مقدمہ
الحمد لله رب العلمین و الصلاۃ والسلام علی امام المتقین، وقائد الغر
المحجلین، سیدنا محمد علیه افضل الصلاة و التسلیم.
أما بعد!
بلا شبہ خیر و حكمت کی کوئی بات ایسی نہیں ہے جس سے نبىصلى الله عليہ وسلم
نے ہمیں آگاہ نہ فرمایا ہو۔اور نہ ہی شر کی کوئی ایسی بات ہے جس سے ہمیں
منع نہ فرمایا ہو۔جيسا کہ کھانا اور پیناانسان کی بنیادی ضرورت ہےاورانسانی
صحت كا دارومدار اچھی صحت اور اسکے طریقہ استعمال پر ہے۔ اورچونکہ آپ صلى
الله عليہ وسلمکی تعلیمات میں انسان کے لئے بہترین رہنمائی موجودہے اس
لیےہمیں کھانےپینے،اٹھنے بیٹھنے کےلیے راہنمائی حاصل کرنے کے لیےآپ کی سیرت
کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
کھانے کے آداب کی اہمیت کے پیش نظر ناچیز نے مختصر رسالہ ترتیب دیا ہے جس
میں کھانے کے آداب کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مختصر طور پر بیان کیا ہے۔
یہ رسالہ درج ذیل مباحث پر مشتمل ہے۔
پہلامبحث: کھانا شروع کرنےسے پہلے کے آداب
کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا
کھانا کھانے سے پہلے دعا پڑھنا
کھانا کھاتے وقت سنت طریقے سے بیٹھنا
کھانے میں عیب نہ نکالنا
نماز عشاء سے پہلے کھانا کھانا
دوسرا مبحث :کھانا کھانے کے دوران کے آداب
دائیں ہاتھ سے کھانا
جوتے اتار کر کھانا کھانا
اپنے سامنے سے کھانا کھانا
تین انگلیوں سے کھانا کھانا
گرے ہوئے لقمے کو کھانا
کھانے کے دوران ڈکار کو روکنا
بیٹھ کر کھانا پینا
مل کر کھانا
کھانے میں اگر مکھی گر جائے تو اسے ڈبو کر باہر نکالنا اور کھانا کھا لینا
تیسرا مبحث :کھانا کھانے کے بعد کے آداب
دھونے سے پہلے انگلیوں کو چاٹنا
کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونا
کھانے کے بعد کلی کرنا اور منہ دھونا
کھانے سےفارغ ہونے کے بعد اللہ کی تعریف کرنا اور مسنون دعائیں پڑھنا
کھانا کھانے کے بعد برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنا
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہماری اس ادنیٰ سی کوشش کو اپنی بارگاہ میں شرف
قبولیت سے نوازےاور سنت رسول پر چل کر اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی توفیق
عطا فرمائے۔
العبد الفقیر
محمد نادروسىم
پہلامبحث: کھانا شروع کرنےسے پہلے کے آداب
نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے کھانےپینےکے جوآداب بیان فرمائے ہیں ان میں
حفظان صحت کے اصول بھی مضمر ہیں اور دنیا و آخرت کی بھلائی بھی ہے۔ احادیث
مبارکہ میں کھانا شروع کرنے سے پہلے کے جو آداب بیان کیے گئے ہیں وہ درج
ذیل ہیں۔
کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا
بلاشبہ انسانی جسم میں میل کچیل سے سب سے زیادہ ملوث ہونے والے اعضاء ہاتھ
ہیں۔انکی صفائی میں غفلت برتنے سے جراثیم جلد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل
ہوتے ہیں۔اور ان کو صاف رکھنے سے کافی حد تک جراثیم کی منتقلی پر قابو پایا
جاسکتا ہے۔نبی صلى الله عليه وسلم نے بہت سی جگہوں پر ہاتھوں کی صفائی پر
زور دیا ہے۔اس لئے کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کا حکم فرمایا:۔چنانچہ
حضرت سلمان فارسی رضى الله تعالى عنہ فرماتے ہیں
﴿قرأت في التوراة بركة الطعام الوضوء بعده، قال فذكرت ذلك لرسول الله صلى
الله عليه وسلم وأخبرته بما قرأت في التوراة فقال بركة الطعام الوضوء قبله
والوضوء بعده﴾۔
میں نے تو رات میں پڑھا تھا کہ کھانے میں برکت یہ ہے کہ اسے کھانے سے پہلے
وضو کیا جائے۔میں نے یہ بات نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے کی تو آپ نے
فرمایا: کھانے میں برکت کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں وضو کرنے سے آتی
ہے۔
﴿الوضوء قبل الطعام وبعده مما ينفي الفقر، وهو من سنن المرسلين﴾۔
کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں وضو کرنے سے فقر دور ہوتا ہے اور یہ عمل
انبیاء کی سنت ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم
نے فرمایا:
﴿من أحب أن يكثر الله خير بيته، فليتوضأ إذا حضر غداؤه، وإذا رفع﴾۔
جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کے گھر میں برکت میں اضافہ فرمائے تو اسے
چاہیے کہ جب کھانا حاضر ہو تو اس سے پہلے اور بعد میں وضو کرے۔
کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے میں حکمت
ملا علی قاری کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی اہمیت کے بارے میں فرماتے
ہیں۔نعمت کا طہارت کے ساتھ استقبال کرنے میں حکمت؛ اس کی تعظیم کرنا
ہے۔جیسا کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿إنما بعثت لاتمم مكارم الأخلاق﴾
مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔
لہذاکھانے سے پہلےدونوں ہاتھوں کو دھونا چاہئے، تا کہ دونوں ہاتھ کھانے کے
دوران صاف ستھرے ہوں، کہیں پہلے سے موجود ہاتھوں پر میل کچیل کی وجہ سے
نقصان نہ ہو۔
کھانا کھانے سے پہلے دعا پڑھنا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم
صلى الله علیہ وسلمنے فرمایا:
﴿إذا أكل أحدكم طعاما فليقل بسم الله، فإن نسي في أوله فليقل بسم الله في
أوله وآخره﴾۔
جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اللہ کا نام لے، اور اگر اللہ تعالی کا
نام لینا ابتدا میں بھول جائے تو کہے﴿بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ
وَآخِرَهُ﴾اول و آخر اللہ کے نام سے۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں۔
﴿كان النبي صلى الله عليه وسلم يأكل طعاما في ستة من أصحابه، فجاء أعرابي
فأكله بلقمتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أما إنه لو سمى لكفاكم﴾۔
نبی اکرم صلى الله علیہ وسلمچھ صحابہ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے، اچانک ایک
اعرابی آیا اور دو لقموں میں پورا کھانا کھا لیا، رسول اللہ صلى الله علیہ
وسلمنے فرمایا:"اگر اس نے" بسم اللہ" پڑھ لی ہوتی تو یہ کھانا تم سب کے لیے
کافی ہوتا۔
حضرت امیہ بن فخشی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں :
﴿كان رسول الله- صلى الله عليه وسلم - جالسا ورجل يأكل، فلم يسم حتى لم يبق
من طعامه إلا لقمة، فلما رفعها إلى فيه قال: باسم الله أوله وآخره، فضحك
النبي -صلى الله عليه وسلم- ثم قال: ما زال الشيطان يأكل معه، فلما ذكر اسم
الله استقاء ما في بطنه﴾۔
ایک شخص بسم اﷲ شریف پڑھے بغیر کھانا کھارہا تھا ۔جب کھانا کھا چکا اور صرف
ایک لقمہ باقی رہ گیا تو اس نے آخری لقمہ اٹھایا اور یہ کہا بسم الله أوله
وآخره (یہ دیکھ کر)رسول اﷲ ﷺ نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ شیطان اس
کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا ۔لیکن جب اس نے اﷲ تعالیٰ کا اسمِ گرامی لیا تو
شیطان نے وہ سب کچھ جو اس کے پیٹ میں تھا اگل دیا یعنی جو برکت چلی گئی تھی
واپس آ گئی۔
کھانا کھاتے وقت سنت طریقے سے بیٹھنا
چونکہ بیٹھنے کی ہیئت کا کھانے کے ہضم ہونے اور جزوجسم بننے میں گہرا اثر
ہوتا ہے۔اسلیے نبی صلى الله علیہ وسلمنے دسترخوان پر بیٹھنے کا طریقہ بھی
بیان فرمایا ہے۔۔آپ نے بیٹھنےکے جو طریقے بیان فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
حضرت انس بن مالك رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
﴿رأيت النبي صلى الله عليه وسلم مقعيا يأكل تمرا﴾۔
ميں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صلى الله علیہ وسلمكو كهجور كهاتے
ہوئے ديكها كہ آپ سرين كے بل بیٹھے ہوئے اور اپنے دونوں پیر کھڑے کیے ہوئے
تھے۔
حضرت انس بن مالك رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
﴿أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بتمر، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم
يقسمه وهو محتفز، يأكل منه أكلا ذريعا﴾۔
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صلى الله علیہ وسلم كے پاس کھجور لائی گئ،نبی
صلى الله علیہ وسلماسے اس حال میں تقسیم فرما رہے تھے کہ آپ اکڑوں بیٹھے
تھے اور تیزی سے چھوہارے کھارہے تھے۔
حضرت عبد الله بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
﴿أهديت للنبي - صلى الله عليه وسلم - شاة، فجثا رسول الله صلی اللہ علیہ
وسلم - صلى الله عليه وسلم - على ركبتيه يأكل، فقال أعرابي ما هذه الجلسة؟
فقال "إن الله جعلني عبدا كريما، ولم يجعلني جبارا عنيدا﴾۔
میں نے نبى اكرم صلى الله علیہ وسلمكى خدمت ميں ايك بكرى ہدیہ كےطور پر
بهيجى ۔آپ صلى الله علیہ وسلمگھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے کھانے لگے۔ایک
اعرابی کہنے لگا بھلا یہ بیٹھنے کا کون سا طریقہ ہے؟ تو نبی اکرم صلى الله
علیہ وسلمنے فرمایا: “اللہ تعالیٰ نے مجھے نیک(متواضع) بندہ بنایا ہے، مجھے
جبار و سرکش نہیں بنایا ہے” ۔
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلى الله علیہ وسلمنے
فرمایا:
﴿كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال لرجل عنده لا آكل وأنا متكئ﴾۔
آپ صلى الله علیہ وسلمنے ایک شخص سے فرمایا: کہ میں ٹیک لگا کر کھانا نہیں
کھاتا۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں بیٹھنے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ گھٹنوں کے بل
بیٹھےاور پاؤں باہر نکلے ہوں یا دایاں پاؤں بچھالے اور بائیں پر بیٹھ جائے۔
کھانے میں عیب نہ نکالنا
سیرت نبوی میں سے ہمیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ کھانے میں عیب نکالنے کو
نہایت ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ہو سکتا ہے کہجس کھانے کوہم ناپسند کر رہے
ہوں اللہ تعالی نے اس میں ہمارے لیےکوئی بڑا فائدہ رکھا ہو۔
کھانے میں عیب نکالنے سے منع کرنے میں حکمت یہ ہے کہ کھانے میں عیب نکالنے
سے میزبان کوشرمندگی ہوتی ہے اوراسے تیار کرنے والے کو دکھ پہنچتا ہے۔
حالانکہ مومن کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان
محفوظ رہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
﴿ما عاب النبي طعاما قط﴾
نبی صلى الله علیہ وسلمنے کھانے میں کبھی عیب نہیں نکالا۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں اس سے مراد مباح کھانے میں عیب نکالنا ہے۔حرام
کھانے میں آپ صلی اللہ وسلم عیب نکالتے تھے، اس کی برائی بیان کرتے تھے اور
اسےکھانے سے منع بھی فرماتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
﴿ما عاب النبي صلى الله عليه وسلم طعاما قط، إن اشتهاه أكله وإلا تركه﴾۔
نبی صلى الله علیہ وسلمنے کھانے میں کبھی عیب نہیں نکالا اگر دل چاہتا تو
کھا لیتے اگرنہ چاہتا تو چھوڑ دیتے۔
نماز عشاء سے پہلے کھانا کھانا
آپ صلى الله عليه وسلم کی سیرت سے یہ را ہنمائی بھی ملتی ہے کہ آپ صلى الله
علیہ وسلمکھانے کو نماز پر مقدم کرتے خاص طور پر جب آپ کا دل کھانے کی طرف
راغب ہوتا اور نماز کے فوت ہونے کا ڈر بھی نہ ہوتا تو اس صورت میں کھانے کو
نماز پر مقدم فرما لیتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلى الله علیہ وسلمنے
فرمایا:
﴿إذا وضع العشاء وأقيمت الصلاة، فابدءوا بالعشاء﴾۔
اگر شام کا کھانا سامنے رکھا جائے اور ادھر نماز کے لیے تکبیر بھی ہونے لگے
تو پہلے کھانا کھا لو۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ صلى الله علیہ
وسلمنے فرمایا:۔
﴿إذا كان أحدكم على الطعام، فلا يعجل حتى يقضي حاجته منه، وإن أقيمت
الصلاة﴾۔
نبی صلى الله علیہ وسلمنے امت کو یہ درس دیا ہے کہ پہلے کھانا کھالیں اس کے
بعد نماز ادا کریں تاکہ نماز کو خشوع وخضوع سے ادا کرسکیں۔ جمہور علماء نے
اسے مستحب قرار دیا ہے۔
دوسرا مبحث :کھانا کھانے کے دوران کے آداب
دائیں ہاتھ سے کھانا
دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا سنت ہے اور بائیں ہاتھ سے کھانا منع ہے، چنانچہ
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلى الله علیہ وسلمنے فرمایا:
﴿إذا أكل أحدكم فليأكل بيمينه، وإذا شرب فليشرب بيمينه فإن الشيطان يأكل
بشماله، ويشرب بشماله﴾۔
تم میں سے کوئی کھانا کھائے یا (پانی وغیرہ) پیےتو دائیں ہاتھ سے کھائے
پیے، اس لئے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ نبی صلى الله علیہ وسلمنے فرمایا:
﴿لا يأكلن أحد منكم بشماله، ولا يشربن بها، فإن الشيطان يأكل بشماله، ويشرب
بها ﴾۔
تم میں سے کوئی بائیں ہاتھ سے نہ کھائے اور نہ ہی پیےتو دائیں ہاتھ سے
کھائے پیےپس بے شک شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے۔
جوتے اتار کر کھانا کھانا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
﴿إذا وضع الطعام، فاخلعوا نعالكم، فإنه أروح لأقدامكم﴾۔
جب کھانا رکھا جائے تو اپنے جوتے اتار دو کہ یہ تمہارے قدموں کی راحت کا
باعث ہے۔
یعنی جب کھانا کھانے کے لیے سامنے رکھا جائے توجوتے اتار دیں جوتا پہن کر
کھانا نہ کھائیں ننگے پاؤں کھانا کھانا مفید بھی ہے اور اس میں کھانے کا
ادب بھی۔
اپنے سامنے سے کھانا کھانا
مسلمان کیلئے مسنون ہے کہ اپنے سامنے موجود کھانے میں سے کھائے، اور دوسروں
کے سامنے سے ہاتھ بڑھا کر نہ اٹھائے، اور نہ ہی کھانے کے درمیان میں سے
کھائے۔
حضرت عمر بن ابو سلمہ فرماتے ہیں
﴿كنت غلاما في حجر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صلى الله عليه وسلم، وكانت
يدي تطيش في الصحفة، فقال لي رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صلى الله عليه
وسلم يا غلام، سم الله، وكل بيمينك، وكل مما يليك﴾۔
میں جب چھوٹا تھا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی گود میں بیٹھا تھااور
میرا ہاتھ پوری تھالی میں گھوم رہا تھا، تو مجھے رسول اللہ صلى الله علیہ
وسلمنے فرمایا:اےلڑکے! اللہ کا نام لو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور جو
تمہارے سامنے ہے اس میں سے کھاؤ۔
ویسے بھی کھانے کے دوران اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے افراد کے سامنے سے کھانا
کھانا بری عادت ہے، اور مُروَّت کے خلاف ہے ۔
کھانے کےدرمیان میں سے کھانا بھی آداب کے خلاف ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما
سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلمنے فرمایا:
﴿البركة تنزل وسط الطعام، فكلوا من حافتيه، ولا تأكلوا من وسطه﴾۔
برکت کھانے کے درمیان میں نازل ہوتی ہےاس لیےکھانے کے کنارے سے کھاؤ،
درمیان سے مت کھاؤ ۔
گرم کھانا کھانے، اس میں سانس لینے اور پھونک مارنے سے پرہیز کرنا
پانی پینے کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ اگر ایک سے زیادہ سانس میں پانی
پینا ہو تو برتن میں سانس لینے کی بجائے برتن منہ سے ہٹا کر سانس لیں۔
﴿أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن النفخ في الشرب فقال رجل: القذاة
أراها في الإناء؟ قال: أهرقها، قال: فإني لا أروى من نفس واحد؟ قال: فأبن
القدح إذن عن فيك﴾۔
نبی نے پینے والی چیز میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ایک شخص نے نبی سے
سوال کیا کہ میں ایک سانس میں سیراب نہیں ہوتا نبی نے فرمایا: پیالہ کومنہ
سے دور کرکے سانس لو۔
تین انگلیوں سے کھانا کھانا
سنت یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھانا کھایا جائے، قاضی عیاض کہتےہیں کہ تین
سے زیادہ انگلیاں کھانے کیلئے استعمال کرنا بری عادت ہے، اور ویسے بھی لقمہ
پکڑنے کیلئے تین اطراف سے پکڑنا کافی ہے، اور اگر کھانے کی نوعیت ایسی ہو
کہ تین سے زیادہ انگلیاں استعمال کرنی پڑیں تو چوتھی اور پانچویں انگلی بھی
استعمال کی جاسکتی ہے۔
گرے ہوئے لقمے کوصاف کر کے کھالینا
اگر کھانا کھاتے ہوئے لقمہ گر جائے تو لقمہ اٹھا کر اس پر لگی ہوئی مٹی
وغیرہ صاف کرکے اسے کھا لیں اور شیطان کیلئے مت چھوڑیں، کیونکہ یہ کسی کو
نہیں پتا کہ کھانے کے کس حصے میں برکت ہے، اس لئے یہ ممکن ہے کہ اسی لقمے
میں برکت ہو جو گر گیا تھا، چنانچہ اگرگرے ہوئے لقمے کو چھوڑ دیا تو ہوسکتا
ہے کہ اس سے کھانے کی برکت چلی جائے۔
آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک بار فرمایا:
﴿إذا وقعت اللقمة من يد أحدكم، فليمسح ما عليها من الأذى، وليأكلها﴾۔
اگر تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اس سے صاف کرکے کھا لے، شیطان کیلئے
اسے مت چھوڑے۔
اور آپ صلى الله علیہ وسلمنےفرمایا:
﴿إذا أكل أحدكم فليلعق أصابعه، فإنه لا يدري في أيتهن البركة﴾۔
تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اپنی انگلیوں کو چاٹ لے،تمہیں نہیں معلوم کہ
کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔
کھانے کے دوران ڈکار کو روکنا
کھانے کے دوران ڈکار لینا آداب کے منافی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے
مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلمنے فرمایا:
﴿تجشأ رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال كف عنا جشاءك فإن أكثرهم
شبعا في الدنيا أطولهم جوعا يوم القيامة﴾۔
ایک شخص نے نبی اکرم کے سامنے ڈکار لیا تو آپ نے فرمایا: ہم سے اپنا ڈکار
روک کے رکھ۔ کیونکہ دنیا کے اندر زیادہ آسودہ رہنے والے (زیادہ پیٹ بھرنے
والے) بروزقیامت زیادہ لمبی بھوک میں مبتلا ہوں گے۔
بیٹھ کر کھانا پینا
کھڑے ہو کر پینے سے نبی صلی اللہ وسلم نے منع فرمایا: ہے۔ جیسا کہ حضرت انس
رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلمنے فرمایا:
﴿أن النبي صلى الله عليه وسلم زجر عن الشرب قائما﴾۔
نبی صلی اللہ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر پینے پر زجر وتوبيخكى۔
مل کر کھانا
کھانا الگ نہ کھائیں بلکہ مجتمع ہوکر کھائیں کیونکہ جماعت میں برکت ہوتی
ہے۔حضور ہمیشہ جماعت کے ساتھ کھانا کھاتے تھے ۔رسول اللہ نےفرمایا:
﴿طعام الاثنين كافي الثلاثة، وطعام الثلاثة كافي الأربعة﴾۔
دو کا کھانا تین کو کافی ہے اور تین کا کھانا چار کو کافی ہے۔
کھانے میں اعتدال سے کام لینا
میانہ روی سے کھانا کھانا اور مکمل طور پر پیٹ نہ بھرنا بھی کھانے کے آداب
میں شامل ہے کیونکہ زیادہ کھانے سے بہت سی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور سستی
اور کاہلی آتی ہے۔ اسلئے ایک مسلمان کو اپنے پیٹ کے تین حصے کرنے چاہئیں،
ایک تہائی کھانے کیلئے، ایک تہائی پانی کیلئے اور ایک تہائی سانس لینے
کیلئے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے
﴿ما ملأ آدمي وعاء شرا من بطن بحسب ابن آدم أكلات يقمن صلبه، فإن كان لا
محالة فثلث لطعامه وثلث لشرابه وثلث لنفسه﴾۔
کسی انسان نے اپنے پیٹ سے بُرا برتن کبھی نہیں بھرا ابن آدم کے لیے چند
نوالے کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھیں اور اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو
تہائی پیٹ کھانے کے لیے، تہائی پینے کے لیے اور تہائی سانس کے لیے مختص کر
دے۔
موسوعہ فقہیہ کویت میں اسکی وجہ یہ بیان کی گی ہےکہ
﴿ولاعتدال الجسد وخفته؛ لأنه يترتب على الشبع ثقل البدن، وهو يورث الكسل عن
العبادة والعمل، ويعرف الثلث بالاقتصار على ثلث ما كان يشبع به﴾ ۔
جسم کو ہلکا پھلکا اور معتدل رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے، کیونکہ زیادہ کھانے
سے بدن بھاری ہوجاتا ہے، جس سے عبادت اور کام کرنے میں سستی آتی ہے، اور”
تہائی “ سے کھانے کی وہ مقدار مراد ہے جس سے انسان مکمل پیٹ بھر لے اسکا
تیسرا حصہ ۔
ایسے ہی کم کھانا بھی جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔بدن کو کمزور کر دیتا
ہے کم خوری اور بسیار خوری دونوں سے بچ کر راہ اعتدال اختیار کرنی
چاہیے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ
الْمُسْرِفِينَ﴾
کھاو پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔
کھانے میں اگر مکھی گر جائے تو اسے ڈبو کر باہر نکالنا اور کھانا کھا لینا۔
اگر کسی کھانے یا پینے والی چیز مثلا شوربہ، پانی یاشربت یا دودھ یا چائے
وغیرہ میں مکھی گر جائے تو ایسی صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ مکھی کو اس
میں ڈبو كر باہر نكال دیا جائے جیسا کہ حدیث میں ہے۔
رسول اللہ صلى الله علیہ وسلمنے فرمایا:
﴿إذا وقع الذباب في شراب أحدكم فليغمسه ثم لينزعه، فإن في إحدى جناحيه داء
والأخرى شفاء﴾
جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی گر جائے تو سے پورے طور پر ڈبو دے پھر
اسے نکال کر پھینک دے کیونکہ اس کے ایک پر میں شفا ہے اور دوسرے پر میں
بیماری ہے۔
تیسرا مبحث :کھانا کھانے کے بعد کے آداب
دھونے سے پہلے انگلیوں کو چاٹنا
حضرت كعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
﴿أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأكل بثلاث أصابع، فإذا فرغ لعقها﴾۔
رسول اللہ صلى الله علیہ وسلمتین انگلیوں کے ساتھ کھانا کھاتے ،جب کھانے
سےفارغ ہو جاتے توانکو چاٹ لیتے۔
کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونا
کھانے کے بعد ہاتھ دھونا کھانے کے آداب میں سے اہم ادب ہے۔چنانچہ حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
﴿إذا نام أحدكم وفي يده غمر، فلم يغسل يده فأصابه شيء، فلا يلومن إلا
نفسه﴾۔
جب تم میں سے کوئی اس حال میں سوئے کہ اس کے ہاتھ میں) کھانا کھانے کے بعد
اچھی طرح(ہاتھ نہ دھونے کی وجہ سے گوشت یا چکنائی کی خوشبو باقی ہو اور اسے
کوئی مصیبت پہنچ جائے تو وہ خود ہی اپنی ملامت کرے۔
کھانے کے بعد کلی کرنا اور منہ دھونا
کھانا کھانے کے بعد منہ دھونے سے دانت صاف ہوجاتے ہیں اور مختلف بیماریوں
سے محفوظ رہتے ہیں۔ اسلیےکھانے سے فارغ ہونے کے بعد کلی کرنا مستحب ہے اس
بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ السلام سے درج ذیل فرامین موجود ہیں۔
سوید بن نعمان بیان کرتے ہیں۔
﴿أنه خرج مع النبي صلى الله عليه وسلم عام خيبر، حتى إذا كانوا بالصهباء
وهي من خيبر، وهي أدنى خيبر، فصلوا العصر فدعا النبي صلى الله عليه وسلم
بالأطعمة، فلم يؤت النبي صلى الله عليه وسلم إلا بسويق، فلكنا، فأكلنا
وشربنا، ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم، فمضمض، ومضمضنا وصلينا﴾۔
وہ صہباء نامی جگہ پر نبی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ تھے -جو خیبر سے کچھ
فاصلے پر ہے- تو نماز کا وقت ہوگیا، آپ نے کھانے کیلئے کچھ طلب کیا، لیکن
سوائے ستو کے کچھ نہ ملا، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے وہی کھا لیا، ہم نے
بھی ستو کھایا، پھر آپ نے پانی منگوایا اور کلی کی، اور پھر دوبارہ وضو کئے
بغیر نماز پڑھی اور ہم نے بھی نماز ادا كى۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
﴿أن رسول الله صلى الله عليه وسلم شرب لبنا فمضمض، وقال:إن له دسما﴾۔
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمايا اسکے بعد كلى كى اور
فرمايا اس میں چكنائى ہوتى ہے۔
یہ حدیث دودھ پینےکے بعد کلی کرنے کے استحباب پر دلالت کرتی ہے۔اس حدیث پر
قیاس کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر چکنائی والی چیز کھانے پینےکے بعد
کلی کرنا مستحب ہے۔
بلکہ ایسی چیزیں جنھیں کھانے سے کوئی چیز دانتوں میں پھنس جائے یا منہ کے
ساتھ چپک جائے تو ان کے کھانے کے بعد بھی کلی کرنا ثابت ہے۔
بعض اطباء کا کہنا ہے کہ دودھ کے بقایاجات دانتوں اور مسوڑھوں کو نقصان
پہنچاتے ہیں۔لہذا اس سنت پر عمل کرنے سے ہماری صحت بھی اچھی رہے گی اور سنت
پر عمل کرنے کا ثواب بھی ملے گا۔
کھانے سےفراغت کے بعد مسنون دعائیں پڑھنا
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اللہ کی تعریف کرنے کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ حضرت
انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿إن الله ليرضى عن العبد أن يأكل الأكلة فيحمده عليها أو يشرب الشربة
فيحمده عليها﴾۔
بے شک اللہ تعالی اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے جب وہ ایک لقمہ کھائے تو اللہ
کی تعریف کرے، یا پانی کا گھونٹ بھی پئے تو اللہ کی تعریف کرے۔
نبی صلى الله عليه وسلم جب کھانے سے فارغ ہوتے اور دستر خوان اٹھا لیا جاتا
تو فرماتے:
﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ غَيْرَ
مَكْفِيٍّ وَلا مُوَدَّعٍ وَلا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا﴾۔
بہت زیادہ ، پاکیزہ اور برکتوں والی تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، لیکن یہ
حمدوثناء اللہ کے لیے کافی نہیں ، نہ اللہ کو چھوڑا جاسکتا ہے اور نہ اس سے
کوئی بے نیاز ہوسکتا ہے۔ اے ہمارے رب۔
نبی صلى الله عليه وسلم جب دودھ کے علاوہ کچھ لیتے تو فرماتے
﴿اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ، وَأَطْعِمْنَا خَيْرًا مِنْهُ ﴾۔
یا اللہ !ہمارے لئے اس میں برکت ڈال دے، اور ہمیں اسے بھی بہتر کھانا کھلا۔
اور جب آپ دودھ نوش فرماتے تو فرماتے
﴿اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيه، وَزِدْنَا مِنْهُ﴾۔
یا اللہ! ہمارے لئے اس میں مزید برکت ڈال دے، اور ہمیں اس سے بھی زیادہ
عنائت فرما۔
کھانا کھانے کے بعد برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو کھانا کھانے کے بعد برتنوں کو ڈھانپ
کر رکھنے کی تلقین فرماتے تھے۔برتن ڈھانپ کر رکھنے سے کھانا محفوظ رہتا ہے
اور اس میں جراثیم داخل نہیں ہوتے۔ لہذا ہم اس سنت پر عمل کرکے بہت سی
بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
﴿غطوا الإناء، وأوكوا السقاء، وأطفئوا السراج، وأغلقوا الباب، فإن الشيطان
لا يحل سقاء ولا يفتح بابا ولا يكشف إناء، فإن لم يجد أحدكم إلا أن يعرض
على إنائه عودا ويذكر اسم الله، فليفعل، فإن الفويسقة تضرم على أهل البيت
بيتهم﴾۔
برتن کو ڈھانک کر رکھو، مشک کا منہ بند کر کے رکھو، چراغ بجھا دو، اور
دروازہ بند کر لو، اس لیے کہ شیطان نہ ایسی مشک کو کھولتا ہے، اور نہ ایسے
دروازے کو اور نہ ہی ایسے برتن کو جو بند کر دیا گیا ہو، اب اگر تم میں سے
کسی کو ڈھانکنے کے لیے لکڑی کے علاوہ کوئی چیز نہ ہو تو اسی کو»بسم
الله«کہہ کر برتن پر آڑا رکھ دے، اس لیے کہ چوہیا لوگوں کے گھر جلا دیتی
ہے۔
﴿تمت بالخير﴾
فہرست مصادر ومراجع
القرآن الكريم
مسند الإمام أحمد بن حنبل، أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني
(المتوفى 241هـ)، بتحقيق شعيب الأرنؤوط، الناشر مؤسسة الرسالة، الطبعة
الأولى، 1421 هـ - 2001 م.
المعجم الأوسط، سليمان بن أحمد الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى
360هـ)، المحقق طارق بن عوض الله بن محمد، عبد المحسن بن إبراهيم الحسينين،
دار الحرمين – القاهرة.
سنن ابن ماجه، ابن ماجة، أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني (المتوفى
273هـ)، المحقق شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد - محمَّد كامل قره بللي - عَبد
اللّطيف حرز الله، الناشر دار الرسالة العالمية، الطبعة الأولى، 1430 هـ -
2009 م.
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، لعلي بن (سلطان) الملا الهروي القاري
(المتوفى: 1014هـ)، دار الفكر، بيروت – لبنان، الطبعة: الأولى، 1422هـ -
2002م.
سنن الترمذي، محمد بن عيسى، الترمذي، أبو عيسى (المتوفى: 279هـ)، بتحقيق:
بشار عواد معروف، دار الغرب الإسلامي – بيروت1998 م.
سنن أبي داود، لأبي داود سليمان بن الأشعث الأزدي السِّجِسْتاني (المتوفى:
275هـ)، بتحقيق: شعَيب الأرنؤوط، دار الرسالة العالمية، الطبعة: الأولى،
1430هـ - 2009م.
المعجم الكبير، لسليمان بن أحمد ، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360هـ)،
بتحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي، مكتبة ابن تيمية – القاهرة، الطبعة:
الثانية.
صحيح البخاري محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، بتحقيق: محمد
زهير بن ناصر الناصر، الطبعة: الأولى، 1422هـ.
صحيح مسلم، مسلم بن الحجاج القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ)، بتحقيق:
محمد فؤاد عبد الباقي، دار إحياء التراث العربي – بيروت.
فتح الباري شرح صحيح البخاري، لأحمد بن علي بن حجر، العسقلاني الشافعي، دار
المعرفة - بيروت، 1379، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي.
الموسوعة الفقهية الكويتية الكويتية، وزارة الأوقاف والشئون ال
|