چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود
حیات نے گزشتہ دنوں ’گرے ہائی برڈ جنگ‘ کے حوالے سے ایک تقریب میں ملک
دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے 1971 میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان
کی مثال بھی دی۔ بلاشبہ ’گرے ہائی برڈ جنگ‘ زبان زدعام نہیں رہا، لیکن وقتاً
فوقتاً ان ہی صفحات میں ملک دشمن عناصر کی نظریاتی جنگی اسٹرٹیجی کی مذموم
سازشوں کے بارے میں آگاہ کیا جاتا رہا ہے۔ جنرل زبیر حیات نے گرے ہائی برڈ
جنگی حکمت عملی کے کئی پہلوئوں کی نشان دہی کی۔ تمام تر پہلوئوں کے مضمرات
اور اثرات کے مشاہدے سے ملک دشمن عناصر کی سازشوں کو سمجھنا آسان ہوگا،
تاہم اس حوالے سے دیکھا جائے تو ’گرے ہائی برڈ جنگی طریقۂ کار ‘ 1971کے
بعد دوبارہ مسلط کرنے کے لیے1978میں کراچی کو ہدف بنالیا گیا تھا۔ کراچی کی
لسانی تنظیم کے تربیتی مراحل میں سہ جہتی حکمت عملی کے طور پر تین نکات پر
عوام کی برین واشنگ کی جاتی تھی۔ 15 دسمبر 1998 کو لسانی جماعت کے بانی نے
ایک لیکچر دیا تھا جو بعد میں شائع بھی ہوا۔ برین واشنگ کی اس تربیت میں
لسانی جماعت کے کارکنان کو پاکستانی حساس اداروں سے متنفر کرانے کے لیے تین
نکات کو نمایاں رکھا جاتا تھا کہ: (1)آئسولیشن (ISOLATION)یعنی خصوصی
لسانی اکائی کو بالخصوص دیگر تمام قومیتوں اور طبقات سے کاٹ کر علیحدہ
کردیا جائے۔ (2)کرمنلائزیشن(CRIMINALIZATION) یعنی مخصوص لسانی اکائی کو
قانون پسند شہری کے بجائے عادی مجرم اور ان کی نمائندہ جماعت کو حقوق کے
حصول کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک سیاسی جماعت کے بجائے مجرموں اور دہشت
گردوں کا گروہ بناکر پیش کیا جائے اور ان کے ساتھ عادی مجرموں جیسا سلوک
کیا جائے۔ (3)ڈی مورالائزیشن (DEMORALIZATION) یعنی مخصوص اکائی کے عوام و
کارکنان کو بددل اور بدظن کیا جائے اور ان میں مایوسی پیدا کی جائے۔ یہ عمل
1971کے بعد1998میں عملی طور پر کراچی میں پنپنا شروع ہوگیا تھا اور اسے سہہ
جہتی حکمت عملی کا نام دیا گیا تھا۔ پاکستان کے عوام لسانی تنظیم کی سہ
جہتی حکمت عملی سے کماحقہ واقف نہیں تھے۔ اس لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے
تحت ناپختہ اذہان کی برین واشنگ کرکے قومی حساس اداروں کو لسانی اکائیوں کے
نزدیک متنازع بنانا شروع کردیا گیا تھا۔ ایک طرف متشدد رویہ اختیار کرکے
میڈیا مینجمنٹ کے نام پر جہاں نشری تقاریر میں برملا مذموم منصوبے پر عمل
پیرا ہوکر اداروں کے خلاف دشنام طرازی کی جاتی اور کھل کھلا اس کا اظہار
کیا جاتا تو دوسری جانب اس تین نکاتی ایجنڈے کو مزید راسخ کیا جاتا کہ ’’حقوق‘‘
کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حساس ادارے ہیں۔ اور ان نکات کو حساس اداروں پر
عائد کیا جاتا کہ دراصل یہ سب کچھ اہم قومی سلامتی کے ادارے کررہے ہیں۔ وقت
کے ساتھ یہ گرد چَھٹی کہ دراصل یہ ایجنڈا بھارتی تھا، جس میں ایک لسانی
اکائی کو ملک کی دیگر لسانی اکائیوں سے الجھا کر متشدد کارروائیوں کے ذریعے
قومی دھارے سے الگ کردیا جائے۔ طاقت کا بھرپور استعمال اور وسائل پر قبضے
کے لیے تعلیم یافتہ طبقے کو اعلیٰ تعلیم سے دُور کرکے جرم کے راستے پر ڈال
دیا گیا اور وقت نے ثابت کیا کہ لسانی تنظیم نے کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھ
کر نوچنا شروع کیا اور اس کے مضمرات کا یہ حال ہے کہ پورا کراچی کرچی کرچی
ہوگیا ہے۔ اس ایجنڈے کی تیسری شق پر اب بھی عمل درآمد جاری ہے اور صوبے کی
تقسیم کے نعرے میں اسی عنصر کو نمایاں کرتے ہوئے بھارت سے مدد طلب اور واپس
آنے کے لیے بھارت سے معافی اور تھرپارکر کا علاقہ دینے کی اپیل کی
گئی۔ایسا ہی عمل شمالی مغربی صوبے کے سرحدی علاقوں میں کیا گیا۔ سرحدی
علاقوں میں ملک و دنیا سے بے خبر دہشت گردوں کی آماجگاہ بناکر اور ان کی
سہولت کاری کرکے دیگر قومیتوں اور طبقات سے دوسری لسانی اکائیوں کو علیحدہ
کردیا گیا۔ اس سازش میں الجھ کر سرحدی علاقے اس قدر متنازع ہوئے کہ پاکستان
کی تاریخ کے بڑے بڑے فوجی آپریشن کرنے پڑے اور اب بھی آپریشن ردُالفساد
ملک بھر میں جاری ہے۔ تھوڑا سا غور کرلیا جائے تو (سابق) فاٹا انضمام اور
افغانستان کی جانب سے پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کے بعد نام نہاد
تحریک نے قومی اداروں کے خلاف منظم مہم شروع کی ہوئی ہے اور اداروں کے خلاف
عوام کو 71 کی طرز پر علیحدگی کے لیے گریٹر منصوبے پر عمل کیا جارہا ہے۔ ہم
اب اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ چار عشروں تک دنیا سے کٹ کر رہنے
والے علاقوں میں جب حکومتی رٹ قائم ہونے جارہی ہے تو مذموم منصوبے کے تحت
دراندازیاں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کا تسلسل جاری ہے۔ گو قومی سلامتی
کے اداروں نے بڑے دہشت گرد حملوں کو محدود کردیا ہے، لیکن نظریاتی جنگ میں
سہولت کاروں کی وجہ سے چھوٹے پیمانے کی دہشت گرد کارروائیوں سے قانون نافذ
کرنے والے اداروں کے افسران اور اہلکاروں کو جانی نقصانات کا سامنا ہے۔
بدقسمتی سے عالمی ادارے یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے انجان بن رہے ہیں اور نام
نہاد واحد سپرپاور کے ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے پاکستان پر دبائو بھی
بڑھایا جارہا ہے۔ وطن عزیز کے تیسرے بڑے حساس ترین صوبے میں بھی ملک دشمن
عناصر کی جانب سے گرے ہائی برڈ جنگی پالیسی کے تحت تینوں نکات پر مذموم
طریق کار سے عمل کیا جارہا ہے۔ تینوں صوبوں میں لسانی اکائیوں کو ملک و قوم
سے کاٹنے کے لیے مٹھی بھر عناصر سائبروار کا استعمال کررہے ہیں۔ ہم سوشل
میڈیا میں ہزاروں ایسے اکائونٹ دیکھتے ہیں جو پڑوسی ممالک سے ہینڈل کیے
جارہے ہیں، لسانی و فرقہ وارانہ متنازع ایشوز پر جہاں پڑوسی ممالک نے
پاکستان میں پراکسی وار شروع کر رکھی ہے تو ملک کی سرحدوں کے ساتھ ہی شدت
پسندوں کو دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔چونکہ پاکستان ایٹمی پاور بن چکا
ہے اور بھارت کو کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن میں ناکامی ہوچکی ہے اور پاکستان پر
محدود جنگ مسلط کرنے کی ایک بڑی کوشش کو پاکستان نے صرف چند گھنٹوں میں
ناکام بناکر بھارت کو ششدر و دنیا کو حیران کردیا تھا۔ اس لیے بھارت نے
’گرے ہائی برڈ جنگی حکمت عملی‘ کے تحت پاکستانی سرحدی علاقوں میں عام
شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ پاکستان کے پڑوسی ممالک جانتے ہیں کہ
تمام تر نامساعد حالات و مالیاتی و سیاسی پریشانیوں کے باوجود پاکستانی
افواج ملک کی حفاظت کی بھرپور استعداد رکھتی ہے اس لیے لسانیت، قومیت اور
فرقہ واریت کے نام پر پڑوسی ممالک نے پاکستان کے خلاف تین اطراف سے ’گرے
ہائی برڈ جنگ‘ مسلط کی ہوئی ہے۔ جس کا مقابلہ صرف قانون نافذ کرنے والے
ادارے ہی نہیں کریں گے بلکہ اس کے لیے پاکستانی عوام کو اپنے فروعی، گروہی،
نسلی معاملات کو بالائے طاق رکھ کر ایک قوم بننا ہوگا۔ ملک کی سرحدوں اور
نظریاتی اساس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ عوام کو قومی سلامتی
کے اداروں کے ساتھ مل کر مملکت کی بقا و سلامتی کی جنگ لڑنا ہو گی۔ 1971میں
ہم اپنا نقصان کرچکے ہیں۔ اب ملک کے دیگر حساس صوبوں میں دشمن کی تمام
سازشوں کو ناکام بناکر ہی وطن عزیز کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ آج کی محدود جنگ
میں پاکستان کا ہر شہری ردُالفساد کا سپاہی ہے۔ لسانیت، نسل پرستی، قوم
پرستی، فرقہ واریت کے اژدھے سے ہم جتنا وطن عزیز کو بچائیں گے، اُتنا ہی ہم
سب کے حق میں بہتر ہے۔ |