سلطنت عباسیہ کی رخصتی کے بعد نگران حکومت کی نگرانی میں
الیکشن کمیشن آف پاکستان عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف عمل ہے جو کہ
اگر کوئی ناگہانی صورت حال پیش نہ آئی تو یقینا 25جولائی کو ہونے جارہے ہیں
ان عام انتخابات میں وطن عزیز کی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں طبع آزمائی کر
رہی ہیں ملک کے منظر نامہ میں تین بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن ،پاکستان پیپلز
پارٹی اور تحریک انصاف اگلی حکومت بنانے کے بلند و بانگ کر رہی ہیں ان
پارٹیوں کے دعوے میں کتنا دم خم ہے قبل از وقت کہنا ذرا مشکل کام ہے ان
جماعتوں کے علاوہ ایم کیوایم جو کئی حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے وہ بھی کراچی
اور حیدر آباد کے علاوہ اندرون سندھ میں بھی نشستیں حاصل کرنے کے دعویدار
ہے اگر مہاجر ووٹ تقسیم ہوگیا تو یقینا ان کی نشستیں پہلے سے بھی کم ہو
جائیں گی اندرون سندھ سابقہ حکمران جماعت پی پی کے مد مقابل گرینڈ الائنس
بنا یاگیا ہے اس اتحاد میں فنگشنل مسلم لیگ سمیت قوم پرست جماعتیں اور اور
انٹی بھٹو شخصیات شامل ہیں پی ٹی آئی بھی اس اتحاد کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹ منٹ
کی خواہاں ہے گرینڈ الائنس بننے سے بظاہرپی پی پی کو مشکلات کا سامنا کرنا
پڑ رہا ہے لیکن سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے پی پی اپنی سابقہ نشستیں مشکل
حالات میں بھی بچانے میں کامیاب ہو جائے گی مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ
مجلس عمل خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے ،عوامی
نیشنل پارٹی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں بھی عام انتخابات میں حصہ لے
رہی ہیں سابق صدر پرویز مشرف کی نگرانی میں بننے والی پاکستان مسلم لیگ
قائد اعظم جس کے کرتا دھرتا چوہدری برادران ہیں آنے والے عام انتخابات میں
چوہدریوں کو اپنی سیٹیں بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اپنی سیاسی بقا کے لئے
پی ٹی آئی سے سیٹ ایڈ جسٹ منٹ کرنے پہ مجبور دکھائی دیتے ہیں ماضی کی تاریخ
گواہ ہے کہ مرکز میں حکومت وہی بناتے ہیں جنہیں پنجاب کے لوگ اپنے سر
آنکھوں پہ بیٹھاتے ہیں پنجاب میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان بڑا
دنگل ہونے جارہا ہے پاناما کے بعد سابقہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو شدید
مشکلات کا سامنا ہے باجود اس کے کہ ہوائیں ان کے خلاف چل رہی ہیں ان کے پاس
بڑے بڑے نام ہیں جو اب بھی جیتنے کی پوزیشن میں ہیں سیاسی پنڈتوں کا خیال
ہے مسلم لیگ ن اور پی پی پی پنجاب کی سطح پہ خاموش مفاہمت کے ساتھ سیٹ
ایڈجسٹ منٹ کی طرف جائیں گے جس سے پی پی پی کے مردہ گھوڑے میں پھر سے جان
پڑجائے گی خاموش یا اعلانیہ سیٹ ایڈجسٹ منٹ پی ٹی آئی کیلئے درد سر بن جائے
گی اور یہی درد سر عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے لئے حکومت سازی میں
’’عذاب ‘‘بن جائے گا ،مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی مٖفاہمت میں سب سے بڑی
رکاوٹ چکری کے چوہدری نثار علی خان تھے جو آج کل چکرا کے رہ گئے ہیں ’’شریفوں‘‘
سے اپنی راہیں جدا کر چکے ہیں اگر ان دو بڑی جماعتوں کے درمیان کسی بھی شکل
میں مفاہمت ہوتی ہے توپھر سینیٹ میں یہ دو جماعتیں نہ صرف اپنا چیئر مین
لانے میں کامیاب ہو جائیں گی بلکہ دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر
قانون سازی میں بھی اہم کردارادا کرنے کی پوزیشن میں ہونگی،پی ٹی آئی جو
تبدیلی کی خواہاں ہے عام انتخابات کے لئے اپنے نظریاتی لوگوں کو پیچھے
دھکیل کر روایتی اور الیک ٹیبل افراد کو سیاسی اکھاڑے میں اتارچکی ہے یہ
الیک ٹیبل وہ ہیں جو پچھلی سابقہ حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور پھر سے اقتدار
کی ہوس نے انہیں اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پہ مجبور کردیا ہے جو کل
تک شریفوں کے گیت گاتے تھکتے نہیں تھے آج ان کی زبانیں ’’شریفوں‘‘ کے لئے
انگارے برسا رہی ہیں ووٹر سوچنے پہ مجبور ہیں کہ یہ الیک ٹیبل اپنے اقتدار
کے لئے کیسے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں تحریک انصاف کے نظریاتی جو پچھلی دو
دہائیوں سے کپتان کے ہرحکم پہ اپنی جان تک نچھاور کرنے سے بھی گریز نہیں
کرتے تھے خان نے اقتدار کے لئے ان کی ساری قربانیوں کو فراموش کردیا سابقہ
حکومت کے خلاف دھرنا دینے والے بھی اپنی ہی جماعت کے مخلص کارکنوں کے دھرنے
کا سامنا کرنے پہ مجبور دکھائی دیتے ہیں ٹکٹوں کی غلط تقسیم کے باعث پی ٹی
آئی کے کارکن بنی گالہ میں احتجاجی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں خان صاحب کی سیاسی
بصیرت کا اندازہ تو دیکھیں دھرنا کے شرکاء سے خطاب کے دوران فرماتے ہیں یہ
دس ہزار کارکن ہیں اگر دس لاکھ کارکن بھی دھرنادیں گے تب بھی اپنا فیصلہ
تبدیل نہیں کروں گا پنجاب میں پی ٹی آئی کو غیروں سے زیادہ اپنوں کی مخالفت
کو سامنا کرنا پڑے گا پی ٹی آئی کے یہی’’ اپنے ‘‘پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز کی
شکست کا باعث بنیں گے۔ |