آج پاکستان کے نظامِ عدل پر ساری دنیا اُنگلیاں
اُٹھا رہی ہے۔معیشت کا کچھ تو بیڑا غرق افتخار چوہدری کے دور میں کیا گیا
کہ ترکی کیبجلی پیدا کرنے والے منصوبے کو سوو موٹو ایکشن لے کر اربوں روپے
کے نیچے پاکستان کی معیشت کو پہچا دیا گیا تھا ،جبکہ ترکی معمولی سرمائے کے
مطالبے پر اپنا بجلی پیدا کرنے والا منصوبہ پاکستان سے واپس لیجانے پر
آمادہ تھا۔مگر نے ترکیکی بات نہ مان کر ،جب ہماری عدالت نے سوو موٹو ایکشن
لے کر ضد کی تووہ اس مسئلے کو عالمی عدالت میں لے گیا جس کے نتیجے میں ہمیں
اربوں روپے کی چٹی لگ گئی۔آج بھی سوو موٹو ایکشنز کے ذریعے پاکستان کی
بڑھتی ہوئی معیشت کو کھڈے لائین لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے ۔اب
پاکستان میں انصاف کے دو معیار صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔مگر کسی کو لب کُشائی
کی اجازت نہیں۔یہ ہی چیز لوگوں نے عمران نیازی کے پانامہ کیس میں دیکھی کہ
نواز شریف کے لیئے معیار کچھ اور تھا اور لاڈلے کیلئے معیار کچھ اور رکھا
گیا۔آج کے ہر ادارے میں بیٹھے ہوئے ججز ن لیگ کو کلین چٹ اس کے کلین ہونے
پر بھی دینے کو تیار نہیں ہیں ۔چاہے وہ نیب کا جج ہو یا الیکشن کمیشن میں
بیٹھا جج ہو، یاچھوٹی بڑی عام عدالتوں چند کے سوا، اورچاہے اعلیٰ ٰ عدلیہ
میں بیٹھے ججز ہوںَ کہیں ایک قطر سے آیا ہوا خط ریجیکٹ کر دیا جاتا ہے، تو
کہیں لندن سے آیا ہواایک یہودن کا خطaccept کر لیا جاتا ہے۔ یہ ہے پاکستان
کی اعلیٰ عدلیہ کا دیا ہوا انصاف! اب آئے پچھلے دنوں دیئے گئے شیخ رشید کے
حق میں فیصلے نپرجس میں اس بے کار آدمی، جس کا ماضی میں کوئی کام دھندھا
تھا ہی نہیں، سوائے چیٹنگ کے۔اس کے پاس اس قدر دولت زمینں کروڑوں اربوں کی
جائیدادیں کہان سے آئیں؟یہاں نیب خراٹے لے کر سو رہی ہے۔اس کو شیخ رشید کی
کرپشن کی تلاش کیوں نہیں ہے؟
فرشتوں کی ٹولی سے اتار ہوا،پاک پوتر شیخ رشید جن کے جورو نہ جاتا، صرف
شیخیوں اور کرپشن سے ناطہ ۔ سُپریم کورٹ کا تین ماہ تک التوا کا شکار فیصلہ
آنے سے پہلے بہت کم لوگ اس حقیقت سے آشنا تھے کہ شیخ جی جیسا فرشتہ ،نیک ،متقی
اور صالح انسان پاکستان ہی کیا ساری دنیا میں بھی چراغ لے کر ڈھونڈھو، تو
نہیں ملے گا! شائد ان ہی کے لئے کہا گیا تھا،’’ تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ
جائیو! دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘‘ جس کے دامن کے نچڑے پانی سے
فرشتے وضوکریں،ایسیشیخ جی ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں! انہوں نے سیاست میں
زندہ رہنے کا بھی خوب گُر سیکھا ہوا ہے۔کہ ڈوبی ہوئی نیا کو تیرانے کے لئے
،یہ ایسے تنکے کا سہارا لیکر شور مچاتے ر ہے جو ہر جانب سے مسترد شدہ
تھا،کہ اس شور سے سیاست کے دریا کی ساری مخلوق سہمی سہمی لگتی تھی، اور پھر
موقع تلاش کر کے یہ اُس بے حس مگر مچھ کے کندھوں پر زبردستی سوار بھی
ہوگئے،جو ان کو ہمیشہ حقارت اور کھا جانے والی نظر سے گھورتا تھا،اور یہ
اپنا دفع تک نہیں کر پاتا تھا۔
جب مسلم لیگ ن کے رہنما ملک شکیل اعوان کی جانب سے شیخ رشید احمد کی نا
اہلی کی درخواست پر فیصلہ تین ماہ تک دبا کے رکھا جاتا ہے۔ تو لوگ انصاف کی
امید لگا بیٹھے تھے۔مگر بد قسمتی سے تین ماہ بعد سامنے لائے جانے والے
فیصلے میں حقائق نپے تُلے ثابت ہونے کے باوجودسائل کی درخواست مسترد کر دی
گئی! توعدالتی فیصلے پرلوگوں کو اچنباء تو ضرور ہوا ۔کیونکہ شیخ رشید اس
بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ انہوں نے زمین کے رقبے اور فلیٹ کی قیمت میں
غلط بیانی کی تھی۔درخوست گذار کا دعویٰ یہ ہی تھا کہ ’’شیخ رشیدنے ایک
ہاؤسنگ سو سائٹی میں خریدے گئے گھر کی مالیت دو کروڑ دو لاکھ روپے ظاہر کی
تھی ۔جبکہ اس گھر کی بکنگ ہی 4کروڑ 80 روپے سے کی جا رہی تھی۔عدالت کو مکمل
شہادتوں کے ذریعے بتایا گیا تھا کہ سرکاری ڈاکیو منٹ کے مطابق شیخ جی
1081کنال زمین کے مالک ہیں ۔مگر اپنی نامزدگی کے پیپر میں اپنی زمین کی
پیمائش اور گھر کی قیمت غلط بیان کرتے ہوئے زمین 968کنال اور17مرلہ ظاہر کی
گئی۔بڑی عجیب بات یہ ہے کہ شیخ رشید کے وکیل نے بھی عدالت کے سامنے دونوں
باتیں درست مان بھی لیں تھیں،جس کے ساتھ اُس نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میرے
موکل سے غلطی ہوگئی! یہ بھی حقیقت ہے کہ سُپریم کورٹ انتہائی معمولی سی نون
ڈ کلئیریشن یا غلط بیانی پر ارکان پارلیمنٹ کو نا اہل قرار دے چکی ہے۔اس
اصول کے تحت غلطی دانستہ ہو یا غیر دانستہ۔اس پر آرٹکل 62/1- F،کے تحت نا
اہلی تو ضرور ہونی چاہئے تھی ۔جو نہیں کی گئی!جبکہ ایک جج نے بھی شیخ رشید
کی نا اہلی کی طرف اشارا ضرور کیا ہے۔مگر یہ اپنی اپنی قسمت ہے کوئی کھلی
غلط بیانی پر بچا دیا جاتا ہے تو کسی کو نا کردا گناہ میں بھی پھنسا لیا
جاتا ہے۔ ’’نہ دامن پہ کوئی دھبہ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ
کرامات کر ہو؟‘‘عدالتی فیصلے پر کسی نے یہ شعر میڈیا پر پڑھ کر بڑے واضخ
الفاظ اپنا اظہارِ خیال کیا تو جان کاری رکھنے والے لوگوں نے اس کی خوب داد
بھی دی۔
جب شیخ رشید کی نا اہلی کی درخوست مستردہوگئی اورفیصلہ، شیخ جی کے حق میں
آگیا۔ تو ان کی ٹون بالے گجر کی سی ہوگئی۔اس بڈھے کھوسٹ نے اپنے آپ کو
’’پنڈی بوائے‘‘کا لقب دیا اور پھر للکارتے ہوئے کہا ’’نواز شریف ‘‘اور
شہباز شریف میں آرہا ہوں‘‘ بعض لوگوں کو ان کا غندا اسٹائل بہت پسند بھی
آیا ہوگا۔مگر شرفا ء میں یہ بات نہایت ہی معیوب سمجھی گئی۔ کیا ایسے ننگ
دھڑنگ ہماری قسمتوں کے فیصلے کرانے کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مرکزی
حکومت اورصوبائی حکومتوں میں لگائے جائیں گے؟
اگر شیخ رشید کو نا اہل کر دیا جاتا تو لوگوں میں شیخ جی کی نااہلی پر یہ
احساس بھی ضرور شدت اختیار کرجاتا کہ سیاست کے منظرنامے پر روزانہ سیا سی
لطائف سے پاکستانی قوم محروم ہوجاتی !آئے دن حکومت کے گرائے جانے کی خوش
گپیاں کون کرے گا؟کہیں مارچ سے پہلے ڈبل مارچ کی گپ بڑے پر اعتماد طریقے پر
کون سُنائے گا؟پھر قُربانی سے پہلے قُربانی کے لطیفے قوم کوکون
سُناتا؟عدالت کا شکریہ کہ ہمیں ہمیشہ کی مایوسی سے محروم ہو نے سے بچا
لیاشیخ جی شیخ چلی کی طرح ،دن میں ہی یہ خواب دیکھ رہے ہیں اورکہہ رہے ہیں
25 جولائی کے الیکشن کا فیصلہ سُپریم کورٹ نے 13جولائی کو ہی دیدیا ، میں
25جولائی کو ہونے والا انتخاب جیت چکا ہوں۔اب مجھے انتخابی مہم چلانے کی
بھی ضرورت نہیں ہے۔ میں عمران خان کے ساتھ مل کر حکومت بناؤں گا اور ان
چوروں کو لٹکاؤں گا ۔شیخ صاحب کن چوروں کو لٹکانے کی بات کر رہے ہو؟ چور تو
آ پ خود بھی ہیں کیا خود کشی کرنے کا پکا ارادا کر لیاہے؟ |