جن لوگوں کو یقین نہیں آتا کہ آج تک جتنے بھی حکمران آئے
انہوں نے پاکستانیوں کو سوائے بھیڑ بکریوں کے اور کچھ نہیں سمجھا اور ملک
کو نانا جی کی دوکان سمجھ کر خوب عیاشیاں کی انکے لیے چند ایک مثالیں ہیں
مگر یہاں ایک بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اپنے آپ کو عوام کے دکھ میں
ڈبونے والوں نے اصل میں ملک اور قوم کو ہی دکھوں اور غموں کی دلدل میں ڈبو
دیا چند لوگ جو ان کے نمک خوار ہیں وہ صبح سے شام تک انہی کے قصیدے پڑھتے
رہتے ہیں بار بار ہم پر مسلط ہونے والوں نے قوم کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا
کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کے لیے اجتماعی طور پر کوئی بہتر فیصلہ کرسکیں
بہاولنگر کے صحرا میں تین بہونں کی لاشیں ریت میں دھنسی ہوئی دیکھیں تو
اپنا آپ زمین میں دھنستا ہوا محسوس ہوا بہاولنگر ضلع ہے بہاولپور ڈویژن کا
جہاں پر بیٹھے ہوئے بے حس افسران صرف حکمرانوں کی خوش آمد میں لگے ہوئے ہیں
سابق اوران سے پہلے حکمرانوں نے عوام کی قسمت میں سوائے رونے اور دھونے کے
کچھ نہیں چھوڑا مریم نواز کا تو اقتدار سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اب تو
بلکل نہیں ہے مگر وہ جب کاغذات جمع کرونے جاتی ہے تو کتے جج کی کرسی کو بھی
سونگھ کر بتاتے ہیں کہ یہ کرسی محفوظ ہے اور تپتے ہوئے سحرا میں ایک باپ کی
تین بیٹیاں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہے ہمارے دانش ور
نگران وزیراعلی بھی شائد اپنے آپ کو خادم اعلی سمجھنا شروع ہوگئے ہیں جب
بھی نکلتے ہیں پورے لاؤ لشکر کے ساتھ آتے جاتے ہیں مگر بہاولنگر نہیں جاسکے
ایک ماہ اور کچھ دن باقی رہ گئے جہاں دوسروں کو پانچ پانچ سال برداشت کیا
وہاں یہ بھی چلیں جائیں گے مگر جاتے جاتے کسی کے زخم پر مرحم رکھ جائیں تو
انکے بھی کام آجائیگا رہی بات سابق حکمرانوں کی جنہوں نے عوام کے پیسے پر
خوب عیش کی غریب عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے ہونے والے پیسوں پر اپنے نام کی
تختیاں لگاتے رہے ہم نے ووٹ دیے تھے قوم کی حالت بہتر بنانے کے لیے مگر آپ
سب نے اپنے ہی نام کی مشہوری شروع کردی اگر چیف جسٹس نہ روکتے تو انہوں نے
ہر اشتہار میں اپنی تصویر کت ساتھ ساتھ کرنسی نوٹوں پر بھی اپنی اپنی تصویر
چھاپنا شروع کردینی تھیں کیونکہ ملک میں اکثر اداروں کے نام تو انہوں نے
اپنے ناموں پر رکھنا شروع کردیے تھے جن میں سے چند ایک یہ ہیں * نواز شریف
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان * نواز شریف یونیورسٹی آف
ایگریکلچر ملتان* شہباز شریف ہسپتال ملتان * میاں نواز شریف گرلز ڈگری کالج
سیالکوٹ * نواز شریف گرلز کالج منڈی بہاولدین * گورنمنٹ شہباز شریف ڈگری
کالج جامکے چیمہ سیالکوٹ. ہے * نواز شریف ڈگری کالج چونا منڈی* نواز شریف
ڈگری کالج سرگودھا * نواز شریف میڈیکل کالج گجرات* شہباز شریف ڈگری کالج
خیابان سر سید راولپنڈی.
* نواز شریف پارک مری روڈ راوالپنڈی * شہباز شریف سپورٹس کمپلیکس راوالپنڈی*
شہباز شریف سپورٹس کمپلیکس قصور* نواز شریف ہسپتال یکی گیٹ لاہور* شہباز
شریف جنرل ہسپتال ملتان * نواز شریف سیکیورٹی ہسپتال لاہور* خواجہ صفدر
میڈیکل کالج سیالکوٹ* شہباز شریف برج جہلم* شہباز شریف برج سیالکوٹ۔جبکہ جن
کا بھٹو ابھی تک زندہ ہے ان کی مشہوری ذرا ملاحظہ فرمالیں * بلاول بھٹو
زرداری میڈیکل کالج جامشورو* بختاور بھٹو کیڈٹ کالج نواب شاہ * بے نظیر
بھٹو شہید یونیورسٹی بے نظیراباد* بے نظیر بھٹو ڈسٹرکٹ سکول،بے نظیراباد*نظیر
بھٹو یونیورسٹی اپر دیر* شہید بے نظیر بھٹو وومن یونیورسٹی پشاور میں ہے *
شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ* شہید بے نظیر گرلز کالج
لاڑکانہ.
* بے نظیر بھٹو ڈگری کالج کراچی* شہید بے نظیر بھٹو سٹی یونیورسٹی کراچی*
شہید بے نظیر بھٹو دیوان یونیورسٹی کراچی* شہید بے نظیر ویٹنری اینڈ اینیمل
سائنس یونیورسٹی کراچی* راولپنڈی جنرل ہسپتال کا نیا نام بے نظیر بھٹو
ہسپتال ہے* شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج لیاری کراچی* بے نظیر بھٹو شہید
اے این ایف ہسپتال کراچی۔بے نظیر بھٹو شہید ہیں اور قابل احترام ہیں لیکن
کیا اس ملک میں وہی واحد شہید قابل احترام ؟کبھی حساب لگا لیجیے اس ملک میں
قائد اعظم ، اقبال اور مادر ملت کے نام سے کتنے ادارے ہیں اور شریفوں اور
بھٹوؤں کے نام سے کتنے ادارے ہیں ؟ یہ ملک ایک امانت ہے یا ان دو خاندانوں
کی چراگاہ ؟ ہم مہذب دنیا کی ریاست کے باشندے ہیں یا ان دو خاندانوں کی
جاگیر کے مویشی ؟ اگرانہیں اپنے قائدین سے اتنی ہی محبت ہے تو قومی خزانے
کے ساتھ واردات کرنے کی بجائے اپنی جیب سے ان کے نام سے نئے ادارے کیوں
نہیں بناتے ؟ انہیں یہ غلط فہمی کب سے ہو گئی کہ ہم انہیں مال غنیمت میں
ملے ہوئے ہیں مگرٹھہریے جناب انکا کام ہی یہ ہے کہ کس طرح ہمیں بیوقوف بنا
کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنا ہے اور پھر مال مفت دل بے رحم پر پوری طرح
عمل کریں اس حوالہ سے کیا ہماری بھی کوئی ذمہ داری ہے کہ نہیں اب الیکشن
آنے والے ہیں اپنے اردگرد اپنے جیسے ہی کسی مخلص اور درد دل رکھنے والے کو
ایک بار اپنا ووٹ دیکر دیکھیں شائد ہم انسانوں کی چراگاہ سے باہر نکل
آئیں۔(تحریر۔روہیل اکبر03004821200)
|