اﷲ رب العزت نے قانون قدرت کے مطابق ہرچیز کو ایک مقدار
میں پیدا فرمایا۔ ہر چیز کا الگ الگ پیمانہ اور درجہ مقرر کیا ۔ہر چیز کی
حیثیت اور اس کا درجہ یکساں نہیں ہے بلکہ اس میں درجہ بندی ہے۔ اسی اصول کے
پیش نظر اﷲ قادر المطلق نے بعض شخصیات کو بعض پر فضیلت دی، بعض مقامات کو
بعض مقامات کے مقابلے میں فضیلت سے شرف بخشا۔ جس طرح خدائے رب العزت کا
قانون دوسری چیزوں میں جاری و ساری ہے اسی طرح سال کے دنوں میں بھی بعض
ایام کو بعض پر فضیلت دی گئی۔چنانچہ لیلۃ القدر بھی انہیں میں سے ہے جس کو
اﷲ رب العزت نے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا۔ اس کی عظمت و بزرگی کے بیان
کے لیے قرآن میں پوری سورت ’’سورۃالقدر‘‘ کے نام سے نازل فرمائی۔
القدر کے معنی بہت عظمت اور شرف کے ہیں۔ لیلۃ القدر یعنی بہت عظمت اور شرف
والی رات۔لیلۃ القدر میں عبادت کرنے کی بہت قدر و منزلت ہے اور اس کا بہت
زیادہ اجرو ثواب ہے۔ اس رات میں غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک اﷲ تعالیٰ
کی خاص تجلی ہوتی ہے۔ اس کو لیلۃ القدر اس لیے فرمایاہے کہ اس رات میں بہت
قدر ومنزلت والی کتاب ، بہت عظیم الشان رسول پر ، بہت عظمت والی امت کے لیے
نازل کی گئی۔ اس رات میں بہت قدرو منزلت والے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ اس رات
میں اﷲ تعالیٰ بہت خیر اور برکت اور مغفرت نازل فرماتا ہے۔ اس رات میں
آسمان سے فرشتے اور حضرت جبریل علیہ السلام نازل ہوتے ہیں اور طلوع فجر تک
اس رات میں عبادت کرنے والوں پر سلام بھیجتے رہتے ہیں اور اس میں بہت انوار
و برکات کا نزول ہوتا ہے۔ یہ شب امت محمدی ﷺکے لیے ایک عظیم المرتبت تحفہ
ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ
تعالیٰ نے میری امت کو لیلۃ القدر عطاکی ہے اور اس سے پہلی امتوں کو عطا
نہیں کی۔ (الدر المنثور) امام مالک رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ
کو سابقہ امتوں کی عمریں دکھائی گئیں تو آپ نے اپنی امت کی عمروں کو کم
سمجھا کہ وہ اتنے عمل نہیں کرسکیں گے جتنے لمبی عمر والے لوگ کرتے تھے تو
اﷲ تعالیٰ نے آپ کو لیلۃ القدر عطا کی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (مؤطا
امام مالک)ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کے سامنے چار انبیاء کا
تذکرہ کیا جنہوں نے اسی اسی سال تک اﷲ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کی کہ پلک
جھپکنے کی مقدار بھی اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ اس پر صحابہ کرام کو
تعجب اور رشک ہوا تو اﷲ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ نے دریائے رحمت میں ایسا جوش
مارا کہ اس نے امت محمدی ﷺ کی عظمت و شرف و بزرگی کے لیے ایک ہی رات کے
دامن کو اتنا وسیع کردیا کہ اس میں کی جانے والی عبادت ہزار مہینوں سے افضل
قرار پائی۔ اس رات میں جو بھی مومن بندہ اپنے رب کی رضا کے لیے قیام کرتا
ہے، رکوع کرتا ہے اور اپنے پیشانی کو رب العزت کی بارگاہ میں جھکادیتا ہے
تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔چنانچہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے لیلۃ القدر میں قیام کیا تواﷲ
تعالیٰ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔ (صحیح بخاری) ماہِ رمضان
کی ستائیسویں شب میں قیام کرنا رسول اﷲ ﷺ کو بھی بہت پسند ہے۔چنانچہ حضرت
عمر رضی ا ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ماہِ رمضان
کی ستائیسویں شب ‘ صبح ہونے تک عبادت میں گزاری وہ مجھے رمضان کی تمام
راتوں کی عبادت سے زیادہ پسند ہے۔ (مکاشفۃ القلوب) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا
سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشادفرمایا: جس نے لیلۃ القدر بیدار ہوکر گزاری
اور اس میں دو رکعت نماز ادا کی اور اﷲ تعالیٰ سے بخشش طلب کی تو اﷲ تعالیٰ
اسے بخش دیتا ہے ، اپنی رحمت میں اسے جگہ دیتا ہے اور جبرائیل علیہ السلام
اس پر اپنے پَر پھیرتے ہیں اور جس پر جبرائیل علیہ السلام پَر پھیریں وہ
جنت میں داخل ہوتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب)
لیلۃ القدر بڑی بابرکت اور مقبولیت کی رات ہے۔ اس میں اﷲ تعالیٰ کی رضا اور
اس کے انوارو تجلیات کے حصول کے لیے جس قدر ہوسکے اپنے گناہوں سے توبہ کی
جائے۔ یہ رات اپنے دامن ِ خالی کو رحمتِ الٰہی سے بھرنے والی رات ہے۔توبہ و
استغفار کرکے اپنے رب کو راضی کرنے والی رات ہے۔ اپنے گناہوں کا بوجھ ہلکا
کرنے والی رات ہے۔ رزقِ حلال طلب کرکے خزانۂ غیب سے مالا مال ہونے والی رات
ہے۔ بیماریوں سے شفایابی کی رات ہے۔ مصیبتوں اور پریشانیوں سے خلاصی حاصل
کرنے والی رات ہے۔ جو اس رات کو غفلت میں گزاردے اور اس کی برکات وتجلیات
اپنے دامن میں نہ سمیٹے تو وہ تمام بھلائیوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ حضرت انس
بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے ماہِ رمضان کے متعلق ارشاد
فرمایا: اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے تو جو شخص اس کی
برکتوں سے محروم رہا وہ تمام بھلائیوں سے محروم رہا ۔ (ابن ماجہ)
حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: لیلۃ القدر میں
زمین کا کوئی ٹکڑا ایسا نہیں ہوتا جہاں فرشتے سجدے یا قیام کی حالت میں
مومن مردوں اور عورتوں کے لیے دعا نہ مانگ رہے ہوں ۔ فرشتے تمام رات مومن
مردوں اور عورتوں کے لیے دعا مانگتے رہتے ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام
تمام مومنین سے مصافحہ کرتے ہیں اور سلام کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر تم
اطاعت گزار ہو تو تم پر قبولیت اور احسان کے ساتھ سلام ہو اگر تم گناہگار
ہوتو تم پر بخشش کے ساتھ سلام ہو۔۔۔اگر تم سوئے ہوئے ہو تو تم پر رضاء
الٰہی کے ساتھ سلام ہو۔۔۔ اگر تم قبر میں ہو تو تم پر خوشی اور خوشبو کے
ساتھ سلام ہو۔ ۔۔۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جب لیلۃ
القدر ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیتا ہے کہ وہ
زمین پر اتریں ۔ ان کے ساتھ سدرۃ المنتہیٰ پر رہنے والے ستر ہزار فرشتے
ہوتے ہیں ۔ ان فرشتوں کے پاس نورانی جھنڈے ہوتے ہیں ، جب وہ زمین پر اترتے
ہیں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام اور باقی فرشتے اپنے جھنڈے چار مقامات
یعنی کعبۃ اﷲ ، حضور اکرم ﷺ کی قبر انور، بیت المقدس کی مسجد اور طور سینا
پر گاڑ دیتے ہیں۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ
پھیل جاؤ تو وہ پھیل جاتے ہیں اور وہ فرشتے ہرایسے مکان ، حجرہ، گھر اور
کشتی میں داخل ہوتے جہاں کوئی مر د مومن یا عورت ہو۔ ۔۔۔فرشتے اﷲ کی
پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ اس کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں اور امت محمدیہ ﷺ
کے یے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ جب صبح کا وقت ہوتا ہے تو آسمان کی طرف چلے
جاتے ہیں۔ آسمان دنیا کے فرشتے ان کا استقبال کرتے ہیں اور مژدہ سناتے ہیں
کہ اﷲ تعالیٰ نے ان نیک لوگوں کو بخش دیا اور بد کار لوگوں کے بارے میں
شفاعت قبول کی گئی۔ ( غنیۃ الطالبین ۔۔۔ملخصا)
اس رات میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ مغفرت کے طلبگاروں کو مغفرت کا پروانہ
دیا جاتا ہے، سائلوں کو عطا کیا جاتا ہے، رحمتِ الٰہی کا دریا جوش میں ہوتا
ہے ۔ اخلاص او ر صدق دل سے رب کی بارگاہ میں رجوع کرنے والوں کو خالی ہاتھ
نہیں لوٹایا جاتا ۔ اپنی پیشانیوں کو خاک میں بچھادینے والوں کی پیشانیاں
نور سے بھردی جاتی ہے۔ خوفِ خدا میں رونے والوں کو اخروی خوشیوں کا مژدہ
سنایا جاتا ہے۔ بارگاہِ خداوندی میں رجوع ہونے والے دلوں کو حلاوتِ ایمانی
سے بھر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس مقدس شب میں جتنا ہوسکے عبادت کی جائے۔ نماز،
تلاوت قرآن اور ذکرو اذکارمیں مشغول رہا جائے اور خصوصی دعاؤں کا اہتمام
کیاجائے ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس بابر کت رات کی برکتیں نصیب فرمائے ۔ ۔۔۔آمین۔
|