محترم پڑھنے والوں کو میرا آداب,
الله رب العزت کی اس دنیا میں جهاں غربت میں لوگ زندگی گزارنے پر مجبور هیں
وہاں اس رب کائنات نے بیشمار لوگوں کو بتحاشه مال ودولت سے بھی نواز رکھا
هے اب ان دولتمند لوگوں کی بھی کئی اقسام هیں کچھ لوگ الله کی دی هوئی عطا
سے غریبوں کا بھی خیال رکھتے هیں صدقه خیرات نزرونیاز اور کسی مستحق کی مدد
کرنے میں آگے آگے نظر آتے هیں اور وه یه سمجھتے هیں که جو رب یه سب کچھ عطا
کرسکتا هے وه وآپس بھی لے سکتا هے پهر کچھ لوگ ایسے بھی هوتے هیں جو
دولتمند بن کر یه سمجھتے هیں که یه صرف اور صرف هماری محنت هے جو آج هم
دولت میں کھیل رهے هیں اور جتنی محنت یهاں تک پهنچنے میں هم نے کی هے اس
میں کسی کا کوئی حق نهیں جبکه کچھ لوگ ایسے بھی هوتے هیں جو هوتے تو
دولتمند هیں صدقه خیرات اور نزرونیاز میں آگے آگے بھی هوتے هیں لیکن ان کے
هر نیک کام میں دکھاوا یعنی ریاکاری نظر آتی هے جو زندگی کا سب سے بڑا گناه
هے اسلام میں اس سے بچنے کا حکم هے .
سرکار مدینه صلی الله علیه وآله وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر هوا اور عرض
کیا که یا رسول الله یه فرمائیے که الله رب العزت نے جنت بھی بنائی اور
دوزخ بھی آپ فرمائیں سب سے پهلے کون جنت میں اور کون دوزخ میں جائےگا تو
سرکار صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا تمهارے گھر کے پاس جو مسجد هے تم
صبح فجر سے پهلے وهاں چھپ کر بیٹھ جانا اور دیکھنا جو شخص سب سے پهلے مسجد
میں داخل هوگا وه سب سے پهلے جنت میں جائے گا وه شخص صبح فجر سے پهلے چھپ
کر وهاں بیٹھ گیا اور دیکھا که ایک شخص نے آکر سب سے پهلے مسجد کا دروازه
کھولا جھاڑو لگائی دریاں بچھائیں وضو کیا اذان دی اور پهر یوں نماز باجماعت
ادا کرکے وآپس رخصت هوگیا اس شخص نے حاضر هوکر سرکار مدینه صلی الله علیه
وآلیه وسلم کو ساری بات بتلائی تو آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا که
صبح پهر اس طرح سے هی کرنا آج جو شخص سب سے پهلے آئے گا وه دوزخی هوگا اور
سب سے پهلے دوزخ میں جائے گا وه شخص حکم کی تعمیل کرتے هوئے صبح فجر سے
پهلے وهاں پهنچ جاتا هے لیکن تھوڑی دیر بعد اس کی حیرت کی انتها نه رهی جب
اس نے دیکھا که وه هی شخص دوباره آیا اور اسی طرح سارے معمولات سر انجام
دئیے اور چلا گیا اب وه پریشان هوکر سرکار صلی الله علیه وآله وسلم کے پاس
حاضر هوتا هے اور عرض کرتا هے که یارسول الله یه کیا ماجرا هے کل میں نے جس
شخص کو سب سے پهلے آتے هوئےدیکھا تھا آج بھی وه هی شخص سب سے پهلے آیا اب
کل وه جنتی اور آج دوزخی کیسے هوگیا تو میرے سرکار مدینه صلی الله علیه
وآله وسلم نے فرمایا که کل اس نے جو کچھ بھی کیا وه اس کا روز کا معمول تھا
دل سے کیا جانے والا کام اس لئیے وه جنتی تھا لیکن آج اسے شک تھا که اسے
کوئی دیکھ رها هے اس لئیے آج اس کا هرعمل کسی کو دکھانا مقصود تھا اس میں
ریاکاری شامل تھی اس لئیے آج وه دوزخی هوگیا اس لئیے اس رب کی عبادت بھی کی
جائے تو اس میں دکھاوا نه هو -
اب زرا غور کیجئے که دکھاوا یعنی ریاکاری کس قدر برا اور الله کا ناپسندیده
عمل هے که ریاکاری کرنے والے کے ساتھ وه رب کوئی رعایت نهیں بخشتا اور
سیدھا جهنمی قرار دےدیتا هے جیسا که میں نے شروع میں انسانوں کے تین طبقات
کا ذکر کیا هے تو اس میں ایسا طبقه جسے الله رب العزت نے مال ودولت سے
نوازا هوا هوتا هے لیکن وه اس کے خرچ کرنے میں دکھاوا کرتے هیں تو وه طبقه
گنهگار اور جهنمی هوگا .آجکل همارے یهاں یه ریاکاری اتنی بڑھ گئی هے که اسے
فیشن کا نام دے دیا گیا هے وقت کی ضرورت که دیا گیا هے کسی قدرتی حا دثے کی
صورت میں هونے والی اموات اور ان کے لواحقین کو دی جانے والے امداد کا جب
تک میڈیا پر نام کے ساتھ ذکر نه هو تب تک وه امداد امدا د نهیں کهلاتی یه
ریاکاری نهیں توکیا هے , جب غریبوں میں کوئی راشن یا ضروری اشیاء کے تقسیم
کرنے کی تقریب هو اور اس میں دئیے جانے والے شخص کی تصاویر نه هو تب تک وه
تقریب ممکن نهیں هوتی یه ریاکاری نهیں تو کیا هے , دهشتگردی کے کسی واقعے
میں زخمی هونے والے بے گناه لوگوں کو جب هسپتال میں رقوم کے چیک تقسیم کئیے
جاتے هیں تو میڈیا پر واضح دکھایا جاتا هے اور دینے والے کی تصویر زخمی کو
لیتے هوئے دکھایا جاتا هے یه ریاکاری نهیں تو کیا هے اور یقین کیجئیے جب
کسی ملک میں بسنے والے لوگوں میں ریاکاری بڑھ جاتی هے تو الله اس قوم
پراپنا عذاب نازل فرمادیتا هے لیکن قربان جاؤں میں اپنے آقا ومولا سرکار
مدینه صلی الله علیه وآله وسلم پر که جن کے امتی هونے کے ناطے وه رب العزت
هم پر صرف اپنے عذاب کی جھلکیاں نازل فرمارها هے آج کل همارے ملک سیاسی طور
پر حالات خراب هیں , قدرتی طور پر هونے والی گرمی کی شدت , بارش کا ضرورت
کے مطابق نه هونا , ملک میں بجلی کے بحران کا شدت اختیار کرجانا پانی کی
پورے ملک میں کمی هوجانا , آئے دن ملک کے کسی نه کسی شهر میں کسی نه کسی
طبقے کی طرف سے مطالبات کی منظوری کے خلاف هونے والے مظاهرے, اگر دیکھا
جائے تو یه سب کچھ همارے لئیے کسی عذاب سے کم نهیں .
سرکار مدینه صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا که اگر کسی کو دو تو اس طرح
که اگر سیدھے هاتھ سے دو تو الٹے هاتھ کو علم نه هو یه هے اصل عبادت اور
همارے اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود هیں جو اپنی نیکیوں کو اس طرح عمل
میں لاتے هیں جس سے کسی کو علم هی نهیں هوتا اور وه گمنام نظر آتے هیں یه
هی هے اصل عبادت اگر الله کی عبادت کو دنیا والوں کو دکھانا مقصود هوتا تو
بزرگان دین کبھی جنگلوں کا رخ نه کرتے کبھی سرکار مدینه صلی الله علیه وآله
وسلم نوافل عبادات اکیلے پڑھنے کا حکم نه فرماتے کیوں که کوئی بھی نیک عمل
یا نوافل هم صرف اور صرف رب العزت کی خوشنودی اور اس کو راضی کرنے کے لئیے
کرتے هیں تو وه اس طرح هونی چا هئیے که وهاں صرف همارا سامنا خالق حقیقی سے
هو اور کوئی نه هو اور یه سب اس وقت هی ممکن هے جب هم اپنے نیک کاموں میں
دکھاوا نه کریں ورنه کهیں ایسا نه هو که وه رب العزت بروز محشر همارے
دکھاوے اور ریاکاری کے سبب هماری ساری نیکیوں کو همارے منه پر وآپس مار دے
اس لئیے کوشش کریں که اگر الله رب العزت نے همیں مال ودولت سے نواز رکھا هے
تو اس میں غریبوں یتیموں اور مسکینوں کا بھی خیال رکھیں اور اس طرح که اس
میں دکھاوے اور ریاکاری کا عنصر نظر نه آئے وه خالق کائنات اپنے ان بندوں
سے بهت خوش هوتا هے جو اس کے بندوں کا خیال رکھتے هیں اور جب وه رب العزت
هم سے خوش هوجائے تو پهر کیا چا هئے هماری دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت
بھی . |