تحریر: فائزہ خالد، ڈسکہ
خود غرضی کا عام فہم مطلب ہے، صرف اپنے متعلق، اپنی ذات اور مفاد کے بارے
میں سوچنا۔ دنیاوی معاملات میں تو انسان خود غرضی کا مظاہرہ کرتا ہی ہے مگر
حد تو ہے کہ اﷲ تعالی کی بارگاہ میں خود غرضی کا عنصر لے کر حاضر ہوتے ہیں۔
خود غرضی اور مفاد پرستی تو ہم انسانوں میں کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہے۔ ہم جب
بھی کسی مصیبت میں ہوتے ہیں تو اﷲ کی بارگاہ میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ اس کی
ذات سے مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔
اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اﷲ تعالیٰ سے مانگنا نہیں چاہیے بلکہ ہمیں
اﷲ تعالی سے ہی مانگنا چاہیے ۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات ہی کی طرف طرف رجوع کرنا
چاہیے۔ وہی تو ہے جو ہر چیز پر قادر ہے، ہر چیز اسی کی دی ہوئی ہے ۔ ہماری
جان، مال، عزت، شہرت الغرض دنیا میں موجود ہے پر نعمت ہمیں اسی مالک نے
عنایت کی ہے۔ وہ ہماری خوشی اور مسرت کا باعث بھی بنتی ہے۔ ہمارے پاس موجود
ہر چیز کا حقیقی مالک اﷲ ہی ہے۔ تو ایسے میں ہم اﷲ عزوجل سے نہیں مانگیں گے
تو اور کس سے مانگیں گے۔
یہاں پر خود غرضی کا پہلو یہ ہے کہ ہم اﷲ تعالی سے صرف اس وقت مانگتے ہیں
جب ہم کسی مجبوری، مشکل یا مصیبت میں ہوتے ہیں۔ یعنی جیسے ہی ہماری مصیبت
ٹلتی ہے ہم فورا ہی منہ موڑ کر دنیا میں لگ جاتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کو یکسر
بھلا دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہماری عبادتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے، وہ تو بے
نیاز ذات ہے۔ ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادات سے تو کہیں زیادہ عبادات اس کی دیگر
مخلوقات کرتی ہیں جو ہر وقت رب کائنات کی ذات کے لیے ثنا خوانی کرتی رہتی
ہے اور بالکل بھی نہیں تھکتی۔
جب ہم 5 وقت اس کے سامنے جھکتے نہیں، جب وہ ہمیں پکارتا ہے ہمیں بھلائی اور
فلاح کی طرف بلاتا ہے اور ہم اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں ، جب
ہم اس کے احکامات بجا نہیں لاتے تو ہم انسانوں کو اس عظیم ہستی سے مانگتے
ہوئے شرمندگی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ہمیں نوازتا چلا جاتا ہے اور ہم اس کی
نافرمانی کرتے چلے جاتے ہیں۔ دن میں محض 5 مرتبہ ہمیں اس کے سامنے جھکنا
ہوتا ہے اور ہمارے لیے یہ بھی مشکل امر ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے اس بات کا
احساس ہوتا ہے کہ جب ہمیں کوئی کام پڑتا ہے تو ہم دعا مانگنا شروع کر دیتے
ہیں اسے یاد کرنے لگتے ہیں اور جب کام ہو جائے تو پھر بھول جاتے ہیں یہ اگر
خود غرضی نہیں تو اور کیا ہے؟ اور تو اور جو تھوڑی بہت عبادت ہم کرتے ہیں
تو وہ بھی صرف اس ڈر سے کہ اگر ہم یہ نہ کریں گے تو ہمیں آخرت میں سزا ملے
گی ۔
اگر بات خوف الہٰی کی ہے تو یقینا ڈرنا بہت اچھی بات ہے، یہیں وہ ڈرت ہے جو
ہمیں برائی سے روکتا ہے ، فقط اﷲ تعالی کی ذات سے ڈرنا چاہیے ناکہ سزاؤں کے
ڈر سے عبادت کرنی چاہیے۔ اس صورت میں تو ہم پھر سے فقط اپنے متعلق ہی سوچ
رہے ہوتے ہیں ہمیں اﷲ تعالی کی عبادت اس لیے کرنی چاہیے کیونکہ عبادت ہم پر
اﷲ تعالیٰ کا حق ہے۔ ہمیں اس کی رحمت، محبت اور نعمتوں کے بارے میں سوچنا
چاہیے اس کے رنگ میں رنگ جانا چاہیے۔ اس سے محبت اور عقیدت رکھنی چاہیے۔ در
حقیقت ہماری محبت اور عقیدت کا انداز یہ ہونا چاہیے کہ ہماری عبادات میں
لذت پیدا ہو جائے۔ ہمیں نہ صرف اﷲ تعالی سے محبت کرنی چاہیے بلکہ ان سب سے
بھی لگاؤ رکھنا چاہیے جو اس کو محبوب ہیں اور ہمیں ہمیشہ اس کی رضا اور
خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔ صرف اسی صورت میں ہماری ابتدا
بھی خلوص پر ہوگی اور انتہا بھی۔
عبادت کے دو اہم اصول یہ ہیں کہ اﷲ کی عبادت اس رب کائنات سے ڈرتے ہوئے اور
امید جنت رکھتے ہوئے کی جائے۔ ایسی عبادت کریں جو متواتر ہو اگرچے وہ کم
کیوں نہ ہو۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ عبادت بغیر
کسی لالچ، مجبوری اور مشکل کے ہوگی۔ یعنی عبادت ایسی ہو کہ جو ہر وقت ہو،
خوشی، غمی میں۔ تو آج سے ہی یہ عہد کریں کہ ہم اپنی عبادات کو موسمی بنانے
کے بجائے صدابہار بنائیں گے۔ یاد رکھیں! عبادت کا لطف ہی وہی ہے جس میں صرف
رب کائنات سے محبت اور اخلاص کا پہلو ہو۔
خودغرضی میں ڈوبی وفا کا ڈھونگ بھی رچایا
نہ اپنی ذات کو بدلا نہ اس کی ذات کو پایا
اس ہی دسترس میں فائزہ کچھ ہاتھ نہیں آیا
یہی اک بات ہے شاید جو کوئی سمجھ نہیں پایا
|