کافی عرصہ پُرانی بات ہے، ہالی ووڈ کی ایک تھرلر فلم
دیکھی جس میں ایک نفسیاتی مریض عورتوں کو اغوا کرنے کے بعد مار دیتا ہے۔
پھراُن کی لاشوں کو مومی مجسموں کا رُوپ دے کر گھر میں سجا لیتا ہے اور ان
مجسموں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہے۔ اس کی ساری لذت بس اس ہیبت ناک
عمل کی انجام دہی میں پُوری ہو جاتی ہے۔ وہ کسی حسین سے حسین عورت سے بھی
جنسی حظ نہیں اُٹھاتا۔ یا شاید ایسا کرنے کی اُس میں صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔
ایسے کئی کردار دُنیا میں موجود ہوتے ہیں۔ بس اُن کی اصلیت سے چند لوگ ہی
واقف ہوتے ہیں۔
خیر! پچھلے دِنوں قابلِ احترام چیف جسٹس نے ایک دیرینہ مسئلہ حل کر دیا۔ یہ
مسئلہ کئی بار میڈیا چینلز کی کوریج کی زینت بنا۔ پھر دب گیا، پھر اُبھرا،
پھر سے دب گیا یا دبا دیا گیا۔ مگر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ حمزہ اور عائشہ
احد میں سچا کون تھا۔ حمزہ کی جانب سے ہمیشہ انکار سامنے آیا کہ اُس کی
عائشہ سے شادی نہیں ہوئی۔ جبکہ عائشہ ہمیشہ اسی بات پر مُصر رہی کہ اُس کا
حمزہ سے نکاح ہوا ہے۔ کون سچا ہے اور کون جھوٹا؟ یہ تو اب ان دونوں کے
علاوہ شاید چیف جسٹس صاحب بھی جان گئے ہوں گے۔ یہ معاملہ کوئی عام معاملہ
نہیں تھا۔ مُلک کے اقتدار پر عشروں تک قابض رہنے والے شہباز شریف کے اُس
بیٹے کا معاملہ ہے جو درحقیقت شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں پنجاب
کا ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ بنا بیٹھا رہا۔ پولیس، افسر شاہی اس کے حکم کے تابع
رہی یہاں تک کہ کرپشن کے کئی معاملوں میں بھی یہ براہِ راست ملوث ہے۔ اگر
حمزہ شہباز کی بات مان لی جائے کہ نکاح نہیں ہوا تھا اور پھر ان کے درمیان
تعلقات قائم رہے تو اس کا مطلب ہے کہ دونوں پر حدود کا مقدمہ بنتا ہے۔اس
مُلک میں اگر عورت مرد پر حدود کا مقدمہ درج ہو جائے تو عدالتیں کٹہروں میں
کھڑا کر کے فیصلے سُناتی ہیں۔ نہ کہ قابلِ احترام جج صاحبان اپنے چیمبرز
میں بُلا کر کیس نمٹاتے ہیں۔بہرحال اعلیٰ ترین عدلیہ کے انتہائی قابلِ
احترام چیف جسٹس صاحب کا فیصلہ سر آنکھوں پر۔
ہو سکتا ہے کہ بعض قارئین اس کیس کو ایک ازدواجی معاملہ قرار دیں جس میں
چیف جسٹس صاحب نے مُداخلت کر کے میاں بیوی میں کشیدہ تعلقات ختم کروا کر
اُن میں صلح صفائی کرا دی۔ تو اُن کے لیے عرض ہے کہ یہ کوئی معمولی معاملہ
نہیں ہے۔اس معاملے میں درجنوں لوگوں کی دیہاڑیاں لگی ہیں۔ جن میں انڈر ورلڈ
کے لوگ بھی شامل ہیں۔ پولیس افسران بھی شامل ہیں اور کئی ایسے لوگ ہیں جو
عائشہ احد معاملے میں حمزہ شہباز کی مدد کے باعث پارٹی ٹکٹ سے نوازے گئے
اور سابقہ اسمبلی کی نشستوں پر براجمان رہے۔ یہ معاملہ ایسا ہی تھا جیسے
پولیس والے راہ چلتے میاں بیوی کو روک کر اُن سے نکاح نامہ طلب کرتے ہیں
اور لازمی سی بات ہے کہ موقع پر نکاح نامہ موجود نہ ہونے کی آڑ میں اُنہیں
تھانے بند کرنے کی دھمکی دے کر پیسے بٹورتے ہیں۔ اسی طرح اس معاملے میں ہر
ایک نے خوب مال بنایا ہے۔
حمزہ شہباز شوق کے اعتبار سے بالکل اپنے باپ پر گیا ہے۔ جیسی باپ کی شہرت
ہے ویسی ہی حمزہ کی بھی ہے۔ دونوں حُسن کے پُجاری اور شکاری ہیں۔ بس حمزہ
ایک بات سے مار کھا گیا ہے جس کے باعث وہ ابھی تک لاولد ہے۔ ہو سکتا ہے کہ
اس کی سیاسی بصیرت و صلاحیت بہت زیادہ ہو مگر اس کی اور بہت سی صفات اور
صلاحیتیں انتہائی محدود ہیں۔ جب کوئی کوئی شخص کسی چیز سے لطف اندوز ہونے
کی صلاحیت سے محروم ہو تو پھر وہ انتقامی سوچ کا مالک بن جاتا ہے اور اس
چیز کو یہ سوچ کر برباد کرنے پر تُل جاتا ہے کہ اگر یہ چیز میرے کسی کام کی
نہیں تو کسی اور کے ہاتھ بھی نہ لگے۔ سو عائشہ احد کی طرح کئی اور خواتین
بھی حمزہ کے استحصال کا نشانہ بنی ہیں۔ باقی خواتین تو خیر شریف گھرانوں کی
ہیں جو عزت کے مارے باہر آ کر نہیں بولتیں۔ دُوسرے سچ بولنے کی پاداش میں
اُنہیں جن خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اُس کا ہم تصور بھی نہیں
کر سکتے۔
حمزہ کی ہوس ناکیوں کا شکار عورتوں کے مقابلے میں عائشہ ایک مختلف کردارہے۔
اُس کے گھرانے کا تعلق ایک مخصوص علاقے سے تھا۔ وہ ایسی عورتوں کی قبیل سے
ہے جو راہ چلتے کسی بھی مرد کا گریبان پکڑ کر اُسے زد وکوب کر سکتی ہیں،
اُس کی ماں بہن کی شان میں ہزاروں صلواتیں سُنا سکتی ہے۔ اُس نے بقائمی ہوش
و حواس اور پلاننگ کے تحت حمزہ شہباز سے تعلقات اُستوار کیے تاکہ وہ زیادہ
سے زیادہ مال بٹور سکے دُوسرے اُس کا منتہائے مقصود حمزہ نہیں، بلکہ اُس کا
شوقین مزاج والد شہباز شریف تھا۔ اُس نے اختیار و اقتدار کی اُونچائی پر
براجمان شہباز شریف تک پہنچنے کے لیے حمزہ کو بطور زینہ استعمال کیا۔ عائشہ
حمزہ کی عیاش طبیعت سے بخوبی واقف تھی۔ اس لیے اُسے اپنے قابو میں رکھنے کے
لیے نکاح پر زور دیا۔ حمزہ بھی کایاں شخص تھا۔ نکاح ضرور ہوا مگر یہ نکاح
جعلی تھا۔ اور اس کا کہیں اندراج بھی نہیں ہوا۔ تبھی تو عائشہ احد کی کوئی
سُنوائی نہیں ہو رہی۔ دونوں کے درمیان معاملات ٹھیک ہی چل رہے تھے۔ عائشہ
احد نے حمزہ شہباز کی جانب سے خرچ کیے گئے عوام کے پیسوں پر خوب عیاشی کی۔
مگر حمزہ کی ہوسناک طبیعت کسی جگہ ٹکتی ہی نہیں۔ اور بے شرمی کی انتہا تب
ہوئی جب اُس نے امریکا میں قیام کے دوران عائشہ احد کی پہلی شادی سے جنمی
کم سن بیٹی کا دامنِ عصمت تار تارکرنے کی کوشش کی۔ یہی وہ نقطۂ نزاع تھا جس
کی بناء پر ان دونوں میں اختلافات کی خلیج حائل ہو گئی۔ حمزہ کو اپنی شہوت
پرست طبیعت کے لیے کوئی کمی نہ تھی۔ اُس نے بھی موقع غنیمت جان کر عائشہ سے
کنارہ کشی اختیار کر لی۔ عائشہ احد کو بین الاقوامی معیار کی عیاشی کی عادت
پڑ گئی تھی۔ گزارا کیسے ہوتا؟ سو اُس نے حمزہ سے پیسوں کا تقاضا کرنا شروع
کر دیا۔ جب حمزہ نے پکڑائی نہ دی تو عائشہ احد میدان میں کُود پڑی اور
میڈیا پر آ کر اپنی نام نہاد مظلومیت کی دُہائیاں دینا شروع کر دیں۔ حمزہ
اور اس کے باپ نے اپنے غنڈوں اور پولیس کے ذریعے عائشہ کو خاموش کروانے کی
بہتیری کوشش کی مگر عائشہ کا دھندا ہی بلیک میلنگ اور دیہاڑی لگانا ہے۔ اس
کا گزارا ہی اسی میں ہوتاہے۔ سو وہ مقصد پُورا ہونے تک کیسے چُپ بیٹھتی۔
خیر کچھ دے دلا کر وقتی طور پر معاملہ دبایا جاتا رہا۔ الیکشن کی آمد کے
موقع پر عائشہ کو واویلا مچا کر دیہاڑی لگانے کا بہت عمدہ خیال سُوجھا۔ جسے
چیف جسٹس کے ممبر میں تکمیل کا لباس پہنایا گیا۔ بدقسمتی سے ہمارے معزز جج
ایک ایسے کیس میں گارنٹر بنے ہیں جو ایک پنڈورا باکس تھا جسے کھُل کر عوام
کے سامنے آنا چاہیے تھا اور شریفوں کے بظاہر معصوم چہروں کے پیچھے چھُپے
راسپوٹین ظاہر ہو جاتے۔ یہ کیس دُنیا کے سامنے عبرت بن جاتا۔ یورپ والے آج
زنا سے بچنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ وہاں پر ایک عورت تک محدود رہنے کی مہم
چلائی جا رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں صاحبانِ اختیار کو محض وارننگ دے دی جاتی
ہے۔ حالانکہ ہمارے مذہب میں غیر شرعی تعلقات پر سخت سزا کا حکم دیا گیا
ہے۔شاید چیف جسٹس صاحب کا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ حمزہ کے لیے مسئلہ گھر
کو اُجڑنے سے بچانے کا نہیں، بلکہ عین الیکشن کے دوران اپنی نام نہاد ساکھ
بچانے کا تھا۔اگرعائشہ احد کا مقدمہ چلتا رہتا تو وقت کے ساتھ ساتھ اور بہت
سے سربستہ راز باہر آ جاتے۔ بے شمار مظلوم عورتیں جو حمزہ شہباز اور اس کے
باپ کی ہوس ناکی کا نشانہ بنی ہیں، سب کے قصّے طشت از بام ہو جاتے۔وہ
عورتیں بھی ہمت کر کے بول پڑتیں جنہیں حمزہ اور اس کے باپ نے مغل بادشاہوں
کی طرح اپنے اپنے حرم میں زبردستی نکاح کر کے یا بغیر نکاح کے رکھا ہوا ہے۔
ان عورتوں کی زندگی بہت اجیرن اور دہشت ناک بن کر رہ گئی ہے۔ کالجوں سے
لڑکیوں کی سپلائی سے لے کر وزیر اعلیٰ ہاؤس، پولیس ڈیپارٹمنٹ اور کئی اور
طبقوں کی شریف عورتیں اپنے استحصال کی کہانیاں بیان کرنے کو تیار ہو جاتیں۔
چیف جسٹس کی جانب سے نام نہاد مصالحت کا ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ سوسائٹی
کے بااثر افراد ذہنی اور اخلاقی کرپشن کریں تو ان سے صرفِ نظر کیا جائے۔ ان
کی پردہ پوشی کی جائے۔ حالانکہ لوگوں کو پتا چلنا چاہیے کہ اُن کا کون کون
سا لیڈر کردار کے اعتبار سے کتنا گھناؤنا اور اخلاق باختہ ہے۔ حمزہ اس وقت
پنجاب کی وزراتِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ سوچیں جب
اس کے پاس پُورے اختیارات ہوں گے تو یہ معاشرے میں کس قدر بے راہروی اور
گند پھیلائے گا۔اس کیس کو معاشرے کے بااثر طبقات کی جنسی کج روی کے سدباب
کے لیے ایک تازیانے کی مثال ہونا چاہیے تھا۔ یوں لگتا ہے کہ مظلوم عورتوں
کی استحصال زدہ رُوحیں اور اُن کی سسکیاں جبر کے گورستان میں ہی ہمیشہ
ہمیشہ کے لیے دفن ہو کر رہ گئی ہیں۔ |