہی نہیں بلکہ امریکی ، برطانوی اور یہودی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنا تھا کہ اس مُلک میں ایک ہی بندہ ہے جو صحیح معنوں میں اُن کے گھناؤنے عزائم کو پُورا کر رہا ہے۔ اس بیان کا نتیجہ ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ امریکا اور بھارت کی حکومتیں پردہ اخفاء میں پُوری طرح نواز شریف کی حمایت کر رہی ہے۔ اربوں روپیہ مہیا کیا جا رہا ہے تاکہ بھارت کا قریبی ساتھی اور ہمدرد شریف خاندان پھر سے اقتدار پر براجمان ہو سکے اور اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کی تکمیل کی طرف تیزی سے گامزن ہوا جا سکے۔پاکستان کے تمام دُشمن ممالک نے اپنی توانائیاں نواز شریف کو کامیاب کروانے کے لیے صرف کر رکھی ہیں۔ ان کے میڈیا میں بیٹھے ایجنٹ بھرپور طریقے سے فوج اور سیکیورٹی اداروں کو تنقید کے گھیرے میں لیے بیٹھے ہیں۔ اُوپر سے شریفوں کودہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کا تعاون بھی حاصل ہے۔

شریف برادران کی جانب سے ایک بار پھر روزگار کے دلفریب نعرے متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ مُلک میں اس وقت دس دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری ہے مگر یہ ڈھٹائی سے خود ہی جشن منا رہے کہ دیکھیں مُلک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا۔ عوام کو لُوٹنے کی غرض سے پھر سے رزق اور روزگار کی فراہمی کے حسِین خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ سڑکوں، پُلوں اور اورنج ٹرین کے کرپشن زدہ منصوبوں کی تکمیل کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ دُنیا کے مہذب معاشرے ہم پریونہی نہیں ہنستے ہیں۔ دُنیا کے کسی بھی جمہوری مُلک میں حکومت نوکریاں نہیں بانٹتی بلکہ ایسی پالیسیاں وضع کرتی ہیں جس کے نتیجے میں معیشت کو ترقی مِلے اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو۔ ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔

یہ وہ مُلک ہے جہاں کرپشن کی جب جب نشاندہی کی جائے تو جمہوریت کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ شہنشاہ کے کاسہ لیس درباری پُورے نظام کی سالمیت کی دھجیاں بکھیرنے کے مِشن پر کاربند ہو جاتے ہیں۔ عدالتی اور انتظامی محکموں سے جُڑے عہدے داران کی تضحیک و توہین کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور تبریٰ بازی میں اخلاقیات کی تمام تر حدیں پھلانگ لی جاتی ہیں۔

یہاں الیکشن کمیشن منصفانہ اور ایماندارانہ طریقے سے انتخابات کا انعقاد کروانے کی بات کرتا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اس مُلک میں کبھی بھی ووٹنگ ٹرن آؤٹ پچاس فیصد سے زیادہ نہیں رہا، مگر پھر بھی انتخابی پرچیاں سو فیصد سے زائد چھاپی جاتی ہیں۔ مقصد صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس کو جتوانے کی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ سے پرچی آ جائے، اُس کی خدمت میں یہ زائد پرچیاں بانٹ دی جاتی ہیں۔ جو لوگ تبدیلی کے منتظر ہیں اُن کے گوش گزار کیے دیتے ہیں کہ الیکشن کے عمل کے دوران انتخابی عمل کی انجام دہی کے لیے ایجوکیشن، سوشل ویلفیئر اور صحت کے محکموں ملازمین کی خدمات لی جاتی ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جن کے سربراہ شریفوں کے چہیتے اور وفادار بندے ہیں اور ان کے ماتحت لوگوں میں بھی شریفوں کے پالتو لوگوں میں کمی نہیں۔ انہی لوگوں کے ذریعے الیکشن میں ہر بار من چاہے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔ہمیشہ کی بار اس بار بھی نوے فیصد سے زائد کرپٹ لوگوں پر مشتمل نئی اسمبلی سے غریب لوگوں کی اُمیدیں جُڑ جائیں گی۔ اور نتیجہ کیا ہوگا ؟ عوامی مفادات کا تحفظ کرنے والی اسمبلی کے ممبران جن میں سیاسی دھڑے بندی کی بناء پر کبھی بھی اتفاق رائے نہیں ہو پاتا، متفقہ رائے کے ساتھ اپنی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافے کی قرارداد منظور کر لیں گے۔ عوام کا تحفظ کرنے والی پولیس کی آدھی سے زیادہ نفری پروٹوکول اور عوامی لیڈران کا ٹوہر ٹپا ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہو گی۔ ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض پڑے ہوں گے۔ دوائیاں دستیاب نہیں ہوں گی۔ غریب اور نادار خواتین کو ہسپتال میں داخلہ نہ ملنے پر وہ ہسپتال کے صحن میں ہی اپنے جیسی ایک اور بدنصیب خلقت کو جنم دیں گی۔دو چار فلائی اوورز اور اورنج ٹرین کو مُلکی ترقی میں ایک بڑی جست قرار دے کر بھنگڑے ڈالنے والے غریب عوام کے اپنے گھروں میں افلاس کا مُجرا جاری رہے گا۔ قاتلوں، لُٹیروں، سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور دہشت گردوں کا ہی بول بالا ہو گا مگرپھر بھی مملکت خدا داد میں جمہوریت زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔

Nausad Hameed
About the Author: Nausad Hameed Read More Articles by Nausad Hameed: 21 Articles with 14311 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.