ایلیساملانو امریکی اداکارہ ہیں ، انہوں نے 2017میں اپنے
متعلق سوشل میڈیا پر جنسی ہراسمیگی کے انکشافات کئے اور اپنے لئے لوگوں کے
جذبات کو محسوس کیا ، سوشل میڈیا پر اس کیلئے یکجہتی کا بھرپور اظہار کیا
گیا اور ایک نہ ختم ہونے والا چل نکلا، کئی اداکاراؤں نے بھی جرائت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ساتھ ہونے واقعات سے پردہ اٹھایا اور ہاروی اسٹین
نامی ہالی ووڈ پروڈیوسر کئی واقعات میں ملوث پائے گئے یہاں تک کہ اسے گرفتا
ر کیا گیا اورمئی 2018میں فرد جرم بھی عائد کردی گئی ۔ 2017 ایلیساملانو کی
یہ تحریک میں سوشل میڈیا پر سب مقبول تحریک ثابت ہوئی اور یہ معاملہ ہالی
ووڈ سے نکل کر پوری دنیا میں پھیلااور پاکستان آن پہنچا جہاں میشاء شفیع نے
علی ظفر پر ہراسان کرنے کا الزام عائد کرکے یہاں بھی #ME TOO مہم کا آغاز
کردیاجو پاکستان کے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ رہا ۔
خواتین کو جنسی ہراساں کیا جانا نہ ہی مغرب میں کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی
ایسا ہے کہ دنیا بھر ایسا پلہے کبھی نہیں ہوا، البتہ اس سے متعلق اس سے
پہلے کبھی بھرپور تحریک چلائی گئی اور نہ ہی کسی نے منظم انداز میں آواز
اٹھائی ۔21ویں صدی چونکہ انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کی صدی ہے اور کوئی فرد
اپنی بات مکمل آزادی سے بلا خوف خطر کہہ سکتا ہے چنانچہ اب کوئی مظلوم اپنی
داد رسی کیلئے موثر ذریعہ اظہار پاکر اس پلیٹ فارم کے توسط سے اپنے اوپر
ہونے والے ظلم کیخلاف آواز بلند کرسکتا ہے تاہم اس بات کا خیال رکھا جانا
بھی ضروری ہے کہ معاملہ ہاتھ سے ہی نہ نکل جائے۔
مشرقی معاشرت میں حیا و شرم کے آڑے آنے کی وجہ ہمیشہ طاقت ور ، بااثر اور
صاحب ثروت افراد بچ جاتے ہیں اور مظلوم کی آواز دب جاتی ہے یا دبا دی جاتی
ہے ، ظالم ہمیشہ ظلم کرنے کے بعد بھی قابل عزت اور مظلوم ظلم سہہ کر بھی
اسی خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں اس کی عزت مزید حرف نہ آجائے اور اس سے
سانس لینے کی آزدی بھی نہ چھین لی جائے ۔یہ ہراساں کرنے کا عام طریقہ ہے جس
سے ہمیشہ غریب کی زندگی مال دار لوگوں کی جہاں دیگر آسائشوں کیلئے صرف کرتا
ہے وہیں مجبوراً ان کی ناجائز خواہشات کی تکمیل کیلئے خود کو مصیبت میں بھی
ڈال دیتا ہے۔ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے خواتین کے ساتھ ساتھ مر د بھی
مختلف انداز میں ہراساں کئے جاتے ہیں ۔شہروں میں دیہاتو ں کی طرح مرد و زن
بھی تمام تر شعبوں میں ہراساں ہوتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے
یہاں جمہوریت کو اس طرح سے موقع نہیں ملا جس طرح سے ہمارے ساتھ ہی انگریز
کے تسلط سے آزاد ہونے والے بھارت میں کچھ بھی ہو آمرانہ قوتوں کو تقویت
نہیں ملی گو کہ ایک اچھی طرز حکمرانی کا وہا ں بھی فقدان رہا ہے اس کے
باوجود بھی بھارتی سیاستدان کبھی ایسی طاقتوں سے ہراساں نہیں ہوئے یا یوں
کہہ لیا جائے کہ ایسی کوئی سیاسی کمزوری نہیں چھوڑی کہ غیر جمہوری قوتیں
کبھی ملکی نظام پر حاوی ہوسکیں۔
ہمارے ملک میں سیاسی ناسازگاری کی وجہ سے سیاسی کج فہمی بڑھی اور سیاست
دانوں نے عوامی خدمت کیلئے عہدے حاصل کرنے کے بعد اسے بادشاہت سے تشبیہ دیا
اور عوامی عہدے کا ناجائز استعمال کیا گیا جو قانون کے منافی تھا او ر اسے
قانون سے ہم آہنگ کرنے کیلئے غیر متعلقہ افراد کو ملایا گیا جس سے یقینی
طور پر غیر جمہوری قوتوں کوجمہوری معاملات میں مداخلت کا بھر پور موقع
ملا۔پاکستان کے دو لخت ہونے کی اصل وجہ بھی یہی تھی جب سیاست دانوں نے اپنے
ہاتھ کاٹ کر غیر جمہوری قوتوں کے آگے ڈال دئے تھے۔
ملک کی موجودہ صورتحال میں ہمیں آج بھی ہراسمیگی کے عناصر بہت نمایا ں نظر
آرہے ہیں جس میں خوشامد ، چاپلوسی اور اقربا پروری بہت زیادہ مقدار میں
پائی جاتی ہے ۔ ذالفقار علی بٹھو کی خواہش تھی کہ وہ ون مین شو بن کر ملک
پر حکمرانی کریں انہوں نے بڑ ی سیاسی غلطی یہ کی کہ جونئیر فوجی جرنیل پر
اعتماد کیا جس نے انہیں تخت سے تختہ دار تک پہچایا ، بے نظیر کی سیاسی غلطی
میں ان کے شوہر نامدار کا سیاست میں آنا جبکہ میاں نواز شریف نے بھی ایک
جونیئر جرنیل کو اپنا راز دار بنایا حالانکہ ان کے پاس کئی اعلیٰ پائے کے
سیاست دان موجود تھے لیکن سارا میٹھا خود کھانے کے شوق نے انہیں نہ صرف
حکمرانی سے فارغ کرویا بلکہ ملک بدر ہونے پر مجبور بھی کیا ۔میاں صاحب کی
سیاسی غلطیوں میں اپنے خاندان والوں کو سیاسی معاملات میں شامل کرنا بھی
شمار کیا جاتا ہے جس نے انہیں تیسر ی بار بھی نااہل کرانے میں اہم کردار
ادا کیا جبکہ انہوں نے ہر بار آمرانہ قوتوں کو اپنے ہاتھ کاٹ کر دئے اور
پھر مسلسل ہراساں ہوتے ہوئے ان کی من مرضی کرنے دی جس کے نتائج پوری قوم کو
بھگتنے پڑے ۔وہ آج اپنی غلطیوں کے سبب نااہل تو ہوئے ہی ہیں ان دنوں اپنے
خاندان والوں کے ہمراہ عدالتوں چکر لگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
گزشتہ دنوں انہوں اپنی طبیعت کے عین مطابق بڑی غلطی کرتے ہوئے بھارتی اخبار
اور ایک بار پھر ڈان لیکس کے متنازع صحافی کو قومی راز بتاکر ثابت کردیا کہ
وہ قومی رازوں کے امین بھی نہیں تھے بلکہ ہمیشہ اپنے اقتدار کی خاطر ملک
وقار داؤ پر لگانے پر اس مجبور ہوئے کہ وہ ہراساں ہوتے رہے ہیں ۔پرویز مشرف
پر آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ چلائے جانے کے باوجود ملک سے باہر بھیجنے میں بھی
وہی ہراسمیگی کی کیفیت طاری رہی اور اب وہ اپنا دامن صاف کرنے کی کوشش کرتے
رہے کہ عدلیہ اور دیگر ادارے انہیں واپس لائیں تو انصاف ہوگا ورنہ جو کچھ
ان کے ساتھ ہورہا ہے وہ انتقامی کارروائی اور سازش ہے۔نون لیگ کی حکومت نے
جاتے جاتے کوشش کی کہ مشرف کے شناختی کارڈ کو بلاک کردیا جائے اسطرح سے ان
کا پاسپورٹ بھی بلاک ہوجائے گا لیکن تاحال نادرا اس پر عمل درآمد نہیں
کرسکا ۔
نواز شریف سمیت پاکستان کی پوری سیاست کہیں نہ کہیں کسی سے ہراساں ہوتی رہی
ہے اور شاید یہ سلسلہ جاری رہے گا ، حالیہ دنوں می عمران خان کی سابق اہلیہ
کی کتاب متنازع صورت اختیار کرچکی ہے حالانکہ ابھی تک اس کتاب کی اشاعت
نہیں کی گئی ممکن ہے کہ جس طرح سے اس پر سیاست ہورہی ہے یہ کتاب شائع نہ
ہوسکے لیکن یہ تحریک انصاف کے چئیرمین کو سیاسی طور پر ہراسان کرنے کیلئے
کافی ہے ۔ مذہبی جماعتوں میں بہت سے معاملات ایسے ہیں جو انہیں ہراساں کرنے
کیلئے کافی ہیں ، مشرف دور میں ایک این آر او ہو اآج کل اس پر بحث چھڑ چکی
ہے یہ بھی ہراساں کیا جانے میں شمار کیا جاتا ہے اور عدالت نے اس پر سماعت
مقرر کرکے ایم ایم اے والوں کو طکب کرلیا ہے تاکہ خبر لی جاسکے کہ آیا وہ
کیا محرکات تھے جن کی وجہ این آر او ناگزیر ہوا ۔
پاکستان کے عوام کیلئے 2018کے انتخابات اسی قدر آزمائش ہیں جس قدر ہمارے
سیاست دانوں کیلئے ہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ سیاست اپنی سیاسی و اخلاقی
ساکھ عوام میں بحال کرانے کیلئے کوشش کریں گے اور عوام اپنا مستقبل درست
ہاتھوں میں دینے کیلئے سچے اور ایماندار لوگ منتخب کریں گے ۔ اﷲ تعالیٰ
عوام کی آزمائش کو آسان کرے اور اچھے کردار کے حکمران نصیب کرے ۔ آمین |