تحریک انصاف نے این اے 66 جہلم کا ٹکٹ چوہدری فرخ الطاف
کو جاری کردیاسابق ایم پی اے جہلم چوہدری ثقلین آف جہلم جس نے پارٹی کو
گراس روٹ لیول تک لے جانے کیلئے انتھک محنت کی اور عمران خان کی دینہ آمد
پر اور مینارپاکستان کے جلسے کو بھرنے کے لئے ہزاروں لوگ اکٹھے کئے اسے
نظرانداز کرکے عمران خان نے جہلم کے ایک حلقے سے چوہدری فواد حسین اور
دوسرے حلقے سے انکے کزن چوہدری فرخ الطاف سابقہ ناظم ضلع جہلم کو ٹکٹ جاری
کردیا۔ عمران خان کا یہ فیصلہ کوئی زیادہ غیرمتوقع اس لئے بھی نہیں کہ
فوادحسین تحریک انصاف کے ترجمان ہیں اور عمران خان کے اس وقت نہایت قابل
اعتماد ساتھیوں میں سے ایک ہیں اور علاقے میں افواہ تھی کہ فرخ الطاف کا
ٹکٹ تو انکی جیب میں ہے مگر نہ جانے کیوں چوہدری ثقلین کو یہ گمان تھا کہ
عمران خان نے ایک ہی گھر میں دوٹکٹ جاری نہیں کرینگے۔ مگر انکی ساری امیدیں
آج دم توڑ گئیں اور قرعہ فال چوہدری فرخ الطاف کے نام نکلایاد رہے کچھ دن
پہلے لدھڑ خاندان کے روایتی حریف ضلع جہلم میں ن لیگ کے سابق ایم این اے
چوہدری ندیم خادم نے انتخابی جلسے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تحریک
انصاف کا ٹکٹ چوہدری فرخ الطاف کو ملتا ہے تو وہ لڈیاں ڈالیں گے کیونکہ
جہلم کی عوام چوہدری فرخ الطاف کی بطور ناظم کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں
اور اگر ٹکٹ چوہدری ثقلین کو ملا تو پھر ن لیگ کا مقابلہ کانٹے دار ہوسکتا
ہے چوہدری ندیم کی دعائیں رنگ لے آئیں اور عمران خان نے چوہدری فرخ الطاف
کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کردیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دفعہ جہلم کی عوام ضلع جہلم کے دونوں حلقوں سے تحریک
انصاف کے ان دونوں کزنوں کو منتخب کرتی ہے یا چوہدری ثقلین کو نظرانداز
کرنے کی وجہ سے سوہاوہ کے علاقے کے ووٹ ن لیگ لینے میں کامیاب ہوگی اور یوں
وہ جہلم میں اپنی سیٹ بچالے گی.
چوہدری فرخ الطاف کی بطور ناظم کارکردگی پر سوالات بھی ہوں تب بھی اس حلقے
میں انکے اپنے ذاتی برادری کے کم ازکم اکتیس ہزار ایسے ووٹ ہیں جو وہ کسی
بھی پارٹی میں جائیں وہ انکے ساتھ رہیں گے اور اسکی واضح مثال انکی
پیپلزپارٹی اور قاف لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے کے پرانے نتائج
ہیں۔چوہدری فرخ الطاف کا دلچسپ تعارف یہ ہے کہ ان کے والد گورنر پنجاب
چوہدری الطاف حسین مرحوم ہیں جنہوں نے نوازشریف کو اس وقت بڑا ٹف ٹائم دیا
جب وہ وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ سابق گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین مایہ ناز
وکیل تھے انہوں نے نوازشریف کی اسمبلی توڑ دی اور پنجاب میں گورنر راج
لگادیاجس کے خلاف رٹ ہوئی اور یوں ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر اسمبلی بحال کردی
کہ گورنر کا اسمبلی توڑنے کا طریقہ درست نہیں تھا۔لیکن پنجاب اسمبلی بحال
ہوتے ہی گورنر نے اسے دوبارہ توڑ دیا کہ چلو اب عدالتی طریقے سے نوازشریف
کی اسمبلی توڑی ہے۔مرحوم اسوقت مسلم لیگ چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے
تھے۔ وہ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے دور میں ممبرمجلس شوریٰ بھی رہ چکے
تھے یوں اس خاندان کا اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بہت پرانا تعلق ہے اور علاقے میں
بھی بہت اثر رسوخ ہے۔ امیدوار تحریک انصاف چوہدری فرخ الطاف کے والد مرحوم
گورنر الطاف حسین انتہائی قابل شخصیت اور ملنسار تھے۔ چوہدری فرخ کے ایک
مرحوم چچا چوہدری جاوید حسین بھی اس علاقیسے غالبا 2 بار ممبر صوبائی
اسمبلی منتخب ہوئے اور وہ ناظم دینہ تھے جبکہ انکے ایک اور مرحوم چچا
چوہدری افتخارحسین ہائی کورٹ لاہور کے چیف جسٹس تھے۔ چوہدری فرخ کے ایک اور
چچا جنرل مشرف کے دور میں وزیر بھی رہ چکے ہیں مگر وہ اب واپس سعودی عرب
اپنے بزنس پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں یوں لدھڑ خاندان سیاست میں بڑا وسیع
تجربہ رکھتا ہے۔ جہلم میں انتخابی جوڑ توڑ میں انکا روایتی حریف ن لیگ کا
راجہ محمد افضل ہوا کرتے تھے جن سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ نوازشریف کی جلاوطنی
کے دور میں زرداری سے بیعت کر بیٹھے۔ لیکن زرداری نے انہیں زیادہ وقت نہ دی
کیونکہ اس وقت لدھڑ خاندان پیپلزپارٹی میں تھا اور انکے ہوتے ہوئے راجہ
افضل کی جگہ نہیں بنتی تھی۔
راجہ افضل نے اس دفعہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے اپنے کاغزات نامزدگی جمع
کروائے ہیں۔ جبکہ ن لیگ اس حلقے میں اپنے دوسرے بڑے تگڑے امیدوار چوہدری
خادم حسین آف گھرمالہ یا انکے بیٹے چوہدری ندیم خادم کو میدان میں اتارے گی
اور یہ دونوں باپ بیٹا بھی بڑے مارجن کیساتھ پچھلے الیکشن میں لدھڑ خاندان
کو ھراچکے ہیں۔ شنید یہ بھی ہے کہ ن لیگ اس دفعہ ایک بہت ہی لائق امیدوار
میجر جنرل اظہرکیانی یا ان کے بیٹے کو ٹکٹ دیگی جو پاکستان کے مایہ ناز
ریٹائرڈ سرجن ہیں اور بہت شریف النفس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس الیکشن کی خاص بات یہ بھی ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کا فیکٹر بہت اہم
رول پلے کریگا اور دیہاتی علاقوں میں وہ عمران خان کے اچھے خاصے ووٹ توڑے
گا ا ر شہری علاقوں میں ن لیگی ووٹر اسکا شکار بنیں گے۔تحریک لبیک کا جہلم
میں نیٹ ورک کمزور ہے ضلعی قیادت سست ہے ، اسکی اپنی مجبوریاں ہیں یا سیاسی
ناپختگی ہے ورنہ کم از کم تحریک لیبک تھوڑی سی محنت کرکے تیسرے نمبر پر
آسکتی ہے اور کم ازکم پانچ سے دس ہزار آسانی سیتحریک لبیک کے کسی اچھے
امیدوار کو مل جائینگے۔ضلع جہلم میں نوے کی دھائی میں عوامی تحریک کے پاس
کوئی دو دے تین ہزار ووٹ تھے مگر اختلاف در اختلافات کی وجہ سے عوامی تحریک
کا صفایا ہوچکا بلکہ اسکا نام ق نشان تک مٹ گیا ہے۔
مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی کا نیٹ ورک جہلم میں بہت ہی کمزور ہے اور
وہ بہت زور لگالے تو پانچ ہزار ووٹ بھی نہیں لے سکتی۔
ایسے میں یہ دیکھنا ہے کہ اگلے چند دنوں میں جہلم میں انتخابی امیدوار اپنی
انتخابی مہم کیسے چلاتے ہیں اور عوام سے کیا وعدے کرتے ہیں۔ چوہدری ندیم
خادم کے حوالے سے یہ بات گردش کررہی ہے کہ اس نے چوہدری فرخ الطاف پر اسکے
آبائی گاؤں میں پچھلے چالیس سالوں میں ایک ہائی سکول یا ہسپتال تک قائم نہ
کرنے کا الزام لگانے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور وہ اس طرح کے الزامات کی طویل
فہرست اپنی پاکٹ میں ڈالکر کہتا ہے فرخ الطاف سے اسکا یکطرفہ مقابلہ ہوگا۔
جبکہ فرخ الطاف اسکی نیشنلٹی کے حوالے سے اسے چیلنج کرکے مشکلات کھڑی
کرسکتا ہے جسکا اس نے پچھلے الیکشن میں ڈکلریشن نہیں بھرا تھاجہلم میں
چوہدری فرخ الطاف کو تحریک انصاف کا ٹکٹ ملتے ہی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی
آگئی ہے۔ دونوں جماعتوں کے حامی ایکدوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کررہے ہیں۔
اس دفعہ کء علاقوں میں ہاتھا پائی کا بھی امکان ہے |