یمن فقر و فلاکت و مظلومیت کا استعارہ بن چکا ہے جسے کوئی
غیر نہیں بلکہ اپنے ہی اعراب کفار اور امریکی و اسرائیلی شہہ پر اسے تباہ
کرنے پر تلے ہیں۔سعودی عرب چند سالوں عرب اتحادی افواج کے ساتھ یمن پر
یلغار کیے ہوئے ہے مگر ان نہتے یمنیوں کے سامنے ابھی تک بے بس ہے اب سعودی
عرب نے حکمت عملی میں تبدیلی کرتے ہوئے اپنی اتحادی افواج نے اقوام متحدہ
کی وارنگز کو نظر انداز کرتے ہوئے یمن کی اہم ترین بندر گاہ حدیدہ پر
یلغارکر دی ہے۔حدیدہ کی بندرگاہ قحط کے خطرے سے دوچار اس ملک کی سترہ فیصد
درآمدات کا ذریعہ ہے اور اس بندر گاہ پر حملے کے بارے میں اقوام متحدہ نے
خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے نتیجے میں قیامت خیز تباہی ہو سکتی
ہے۔اطلاعات کے مطابق یہ حملہ حوثی باغیوں کی جانب سے انخلا کے لیے دی جانے
والی حتمی ڈیڈلائن کو نظرانداز کیے جانے کے بعد کیا گيا ہے۔سعودی عرب اور
اس کےاتحادیوں کا الزام ہے کہ حوثی باغی اس بندر گاہ کے ذریعے ایرانی
ہتھیار حاصل کر رہے ہیں۔مقامی میڈیا کے مطابق حوثی باغیوں کے ٹھکانوں کو
فضا اور سمندر دونوں جانب سے بموں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور شہر کے
مضافات میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔امدادی ایجنسیوں نے شہر پر حملہ
کیے جانے کی صورت میں قیامت خیز تباہی کے لیے خبردار کیا ہے جس میں ڈھائی
لاکھ جانیں ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔سعودی عرب کی اتحادی افواج
اور یمن کی سرکاری فوج نے اقوام متحدہ کی وارنگ کو نظر انداز کرتے ہوئے یمن
کی اہم ترین بندر گاہ حدیدہ پر یلغارکر دی ہے۔
اس جنگ زدہ ملک میں 70 لاکھ سے زیادہ افراد امداد کے طور پر فراہم کی جانے
والی خوراک پر انحصار کرتے ہیں۔سعودی نیوز ایجنسی 'العربیہ' نے خبر دی ہے
کہ حدیدہ کو 'آزاد کروانے' کا کام شروع ہو چکا ہے جس میں وسیع پیمانے پر
کیے جانے والے زمینی حملے کو فضائیہ اور بحریہ کا تعاون اور پشت پناہی حاصل
ہے۔ اس میں امریکی،اسرائیلی اور فرانسیسی افواج کی بھی حمایت انہیں حاصل
ہے۔سعودی عرب کی سربراہی میں منصور ہادی کی حمایت کرنے والی اتحادی فوج میں
شامل متحدہ عرب امارات نے اس سے قبل حوثی باغیوں کو انخلا کے لیے حتمی الٹی
میٹم دیا تھا کہ یا تو وہ واپس ہو جائیں یا پھر حملے کا سامنا کرنے کے لیے
تیار رہیں۔
اس جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ امارات بھی ہے جس کی نگاہیں افریقہ میں داخلے
کیلئے بنیادی بندرگاہ پر ہیں جو کہ یہی الحدیدہ ہے۔امارات چاہتا ہے کہ اس
بندرگاہ کا کنٹرول اسکے ہاتھ میں آجائے۔چاہے اسکے لیے مظلوم یمنی عوام ساری
ساری ہلاک ہوجائے۔
یمن کی خانہ جنگی میں گذشتہ تین برسوں میں دس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو
چکے ہیں اور ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں جسے اقوام متحدہ نے دنیا کی 'خراب
ترین انسانی تباہی' کہا ہے۔
لیکن افسوس اس مسلم امہ پر ہے جسے شام کی تباہی تو نظر آجاتی ہے مگر اسے
یمن کی تباہی نظر نہیں آتی ۔کیا یہی انداز مسلمانی ہے؟حدیث نبوی ص ہے جس نے
اس حال میں صبح کی کہ اس نے مسلمانوں کے امور میں دلچسپی نہ لی ہو تو وہ
مسلمان ہی نہیں۔کیا ہم فرمان نبوی ص کے مطابق مسلمان ہیں؟کیا ہمار احق نہیں
بنتا کہ ہم مظلوم یمنی عوام کے حق میں آواز اٹھائیں؟کیا حمایت بھی سیاسی
ہوگئی ہے؟یعنی جہاں اپنا مفاد دیکھا وہاں حمایت اور جہاں مفاد نظر نہ آیا
وہاں خاموشی اختیار کرلی۔مسلمانو کل خدا اور رسول کے حضور کیا منہ دکھاو
گے؟کل اگر خدا نے آپ سے سوال کرلیا تو کیا کہو گے کہ ہمارے فلاں ملک سے
اچھے تعلقات تھے اس لیے ہم اسکے خلاف کچھ بھی حرف حق بول نہ سکے۔اٹھو کہ اس
سے پہلے دیر ہوجائے اور لاکھوں مسلمانوں اور انسانوں کے قتل میں ہم بھی
شریک شمار ہوں۔آئیے آواز اٹھائیے اور قیامت کے دن اللہ تعالی کے حضور سرخرو
ہوجائیے۔ |