رشوت

دوسروں کا حق مارنا بے شک طاقت کا استعمال کرنے سے ھو یا روپے کی مدد سے دین اسلام کے نزدیک گناہ ھے اور اس پر اللہ کے حضور پکڑ ھو گئ.

لغت میں”رشوت“کے معنی ہیں وہ نذرانہ جواپنے مقصدکی تکمیل کے لیے کسی کوپیش کیاجائے،خواہ وہ مقصدجائزہویاناجائز؛ملک میں دیگر برائیوں میں سے ایک لعنت رشوت ہے جو سرکاری اداروں، پرائیویٹ اداروں غرضیکہ ہرجگہ عام ہو چکی ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ ‏۔( سنن أبو داود :3580
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت فرمائی ہے.

رشوت کے لغوی معنی ناجائز نذرانہ یا ظلم سے لی جانے والی رقم کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں رشوت دراصل اس مال کو کہتے ہیں جسے ضرورت مند شخص اس شرط پر حاکم کو دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ دے یا کسی ایسے شخص کو اس شرط پر دے جو حاکم سے اس کا کام کرا دے گا۔ ( فتاوی شامی : 362/5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

”لعن الله الراشی والمرتشی والرائش“

رشوت لینے والے، دینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔

طبرانی، المعجم الکبیر: 1415

رشوت خوروں کے متعلق ارشاد ربانی ہے:

أَکَّالُونَ لِلسُّحْت

یہ لوگ سُحت کھانے والے ہیں۔

(المائده: 42)

سُحت کے لفظی معنی کسی چیز کو جڑ، بنیاد سے کھود کر برباد کرنے کے ہیں۔ اس معنی میں قرآن کریم نے فرمایا:

فَیُسحتکم بعذاب.
یعنی اگر تم اپنی حرکت سے باز نہ آؤ گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عذاب سے تمہارا استیصال کر دے گا، یعنی تمہاری جڑ، بنیاد ختم کر دی جائے گی۔ قرآن مجید میں اس جگہ لفظ سُحت سے مراد رشوت ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، ابراہیم نخعی، حسن بصری، مجاہد، قتادہ اور ضحاک وغیرہ رضی اللہ عنہم آئمہ تفسیر نے اس کی تفسیر رشوت کی ہے۔

رشوت بد عنوانی کی ایک قسم ہے یہ کس قدر بد قسمتی اور ستم ظریفی کی بات ہے کہ ایک شخص جو قابل بھی ہے اور لائق بھی ۔ وہ رشوت نہ دینے کی بناء پر ناکام اور دوسرا جو نااہل ہے وہ رشوت دے کر کامیاب ہو جاتا ہے۔ ہر محکمے میں چپڑاسی سے لے کر بڑے آفیسر تک سبھی رشوت خور ہیں ۔ رشوت دے کر عدل و انصاف کا جنازہ حق دار کی حق تلفی ۔ ضمیر کا بکنا ، وفاداریاں تبدیل ہو جانا ایک عام سی بات ہے۔ رشوت ملک میں متعدی مرض کی طرح پھیل چکی ہے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے :
’’ وَإِنَّهُ لِحُبِّ الخَيْرِ لَشَدِيدٌ‘‘
" وہ مال کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے "{العاديات:8}۔
’’وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا‘‘ ’’وَتُحِبُّونَ المَالَ حُبًّا جَمًّا‘‘"
اور تم میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو {الفجر:19-20}۔
‘’أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ(1) حَتَّى زُرْتُمُ المَقَابِرَ(2) ‘‘
" تمہیں کثرت کی ہوس نے غافل کر رکھا ہے ، یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچو "{التَّكاثر:1اور 2}
رشوت کی مذمت اوراس کے لینے اوردینے والوں پراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سخت وعیدیں بتائی ہیں،حضرت عبداللہ بن عمرر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”رشوت لینے اوردینے والے پراللہ کی لعنت برستی ہے“۔(رواہ ابن ماجہ)
ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ”رشوت لینے اوردینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے“۔ (طبرانی)
حالانکہ اللہ کے کے رسول ﷺ نے رشوت لینا، دنیا اور دلوانا حرام ٹھہرایا ہے۔ رشوت کی کمائی کھانے والوں میں وہ تمام بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جو معاشرے میں فساد برپا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ حرام خوری کے بارے میں نبی کریم ﷺ کے ارشاتِ گرامی درج ذیل ہیں۔’’جو شخص حرام کا ایک لقمہ کھائے گا اس کی چالیس راتوں کی عبادت قبول نہ ہوگی‘‘۔ ’’ جو بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈال لیتا ہے اس کا چالیس دنوں کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا‘‘۔ ’’ جس کا کھانا ، حرام، پینا حرام، لباس حرام، اور غذا حرام کی ہے اس کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے‘‘۔
انسان کی طبیعت بلحاظِ آزمائش کچھ ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ مادیت کا دیوانہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان کو جو کچھ حلال و جائز طریقے سے ملتا ہے وہ اس پر صبر نہیں کرتا بلکہ مزید حصول کے لئے ہر ناجائز و حرام طریقے اختیار کرتا ہے
بَقِيَّةُ اللهِ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ‘‘" تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی دی ہوئی بچت ہی بہتر ہے اگرتم مومن ہو " {هود:86}۔
موجودہ زمانہ بہت تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے اورآئے دن نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں،ایسے ترقی یافتہ دورمیں رشوت کی کوئی خاص شکل وصورت متعین نہیں ہے، اور اب صرف کاغذکے چندنوٹوں کے لین دین کانام رشوت نہیں ہے؛بلکہ زمانہ اورحیثیت کے اعتبارسے رشوت کی شکلیں بھی مختلف ہوتی رہتی ہیں،اگرکوئی عام آدمی کسی کلرک کورشوت دیتاہے تووہ وہ چندنوٹوں کی شکل میں ہوتاہے،لیکن اگریہی رشوت کوئی خاص شخص کسی بڑے عہدہ دار، مثلاً وزیریاکسی بڑے صاحبِ منصب کو دیتاہے تووہ کبھی بنگلہ،موٹرکاریاپھرکسی بیرون ملک کے سیاحتی ٹکٹ وغیرہ کی شکل میں ہوتاہے، جسے وہ ہدیہ یانذرانہ کاخوبصورت نام دے دیتاہے؛لیکن درحقیقت وہ رشوت کی ترقی یافتہ شکل ہوتی ہے؛اس لیے صرف کاغذکے چند نوٹوں کے لین دین کوہی رشوت نہیں کہہ سکتے،اس کے علاوہ بھی ہروہ شئی جواپنے جائزیاناجائزمقاصدکوحاصل کرنے کے لیے کسی اہل منصب کودیاجائے گاوہ رشوت ہی ہوگا۔
مجمع البحارمیں علامہ فتنی نے بھی رشوت کی تعریف کی ہے: ”رشوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی باطل غرض اورناحق مطالبہ کے پوراکرنے کے لیے کسی ذی اختیاریاکارپردازشخص کوکچھ دے“ ۔
(مجمع البحاربحوالہ علامہ سیدسلیمان ندوی)
گویا پتہ یہ چلا کہ حرام خوری صرف برائی ہی نہیں پیدا کرتی بلکہ دعا اور عبادت کی قبولیت کے اثرات بھی چھین لیتی ہے۔ اس طرح برائیا ں پیدا ہونا ، اچھائیاں ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ رشوت دے کر ناکارہ افرادکھپ رہے ہیں اور قابل افرادضائع ہو رہے ہیں ۔ارشاد باری تعالی ھے کہ
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ‘‘{البقرة:188} " اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھا یا کرو ، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا لیا کرو ، حالانکہ تم جانتے ہو " ۔ حدیث میں ہے :"رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں "
رشوت کی وجہ سے معاشرے میں کام چوری، اور حکومتی و پرائیویٹ اداروں میں فرائض سے غفلت ہر شعبے میں بڑھتی جارہی ہے۔ اس لعنت کو معاشرے سے ختم کرنے کے لیے آج کی نوجوان نسل سے لے کر بااثر افراد کو نکلنا ہو گا اور اس جڑ کو کاٹنے کی پہل کرنا ہوگی۔ لہذا قوم کے ہر نوجوان اور باشعور افراد سے میری گزارش ہے کہ آئیے مل کر اپنے تئیں رشوت سے بچنے اور معاشرے کو بھی اس گناہ سے بچانے کی کوشش کریں۔ رشوت ایک گناہ ہے اور گناہ کی سزا ضرور ملے گی۔ اس دنیا میں اگر نہ ملی تو آخرت میں ضرور ملے گی۔ اﷲ تعالی سے یہ التجا ہے کہ وہ ہمیں اس دنیا و آخرت میں اپنی رحمت خاص سے اس لعنت سے اور اس کی تباہ کاریوں سے بچنے کی توفیق عطا فرماۓ اور

رشوت لینے, دینے, دلوانے اور حرام کی کمائی کا بائیکاٹ کرنے میں پہل کرنے کی ہمت ؤ طاقت عطا فرماۓ.
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558063 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More