میٹھی عید کڑوی باتیں

پاکستان کی سیاست بھی ایک عجیب کھیل بن چکی ہے ۔ سیاست دانوں کو جہاں بھی موقع ملے تو نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ کے مصداق فوراً سیاست پر بات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور وہ بات بھی ایسی کریں گے کہ جن میں اپنی تعریفیں اور مخالفین کی بُرائیاں زیادہ ہوں گی۔ کوئی موقع محل نہیں دیکھتے کہ یہاں سیاسی بات کرنی چاہیئے یا نہیں۔ تعزیت ہو ، عیادت ہو ، عرس ہو ، میلاد ہو ،عید کی نماز ہو یا الغرض کوئی بھی موقعہ یا جگہ ہو ، انہوں نے بات صرف و صرف سیاست کی کرنی ہوتی ہے، یعنی وہ ہر جگہ کو اپنا کھیل کا میدان سمجھتے ہیں اور سیاست کا کھیل کھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ سیاست دانوں کے اس کھیل میں ہماری میڈیا بھی برابر کی شریک ہے۔ ابھی عیدالفطر کی نماز اور خطبات کی ادائیگی سرانجام ہونا باقی تھی کہ میڈیا کے نمائندے کوریج کے لئے چاق و چوبند دستوں کی طرح تیار کھڑے نظر آئے اور سیاست دانوں سے انٹرویو لینا شروع کر دیئے۔یوں عید کے پہلے دن عوام کو اُن کے مخالفین کی جانب اچھالے گئے باؤنسرز سے نجات نہ ملی اور سارا دن اُن کی خبریں چینلوں پر چلتی رہیں۔

ایک وقت تھا جب سیاست کو عبادت سمجھا جاتا تھا اور جس میں خدمت کو اولین درجہ حاصل تھا لیکن افسوس ہم نے اُس کو اپنے حقیقی مقام سے بہت نیچے گرا دیا ہے ۔ آج کل جھوٹ اُس کا اہم عنصر بن چکا ہے اور خدمت صرف انتخابی بینروں اور پوسٹروں میں ’’بے لوث خدمت گار ‘‘ کی شکل مقید رہ گئی ہے ۔اچھی اقدار نایاب ہو گئی ہیں جن کی جگہ گانے بجانے ، گالم گلوچ اور غیر شائستگی نے لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیدالفطر کے اجتماعات کے بعد سیاست دانوں نے اپنے اور اپنی جماعتوں کے گُن گانا شروع کر دیئے اور مخالفین پر خوب کیچڑ اُچھالا۔ حالاں کہ وقت کا تقاضہ تھا کہ اس ’’یوم الجائزہ ‘‘ کے دن وہ ماہ صیام کی کارگزاری بیان کرتے ، اپنی اور جماعت کے فلاحی کاموں کی فہرست جاری کرتے ، غریبوں ، ناداروں اوربے کسوں کے لئے کی گئی افطاریوں کو ذکر کرتے ، بیواؤں اور یتیموں میں تقسیم کئے گئے عید کے تحائف کی تفصیل بتاتے اور خصوصاً اپنی جماعت کے منشور کا وہ حصہ بیان کرتے جس میں غریب عوام کے لئے ریلیف دینے کا پروگرام بنایا ہے لیکن افسوس ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل میں وہ کوئی ایسا ارادہ رکھتے ہیں جس سے غریب عوام کو قابل ذکر ریلیف مل سکے۔

ہمارا رمضان سیاسی ٹکٹوں کی تقسیم میں گزر گیا جس پر ممکنہ اُمیدواروں کے درمیان لڑائی جھگڑے اور دھرنے ہوئے ۔ ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالی گئیں۔یوں ہمارے رمضان کا بنیادی مقصد ’’تقویٰ‘‘ ، فوت ہوگیا۔ جیسا کہ فرمان ایزدی ہے ۔ ’’ اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی ( پرہیزگار ) بن جاؤ ‘‘۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ ہر نیک کام کا اجر دس سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے مگر روزہ صرف میرے لئے ہے اور میں ہی اسی کا بدلہ دوں گا۔ روزہ آگ کے لئے ڈھال ہے۔ بے شک روز ہ دار کے منہ کی بُو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے اور اگر کوئی جاہل کسی روزہ دار سے جھگڑا کرے تو اس کو چاہیئے کہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (صحیح بخاری ، ترمذی) ۔ رمضان جو زبان کی حفاظت کا مہینہ ہے لیکن یہ مقصد بھی فوت ہوگیا۔ زبان اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اس کے پاکیزہ اور شیرین استعمال سے دشمن دوست بن جاتے ہیں۔ اسلام نے اس کی حفاظت پر بہت زور دیا ہے اور روزہ دار کو آپ ﷺ نے فحش کلامی اور جھوٹ سے باز رہنے کی واضح نصیحت فرمائی ہے۔ ’’ جس شخص نے جھوٹ بولنے اور جھوٹی بات پر عمل کرنے کو ترک نہ کیا تو اس کا کھانا پینا چھوڑنے کی اﷲ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں‘‘۔یہ صبر و تحمل کا مہینہ ہے زندگی درحقیقت حادثات ، نقصانات ، مشکلات اور تکالیف کو صبر و تحمل اور جوان مردی کے ساتھ مقابلہ کرنے کا نام ہے لیکن یہ مقصد بھی رائیگاں گیا۔ الغرض رمضان کا عظیم مہینہ جو ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ غریب و نادار سارا سال کیسے زندگیاں بسر کرتے ہیں اور ان کی مدد میں اجر ہی اجر ہے لیکن ہمیں اپنی سیاست سے فرصت نہیں اور اُن کی غم گساری سے کوئی غرض نہیں۔ اگر غرض ہے تو صرف اُن کے ووٹوں سے ہے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.